مذہب
ٹرینڈنگ

مبلغ اسلام مولانا محمد کلیم الدین صدیقی سے لڑکی کا حیران کن سوال! معاشرہ اپنی خوشیوں میں مگن

حال ہی میں مشہور ومعروف مبلغ اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب کا ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا جس میں انہوں نے شادی بیاہ میں بیجا اسراف، غیر شرعی رسومات اور مسلم والدین ولڑکیوں کی بے بسی و بے کسی کی درد ناک اور المناک داستان بیان کی ہے جو دیکھنے والے کی آنکھیں نم کرجاتی ہیں جو کچھ اس طرح ہے۔

محمد اسمٰعیل واجد
9866702650

متعلقہ خبریں
عورت کا حق میراث اور اسلام
یامنی جادھو نے ممبئی میں برقعے تقسیم کرنے کی مدافعت کی
آر ایس ایس قائد کی گرفتاری پر کرناٹک ہائی کورٹ کی روک

چند سال قبل بالی ووڈ کے مشہور پروڈیوسر ڈائرکٹر سنجے لیلا بھنسالی کی فلم آئی تھی جس کا نام ’’ گذارش ‘‘ تھا اس فلم کی کہانی ایک ایسے مریض کی تھی جو بستر مرگ پر ہے اور اپنی موت کا بے صبری سے انتظار کررہا ہے تاکہ اسے درد بھری زندگی سے چھٹکارا نصیب ہو لیکن موت اسے اپنی باہوں میں لینے تیار نہیں آخر کار وہ عدالت سے گذارش کرتا ہے کہ اسے مرنے کی اجازت دی جائے ۔

یہ تو ایک فلم تھی فلمی کہانی تھی لیکن حقیقی زندگی میں بھی کئی مریض اپنی موت کا انتظار کرتے کرتے تھک ہارگئے اور اپنی موت کی گذارش لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن انہیں انصاف ملا یا نہ ملا یہ ایک الگ موضوع ہے جس میں ہم کو جانا بھی نہیں ہے ۔

ایسا ہی کچھ حال ہمارے معاشرے کی ان غریب ماں باپ کی بیٹیوں کا ہے جو عمر کا ایک حصہ گذرجانے کے بعد بھی بن بیاہی بیٹھی ہیں جو اس کھوکھلے معاشرے کے بیجا رسومات، اسراف، جھوٹی شان و شوکت ، بڑ ے پیمانے پر ضیافت کا اہتمام ان کے والدین کے بس کے باہر ہے ۔ ایسے ایک دو نہیں ہمارے شہر کے ہزاروں گھرو ںمیں لڑکیوں کی عمریں بڑھ رہی ہیں اور لڑکیاں شادیوں کے انتظار میں بڑھاپے کی دہلیز کی طرف قدم بڑھارہی ہیں اور معاشرہ اپنی شان وشوکت کی حدود کو بھی پار کرکے غیر شرعی دھوم دھام کی شادیوں میں مصروف ہے بلکہ اس معاملہ میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی حد تک آگے بڑھتا جارہا ہے، معلوم نہیں کہ یہ مقابلہ آرائی کہاں جاکر تھمے گی ۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی مجبور لڑکیاں ارتداد کا شکار ہورہی ہیں، غیر مسلموں کی جائز یا ناجائز بیویاں بن بیٹھی ہیں ۔ یا غیر مسلموں سے معشوقہ بازی میں مصروف ہیں، اس بے راہ روی کاذمہ دار ہمارے معاشرے کو ہی ٹھہرایا جائے تو شائد غلط نہ ہوگا چونکہ معاشرے کے بیشتر افراد سنت کے مطابق شادیاں کرنا ہی نہیں چاہتے انہیں تو دھوم دھڑاکا، لین دین، بڑے پیمانے پر ضیافت، دکھاوا، بیجا اسراف ان کی اولین پسند ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی کمزوری ہوگئی ہے ایسے میں غریب، درمیانی خاندان ان حالات کا مقابلہ کرے تو آخر کیسے کرے ؟ اس سوال کے دائرے میں لڑکیوں کی عمریںبڑھتی جارہی ہیں اور ماں باپ فکر کے گھونٹ پی پی کر سوچ رہے ہیں کہ آخر ان کے بچیوں کی شادی کے مسائل کیسے حل ہوں گے؟

معاشرے کی رسمیں تو رسم منگنی سے شروع ہوتی ہیں جس میں لوازمات کی فرمائش بھی کی جاتی ہے شادی خانہ بھی بڑا ہو پھر پاؤں میز کی رسم، مانجھے، سانچق، باجے، گاجے کے ساتھ پھر شادی میں دھوم دھڑا کا ضروری ہوجاتا ہے۔لاکھوں روپئے کے پٹاخے پھوٹنے چاہیے، شادی خانے کے آسمان پر صرف دھواں ہی دھواں نظر آنا چاہیے چونکہ شادی صرف ایک بار ہوتی ہے ،ارمان جم کر نکلنا چاہیے، ان خرافات میں ہمارا معاشرہ بربادیوں کی طرف گامزن ہے اور اپنی بربادیوں کے ڈھول ہم خود پیٹ رہے ہیں ۔

حال ہی میں مشہور ومعروف مبلغ اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب کا ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا جس میں انہوں نے شادی بیاہ میں بیجا اسراف، غیر شرعی رسومات اور مسلم والدین ولڑکیوں کی بے بسی و بے کسی کی درد ناک اور المناک داستان بیان کی ہے جو دیکھنے والے کی آنکھیں نم کرجاتی ہیں جو کچھ اس طرح ہے ’’ایک لڑکی نے مجھے خطوط لکھے جب بھی میں ان خطوط کو پڑھا بلک بلک کر روتا رہا‘‘ بچی نے خط میں لکھا کہ چچا جان میں بڑی مشکل سے آپ کا پتہ تلاش کرکے یہ خط لکھ رہی ہوں ۔

ایک مسئلہ معلوم کرنا ہے اس لئے آپ کو زحمت دے رہی ہوں ۔ میرے والد صاحب جونیر ہائی اسکول میں سرکاری ٹیچر ہیں ۔ ہم چار بہنیں ہیں اور چاروں قبول صورت ہیں میری والدہ بیمار رہتی ہیں ۔ والد صاحب کی تنخواہ میں ہم بچوں کے اخراجات اور والدہ کے علاج میں ہی بڑی مشکل سے ہو پاتی ہے شادیوں پر جو مطالبات ہورہے ہیں میرے والد اسے پورا کرنے پر قادر نہیں اس کی وجہ سے چچا جان ہم اپنے والدین پر عذاب بن گئے ہیں میں نے کب سے اپنے والدین کو ہنستے نہیں دیکھا ۔ اور رات تہجد کی نماز کے بعد دعاء میں والد کی سسکیوں سے میری آنکھ کھل گئی ۔ والد صاحب اپنے رب کے سامنے فریاد کررہے تھے کہ رب کریم میری پھول سی بچیاں مجھ پر عذاب بن گئیں مجھے اس عذاب سے آپ کب نجات دیں گے ۔ چچا جان مسئلہ یہ ہے کہ کیا اب بھی ہمارے لئے خودکشی جائز نہیں ہے ؟ یہ مسئلہ دریافت کرنے کیلئے اس نے خط لکھا ۔

یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنے مضمون کے پہلے حصہ میں ’’گذارش ‘‘فلم کا ذکر کیا جس میں ایک مریض عدالت سے اپنی موت کی گذارش کرتا ہے ۔ اورآج ہمارے معاشرے کے بھی انتہائی زنگ آلود حالات ہوگئے ہیں کہ ہمارے معاشرے کی بچیاں ایک عالم دین کو خط لکھ کر اپنی اور اپنے والد کی درد ناک داستان سنا کر سوال کررہی ہیں کہ کیا اب بھی ہمارے لئے خود کشی جائز نہیں ہے ؟ ایک بیمار فرد میں اور ہمارے معاشرے میں کیا فرق رہ گیا یہ سب سے بڑا سوا ل ہے جس کا حل ہمارے معاشرے کے نوجوانوںکو عملی طور پر نکالنا ہوگا ۔ بیجا اسراف، غیر شرعی رسومات، شادی میں دھوم دھڑاکا، بڑے پیمانے پر ضیافت دکھاوا، لین دین کی دیواروں کو گراکر، سنت کے مطابق جس میں سادگی ہو، برکت والا نکاح ہو ۔ تب ہی ایک صالح معاشرے کا عمل شروع ہوگا ۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ صرف نوجوانوں میں شادی بیاہ کے معاملہ کو لیکر شعور بیدار ہوجائے اور وہ سادگی اور سنت کے مطابق نکاح کرنے کیلئے آگے بڑھیں اور معاشرہ تبدیلی کی طرف ایک قدم بڑھائے… اس میں والدین کی مرضی بھی ضروری ہے اور والدین کا یہ بھی فرض اولین ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سنت والے نکاح پر آمادہ کریں ،تب ہی جاکر ایک صالح معاشرہ تشکیل پائے گا اور کسی لڑکی کو کسی مبلغ اسلام سے یہ دریافت کرنے کی ضرورت ہرگز، ہرگز نہیں پڑے گی کہ کیا اب بھی ہمارے لئے خود کشی جائز نہیں ؟ اور کسی باپ کو اللہ تعالیٰ سے یہ کہنا نہ پڑے گا کہ رب کریم میری پھول سی بچیاں مجھ پر عذاب بن گئیں، مجھے اس عذاب سے آپ کب نجات دیں گے ۔
٭٭٭