مذہب

ماہ صیام احادیث پاک کی روشنی میں

رمضان المبارک عظمت وشان والا مہینہ ہے،رمضان ’’رمض‘‘ سے ماخوذہے،اس کے کئی لغوی و اصطلاحی معنی بتائے گئے ہیں،اس ماہ مبارک سے زیادہ مناسبت رکھنے والے معنی وہ ہیں جوحدیث پاک میں وارد ہیں:

مفتی حافظ سیدصادق محی الدین فہیمؔ
Cell No. 9848862786

رمضان المبارک عظمت وشان والا مہینہ ہے،رمضان ’’رمض‘‘ سے ماخوذہے،اس کے کئی لغوی و اصطلاحی معنی بتائے گئے ہیں،اس ماہ مبارک سے زیادہ مناسبت رکھنے والے معنی وہ ہیں جوحدیث پاک میں وارد ہیں: تدرون لم سمى رمضان رمضان لأنه يرمض الذنوب (جامع الاحادیث ۳۳؍۱۷۱) رمضان کو اس لئے رمضان کہا جاتا ہے کہ وہ گناہوں کوختم کردیتاہے‘‘ ۔یعنی رمضان المبارک کی مبارک ساعتیں اسکی قدرکرنے والوں کے گناہوں کواس طرح ختم کردیتی ہیں جس طرح سورج کی تمازت زمین کی رطوبتوں کوجلاکر بھسم کردیتی ہے۔

بعضوں نے ’’رمضاء‘‘سے ماخوذماناہے،عربی زبان میں گرماکا موسم ختم ہوکر بارش کے آغازہونے کو رمضاء کہاجاتاہے،جیسے بارش کے قطرات آلودگی اورگردوغبارختم کرکے فضاء کو پاکیزہ وشفاف بنادیتے ہیں اسی طرح ماہ رمضان المبارک کے روزے اوراس میں کی جانی والی عبادات روحانی بارش کی مانند ہیں جس سے گناہوں کا میل وکچیل دور ہوجاتا ہے، نافرمانیوں اور گناہوں کی کثافت سے روزہ دارکا دل آئینہ کی مانند صاف و ستھرا ہوجاتاہے، احادیث مبارکہ سےبھی اس کی تائید ہوتی ہے۔’’جوکوئی ایمان و احتساب کے ساتھ ماہ صیام کے روزہ رکھے۔

اللہ سبحانہ اس کے پچھلے گناہوں کو معاف فرمادیتے ہیں‘‘ (بخاری: ۱؍۶۵) اس حدیث پاک میں ایمان و احتساب کی شرط کے ساتھ رمضان کے روزے رکھنے سے پچھلے گناہوں کی معافی کی خوشخبری ہے اور احادیث پاک میں ایمان و احتساب کے ساتھ راتوں کے قیام اور شب قدر کے قیام پر یہی بشارت دی گئی ہے یعنی ایمان و احتساب کی کیفیات سے سرشار رہتے ہوئے روزہ رکھا جائے، رمضان المبارک کی راتوں اور لیلۃ القدر میں قیام کا اہتمام کیا جائے تو اس سے پچھلے گناہ معاف ہونگے ۔ایمان سے مراد اسلام کے تمام احکام پرایمان کی طرح ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کوبھی اللہ سبحانہ کا حکم تسلیم کیا جائے اس کی رضا و خوشنودی کیلئےروزہ رکھا جائے، احتساب سے مراد اور اعمال صالحہ کی طرح اس کے اجر و ثواب کی امید رکھی جائے، نیکیوں پر جو اجر و ثواب کا وعدہ فرمایا گیا ہے اور نافرمانیوں پر جو وعید وارد ہے، اس پر کامل یقین رکھا جائے ۔

الغرض رمضان المبارک کے روزے ایمان واحتساب کے ساتھ رکھنے والوں کے پچھلے گناہ معاف کردئیے جائیں گے،اسی طرح ماہ رمضان کی راتوں میں اورایسے ہی لیلۃ القدرمیں ایمان واحتساب کی کیفیات کے ساتھ قیام یعنی تراویح ،تہجدودیگرنوافل کا اہتمام کرنے والوں کیلئے یہی بشارت ارشاد فرمائی گئی ہے (شعب الایمان: ۳۶۱۳) ایمان واحتسا ب قبولیت اعمال اوربخشش ومغفرت کی بنیادی شرط ہے، اللہ سبحانہ کی معرفت،سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کونبی ورسول اورخاتم النبیین ماننے اوراللہ سبحانہ کے وعدہ ووعیدپریقین پرطاعت وعبادت اوراعمال صالحہ کی قبولیت موقوف ہے، اسکے اجروثواب کی امیدوطمع اوراسکی ناراضگی اور آخرت کی جوابدہی کا ڈراورخوف ہرآن مستحضررہے۔جب ماہ رمضان المبارک آتا ہے تو آسمان (جنت) کے (بخاری: ۶؍۴۶۵) ایک اور روایت کے مطابق – رحمتوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بندکردئیے جاتے ہیں، اور شیاطین پابہ زنجیر کردئیے جاتے ہیں (صحیح مسلم: ۵؍۳۳۸) پہلی روایت میں ’’ابواب السماء‘‘ کا ذکر ہے اس سے مراد جنت ہے ،اسی سےجنت تک پہونچاجاسکتاہےکیونکہ وہ آسمان سے اوپر ہے اوراس کی چھت رحمٰن(اللہ)کاعرش ہے: المراد بالسماء الجنة لأنها يصعد منها إلى الجنة لأنها فوق السماء وسقفها عرش الرحمن (بخاری۲؍۶۷۲)

ایک اورحدیث پاک میں واردہے رمضان کی پہلی شب کے آغاز ہی سے شیاطین اورسرکش جن قیدکردئیے جاتے ہیں ،دوزخ کے دروازے بندکردئیے جاتے ہیں ،کوئی دروازہ ان میں کھلا نہیں رہتا، جنت کے سارے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں کوئی دروازہ بھی بند نہیں رہنے پاتا، نداء دینے والا اللہ کی طرف سے نداء دیتاہے :اے خیر ونیکی کے طلب گارو!آگے قدم بڑھائو،اوراے شرپسندو!شرسے رک جائو، بہت سے گنہگاربندوںکودوزخ سے رہائی کا پروانہ دیا جاتا ہے، یعنی ان کی خشش ومغفرت کردی جاتی ہے اوریہ سلسلہ ماہ رمضان کی تمام راتوں میں جاری رہتا ہے (سنن ترمذی۳؍۱۰۳)۔

حدیث قدسی میںہے ابن آدم کے ہرنیک عمل کا ثواب دس گنا سے سات سوگناتک بڑھادیاجاتاہے،مگراللہ سبحانہ وتعالی کا ارشادہے روزہ بندہ نے میرے لئے رکھاہے میں ہی اس کا اجروثواب عطاکروں گا،کیونکہ میری خوشنودی کیلئے بندہ اپنی خواہش نفس اورکھانے پینے سے دست کش ہوجاتاہے۔روزہ دارکیلئے دوخوشیاں ہیں:ایک خوشی افطارکے وقت، اور دوسری اپنے مالک ومولی سے بروزحشرلقاء وملاقات کے وقت ،قسم ہےاس ذات پاک کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے ! روزہ دارکے منہ کی بواللہ سبحانہ کومشک سے زیادہ محبوب ہے۔ روزہ ڈھال یعنی نفس و شیطان کے حملوں سے بچائو اور روز حشر دوزخ کی آگ سے حفاظت کا ذریعہ ہے،جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو چاہیئے کہ وہ فحش اوربری باتوں اور شور و شرابے سے سخت پرہیز کرے، کوئی گالی گفتاریا لڑائی جھگڑے پر اتر آئے تو صرف یہ کہے ’’انی امرؤ صائم ‘‘ میں روزہ دارہوں(صحیح بخاری ۶؍۴۷۴)

اس حدیث پاک میں ایمان والوںکیلئے کئی ایک انعامات کا وعدہ ہے، حدیث پاک کے آخرمیں جن اخلاقی خرابیوں سے روزہ دارکوبچنے کی تلقین کی گئی ہے وہ روزہ کا مقصود ہے، روزہ انسان کوایسا متقی وپرہیزگار بنائے کہ اسکا دل ودماغ پاکیزہ ہوجائے،زبان وبیان میں لطافت و شگفتگی آجائے۔ جب بات کرے تو گفتگوسے خوشبو آئے،سننے والوں کو یوں محسوس ہوکہ زبان سے الفاظ نہیں بلکہ ہیرے ،موتی جھڑرہے ہیں،انسان کی کامیابی اورمعاشرہ کی پاکیزگی میں اس کا بڑارول ہے،انسان کے پاکیزہ اخلاق،عمدہ رکھ رکھائو،اچھا برتائو،حسن کلام انسانوں کے دل جیت لیتاہے ،اوریہ اللہ سبحانہ کو بہت پسند ہے۔

ارشاد باری ہے وقولوا للناس حسنا،حضرت موسی وہارون علیہما السلام کو دعوت حق پہونچانے کی غرض سے فرعون کے پاس جانے کی ہدایت دیتے ہوئے ارشادفرمایا کہ اس سے نرم انداز میں گفتگوکریں ،ظاہرہے جہاں شیریں کلامی اورنرم خوئی کی صفت باعث پسندیدگی ہے وہیں تندمزاجی ،سخت کلامی ودرشتگی سخت ناپسندیدہ ہے۔ظاہرہے اس سےگالی گفتار،گندی وفحش گفتگو،شوروشغب جیسی بدخلقی کی شناعت کا خود اندازہ ہوجاتاہے ،اس لئے روزہ دارکوکسی بدکردارسے سابقہ پڑجائے تو ’’انی امرؤصائم‘‘ کہہ کراپنا دامن چھڑانے کی ہدایت دی گئی ہے۔

اس میں نفس ودہن کی پاکیزگی،کردارواعمال کی خوبی، اور برائی کا جواب اچھائی سے دینے کا ایک بہت بڑا پیغام ہے جوروزہ کے ذریعہ انسانوں کو دیا جارہاہے، یہ اسلامی اخلاق کوئی رمضان المبارک کے ساتھ خاص نہیں بلکہ روزہ رکھتے ہوئے ایسی تربیت ہو جائے کہ جب بھی کسی سے ناشائستہ گفتگوکاتجربہ ہو یا کوئی ناخوشگوار حادثہ درپیش ہوگیا ہو تو ایک مسلمان کایہی جواب ہوناچاہیے کہ میں مسلم ہوں اور میں نے رمضان المبارک کے روزوںسے روزہ دارانہ زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھ لیا ہے اس لئے میںآپ کااس کے سواکوئی جواب نہیں دے سکتا، ماہ صیام کے روزوں کے اہتمام کاثمر یہی ہے کہ انسان تادم زیست اخلاق عالیہ کا پیکر بنا رہے۔ روزہ داروں کےلئے ایک اوربیش بہا انعام واکرام کاذکرحدیث پاک میں مذکورہے’’بیشک جنت میں ایک خاص دروازہ ہے جس کا نام ’’ریّان‘‘ ہے، اس دروازہ سے روزحشر صرف روزہ دارہی داخل ہوسکیں گے، نداء دی جائے گی کہاں ہیں وہ اللہ کے بندے جو اللہ سبحانہ کی رضا کیلئے روزہ رکھاکرتے تھے اوربھوک وپیاس کی مشقت برداشت کرتے تھے۔یہ نداء سن کرروزہ دارآگے بڑھیں گے پھراس دروازہ سے کسی اورکوداخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی، سارے روزہ دارجب اس دروازہ سے جنت میں داخل ہوجائیں گے تو اس دروازہ کو بندکردیا جائے گاپھرکسی کا اس سے داخلہ نہیں ہوسکے گا‘‘ (بخاری ۶؍۴۶۱)

روزہ داروں کواس بات کاخاص خیال رکھناچاہیےکہ ان کاروزہ بے ثمرنہ ہوجائے،حدیث پاک سےاس کی خاص ہدایت دی گئی ہے ارشادہے’’جوروزہ تورکھے لیکن جھوٹ اورلغوبات چیت اورلغو وباطل اعمال سے پرہیزنہ کرے تو اللہ سبحانہ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی چنداں ضرورت نہیں،یعنی سارے اعضاء وجوارح کومعاصی ومنکرات سے نہ بچاپائے توروزہ رکھتے ہوئے بھوکے پیاسے رہنے کا کچھ حاصل نہیں‘‘ مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ(سنن ابی دائود ۶؍۳۱۶)

قرآن پاک کا نزول ماہ رمضان المبارک میں ہوا ہے (البقرۃ: ۱۸۵) پھررمضان المبارک میں بھی خاص قدروالی رات میں اس کا نزول ہوا ہے (القدر:۱) اس لئے ماہ رمضان المبارک سے قرآن پاک کوخصوصی نسبت ہے۔ بلکہ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت بھی گویا ایک طرح سے نزول قرآن کا شکرانہ ہے،حدیث پاک میں وارد ہے روزہ اور قرآن دونوں بندے کی سفارش کریں گے ،روزہ آگے بڑھ کر کہے گا، اے میرے رب میں نے اس بندہ کو کھانے پینے اور جائز خواہشات نفس سے روکے رکھا تھا، اس کے حق میں آج میری شفاعت قبول فرما لیجئے، پھر قرآن آگے بڑھ کر کہے گا ،اے میرے رب میں نے اس کو رات سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا ،اے مولی اسکے حق میں میری شفاعت قبول فرمالیجئے، چنانچہ( روزہ اورقرآن) دونوں کی شفاعت اس کے حق میں قبول کرلی جائے گی (شعب الایمان ۳؍۳۷۸)

روزہ کی اہمیت اوراسکی قدروقیمت کا اندازہ اس حدیث پاک سے ہوتا ہے، ارشادہے’’جوکوئی کسی شرعی عذرکی بنا حاصل ہونے والی رخصت اورکسی مرض وبیماری کے بغیررمضان المبارک کا ایک بھی روزہ ترک کردے اوراسکی تلافی کیلئے زندگی تمام روزے رکھے ،تب بھی یہ تمام روزےملکر رمضان المبارک کے بلاعذرچھوڑے ہوئے ایک روزہ کی تلافی نہیں کرسکیں گے‘‘ من افطر یوما من رمضان من غیر رخصۃ ولا مرض لم یقض عنہ صوم الدہرکلہ وان صامہ (سنن ترمذی۳؍۱۶۶ )

رمضان المبارک کی برکتوں سے محروم بڑےبدبخت ہیںچنانچہ ایک مرتبہ سیدنامحمد رسول اللہ صلی ى الله علیہ ه وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے جب پہلی سیڑھی پر قدم پاک رکھا تو آمین فرمایا، پھر (دوسری سیڑی پر) قدم مبارک رکھاتو دوبارہ آمین فرمایا، پھر (تیسری سیڑھی پر) قدم پاک رکھا تو پھر آمین فرمایا، پھر ارشاد فرمایا: میرے پاس جبریل امین (علیہ السلام) آئے تھے اور (جب میں پہلی سیڑھی پر چڑھا تو) انہوں نے کہا: جو شخص رمضان کا مہینہ پائے اور پھر اس حالت میں مر جائے کہ (رمضان کی عبادت کی وجہ سے) اس کی مغفرت نہ ہو سکے تو اللہ سبحانہ اسے اپنی رحمت سے دور کر دے، میں نے آمین کہا۔ (جب میں دوسری سیڑھی پر چڑھا تو) انہوں نے کہا: جو شخص اپنے ماں باپ دونوں کو یا کسی ایک کو پائے، پھر اس حالت میں مر جائے کہ (ان کی خدمت کی بنا پر) اس کی مغفرت نہ ہو سکے تو اسے بھی اللہ سبحانہ اپنی رحمت سے دور کر دے، میں نے آمین کہا۔ (جب میں تیسری سیڑھی پر چڑھا تو) انہوں نے کہا: جس شخص کے پاس آپ کا ذکر ہو اور وہ آپ پر درودپاک نہ پڑ ھے، اسے بھی اللہ سبحانہ اپنی رحمت سے دور کر دے۔ اس پر بھی میں سے آمین کہا‘‘ (معجم الاوسط ۸؍۱۱۳)

اس حدیث پاک سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ ماہ رمضان کی برکتوں سے محرومی کیسی شقاوت وبدبختی ہے، والدین کی عظمت ومرتبت اوران کے ساتھ حسن سلوک کا کیا مقام و مرتبہ ہے،اولاد کی سعادت یہ ہے کہ وہ اپنے بزرگ والدین کی دل سے خدمت کرکے اپنے آپ کو جنت کا مستحق بنالے ورنہ جواس سعادت سے محروم رہ جائے اسکی محرومی کا کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اللہ سبحانہ کو محبوب ہے اوروہ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والےبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا محبوب بنالیں ،ظاہر ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل کئے جانے والے کلام پاک اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوجواپنا محبوب نہ بنائے وہ بدبخت وشقی ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا عملی ثبوت یہ ہے کہ قرآن پاک کی آیات مبارکہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتوںپر عمل کرتے ہوئے جب بھی آپ ؐکا نام پاک زبان پر آجائے یا کسی سے سناجائےتوفوراً زبان سے درود و سلام کا وردجاری ہوجائے یہ آپؐسے محبت کی حقیقی پہچان ہے۔

الغرض روزہ کاثمریہی ہے کہ انسان ’’تخلقوا باخلاق الله‘‘ کا پیکر بنے، گوکہ اس کلام کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست نہیں کیونکہ یہ موضوع ہےتاہم اسے عربی زبان کاایک جملہ کہاجاسکتا ہے اس سےیہ مراد لیا جاسکتاہے کہ جیسے اللہ سبحانہ رئوف، رحیم، غفور و ودود ہیں ان جیسے صفات عالیہ انسانوں میںبھی ودیعت فرمائے گئے ہیں انسانوں کوبھی رأفت ورحمت ، الفت ومحبت، مروت وشفقت کا پیکر ہونا چاہیے۔ روزہ دار میں ایسے اوصاف عالیہ پیداہوجائیں یہی اس سے مراد لیا جاسکتاہے۔اللہ سبحانہ ماہ صیام کےبابرکت لمحات کی قدر کرنے کی توفیق رفیق نصیب فرمائے۔ (آمین)
٭٭٭