مضامین

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے!

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ملک میں اب مسلمانوں کے خلاف ایک نئے انداز سے انتقامی کاروائیوں کا سلسلہ چل پڑا ہے۔کسی بھی فرقہ وارانہ تشدد کے واقعہ کے بعد مظلوم مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلادیا جا رہا ہے۔ مدھیہ پردیش، اتر پردیش گجرات اور دہلی میں جس ظالمانہ طریقہ سے انتظامیہ نے بلڈوزر چلا کربے قصور مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کر دیا ۔ اسی نوعیت کی غیر قانونی کارستانیاں ہریانہ کی بی جے پی حکومت کی جانب سے کی جا رہی ہیں۔ گزشتہ ہفتہ ہندوو¿ں کی جانب سے منظم کی گئی شوبھا یاترا کے دوران علاقہ میوات میںتشدد کے جو واقعات پیش آئے اس میں مسلمانوں کا جانی اور مالی نقصان ہوا۔ اس کے باوجود ہریانہ کے ضلع نوح میں مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر کاروائی کرتے ہوئے ان کا روزگار چھین لیا گیا۔ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے ان غیر قانونی انہدامی کاروائیوں کا ازخود سخت نوٹ لیتے ہوئے اس کو روک دینے کا حکم گزشتہ پیر کو جاری کیا۔ اگر عدالت کے یہ احکام نہ آ تے تو سارے علاقہ کی عمارتیں زمین دوز کر دی جاتیں۔ ہریانہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ جن عمارتوں کی توڑ پھوڑ ہوئی ہے یہ سب غیر قانونی عمارتیں تھیں۔ اسے بغیر کسی کی اجازت کے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس لیے یہ انہدامی کاروائی کی گئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس علاقہ کے لوگوں نے 31 جولائی کو پھوٹ پڑے فرقہ وارانہ فساد میں حصہ لیا تھا اس لیے انہیں سبق سکھانے کے لیے یہ انہدامی کارروائی کی گئی۔ہریانہ حکومت اس بارے میں کوئی بھی تاویل پیش کرے وہ اس لیے قابل قبول نہیں ہے کہ ملک کا قانون اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ اچانک کسی کے گھر یا دکان کو منہدم کر دیا جائے۔ اگر یہ تعمیرات غیر قانونی ہیں تو اب تک کیوں ان کو باقی رکھا گیا۔ فرقہ وارانہ فساد کے بعد ہی ان پر بلڈوزر کیوں چلا؟ اس انہدامی کارروائی سے پہلے متاثرہ افراد کو کوئی نوٹس کیوں نہیں دی گئی؟ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہریانہ حکومت نے فسطائی طاقتوں کو خوش کرنے کے لیے مسلمانوں کے گھروں کو ڈھا دیا۔ یہ بالکلیہ طور پر مسلمانوں کو ڈرانے اور دھمکانے کی ایک مذموم حرکت ہے۔ ملک میں قانون کے ہوتے ہوئے ماوارئے قانون اقدامات اس لیے کئے جا رہے ہیں کہ ایک طرف ہندوتوا طاقتوں کے حوصلوں میں مزید اضافہ ہو اور مسلمان اس سے پریشان ہوکر دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔ ہر تشدد یا فرقہ وارانہ واقعہ کے بعد مسلمانوں کو اجتماعی طور پر سزا دینے کی یہ بلڈوزر پالیٹکس بی جے پی حکومتوں نے اختیار کر رکھی ہے۔کسی قانونی طریقہ کار کے بغیر کسی بھی قسم کی انہدامی کاروائی غیر قانونی ہوتی ہے ۔ اس کو بتانے کے لیے کسی قانونی حوالے کو دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ نوح میں جن عمارتوں کو منہدم کر دیا گیا اس کے تعلق سے انتظامیہ کی جانب سے دروغ گوئی سے کام لیا جا رہا ہے۔یہ حیلہ تراشا جا رہا ہے کہ جو بھی تعمیرات یہاں ہوئی ہیں وہ سب غیر قانونی تھیں، اس لیے اسے منہدم کر دیا گیا۔ پنجاب۔ ہریانہ ہائی کورٹ نے حکومت کی اس دلیل کو مسترد کر دیا کہ کسی بھی تعمیر کو غیر قانونی ہونے کی وجہ سے اچانک منہدم نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کے لیے قانون نے ایک ضابطہ رکھا ہے۔ اسی کے مطابق حکومت کو اقدام کرنا چاہئے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں سے یہی دیکھا جا رہا ہے کہ جہاں جہاں بی جے پی کی ریاستی حکومتیں ہیں وہاں قانون اور ضابطوں کی پروا کیے بغیر اس نوعیت کی ظالمانہ کارروائیاں مسلمانوں کے خلاف کی جا رہی ہیں۔
ہریانہ۔ پنجاب ہائی کورٹ نے ان انہدامی کارروائیوں پر روک لگاتے ہوئے یہ سخت ریمارک بھی کیا کہ یہ نسلی صفائے(ethnic cleansing ) کی کاروائی ہو سکتی ہے۔ اس لیے کہ ایک مخصو ص طبقہ کی عمارتوں کو نظم و ضبط کا بہانہ بنا کر منہدم کر دیا گیا۔ جن کی عمارتوں کو ڈھا دیا گیا اس کارروائی سے پہلے ان کے مالکین کو کوئی نوٹس نہیں دی گئی۔ محض یہ کہہ دینا کہ یہ غیر قانونی تجاوایزت تھے جنہیں منہدم کر دیا گیا، قانونی حیثیت سے قابل قبول نہیں ہے۔ انتہا یہ کہ جس مکان میں فرقہ وارانہ فساد سے متاترہ افراد کو پناہ دی گئی تھی وہ مکان تک منہدم کر دیا گیا۔ اس سے حکومت کی سفاکیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ میوات میں ہوئے فساد کو بنیاد بناکر نوح کے مسلمانوں کی املاک کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔ سرکاری عہدیدار بس یہ رَٹ لگائے ہوئے ہیں کہ صرف غیر قانونی ڈھانچوں کو گِرادیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ ملک کے کسی بھی علاقہ میں صرف مسلمان ہی غیر قانونی تعمیرات کرتے ہیں؟ ان کے علاوہ کیا سارے لوگ حکومت کی اجازت کے بعد ہی گھر بناتے ہیں۔ لاکھوں نہیں بلکہ کرڑوں جائیدادیں ایسی ملک میں موجود ہیں جو بغیر کسی قانونی اجازت کی تعمیر کی گئیں۔ کیا حکومت ان ساری تعمیرات کو منہدم کرنے کے لیے کوئی قانون بنانے تیار ہے۔ نوح میں چھ سو سے زائد مکانات اور دکانات کومنہدم کر دیا گیا۔ ہریانہ۔ پنجاب ہائی کورٹ اس پر روک نہ لگاتی تومسلمانوں کی اور کئی جائیدادیں تہس نہس کر دی جا تیں۔ سوال یہ ہے کہ جن عمارتوں کو انتظامیہ نے غیر قانونی طور پر توڑ دیا ہے، اس کا معاوضہ کیا حکومت ادا کرے گی۔ ان مکینوں کی بازآبادکاری کیسے کی جائے گی۔ ان میں سے بہت سارے لوگ چھوٹے موٹے کاروبار کرنے والے تھے۔ کاروباری اشیا کے ساتھ دکانوں پر بلڈوزر چلادینا غیر قانونی عمل ہی نہیں غیر انسانی اقدام ہے۔ غریبوں کے ساتھ اس قسم کا جانبدارانہ رویہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ محض ان کا مسلمان ہونا جرم ہو گیا۔ عدالت نے اسی لیے اسے نسلی صفائے سے تعبیر کیا ہے۔ آئندہ سال ہونے والے پارلیمانی انتخابات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک منظم سازش کے تحت مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں۔ 31 جولائی کو دھرم کے نام پر جو جلوس نکالا گیا اس کا مقصد ہی یہ تھا کہ فرقہ واریت کا کھل کر مظاہرہ کیا جائے۔ چناچہ نوح میں نکالی گئی شوبھا یاترا سے پہلے جو ویڈیوز تیار کئے گئے اور اس میں جو زہر مسلمانوں کے خلاف اُ گلا گیا ، وہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ یاترا کسی مذہبی جذبہ کے ساتھ نہیں منظم کی گئی تھی۔ اس کے پیچھے یہ سازش کام کر رہی تھی کہ یاترا کے نام پر ہندوو¿ں کے جذبات کو بھڑکایا جائے کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے بالکل تیار رہیں۔ بجرنگ دل کے غنڈوں نے جس طریقہ سے ماحول کو گرمایا اس کے بھی سارے شواہد منظر عام پر آچکے ہیں۔ جس شرپسند نے دو مسلم نوجوانوں کو قتل کر دیا وہ کھلے عام مسلمانوں کو چیلنج کر تا ہے۔ جلوس کے دوران مسلمانوں کے خلاف نعرہ بازی ہو تی ہے ۔ پولیس خاموش تماشائی بن کر دیکھتی ہے۔ نوح کے علاوہ دیگر علاقوں میں تشدد پھیل جاتا ہے۔ گروگرام کی مسجد میں ایک نوجوان حافظ قرآن کو شہید کر دیا جا تا ہے۔ مسلمانوں کی بستیوں میں گھوم کر مسلمانوں کو للکارا جاتا ہے۔ اتنے سارے بربریت کے واقعات کے باوجود پولیس شرپسندوں کے خلاف کڑی کارروائی کرنے کے بجائے مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں پر بلڈوزر چلادیتی ہے تو معلوم ہوتا ہے ہریانہ کی حکومت اور مرکزکی حکومت کی نیت صرف یہی ہے کہ مسلمانوں کو اذیت دی جائے۔ ان فسادات میں مسلمان شہید ہوتے ہیں، پھر ان کے خلاف ہی جھوٹے مقدمات پولیس کی جانب سے درج کئے جا تے ہیں اور کسی قانونی ضابطہ کے بغیر ان کو زیر آسمان زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ انصاف کرنے کے بجائے ان کی زندگیوں کو داو¿ پر لگادینا انسانیت کے بجائے درندگی ہے۔
کانگریس کے قائد راہول گاندھی نے پارلیمنٹ میں سچ کہا کہ بی جے پی حکومت منی پور سے لے کر ہریانہ تک آگ لگا رہی ہے ۔ ہندوستان کا ہر باشعور شہری آگ کی اس تپش کو نہ صرف محسوس کر رہا ہے بلکہ اس پر اپنے کرب کا اظہار بھی کر رہا ہے۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ملک کے وزیر اعظم نریندرمودی نہ منی پور پر کچھ بولنے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہریانہ میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر لب کشائی کرنا چاہتے ہیں۔ منی پور3 مئی سے جل رہا ہے۔ تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آ رہی ہے۔ خواتین کو برہنہ کرکے ان کی پریڈ کرائی گئی ۔ عورتوں کی اجتماعی عصمت ریزی کے ہولناک سانحے سامنے آئے، لیکن مودی حکومت نے ان بدبختانہ واقعات پر کوئی تشویش ظاہر نہیں کی۔ 80دن بعد وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کے باہر صرف 36سکنڈ میں منی پور میں خواتین کے ساتھ ہوئے بہیمانہ واقعہ پر تبصرہ کیا۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن پارٹیاں ہر روز مطالبہ کر رہی ہیں کہ وزیر اعظم منی پور پر اپنا بیان دیں۔ لیکن وزیراعظم نے ٹھان لی کہ وہ ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے۔ جب وہ آواز ہی نہیں اٹھائیں گے تو مجرموں کے خلاف کارروائی کون کرے گا۔ حکومت اگر سماج دشمن عناصر کی پشت پناہی کرنے لگے تو قانون کی حکمرانی کا تصور ہی ختم ہوجائے گا۔ ہریانہ میں بھی جو کچھ ہو رہا ہے اس سے مرکزی حکومت اچھی طرح واقف ہے۔ اس کے باوجود ہریانہ کی ریاستی حکومت سے مرکز یہ کیوں وضاحت طلب نہیں کر رہا ہے کہ بغیر کسی قانونی نوٹس کے مسلمانوں کی املاک کیوں منہدم کی جا رہی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جن لوگوں نے مذہبی یاترا کے نام پر یہ شرانگیزی کی ہے، ان کے خلاف کارروائی کی جاتی۔ بجائے اس کے مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے مظلوم مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہرا کر ان کو جیلوں میں بند کردیا جا رہا ہے اور جن لوگوں نے فساد میں کوئی حصہ ہی نہیں لیا، ان کے گھروں پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بلڈوزر چلانے میں بی جے پی کے چیف منسٹر ایک دوسرے پر بازی لے جانا چاہتے ہیں۔ پہلے اترپردیش میں یوگی حکومت نے یہ جابرانہ کارروائی شروع کی۔ الہ آباد میں ایک سیاسی قائد کے گھر پر پہلا بلڈوزر چلا۔ ان کا جرم یہ تھا کہ ان کی بیٹی نے سی اے اے کے قانون کے خلاف جو احتجاج ہوا تھا، اس میں حصہ لیا تھا۔ ان کو سبق سکھانے کے لیے ان کے شاندار گھر کو توڑ دیا گیا۔ اس کے بعد سے یہ بلڈوزر سیاست چل رہی ہے۔ آسام میں وہاں کے چیف منسٹر نے تین دینی مدارس پر بلڈوزر چلادیا۔ الزام یہ لگایا گیا کہ کسی مدرسہ میں کوئی دہشت گرد استاد کے روپ میں ہے۔ آج تک اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ ملک کا قانون بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اچانک کسی کی جائیداد پر ہلّہ بول دیا جائے۔ کوئی عمارت حکومت کی اجازت کے بغیر تعمیر کی گئی ہے یا سرکاری زمین پر کسی نے اپنا گھر بنالیا ہے تو اس کو بھی برخاست کرنے کا ایک قانونی طریقہ ہے۔ اس طریقہ کو اپنائے بغیر حکومتیں من مانی انداز میں کارروائیاں کرنے لگیں گی تو اس سے حکومت کی جانبداری کھل کرظاہر ہوجائے گی۔ 2024کے لوک سبھا الیکشن کے پیش نظر بی جے پی کی جانب سے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ پارٹی کے پاس اب کوئی مثبت ایجنڈا نہیں ہے اور نو سال کے دوران مودی حکومت نے عوامی مسائل کو پس پشت ڈال دیا۔ اس لیے زمین کھسکتی جا رہی ہے۔ ان سارے عوامل کے پیش نظر فسطائی طاقتوں نے بلڈوزر سیاست کو بڑھاوا دیا ہے لیکن یہ اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہوں گے ،اس لیے کہ ابھی ملک میں عدلیہ آزاد اور غیر جانبدارہے۔ وہ حکومت کے ایسے غیر آئینی اقدامات پر قدغن لگائے گی۔منی پور اور ہریانہ کے واقعات پر ساحر لدھیانوی کا یہ شعر یاد آتا ہے۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا توجم جائے گا