سیاستمضامین

غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور امت مسلمہ کی ذمہ داریاں

سید احمد ومیض ندوی

اس وقت فلسطین کی غزہ پٹی پر اسرائیل جس قسم کی وحشیانہ بم باری کر رہا ہے ، اسے تاریخ انسانی کی بد ترین جارحیت قرار دیا جارہا ہے ، اسرائیل پر کچھ اس قسم کا جنگی جنون سوار ہے کہ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لا رہا ہے اس کے ظالمانہ اور غیر انسانی اقدامات پر ساری دنیا انگشت بدنداں ہے، غزہ کے بائیس لاکھ بے قصور عوام پر قیامت ٹوٹ رہی ہے ، ہر طرف انسانی نعشوں کا دل دہلانے والا منظر ہے ، اسرائیل کے تابڑ توڑ حملوں میں تا حال ساڑھے تین ہزار سے زائد فلسطینی مسلمان جام شہادت نوش کر چکے ہیں ، اور دیگر لاکھوں فلسطینیوں کے بے گھر ہونے کی اطلاعات ہیں ، مسلسل فضائی حملوں کے نتیجے میں غزہ شہر خاموشاں کا منظر پیش کر رہا ہے ، غزہ کی سرحدوں پر اسرائیل کے دو لاکھ فوجی زمینی حملہ کے لئے پر تول رہے ہیں ، جب کہ دیگر ایک لاکھ سے زائدریزرو فوجیوں کو اسرائیل بھر میں پھیلا دیا گیا ہے ، فلسطین میں ہر طرف آہ و فغاں اور زخمیوںکی چیخیں گونج رہی ہے ، ہر طرف قیامت صغری برپا ہے ، اسرائیل جنون کی حد تک غزہ پر آتش و آہن کی بارش کر رہا ہے ، گذشتہ دنوں غزہ کے ایک ہسپتال پر اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں پانچ سو سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں ، اسرائیل کی اس کارروائی نے ساری دنیا کے ہوش اڑادیے ہیں ، ادھر امریکہ لڑاکا طیاروں اور مہلک ہتھیاروں سے لیس بحری بیڑے کو اسرائیلی ساحل پر پہنچا چکا ہے ، اس وقت ہزاروں فلسطینی زخموں سے چور ہیں ، اسرائیل کی وحشیانہ بم باری کا سلسلہ بلا توقف جاری ہے ، اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کو پورے طور پر تباہ کر کے ہی دم لے گا ، صہیونی وزیر نے غزہ کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی قسم کھالی ہے ، صہیونی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ اب لوگ پرانے غزہ کو دیکھنے کے لئے ترس جائیں گے ، اسرائیل نے ۲۳ لاکھ غزہ کے شہریوں کے لئے مصر سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کے لئے اس کے ملک کی سرحد یں کھول دیں ، اور انھیںصحرائے سینا میں بسانے کا نظم کریںیہ سب کچھ اس وقت ہوا جب حماس کے جیالے غیر متوقع طور پر بری بحری اور فضائی راستوں سے اسرائیل پر ٹوٹ پڑے حماس کا حالیہ حملہ اسرائیل تاریخ کا بدترین حملہ قرار دیا جا رہا ہے حماس کے حملوں میں پہلی بار اسرائیل کا زبردست جانی نقصان ہوا ہے ایک ہزار سے زائد اسرائیلی واصل جہنم ہو چکے ہیں جبکہ کئی سو حماس کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں ، اس جنگ کے حوالے سے میڈیا پر مختلف تبصرے سامنے آرہے ہیں کچھ میڈیا میں افراد کا کہنا ہے کہ اسرائیل پر حملہ کر کے حماس نے بہت بڑی غلطی کی ہے اب اسرائیل حماس سمیت پورے غزہ کو مٹا کر رکھ دے گا ، یہ وہ لوگ ہیں جن جن کی نگاہ ظاہری اسباب میں اٹک کر رہ جاتی ہے وہ خدا کے غیبی نظام سے اکثر بے خبر رہتے ہیں جبکہ خدا کا غیبی نظام لوگوں کی نگاہوں سے ہٹ کر اپنا کام کر رہا ہوتا ہے ، و مکروا مکر اللہ واللہ خیر الماکرین ، دنیا میں خدا کی مرضی کے بغیر کوئی پتہ بھی حرکت نہیں کرتا ، یہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا انجام انشاء اللہ بہتر اور اہل حق کے حق میں ہوگا ویسے اسرائیل اس سے پہلے بارہا غزہ پر کارپیٹ بمباری کر چکا ہے ، غذا شہر کئی مرتبہ اجڑ کر آباد ہوتا رہا ہے لیکن اس مرتبہ صورتحال بالکل مختلف ہے سلام ہو حماس کے ان جیالوں پر اور ان ماؤں پر جنہوں نے ایسے جیالوں کو جنم دیا ہے ، پہلا موقع ہے جب حماس نے اسرائیل پر کاری ضرب لگائی ہے اسرائیل جسے اپنے انٹلی جنس ایجنسیوں پر ناز تھا جس کی خفیہ ایجنسیاں دنیا کی نمبر ایک مانی جاتی تھی سب فیل ہو گئیں حماس نے اپنی حالیہ کارروائیوں سے یہ ثابت کر دیا کہ ظالم چاہے کتنا ہی طاقتور ہو اس پر کاری ضرب لگائی جا سکتی ہے حماس کی حالیہ کاروائی سے دنیا بھر کے مظلوم اور ستم رسیدہ لوگوں کے حوصلہ بلند ہوئے ہیں ، حماس نے یہ ثابت کر دیا کہ جو قومیں مرنے کے لیے تیار رہتی ہیں انہیں کوئی طاقت زیر نہیں کر سکتی ، مسلمانان عالم کو موجودہ صورتحال پر اس لیے مایوس نہیں ہونا چاہیے کہ تاریخ کی کسی بھی جنگ میں ایمان والے جیالوں نے اسلحہ اور تعداد پر انحصار نہیں کیا ، اقبال کی زبان میں حماس مومن ہو تو بے تیغ ہی لڑتا ہے سپاہی کا مصداق ہے اسلامی تاریخ میں ایسی سینکڑوں مثالیں ملتی ہیں جہاں تعداد کی کمی کے باوجود مسلمان دشمن پر غالب رہے ، بدر میں صرف ۳۱۳ مسلمان ہزار سے زائد کفر کے سرغنوں پر فتح یاب ہوئے احزاب کا معرکہ ہمارے سامنے ہے جبکہ مکہ اور اطراف کے تمام قبائل نے مل کر مدینہ منورہ پر یلغار کی تھی ؛ لیکن مسلمانوں کا کچھ بگاڑ نہ سکے ، صلیبی جنگوں کی تاریخ سے کون ناواقف ہے ، سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے صلیبیوں کے چھکے چھڑا دیے ، اس وقت مسلمانوں کا ایک طبقہ ملت اسلامیہ کی صفوں میں مایوسی پھیلا رہا ہے ، اور کہہ رہا ہے کہ حماس نے پہل کر کے بہت بڑی غلطی کی یہ قنوتی طبقہ ہمیشہ پس ہمتی کی بات کرتا ہے ، اسے جان لینا چاہیے کہ موجودہ سورتحال بالکل مختلف ہے، امریکہ نے اسرائیل کو اسلحہ سے بھرپور شپ روانہ کیا ہے لیکن وہ براہ راست جنگ میں کودنے کی حماقت ہرگز نہیں کرے گا اس لیے کہ اسے افغانستان میں طالبان کے ساتھ تلخ تجربہ ہو چکا ہے کسی ملک کی تربیت یافتہ فوج سے لڑنا آسان ہے لیکن گوریلا جنگ میں کامیابی حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا افغانستان میں بمباری کر کے امریکہ تھک چکا ہے آخر اس نے عافیت اسی میں سمجھی کہ افغانستان سے بوریا بستر لپیٹ لیا جائے ، طالبان سے لڑتے لڑتے امریکی افواج ڈپریشن کا شکار ہو کر خودکشی کرنے لگی ، یوکرین کی مدد میں سب کچھ جھونکنے کے بعد اب فلسطین کا محاذ کھولنا اتنا آسان نہیں ہے علاوہ ازیں اس وقت کئی ممالک حماس کی تائید میں ہیں بعض ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ روس کے صدر پوتن نے امریکہ کو وارننگ دی ہے کہ فلسطین میں دخل اندازی کی غلطی نہ کرے ورنہ روس بھی میدان میں کود پڑے گا ادھر ایران ، عراق یمن ، لبنان ، شام بھی حماس کی پشت پناہی کر رہے ہیں ، لبنان اور حزب اللہ نے باقاعدہ اسرائیل پر حملے شروع کر دیے ہیں ، یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ مختلف پڑوسی ممالک میں موجود عسکریت پسند تنظیمیں بھی تاک میں ہیں اسرائیل اپنے دشمنوں سے گھرا ہوا ہے جبکہ اس کے حمایتی ممالک اس سے ہزارہا ہزار میل دور ہیں علاوہ ازیں اس وقت حماس تنہا نہیں ہے حماس کے حالیہ اقدام کو گودی میڈیا کے اینکرس دہشت گردی قرار دے رہے ہیں اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں وہ تنخواہ یاب زرخرید غلام ہیں انہیں وہی کچھ کہنا پڑتا ہے جس کا اشارہ ملتا ہے اسرائیل جیسے دہشت گرد کی تائید کرنے والے یہ اینکرز چین کے بارڈر پر کیوں نہیں جاتے جہاں اس نے ہماری ہزارہا ہزار کلومیٹر زمین غصب کر لی ہے اور مسلسل زور دکھاتا رہتا ہے اسرائیل سے ہمدردی جتانے والے اندھ بھکت جو حالیہ جنگ میں فلسطین جا کر اسرائیل کے لیے لڑنے کی بات کر رہے ہیں اگر وہ واقعی بہادر اور جانباز ہیں تو چین کی سرحد پر چینی فوج سے لڑنے کی ہمت کیوں نہیں کرتے جس نے ہماری زمین ہڑپ لی ہے چینی سرحد کو چھوڑیے وہ تو وہ منی پور کیوں نہ گئے جہاں کئی مہینوں تک آگ و خون کا کھیل کھیلا جاتا رہا اور ملک کی بیٹیوں کو برہنہ کر کے ان کی پریڈ کروائی گئی غزہ پر حالیہ اسرائیلی جارحیت کے تناظر میں مسلمانان عالم کو چند باتوں پر خصوصی توجہ دینا ضروری ہے (۱) ہمیں اس حقیقت کو کسی صورت فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ پوری دنیا کے مسلمان چاہے وہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں رہتے ہوں سب کے سب جسد واحد کی طرح ہے جس طرح جسم کے کسی عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم اس کا درد محسوس کرتا ہے اسی طرح دنیا کے کسی بھی خطے کے مسلمان پر ظلم ہو تو اس سے سارے مسلمان بے چین ہوں اخوت اسلامی کا تقاضہ ہے کہ غزہ پر ہونے والے ظلم سے ہماری رات کی نیندیں اڑ جائیں اور دن کا چین ختم ہو جائے اگر ہم اس کیفیت سے خالی ہیں تو نہ صرف ہم مسلمان کہلانے کے حقدار نہیں بلکہ ہم انسانیت سے بھی محروم ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد:من لم یہتم بامر المسلمین فلیس مناجو مسلمانوں کے امور سے دلچسپی نہ لے وہ ہم میں سے نہیں ، اس لیے فلسطین کی موجودہ صورتحال پر دنیا کے ہر مسلمان کو فکر مند ہونا چاہیے ، (۲) یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ مسئلۂ فلسطین صرف اہل فلسطین یا عربوں کا مسئلہ نہیں ہے یہ پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے اس لیے کہ اسرائیل بیت المقدس اور قبلہ اول پر قابض ہے ، مسجد اقصی کو اٹھا کر اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر اسرائیل کا خواب ہے ؛ بلکہ وہ دریائے نیل سے دریائے فرات تک گریٹر اسرائیل کا منصوبہ رکھتا ہے ، ایسے میں اس مسئلہ کو صرف عربوں کا مسئلہ خیال کر کے دیگر مسلمانوں کا اس سے دامن جھاڑ لینا بہت بڑی نادانی ہوگی ، (۳) ہم ہندوستان میں رہ کر اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کے لیے دعاؤں کا اہتمام کر سکتے ہیں ، ملت کے ہر فرد کو فرض نمازوں کے بعد اور رات کو تہجد میں غزہ پر ہونے والے مظالم کے تعلق سے خوب دعائیں کرنا چاہیے ، اس کے لیے صدقہ خیرات کی کثرت کریں ممکن ہو تو مساجد میں انفرادی طور پر اعتکاف کر کے حالت اعتکاف میں دعا کریں ، نیز روزوں کا اہتمام کر کے دعائیں کی جائیں تو اس کے بڑے اچھے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ، خدا تعالی کی غیبی مدد آجائے تو حالات بدلنے میں کچھ زیادہ دیر نہیں لگے گی ، اللہ تعالی ہر چیز پر قدرت رکھتے ہیں ، اس کی قدرت کے آگے بندوں کی ساری تدابیر ہیچ ہیں، اس لیے ہمیں خدا تعالی کی غیبی مدد کے لیے دعاؤں کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے ، نمبر (۴) ہم اپنے نوجوانوں اور نئی نسل کو مسئلۂ فلسطین اور مسجد اقصی کے تعلق سے آگاہ کریں ، نئی نسل مسجد اقصی اور مسئلۂ فلسطین سے بالکل ناواقف ہے ، اکثر مسلم نوجوان نوجوانوں کو پتہ تک نہیں کہ مسجد اقصی سے مسلمانوں کا کیا رشتہ ہے ، اور قبلہ اول کی بازیابی مسلمانوں کا فریضہ ہے ، بہت سے مسلمان خود قبۃ الصخرۃکو مسجد اقصی سمجھتے ہیں اب تک صہیونی دشمن مسجد اقصی کی کس قدر بے حرمتی کر چکا ہے ، اور مسجد اقصی کو اٹھا کر اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیے اقصی کے اطراف کس قدر کھدائیاں کر رہا ہے ، اقصی کے تعلق سے صہیونیوں کے ناپاک عزائم کیا ہیں ، ان سب باتوں کی جانکاری ضروری ہے ، اس کے لیے مسلمان نوجوانوں اور نئی نسل کے درمیان مسجد اقصی سے متعلق لیکچرز کا اہتمام ضروری ہے ، (۵) اس وقت اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کی جانب سے حماس کے خلاف زبردست پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے ، جو سراسر بے بنیاد ہے سارے ملک کا گودی میڈیا یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس اسمیں اصل قصوروار حماس ہے ، اور حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رہا ہے ، نیز یہ بھی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ حماس عام شہریوں پر ظلم ڈھا رہا ہے ، ہمیں برادران وطن اور عام لوگوں کو حقائق سے باخبر کرنا چاہیے ، حماس اپنی سرزمین سے اسرائیل کا ناجائز قبضہ ختم کرنے کی جنگ لڑ رہا ہے ، اسرائیل فلسطین پر ایک ناجائز ریاست ہے جسے بڑی طاقتوں نے فلسطین میں بسایا ہے ۱۹۴۸ سے پہلے اسرائیل نام کی کوئی ریاست دنیا کے نقشے پر نہ تھی ، یہ تاریخ ہے ملک کی آزادی کے لیے لڑنا اگر دہشت گردی ہے تو پھر آزادی ہند کے لیے جن بہادروں نے جان کا نذرانہ پیش کیا وہ بھی دہشت گرد کہلائیں گے درحقیقت یہ سراسر پروپیگنڈا ہے کہ حماس کے کارکنوں نے عام شہریوں پر حملہ کیا ہے جبکہ حقیقت اس کے بالکل برخلاف ہے فلسطین سے باقاعدہ ویڈیوز آرہے ہیں جن میں اسرائیلی خواتین اور بچوں اور بوڑھوں کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا جا رہا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ میں معذوروں عورتوں اور بچوں پر ہتھیار اٹھانے سے منع کیا ہے البتہ غزہ پر اسرائیل جو وحشیانہ بمباری کر رہا ہے اس میں سینکڑوں غزہ کے بے قصور شہری معصوم، بچے اور خواتین اور بوڑھے مارے جارہے ہیں جو بین الاقوامی جنگی قوانین کے سراسر خلاف ہے، (۶) ہندوستان روز اول سے فلسطین کا حمایتی رہا ہے مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو سے لے کر اٹل بہاری واجپائی تک سارے قائدین فلسطین کے حامی رہے ہیں ، ہمارا ملک ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا رہا ہے لیکن موجودہ حکمران طبقہ اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے ، ملک کے مسلمان ہی نہیں تمام انصاف پسند باشندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے حکومت سے نمائندگی کریں ، اور ارباب اقتدار کو اس بات کا قائل کرائیں کہ اسرائیل ظالم ہے ، اور ظالم کا ساتھ دینا دراصل ظلم کو فروغ دینا ہے ، وزیراعظم نے جنگ کے آغاز کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کی بات کہی تھی لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد وزارت خارجہ کی جانب سے اس بات کی صراحت کی گئی کہ فلسطین کی تائید ہندوستان کی قدیم روایت رہی ہے اور اس وقت بھی ملک اپنی اسی روایت پر قائم ہے (۷) مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ملک میں موجود مسلم ممالک کے سفارتخانوں سے رابطہ کر کے ان پر دباؤ بنائیں کہ وہ اسرائیل سے تمام تر تعلقات ختم کریں ، جن ممالک کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں ، وہ اپنے سفیروں کو واپس بلوا لیں اسرائیل کو راہ حق پر لانے کا یہ ایک موثر طریقہ ہو سکتا ہے حالیہ اسپتال پر اسرائیل حملے کے بعد اگرچہ بیشتر مسلم ملکوں کی جانب سے غیر معمولی برہمی کا اظہار کیا گیا ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مسلم ممالک اپنے ملکی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کر لیں اور اپنے ملکوں میں موجود اسرائیلی سفراء کو فوری طور پر ملک سے نکال باہر کریں ، نیز اسرائیل سے تجارتی تعلقات بھی موقوف کریں (۸) اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کے لیے او آئی سی اور عرب لیگ جیسے ادارے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف قرارداد منظور کرانے کے لیے کوشاں رہیں نیز اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو اسرائیل کے خلاف ایکشن لینے کے لیے مسلم ممالک کو اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہیے غزہ پر بمباری کو دو ہفتے سے زائد عرصہ ہو چکا ہے ؛ لیکن مسلم ممالک مذمتی بیانات سے بڑھ کر کچھ نہیں کر پا رہے ہیں ، ہر طرف سکوت مرگ طاری ہے عالم اسلام کی یہی بے حسی ہے ، جو اسرائیل کو ظلم پر آمادہ کر رہی ہے، دنیا بھر کے مسلمانوں کے پاس اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کا ایک مؤثر ہتھیار اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ ہے ، اس وقت دنیا بھر میں اسرائیلی کمپنیاں پھیلی ہوئی ہیں ، جن کی آمدنی سے قوت پا کر اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم ڈھاتا ہے ، اگر ساری دنیا کے مسلمان اسرائیلی مصنوعات کا استعمال ترک کر دیں ، تو اسرائیل زبردست معاشی بحران کا شکار ہو سکتا ہے ، اور یہ اسرائیلی مصنوعات سے اعتراض کرنا اسرائیل کو فلسطین کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے لیے مجبور کرنے کا ایک مؤثر ہتھیار ہے ، موجودہ دور میں مصنوعات کا بائیکاٹ نہایت موثر طریقہ کار ہے ، جسے اپنا کر ہم دشمنان اسلام کو مجبور کر سکتے ہیں لیکن ہم مسلمانوں کی صورتحال انتہائی افسوسناک ہے ، مسلمانوں کی اکثریت غفلت کا شکار ہے انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ روز مرہ کی اشیاء کس کمپنی کی ہیں ، انہیں محض اپنی ضروریات کی تکمیل چاہیے حالانکہ جتنی اسرائیلی استعمالی اشیاء بازار میں عام ہیں ان کے متبادل بھی دستیاب ہیں ، ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء دانشوران اور مختلف تنظیموں کے کارکنان کے ذریعے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی باقاعدہ مہم چلائی جائے ، یہ کام گھر گھر محلہ محلہ ہونے لگے تو اس کے اچھے نتائج برامد ہو سکتے ہیں ، کارکنوں کی جانب سے ایسے چارٹس تیار کیے جائیں جن میں اسرائیلی مصنوعات کے نام کے ساتھ ان کے متبادل اشیاء بھی درج ہوں ، اور یہ چارٹ مساجد اور محلوں میں تقسیم کیے جائیں نیز جمعہ کے بیانات میں حضرات علماء کرام مسلسل اس پر زور دیتے رہیں ، اس وقت اسرائیلی مصنوعات اور اہل فلسطین پر اس کے مظالم کے حوالے سے عام مسلمانوں کا حال کیسا ہے اس کی منظر کشی سوشل میڈیا پر کسی نے بہت خوبصورت انداز میں کی ہے وہ لکھتے ہیں:
ایک شخصGree Ac کی ٹھنڈک سے سو کرصبح 5بجے Seiko کے الارم سے اٹھتا ہے ‘ Colgate سے برش کرتا ہے ‘ Gellet سے شیو کرکے Lux صابن اور Dove شیمپو سے نہاتا ہے اور نہانے کے بعد Levis کی پینٹ ‘ Polo کی شرٹ اور Gucci کے شوز‘ Jocky کے Socks پہن لیتا ہے ‘ چہرے پر Nevia کریم لگا کر Nestle Food سے ناشتہ کرنے کے بعد Rayban کا چشمہ لگا کر Honda کی گاڑی میں بیٹھ کر کام پر چلاجاتا ہے۔ راستے میں ایک جگہ سگنل بند ہوتا ہے وہ جیب سے IPhone نکالتا ہے اور Zong پر انٹرنیٹ چلانا شروع کردیتا ہے اتنے میں سبز بتی جلتی ہے آفس پہنچ کر HP کے کمپیوٹر میں کام میں مشغول ہوجاتا ہے ۔ کافی دیر کام کرنے کے بعد اسے بھوک محسوس ہوتی ہے تو McDonald’s سے کھانا اور ساتھ میںNestle کا پانی منگواتا ہے۔ کھانے کے بعد Nescaffe کی کافی پیتا ہے اور پھر تھوڑا آرام کرنے چلا جاتا ہے کچھ آرام کرنے کے بعد Red Bull پیتا ہے اور دوبارہ کام میں مشغول ہوجاتا ہے تھوڑا بوریت محسوس ہونے پر جیب سے Apple کے I-pods نکال کے فلمی گانے سنتا ہے ‘ ساتھ ہی TCS سے ایک پارسل بیرون ملک بھجواتا ہے اور Panasonic کے لینڈ لائن سے اطلاع کرتا ہے اور Parker کے Penسے ایک نوٹ لکھتا ہے ۔ کچھ دیر بعدRolex کی گھڑی میں ٹائم دیکھتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ واپسی کا وقت ہوگیا ہے تو وہ دوبارہ Honda کی گاڑی اسٹارٹ کرتا ہے اور گھر کے لئے روانہ ہوجاتا ہے۔Maggi کے نوڈلز ‘ Cadbary , Kit Kat اور Snikersاور Nestle کے مہنگے جوس وغیرہ خریدلیتا ہے سوپر اسٹور کے ساتھ ہی Pizza Hut سے وہ بیوی بچوں کے لئے پیزا اور KFC سے برگرز کی ڈیل بھی خریدلیتا ہے۔
گھر جاکر کھانا کھانے کے بعد سب گھر والے Sony کے Led پر مشہور زمانہ News Channel پر مایوسی والی خبریں سن رہے ہوتے ہیں اور ہاتھ میںCoke کے گلاس پکڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ خبر آتی ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں پر بمباری کی ےہ سن کر وہ آگ بگولہ ہوجاتا ہے اور اونچی آواز میں بولتا ہے۔ ’’ اسرائیل مردہ باد‘‘
۰۰۰٭٭٭۰۰۰