مضامین

مسئلہ ارتداد۔- چند توجہ طلب باتیں

عظیم اللہ خان

ہم اپنے آپ کو تین چار سال پہلے لے کر جائیں، ملک کے حالات امت مسلمہ کے لیے انتہائی نا سازگار بنادئیے گئے تھے، جہاں ایک طرف تین طلاق کے مسئلہ کو لے کر شریعت میں مداخلت کرنے کی کوشش کی جارہی تھی، تو دوسری طرف NRC کے نام پر ہمیں ملک بدر کرنے کی سازشیں ہورہی تھیں اور پھر اسی دوران کالج میں لڑکیوں کے پردے پر پابندی کے مطالبات ہو رہے تھے، ایسے حالات میں جہاں لوگوں کے حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں، لوگ گھبرا جاتے ہیں، ایسے وقت میں ہم نے دیکھا کہ ملت کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں میدان میں آئیں ، اور ایسے جم گئیں کہ ایک تاریخ رقم کردی، پھر چاہے وہ تین طلاق کا مسئلہ ہو، یا پردہ پر پابندی کا یا NRC کا ان سب معاملات کا مقابلہ ملت کی ماو¿ں، بہنوں اور بیٹیوں نے کیا، اور ایسا کیا کہ حکومت کو جھک جانا پڑا، اور ان سب معاملات میں ہم نے دیکھا کہ کالجس میں پڑھنے والی ہماری بہنیں اور بیٹیاں پیش پیش تھیں، انھوں نے اپنی جانوں کی پروا نہیں کی، اپنے دین کے لیے اپنے حق کے لیے اور ملت کی بقا کے لیے انھوں نے ہر محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کیا، اور اس وقت ہم جو صرف سپورٹنگ کا رول نبھارہے تھے، ملت کی ان ماو¿ں، بہنوں اور بیٹیوں کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے، اور خصوصاً کالجس میں پڑھنے والی ہماری بہنوں اور بیٹیوں کی…. اور ہم ہی نہیں اس وقت پورا ملک ملت کی ان جانباز بیٹیوں کی بہادری اور لڑنے کے جذبہ کو دیکھ کر حیرت ذدہ تھا….
پھر اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ ملت کی یہ بہنیں اور بیٹیاں جن کے اسٹیٹس رکھتے رکھتے ہم تھک نہیں رہے تھے وہ ہمیں اسلام دشمن اور اسلام کو بدنام کرنے والی نظر آنے لگیں …. اس پر بہت سنجیدگی سے اور باریک بینی سے سوچنے کی ضرورت ہے…………
بات ہو رہی ہے لڑکیوں کے ارتداد کی۔ تعداد بتائی جارہی ہے دس لاکھ کی، ذرا ہم اپنی عقل تو استعمال کریں کہ کیا اچانک سے کچھ ہی دنوں میں اتنی لڑکیاں اپنے دین سے پھر گئیں …. کیا واقعی اس میں سچائی ہے یا پھر یہ سازش ہے کہ ملت کی ان بہنوں اور بیٹیوں کو جنھوں نے پچھلے دنوں دشمنان اسلام کو اور حکومت کو ناکوں چنے چبوادیے تھے، انھیں سب کی نظروں میں مجرم بناکر احساس کمتری میں مبتلا کرکے اتنا بزدل بنادیا جائے اور ڈرا دیا جائے کہ وہ گھروں سے باہر ہی نہ نکل پائیں، اور ان کے جن منصوبوں کو ملت کی ان بہنوں اور بیٹیوں نے ناکام بنا دیا تھا پھر آگے کبھی اس کے لیے وہ کھڑی نہ ہو پائیں… اس پر بھی سوچنے کی ضرورت ہے…
میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ حالات بالکل نارمل ہیں اور کچھ ہوا ہی نہیں ہے، ضرور اس وقت ایک سازش کے تحت ملت کی بیٹیاں نشانے پر ہیں اور بہت بڑی تعداد میں نہ سہی کم تعداد میں بھی اپنے دین کو چھوڑ دینا یہ بہت تشویشناک بات ہے اور ہم اس سے منھ نہیں موڑ سکتے، اسے ہمیں بہت سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے، اور اس کے لیے بہت مضبوط لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے…. لیکن اس کے ساتھ ہم جو اس وقت اس مسئلہ پر جذباتی ہوکر جو کچھ کر رہے ہیں، اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ کہاں تک صحیح ہے کہ ہم سوشل میڈیا پر ہر آنے والے ویڈیو اور مسیج کو پھیلا رہے ہیں، بغیر یہ جانے کہ اس کی حقیقت کیا ہے، اس کے پیچھے کیا سازش ہو سکتی ہے، اور پھر یہ کہ ہم اس مسئلہ کو لے کر اتنے جذباتی ہو گئے ہیں کہ ملت کی لاکھوں بیٹیوں کو ہم نے مجرم بناکر کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے، اور ہم ہر گھر سے باہر نکلنے والی لڑکی کو اسی نظر سے دیکھنے لگے ہیں، اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والی ہر لڑکی پر ہم شک کرنے لگے ہیں کہ یہ ضرور ہی ارتداد کا شکار ہوجائے گی… یہ کس حد تک صحیح ہے، اس کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے.. ہم یہ بات جانتے ہیں کہ آج بھی اس زمین پر سب سے با حیا، با اخلاق اور پاک باز لڑکیاں کوئی ہیں تو یہ امت مسلمہ ہی کی لڑکیاں ہیں، ایسے ماحول میں جہاں فحاشی اور عریانیت کا بازار گرم ہے، ایسے ماحول میں جہاں جسموں کی نمائش پیشہ بن گئی ہے، ایسے ماحول میں جہاں لباس برائے نام رہ گئے ہیں، ایسے ماحول میں جہاں عورت کو دل لبھانے والا کھلونا بناکر رکھ دیا گیا ہے، ایسے ماحول میں جہاں لڑکیوں کا بغیر بوائے فرینڈ کے تصور ہی نہ رہا ہو، ایسے خطرناک ماحول میں کوئی اپنی حیا، اپنی نسوانیت اور اپنے شباب کو بچائے ہوئے ہیں تو یہ امت ہی کی بیٹیاں ہیں،.. اور یہ بھی ایک چیز ہے جو دشمنان اسلام کو چبھ رہی ہے کہ ان کی اپنی بیٹیاں تو فحاشی اور عریانیت کے اس دلدل میں غوطے لگا رہی ہیں، ان کی اپنی بیٹیوں نے شرم و حیا کے لباس اتار کر پھینک دئیے ہیں، اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی اپنی بیٹیاں کتنی غیر محفوظ ہی.. انھیں یہ ڈر ہے بلکہ یقین ہے کہ ایک دن وہ آئے گا کہ ان کی یہ لڑکیاں ایسے ماحول سے نکل کر پر سکون ماحول کی تلاش کریں گی ، وہ تلاش کریں گی کہ کہاں ان کی حفاظت ہو سکتی ہے ، کہاں ان کو عزت مل سکتی ہے اور یقینا وہ اس تلاش میں اسلام تک پہنچیں گی اور اسلام کے تصور حجاب کو اور اسلامی تعلیمات کو اپنائیں گی ، یہی وہ ڈر ہے کہ انھوں نے مسلم لڑکیوں کے ارتداد کے مسئلہ کو اٹھایا، اور اسے ایک سازش کے طور پر بڑھا چڑھاکر اتنی تشہیر کی جا رہی ہے کہ غیر مسلم لڑکیاں یہ سمجھنے لگ جائیں کہ مسلم لڑکیاں خود اسلام سے کتنا تنگ آ گئی ہیں اور یہ سوچ کر وہ اسلام کے قریب بھی نہ جائیں گی، یہ بھی ایک سازش ہے اسے بھی ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے…
ان سب باتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہمیں اس پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے کہ ہماری کوئی لڑکی ارتداد کا شکار نہ ہو.. سب سے پہلے بحیثیت والدین‘ والدین کو اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا پڑے گا اور یہ کام کرنے پڑیں گے….
1) سب سے پہلے ہم اپنی بچیوں کی دینی تربیت پر توجہ دیں جس طرح ہم ان کی دنیا بنانے کے لیے فکر مند ہیں، اور ان کے بہتر مستقبل کے لیے اعلیٰ تعلیم دلاکر اعلیٰ عہدوں پر پہنچانا چاہتے ہیں تاکہ ان کی دنیا کامیاب ہوجائے، اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ توجہ کے ساتھ ہم ان کی آخرت بنانے کی فکر کریں، والدین اولاد کے حق میں جواب دہ ہیں، لہٰذا ان کی تربیت اسلامی خطوط پر کی جائے، ان کے اندر خوف خدا اور احساس جواب دہی پیدا کی جائے تاکہ برائیوں کے اس دور میں وہ اپنی حفاظت کر سکیں۔
2) اپنے گھروں میں ہم فیملی اجتماع شروع کریں، یہ بڑا المیہ ہے کہ ہم گھر کے سبھی افراد کے ساتھ بیٹھ کر ٹیلی ویژن پر بے ہودہ پروگرامس تو دیکھ سکتے ہیں، لیکن ان سب کو ساتھ لے کر فیملی اجتماع کرنے کا ہمارے پاس وقت نہیں ہیں۔ فیملی اجتماع وقت کی ضرورت ہے اس پر ہم توجہ دیں۔
3) ہم اپنے بچوں کو قرآن سے قریب کریں، انھیں قرآن کو باقاعدہ سمجھ کر پڑھنے کی تاکید کریں، بچیوں کو خصوصاً سورة النور ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھایا جائے۔
4) آج اس بات کی بھی بہت ضرورت ہے کہ والدین اور خصوصاً والد اپنی بچیوں سے کھل کر بات کریں، انھیں بتائیں کہ تم اپنے والدین کا بھروسہ ہو، اسے کبھی ٹھیس نہ پہنچانا، انھیں یہ بتائیں کہ تمہارا ایک غلط قدم تمہارے والدین اور تمہارے خاندان اور پوری امت مسلمہ کو شرمندگی میں ڈالنے کا باعث بنے گا، انھیں یہ بھی تاکید کریں کہ کسی بھی لڑکے سے دوستی حرام ہے، اور یہ بھی بتائیں کہ آج کیا سازشیں ہو رہی ہیں، اور پھر انھیں یہ بھی یقین دلایا جائے کہ تمہارے رشتہ میں ہم تمہاری منظوری کو فوقیت دیں گے…
4) آج بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی بچیوں کو دینی تحریکات سے وابستہ کریں، آج کے اس پر فتن دور میں دینی تحریکات ہی وہ واحد راستہ ہے جہاں ہم اپنی بچیوں کو اس ماحول سے بچا سکتے ہیں،دینی تحریکات میں بچیاں رہیں گی تو وہاں وہ دین کو سمجھیں گی، اخلاق سیکھیں گی، یہاں ان کے اندر خوف خدا اور احساس جواب دہی پیدا ہوگا، لہٰذا اس پر بھی توجہ دینا ضروری ہے۔
5) ویسے تو مخلوط تعلیم کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، لیکن اگر کوئی مجبوری کے تحت اپنی بچیوں کو مخلوط تعلیمی اداروں میں تعلیم دلا رہا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ خود اپنی بچی کی نگرانی کرے، جس شہر میں بھی وہ پڑھنے جارہی ہے وہاں خود رہے یا بچی کے بڑے بھائی اور ماں وغیرہ کو رکھیں، خود کالج لے جاکر چھوڑیں اور خود واپس لائیں، اکیلے ہوسٹل میں اور روم لے کر ہر گز نہ رکھیں۔ اس کی سہیلیوں کی پوری معلومات رکھیں۔
6) اول تو لڑکیوں کو اسمارٹ فون نہ دیں، کیونکہ آج یہ جو کچھ بھی ہورہا ہے موبائل ہی کی مہربانی ہے، اگر پڑھائی کے لیے دینا ضروری ہے تو موبائل پر خصوصی نظر رکھیں، وہ کس سے بات کرتی ہے، واٹس ایپ کی چیٹنگ کو دیکھیں اور جہاں تک ہو سکے رات میں موبائل اپنے پاس رکھیں۔
ہو سکتا ہے کہ ان باتوں کو بہت سے لوگ چھوٹی سوچ وغیرہ کہیں گے، لیکن یہ حالات کا تقاضا ہے کہ ہمیں ایسے قدم اٹھانے پڑیں گے۔
یہ تو ہوا والدین کی ذمہ داری، اب بحیثیت امت ہماری بھی کچھ ذمہ داری بنتی ہیں، جس کو ہمیں ادا کرنا چاہیے..
1) ہم اپنے عصری تعلیمی ادارے کھولیں، جہاں ہمارے قوانین چلیں، جہاں اخلاقیات کا خیال رکھا جائے، ممکن ہو تو لڑکیوں کے لیے علیحدہ تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں۔
2) خواتین اور لڑکیوں میں بیداری کے لیے، خصوصاً خواتین کے اجتماعات رکھے جائیں، اور اسی عنوان پر جمعہ کے خطبات رکھیں جائیں۔
3) ہر شہر میں کچھ لوگ ایسے متعین کیے جائیں جو رجسٹر آفس میں یا جہاں شادیوں کے نوٹس لگائے جاتے ہیں وہاں ہر روز جاکر چیک کریں کہ کہیں کسی مسلم لڑکی کا غیر مسلم لڑکے سے شادی کی نوٹس تو نہیں لگی ہے، اگر ایسا کچھ نظر آئے تو فوراً اس لڑکی کے گھر تک پہنچیں اور جیسے ممکن ہو ویسے اسے سمجھانے کی کوشش کریں، اور اسے اس کام سے باز رکھنے کے لیے جو طریقہ استعمال کر سکتے ہیں وہ کریں،..
یہ وہ چند باتیں ہیں جو موجودہ حالات کے حساب سے میں نے رکھی، جس پر ہمیں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے، ہماری بچیاں ہمارا مستقبل ہے، ان کے گودوں میں ہماری نسلیں پلنے والی ہیں، ان کا خیال رکھنا، ان پر توجہ دینا، ان کی صحیح تربیت کرنا ہماری ذمہ داری ہے، اگر ہماری یہ بیٹیاں اور بہنیں دین دار ہیں تو ان کے گودوں میں پلنے والی نسل بھی دین دار ہوگی، اور اگر یہ بے دین ہوگی تو آنے والی نسل بھی بے دین ہوگی،…
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہماری بچیوں کی اور آنے والی نسل کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭