سیاستمضامین

عائشہ ہو یا ساحل ہر ایک کا جوابدہ ہونا ضروری ہے

محمد مصطفی علی سروری

یونین پبلک سرویس کمیشن (یو پی ایس سی) نے 23؍ مئی 2023ء کو سال 2022 کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے والوں کی فہرست جاری کردی۔ اس فہرست کے مطابق جملہ 933 امیدواروں نے کامیابی حاصل کی جن میں سے 29 امیدوار مسلمان ہیں۔
مسلمانوں کی اس کامیابی پر ملک بھر میں مسلم اداروں، انجمنوں اور تنظیموں نے خوب مسرت کا اظہار کیا۔ تفصیلات کے مطابق 29 مسلمانوں میں سے چھٹی پوزیشن عائشہ فاطمہ نے حاصل کی جنہیں آل انڈیا (184) واں رینک حاصل ہوا۔
ادھر نتیجہ جاری ہوئے تھوڑی دیر بھی نہیں ہوئی ادھر ریاست مدھیہ پردیش سے ایک پریشان کن خبر آگئی۔ خبر میں بتلایا گیا کہ یونین پبلک سرویس کمیشن نے عائشہ فاطمہ کو کل ہند سطح پر 184 واں رینک حاصل ہونے کی اطلاع دی تھی لیکن مدھیہ پردیش سے عائشہ نام کی دو لڑکیوں نے دعویٰ کیا کہ وہی اصل کامیاب امیدوار ہیں۔ اس خبر کو لے کر لوگ طرح طرح کے سوالات اٹھانے لگے تھے۔ بالآخر یو پی ایس سی کو اس طرح کے دعوئوں کا جائزہ لے کر وضاحت کرنی پڑی کہ حقیقتاً کونسی عائشہ نے کامیابی درج کی ہے۔ تفصیلات کے مطابق مدھیہ پردیش کے دیواس ضلع کی عائشہ فاطمہ اور مدھیہ پردیش کے ضلع علی راج پور کی عائشہ مکرانی نے مشترکہ طور پر ایک ہی رینک حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے دوسری کو جھوٹا قرار دیا۔
دونوں عائشہ نے کہا کہ ان کا رول نمبر 7811744 ہے اور انہیں 184 واں رینک آیا ہے۔ یونین پبلک سرویس کمیشن اس معاملے کی باضابطہ جانچ کرنے کے بعد واضح کردیا کہ سلیم الدین صاحب کی دختر عائشہ مکرانی نے یو پی ایس سی کے امتحان شرکت کی تھی لیکن اس کا نمبر 7805064 تھا۔ اس طالبہ نے 5؍ جون 2022 کو پریلمنری امتحان میں شرکت کی جس کے پہلے پیپر جنرل اسٹڈیز میں (22.22)مارکس حاصل کیے اور جنرل اسٹڈیز کے دوسرے پرچے میں (21.09)مارکس ہی حاصل کرسکی۔
اصولاً ایک طالب علم کوپریلمینری امتحان میں کم سے کم 66 مارکس حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اتنا ہی نہیں عائشہ مکرانے پریلمنری امتحان کے پہلے پرچے میں(88.22)سے کم مارکس حاصل کیے جو کہ کم سے کم درکار مارکس تھے۔
یو پی ایس سی کی وضاحت کے مطابق عائشہ مکرانی تو اصلاً پریلمنری میں ہی فیل ہوگئی تھیں لیکن بعد میں اس نے جھوٹا دعویٰ کردیا۔ لیکن اصل عائشہ فاطمہ کے والد کا نام نذیر الدین ہے اور اس کا حقیقی رول نمبر (7811744) ہے۔ اور یہی عائشہ فاطمہ اصل کامیاب امیدوار ہے جبکہ عائشہ مکرانی نے جھوٹ کے سہارے کامیابی کا جھوٹا دعویٰ کردیا تھا۔
قارئین ذرا اندازہ لگائیں کہ مسلمانوں کو آخر کیا ہوگیا ہے کہ ملک کے اعلیٰ ترین مسابقتی امتحان کے جعلی کاغذات تیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو ایک آئی اے ایس افسر بننے کی اہل قرار دے دیا اور جھوٹ کا یہ پردہ زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکا او رجلدفاش ہوگیا۔ ہوسکتا ہے کہ اب عائشہ مکرانی کے خلاف جعل سازی کا ایک مقدمہ بھی چلایا جائے۔
یہاں سازش کون کر رہا ہے۔ کس کے خلاف کر رہا ہے اور ساتھ ہی جعل سازی کے ذریعہ اپنے آپ کو ایک آئی اے ایس کے منتخب افسر قرار دینے کے لیے ایک مسلمان خاتون ہی دوسری مسلمان خاتون کے خلاف سازش رچ رہی ہے۔ کیا یہ تشویشناک بات نہیں اور ایسا بھی نہیں کہ یہ کوئی بند کمرے کی بات ہو۔
ملک بھر کامیڈیا اس مسئلے کا کوریج کر رہا ہے۔ ایک اخبار نے عائشہ بمقابلہ عائشہ کی سرخی لگاکر زبردست مرچ مسالحہ کے ساتھ خبر لکھی۔ یہ وہ مسائل ہیں جو چند ایک مسلمانوں کی نادانیوں اور شرارتوں کے سبب پیدا ہو رہے ہیں لیکن اس کے نتائج پوری مسلم قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
اسی ہفتے کے دوران دارالحکومت دہلی کے شمال مغربی علاقے شاہ آباد ڈائری سے ایک دل دہلادینے والی خبر نے سارے ملک کو ہلاکر رکھ دیا۔ اخبار نیو انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق 20 سال کے ساحل نامی ایک مسلم نوجوان نے 16سال کی ایک نابالغہ ہندو لڑکی ساکشی کو چاقو سے 20 مرتبہ بیدردی کے ساتھ وارکر کے پھر اس پر ایک پتھر ڈال کر قتل کردیا۔
قارئین پورے ملک کا مسلمان ہجومی تشدد سے لے کر بے شمار مسائل کو لے کر انتہائی پریشان ہے۔ ایسے میں ساحل نامی ایک مسلمان نوجوان کا ایک کم سن ہندو لڑکی کا قتل کردینے کا معاملہ ایسا ہی ہے کہ پورا میڈیا چیخ چیخ کر آسمان پر اٹھا رہا ہے کہ اس ملک میں ہندو لڑکیوں کو مسلمان لڑکوں سے خطرہ لاحق ہے۔ جو پہلے تو ہندو لڑکی سے دوستی کر کے تعلقات بنا لیتے ہیں۔ اس کے بعد بڑی بے دردی کے ساتھ ان کا قتل کردیتے ہیں۔
قارئین یقینا ساحل نے ایک ایسی حرکت کی ہے جس کو سخت سے سخت سزاء دی جانی چاہیے۔ لیکن جب ایک فرد کی غلطی اور گناہ کی قیمت پورے طبقے سے وصول کی جانے کا خطرہ ہو تو ایسے میں امت مسلمہ کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا احتساب کرے تاکہ آئندہ ایسا کوئی مجرم قوم کا نام بدنام نہ کرسکے۔ آیئے اب ساحل نام کے اس مسلم نوجوان کے متعلق جان لیتے ہیں۔
اخبار ہندوستان ٹائمز نے 30؍ مئی 2023ء کو انیرودھا دھار کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ساحل خان کا سوشیل میڈیا پر ایک اکائونٹ ہے۔ اس اکائونٹ پر خود ساحل خان اپنے بارے میں کیا تعارف لکھتا ہے وہ بھی پڑھنے سے ساحل خاں کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ساحل لکھتا ہے۔
"Love you dark life
Daru lover
Yaaron ki yari
sab per bhari
5 July
Love you mom”
29؍ مئی2023ء کو ساحل خاں نے اپنے انسٹاگرام اکائونٹ پر سدھو موسے والا پنجابی گلوکار کے گانے کے بول دہراتے ہوئے حقہ پینے والی اور موسیقی پر تھرکنے والی ویڈیو اپلوڈ کی ہے۔ ایک اور ویڈیو ساحل خان نے انسٹاگراف پر گذشتہ برس لگائی تھی جس میں شراب کی محفل سجی ہے اور وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔
قارئین یہ تو وہ تفصیلات ہیں جو ساحل خاں نے خود اپنے سوشیل میڈیا اکائونٹ پر شیئر کی ہیں۔ اب ذرا سونچئے کہ آج کا مسلمان نوجوان کدھر جارہا ہے۔
20 سال کا ساحل پیشہ سے اے سی ٹیکنیشین ہے اور گذشتہ سال سے ساکشی ڈکشٹ نام کی 16 سال کی لڑکی کے ساتھ تعلقات بنائے ہوئے ہیں۔
قارئین کیا ساحل خان پوری مسلم کمیونٹی میں واحد ایسا نوجوان ہے جو کھلے عام شراب نوشی کرتا ہے اور باضابطہ اقرار کرتا ہے کہ وہ شراب نوشی کو پسند کرتا ہے اور اپنی ماں سے بھی محبت کرتا ہے۔ موسے والا کے گانے پسند ہیں، حقہ اور سگریٹ نوشی کرتے ہوئے اس کی تصاویر اور ویڈیوز پر موجود ہیں۔
سوال نمبر ایک ساحل خان کی تربیت کس کی ذمہ داری تھی اور اس کی ان حرکات کے لیے کیا صرف وہی ذمہ دار ہے یا اس کے والدین اس کے رشتہ دار اور بحیثیت مسلم قوم ہم سب؟
ساحل خان کے گھر میں کون کون رہتا ہے۔ اس کے متعلق ٹائمز آف انڈیا اخبار نے 30؍ مئی کو لکھا کہ ساحل کے والد کا نام سرفراز خان ہے۔ ان کی ساحل کے علاوہ تین اور لڑکیاں ہیں اور وہ اپنی فیملی کے ساتھ اترپردیش سے دہلی میں قریب دو سال پہلے منتقل ہوئے تھے۔
ساحل کو اپنی ماں سے محبت ہے جس کا وہ اعلان بھی کرتا ہے۔ اب یہ ماں باپ کی ہی تو ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیتے۔ تعلیم کے حوالے سے اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ ساحل کو اے سی اور فریج کی مرمت کا کام سکھلا دیا گیا تھا۔ یعنی کمانا سکھادیا گیا ۔ مگر ساحل کو بحیثیت مسلمان کیسی زندگی گزارنی ہے وہ نہیں معلوم تھی۔ تبھی تو وہ شراب نوشی کے لیے اپنی پسندیدگی ظاہر کر رہا ہے۔ سگریٹ، حقہ پی کر سدھو موسے والے کے گانے گاکر ہندو لڑکیوں کے ساتھ تعلقات رکھ رہا ہے۔
اسلام میں نہ تو شراب نوشی جائز ہے اور نہ ہی شادی کے بغیر لڑکی سے تعلقات استوار رکھنے کی اجازت دی اور رہی بات قتل کی تو اس کے لیے مذہب اسلام میں ہرگز ہرگز جگہ نہیں ہے۔
خیر یہ تو وہ باتیں ہیں جو ایک مسلمان کو معلوم ہیں لیکن اس ملک میں رہنے والے دیگر برادرانِ وطن ساحل کی جانب سے ایک ہندو نابالغ لڑکی کو قتل کردینے کے واقعہ پر کیا سونچ رہے ہیں وہ ہمیں سوشیل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر پڑھنے کو مل رہا ہے۔ این چندر شیکھر نامی ایک قاری لکھتا ہے کہ جاگو ہندو بھائیو جاگو۔ اپنی لڑکیوں اور اپنے خاندان کی ان جہادیوں سے حفاظت کرو۔ اپنے کام کی جگہ ان جہادیوں کو داخل ہونے سے روکو۔ چندراموہن نامی انگریزی اخبار کا ایک اور قاری لکھتا ہے یہ واقعہ کیرالہ اسٹوری کا اعادہ ہے۔ لابی اور بیمار ذہن افراد ہی جہادیوں کا تحفظ کرتے ہیں۔
قارئین کرام اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان قوم فیصلہ کرلے کہ امت مسلمہ کے چند ایک کی شرارت کی وجہ سے پوری قوم کو قیمت چکانی پڑتی ہے۔ یہ نومبر 2022 کی ہی بات ہے جب آفتاب پوناوالا نام کے ایک مسلم نوجوان نے اپنی ساتھی خاتون شردھا والکر کا قتل کر کے بڑی بے دردی کے ساتھ نعش کے 35 ٹکڑے کر کے انہیں فریج میں چھپا دیا تھا۔ تب بھی ملک کے طول و عرض میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا گیا۔
اس واقعہ کی تفصیلات میں بھی یہ بات درج تھی کہ آفتاب بغیر شادی کیے ایک ہندو لڑکی کے ساتھ تعلقات استوار کر رکھا تھا اور پھر بعد میں اختلافات کے سبب آفتاب نے شردھا کا قتل کر کے اس کی نعش کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کردیئے تھے۔
تقریباً 6 ماہ بعد ایسا ہی ایک واقعہ ساحل کا سامنے آیا ہے۔ یہ اکا دکا واقعات ضرورہیں مگر ان سب کا سدباب کرنا بے حد ضروری ہے۔ کیوں کہ یہ غلطیاں چند ایک مسلم نوجوان کر رہے ہیں اور قیمت پوری مسلم قوم کو چکانی پڑ رہی ہے۔ اس لیے ہر مسلمان کو چاہے ۔
غریب ہو یا امیر، متوسط ہوں یا کسی اور طبقے سے تعلق ہو مگر مسلمان کو یہ بات ہمیشہ ملحوظ رکھیں۔ دین اسلام کی اہم اور بنیادی باتوں سے واقفیت بے حد ضروری ہے اور یہ کام والدین اور سرپرستوں کا ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک توفیق دے۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)۔sarwari829@yahoo.com