مضامین

سیاسی موقع پرستی یا دانشمندانہ اقدام

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

پانچ دہائیوں تک ملک کی سب سے قدیم پارٹی میں کئی اہم عہدوں پر فائز رہنے کے بعد غلام نبی آزاد نے گزشتہ دنوں پارٹی قیادت پر سنگین الزمات لگاتے ہوئے کانگریس کو خیرباد کر دیا۔ ان کا کانگریس کو چھوڑ دینا پارٹی کا داخلی معاملہ ہے۔ لیکن ان کے اس اقدام پر سیاسی اور صحافتی حلقوں میں کافی چرچا چل رہا ہے۔ اس کی اہم وجہ یہی ہے کہ نصف صدی سے غلام بنی آزاد کانگریس سے جو رشتہ نبھاتے آ رہے تھے، ان سے یہ توقع نہیں کی جا رہی تھی کہ وہ اس قدر ناراض ہوجائیں گے کہ پارٹی سے ہی ہمیشہ کے لیے رشتہ توڑ لیں گے۔ لیکن ملک کی سیاست جس ڈگر پر جا رہی ہے، ایسے میں کسی سے ہمیشہ کے لیے وفاداری کی امید رکھنا ایک بھول ہو گی۔کانگریس کے سینئر قائدین کی جانب سے گروپ۔ 23 کے قیام کے بعد سے ہی پارٹی قیادت اور اس ناراض گروپ کے درمیان تلخیاں بڑھتی ہی گئیں، لیکن اس دوران بھی غلام نبی آزاد نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ کانگریس کو چھوڑنے والے نہیں ہیں ۔ ان کا مقصد صرف پارٹی میں اصلاحات لانا ہے۔ کانگریس کے مستقل صدر کے لیے اس گروپ کی جانب سے مطالبہ کیا جا تا رہا ۔ ان سینئر قائدین نے جن میں غلام نبی آزاد کے علاوہ کپل سبل جیسے اور قدآور قائدین تھے، ان کو شکایت تھی کہ راہول گاندھی کے اطراف چاپلوسی ٹولہ جمع ہو گیا ہے اور سینئر پارٹی قائدین کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ گروپ۔ 23کی شکایتوں کو پارٹی کی عبوری صدر سونیا گاندھی نے دور کرنے کی بھی کوشش کی ، لیکن ناراضگیوں کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ مختلف حیلے اور بہانے تراش کر پارٹی قائدین نے پارٹی سے علاحدگی اختیار کرلی۔ کپل سبل اور اشونی کمار کے بعد غلام نبی آزاد تیسرے اہم لیڈر ہیں جنہوں نے حالیہ عرصہ میںکانگریس سے اپنا قدیم رشتہ توڑ لیا۔ غلام نبی آزاد کانگریس کے ایک ایسے لیڈر رہے ہیں جنہوں نے اندراگاندھی سے لے کر منموہن سنگھ کی حکومت تک اقتدار کے مزے لوٹے ہیں۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہوگا کہ وہ آج کانگریس میں جس خوشامد پرستی اور چاپلوسی کی بات کر رہے ہیں یہ آج کی پیداوار نہیں ہے۔ یہ کانگریس کی وراثت رہی ہے۔ ہر دور میں کانگریس پر ایک ٹولہ کا قبضہ رہا ہے۔ غلام نبی آزاد بھی اسی چاپلوسی کلچر کے نتیجہ میں کانگریس میں اہم مقام پا سکے۔ 70 کے دہے میں جب اندراگاندھی نے ملک میں جمہوریت کے نام پر ڈکٹیٹرشپ قائم کردی تھی۔ جون 1975میں قومی ایمرجنسی کا اعلان کرکے سارے سیاسی قائدین کو جیلوں میں بند کردیا تھا اور شہریوں کے حقوق پر پابندی عائد کردی تھی ۔ صحافت کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا۔ ایسے وقت ہندوستانی سیاست کے افق پر ایک سیاسی شہزادہ ابھرتا ہے جس کانام سنجے گاندھی تھا۔ اندراگاندھی کے بیٹے سنجے گاندھی نے ایمرجنسی کے دوران جو مظالم ڈھائے اس کی ایک مثال دہلی کے ترکمان گیٹ کا دلسوز واقعہ ہے ، جہاں گھروں پر بلڈوزر چلادئے گئے۔ یہی کام اب یوپی میں یوگی حکومت کر رہی ہے۔ اس وقت سنجے گاندھی کی "چنڈال چوکڑی "کے ایک اہم فرد غلام نبی آزاد تھے۔ سنجے گاندھی کی حادثاتی موت کے بعد غلام نبی آزاد کا سیاسی ستارہ چمکتا ہی رہا۔ اندرا گاندھی کی حکومت میں وہ مرکزی وزیر بنائے گئے جب کہ اس وقت ان کی عمر صرف 33سال تھی۔ غلام نبی آزاد کی آبائی ریاست جموں و کشمیر ہے، لیکن وہ اپنی ریاست میں کبھی الیکشن نہیں جیت سکے۔ 1977میں غلام نبی آزاد نے جموں و کشمیر اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا تھا لیکن وہ اپنی ضمانت بھی نہیں بچاسکے۔ پانچ دہائیوں کے بعد بھی جموں و کشمیر کے عوام کو وہ اپنے اعتماد میں نہیں لے سکے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کانگریس پارٹی نے غلام نبی آزاد کی ملک کی سیاست میں پہچان بنائی۔ جب کہ وہ اپنی آبائی ریاست میں عوامی اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ کانگریس نے مہاراشٹر سے انہیں دو مرتبہ لوک سبھا کا رکن بنایا۔ وہ پا نچ معیادوں تک راجیہ سبھا کے رکن رہے۔ کچھ عرصہ کے لیے وہ ریاست جموں و کشمیر کے چیف منسٹر بھی رہے۔ جب مرکز میں کانگریس کا اقتدار کا ختم ہوگیا اس کے باوجود غلام نبی آزاد کو کانگریس نے عہدہ پر رکھا۔ وہ راجیہ سبھا میں قائد اپوزیشن کے عہدہ پر فائز کئے گئے۔کانگریس کی اعلیٰ اختیاری کمیٹی کانگریس ورگنگ کمیٹی کے وہ ایک اہم رکن برسوں تک رہے۔ اپنے کئی دہوں پر مشتمل سیاسی کیریئر رکھنے والے غلام نبی آزاد ایک ایسی پارٹی سے مستعفی ہوجاتے ہیں جس نے ہر مرحلہ پر انہیں عہدوں سے نوازا ہے تو پھر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غلام نبی آزاد کے لیے عہدہ ہی سب کچھ ہے۔ وہ بغیر کسی سرکاری منصب کے سیاست میں رہ نہیں سکتے۔ ایک ایسے وقت جب کہ کانگریس بحرانی دور سے گزر رہی ہے۔ بی جے پی ملک کو کانگریس سے "مکت "کرنا چاہتی ہے۔ کانگریس کے لئے زمین تنگ کی جا رہی ہے۔ ایسے وقت پارٹی کو چھوڑدینا یہ سیاسی موقع پر ستی ہی کہلائے گی۔ غلام نبی آزاد کو پارٹی قیادت سے شکایات ہو سکتی ہیں۔ اس کے لیے وہ پارٹی فورم میں آواز اٹھا سکتے ہیں۔ پارٹی کے غلط فیصلوں کے خلاف رائے دے سکتے ہیں اور پھر دیرینہ تجربات کو روبہ عمل لاتے ہوئے پارٹی کو گوشہ گمنامی سے نکال سکتے ہیں۔ یہ سب کام کرنے کے بجائے نازک وقت میں پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلینا ملک میں جمہوری قوتوں کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ جب کانگریس میں بہار کا دور تھا ، اس وقت تو بڑے بڑے عہدے حاصل کرلیے گئے اور اقتدار کے پورے فائدے اٹھائے گئے اور اب جب پارٹی کو ایمانداری سے چلانے کی نوبت آئی تو فرار کا راستہ اختیار کیا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ پارٹی جس نے ہندوستان کی جدوجہد میں کلیدی رول ادا کیا وہ آج اپنی سیاسی بقاءکی جنگ لڑ رہی ہے۔ ایک دور وہ تھا جب پورے ملک میں کانگریس کے سوا اور کوئی مضبوط پارٹی نہیں تھی، لیکن کانگریس قیادت کے غلط فیصلوں نے پارٹی کی یہ درگت بنادی کہ وہ دن بہ دن سکڑتی جارہی ہے۔ راجیو گاندھی کے ناگہانی قتل کے بعد جب حالات کی مجبوری نے پی ۔ وی۔ نرسمہاراو¿ کے ہاتھوں میں کانگریس کی زمام کار تھمادی ۔ اسی وقت سے کانگریس کا زوال شروع ہو گیا۔ وزیراعظم بننے کے بعد نرسمہاراو¿ نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد کانگریس کی سیاسی بساط اُلٹ گئی۔ بعد کے دور میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ سونیا گاندھی نے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کانگریس کی قیادت جب سنبھالی تو پھر ایک بار کانگریس کو سدھرنے کا موقع ملا اور 2004میں دوبارہ اقتدار بھی اس کے ہاتھوں میں آیا۔ دس سال تک کانگریس نے یوپی اے کی زیرقیادت حکمرانی کی۔ لیکن 2014کے الیکشن میں کانگریس کو بری طرح سے ہزیمت اٹھانی پڑی اور پھر 2019کا الیکشن بھی اس کےلئے کامیابی کا زینہ نہ بن سکا۔ اب 2024کا مرحلہ درپیش ہے۔ ایسے وقت کانگریس ٹوٹتی اور بکھرتی جا رہی ہے۔ یہ وقت کانگریس کے لیے محاسبہ کا ہے۔ گروپ۔ 23کے قائدین کے مشوروں کو کم ازکم سُن لیا جاتا تو آج کپل سبل اور غلام نبی آزاد کانگریس کے جھنڈے تَلے ہوتے۔ ان کو یہ کہنے کا موقع نہ ملتا کہ کانگریس میں چاپلوسوں کی سُنی جا تی ہے۔ کانگریس اس وقت قیادت کے فقدان سے دوچار ہے۔ راہول گاندھی اپنی تمام تر جدوجہد کے باوجود کانگریس کو اس کا کھویا ہوا مقام دلانے میں ناکام ہوتے جا رہے ہیں۔ ہر الیکشن میں کانگریس کو شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے نازک وقت غلام نبی آزاد کا کانگریس چھوڑ دینا کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہے۔
یہ صورتِ حال نہ صرف کانگریس کے لئے بلکہ ملک کے سیکولرازم اور جمہوریت کے لئے تشویش کا باعث ہے کہ سیکولر پارٹیوں کا وجود خطرے میں پڑنے سے ملک میں کہیں ہندوتوا قوتیں اقتدار کے سرچشموں پر قبضہ نہ کرلیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بات کپل سبل اور غلام نبی آزاد کے لئے بھی شرمندگی کا باعث ہوگی۔ ملک کی موجودہ صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ سارے سیکولر عناصر ایک ایسی قوت بنیں جو ملک میں جمہوری قدروں کا تحفظ کرسکے۔ پارٹی سے ناراضگی کی بنیاد پر نظریات کو بدلا نہیں جا سکتا۔ غلام نبی آزاد کی پہچان ایک سیکولر لیڈر کی ہے۔ ان کی زبان سے ان لوگوں کے لئے تعریف کے لئے الفاظ نکلتے ہیں جنہوں نے گجرات میں دوہزار مسلمانوں کا قتل کیا ہے۔ جن کے دور میں آزادی اظہار رائے پر پہرے بٹھا دیے گئے ہیں۔ جن کی پالیسیوں پر تنقید ملک سے غداری کے زمرے میں آتی ہے، ایسے گروہوں سے اپنی دوستی نبھانا اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے۔ وزیراعظم نریندرمودی نے جب راجیہ سبھا میں غلام نبی آزاد کی وداعی تقریب میں آنسو بہاتے ہوئے ان کی تعریف کے پُل باندھے تھے تب ہی یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھنے والا ہے۔ اپنی جوابی تقریر میں بھی غلام نبی آزاد نے وزیراعظم کی جَم کر تعریف کی تھی۔ اور ابھی دو دن پہلے انہوں نے نریندرمودی کی قصیدہ خوانی کی۔کوئی کسی کی تعریف کرلے لیکن اس میں حقائق کی عکاسی ہو تو دل کو یہ باتیں لبھاتی بھی ہیں۔ وزیراعظم کو آخر غلام نبی آزاد کی وہ کون سی ادا پسند آئی کہ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ کیاکبھی غلام نبی آزاد نے کشمیریوں کے درد کو وزیراعظم کے سامنے رکھا۔ ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا کوئی تذکرہ کیا۔ غلام نبی آزاد کو نریندرمودی میں کون سی مسیحائی نظر آئی کہ وہ ان کے لئے اشک بہانے پر مجبور ہوگئے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غلام نبی آزاد کانگریس سے "آزاد "ہونے کا من بہت پہلے بنا چکے تھے۔ انہیں امید تھی کہ کانگریس ان کی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے اب دوبارہ راجیہ سبھا کا رکن نہیں بنائے گی اس لئے انہوں نے بی جے پی کے دامن میں پناہ لینے کی تیاری کی۔ راست بی جے پی میں جاتے تو کشمیر کی عوام کی جو تھوڑی بہت تائید انہیں حاصل ہے وہ بھی ختم ہوجاتی۔ اس لئے انہوں نے باربار یہ دہرایا کہ وہ وزیراعظم سے اتنی قربت کے باوجود بی جے پی میں شامل نہیں ہوں گے۔ کانگریس سے استعفیٰ کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ وہ کشمیر میں ایک نئی پارٹی بنائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ ان کی نئی پارٹی کس کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگی۔ جموں و کشمیر کے عوام کے لئے انہوں نے گزشتہ پچاس سال کے دوران کوئی فلاح و بہبود کا کام نہیں کیا۔ ان کی کشمیر میں آج بھی کوئی غیر معمولی ساکھ نہیں ہے۔ یہ بات خود تعجب خیز ہے کہ جس سیاست دان کو ملک کی سیاست میں پانچ دہوں تک اہم رول ادا کرنے کا موقعہ ملا وہ اپنی ریاست کی عوام کے دل جیتنے میں ناکام ہوگیا۔ یہی وجہ ہے وہ کبھی وہاں سے الیکشن نہیں جیت سکے۔ وہ راجیہ سبھا کے پچھلے دروازے سے اقتدار کا مزہ لیتے رہے۔ آج وہ کہہ رہے ہیں کہ نئی پارٹی قائم کرکے وہ جموں و کشمیر کے خصوصی موقف کو بحال کریں گے۔ 5 اگست 2019کی رات جب اچانک بی جے پی کی مرکزی حکومت نے کشمیر سے متعلق دفعہ 370کو منسوخ کردیا اور ریاست کو تقسیم کردیا تو کشمیری ہونے کے ناطے غلام نبی آزاد نے کس نوعیت کا احتجاج کیا۔ بعض کشمیری قائدین کہہ رہے ہیں کہ اس دفعہ کی منسوخی میں غلام نبی آزاد کا بھی مبینہ طور پر ہاتھ تھا۔ بہرحال غلام نبی آزاد کا کانگریس سے استعفیٰ ان کا شخصی معاملہ ہے۔ لیکن اس میں کشمیریوں اور ہندوستانی مسلمانوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے کہ ایسے قائدین کبھی بھی مسلمانوں کے بہی خواہ نہیں رہے ہیں۔ یہ کہیں بھی رہیں اس سے مسلمانوں کی سیاسی وقعت نہ بڑھتی ہے اور نہ گھٹتی ہے۔
٭٭٭