سیاستمضامین

ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی

بی جے پی لچے ‘لفنگے ‘غنڈے ‘موالی ‘بلت کاریوں کی پارٹی ہے اب اس میں آتنک وادی بھی شامل ہورہے ہیں یہ ہم نہیں کہے رہے ہیں بلکہ یہ بات دلی کے چیف منسٹر نے کچھ عرصہ پہلے بی جے پی کے بارے میں کہی تھی لیکن ایک سچائی سامنے آئی ہے جو ہندوستان ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کو حیرت میں ڈال رہی ہے کہ آسام کی Bodo Terror Outfit کے 110 سابق ارکان آسام یونٹ کی بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔ اگر حکمران جماعت اس طرح کے مبینہ انتہا پسندوں کو اپنی پارٹی میں لیتی ہے تو اس کے بڑے ہی بھیانک نتیجے سامنے آسکتے ہیں۔ پچھلے دنوں مبینہ ڈان عتیق احمد اس کے بھائی اشرف اور اس کے بیٹے اسد کی موت کا پُر اسرار انداز میں انجام پانا ایک ایسا معمہ ہے جس کے راز کھلیں گے تو دنیا کو زبردست حیرت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عتیق احمد اور اس کے بھائی اشرف کے قتل کو ساری دنیا نے نوٹ کیا ہے۔ کئی ممالک نے اس واقعہ پر اپنی رائے دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ہندوستان کا امن و ضبط کا نقشہ بُری طرح بگڑ رہا ہے۔
ہندوستان کی عوام بلا تفریق مذہب و ملت یہ سوال کررہی ہے کہ 17 سیکوریٹی گارڈس کے موجود ہونے کے باوجود تین غنڈے کیسے عتیق اور اس کے بھائی اشرف کو موت کی نیند سلا سکتے ہیں۔ یہ سوال بھی کیا جارہا ہے کہ ہماری سیکوریٹی کی اب کیا حیثیت رہ گئی ہے۔ اسے کوئی بھی لچا ‘لفنگا توڑ سکتا ہے۔ لوگ اس بات پر حیرت کا اظہار کررہے ہیں کہ تین موالی انتہائی جدید اسلحہ کی مدد سے ان دونوں کو کیسے اپنی گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ تعجب کی بات تو یہ تھی کہ سیکوریٹی گارڈس کی طرف سے ایک بھی گولی نہیں چلائی گئی۔ اس سے ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی گہری سازش ضرور ہوسکتی ہے۔ نہ صرف اس سازش کا پردہ چاک کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ملک کے تمام VVIPs کوFoolproof سیکوریٹی فراہم کرنا ناگزیر ہے۔ اگر اس میں ذرا بھی چوک ہوجاتی ہے تو ملک کی بہت بڑی بدنامی ہوگی۔ موت ہر ایک کا نصیب ہے ، ہر کسی کو مرنا ہے لیکن سیکوریٹی کی موجودگی کے باوجود کسی کو قتل کیا جاتا ہے تو یہ بڑے غور و فکر کی بات ہوگی۔ گودی میڈیا یا پالتو میڈیا نے سارے واقعہ کو ایسا پیش کیا ہے جیسے ایک بہت بڑی کامیابی ہاتھ لگی ہے۔ یہ کامیابی نہیں ہے بلکہ امن و ضبط کی صورتحال پر ایک زبردست طمانچہ ہے۔ بین الاقوامی میڈیا نے بھی اس واقعہ کو شک کے گھیرے میں رکھا ہے۔
Foreign میں اپجنے والی بدنامی سے بچنے کے لئے حکومت ہند کو ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے ورنہ دنیا کے بڑے بڑے ملک‘ ہندوستان میں سرمایہ کاری سے گریز کریں گے۔ کیونکہ انہیں یہ احساس ہونے لگا ہے کہ ہندوستان میں سرمایہ نہیں لگایا جاسکتا کیونکہ یہاں کے حالات ساز گار نہیں ہیں۔ اور یہ ملک محفوط نہیں ہے۔
اترپردیش کے حالات بے انتہا خراب ہوگئے ہیں ، لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ وہاں کے چیف منسٹر امن و ضبط کی برقراری کا کھوکھلا دعویٰ کرتے ہیں۔ عتیق احمد نے یہ کہہ دیا تھا کہ انہیں کبھی بھی قتل کردیا جائے گا تو وہاں کے ذمہ داروں کا کام تھا کہ وہ عتیق کے خوف کو سنجیدگی سے لیتے۔ بڑے ملزموں کو یا پھر مجرموں کو بے انتہا احتیاط کے ساتھ لایا اور لے جایا جاتا ہے ۔ آخر کیوں عتیق کے معاملے میں ایسا نہیں کیا گیا۔ یہ کہہ کر کہ بُرائی کا انجام برا ہوتا ہے یوگی یا ان کے چاہنے والے اپنا پلڑا جھاڑ نہیں سکتے۔ انہیں قوم کو بتانا ہوگا کہ آخر ایسا کیوں ہوا۔ عتیق نے اپنے مارے جانے سے متعلق ایک سیلڈ کوور اپنے وکیل کو دے رکھا ہے جو چیف منسٹر اور چیف جسٹس کو پیش کیا جائے گا۔ وہ سیلڈ کوور جب کھلے گا تو راز کے کئی پردے اٹھیں گے اور دنیا کو پتہ چلے گا کہ وہ کونسے عوامل تھے جن کے سبب اس طرح کی بربریت کا واقعہ دنیا کے سامنے آیا۔
داخلی ہی نہیں بلکہ خارجی سطح پر ہندوستان جیسے عظیم امن پسند ملک کا وقار گھٹنا کوئی اچھی بات نہیں ہے ایسے موقعوں پر بھی وزیراعظم کی خاموشی بہت ہی تکلیف دیتی ہے۔ بھارتی جنتا پارٹی کا سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواش کا نعرہ ایک دم بھونڈا مذاق لگتا ہے۔ کہیں بھی اور کوئی بھی غنڈوں کی گولیوں کا نشانہ بن رہا ہے لیکن مرکزی وزیر داخلہ کے تحت کسی اجلاس کا منعقد نہ ہونا بھی ایک تکلیف دہ امر ہے۔ عتیق اور اشرف کے قاتل وہ تین نوجوان جو یو پی کے مختلف ضلعوں سے تعلق رکھتے ہیں یکجا کیسے ہوئے؟ ان کے پیچھے وہ کونسی طاقت ہے جس نے انہیں اکھٹا کیا اور مبینہ طورپر ہتھیار مہیا کئے۔
اُدھر جب بوڈو کے انتہا پسند پارٹی میں شامل ہوئے تو امن پسند لوگوں نے اس پر بھی حیرانی کا اظہار کیا کیونکہ ھارتیہ جنتا پارٹی نے ماضی میں خود کہا تھا کہ وہ بوڈو جیسی تنظیم سے کوئی بات چیت نہیں کریں گے۔ پھر ان ہی لوگوں کو اپنی پارٹی میں لے لینا کیا ہمارے ملک کے لئے خطرے کی بات نہیں ہے؟ بھارتیہ جنتا پارٹی کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اقتدار ایک پارٹی کے پاس آتا ہے تو دوسری کے پاس سے چلا جاتا ہے لیکن ملک قیامت تک قائم رہتا ہے۔ ووٹ کی خاطر کسی بھی حد تک گر جانا یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ بی جے پی کو بھی جان لینا چاہئے کہ ملک کا مطلب مٹی نہیں ہے بلکہ اس میں رہنے والے ہیں۔ ساری دنیا میں جہاں جہاں نسل پرستی یا فرقہ پرستی عروج پاتی ہے وہ ملک تباہی کے اندھیروں میں کھوجاتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی لارڈ رام کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کے بجائے ان کے دشمن راون کے راستے کو اپنارہی ہے جو کسی بھی حالت میں اپنے ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔
بہرحال ہندوستان کی عوام غم کو ضبط کررہے ہیں یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ قیامت بھی آجاتی ہے تو وہ اسے بھی جھیل لیتے ہیں۔ پھر یک نئی صبح کے ساتھ نئے جیون کی تیاری کرتے ہیں۔ ظالم کو بھی ایک نہ ایک دن اپنی کرتوتوں پر رونا پڑے گا۔ اسی پس منظر میں فراز یہ کہنے پر مجبو ر ہوجاتے ہیں کہ
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w