سیاستمضامین

مسئلۂ بابری مسجد اور مسلمانان ہند

بابری مسجد کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد جس روش اور طرزِعمل کےمظاہرہ کا وقت متقاضی اور متمنی تھا اس کے برعکس ہم مسلمانان ہند اور مسلم قیادت نے بابری مسجد کو بھلادینے میں اپنی عافیت اور نجات سمجھی اور آہستہ آہستہ اس مسئلہ کو دبادینا چاہا اور کسی حد تک اسمیں کامیاب بھی ہوگئے اس بات کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ6 دسمبریوم شہادت بابری مسجد کو یوم سیاہ کی مناسبت سے ہونے والے احتجاجی جلسے ،جلوس،دعائیہ اجتماعات اب نا ہونے کے برابر ہیں پچھلے دو تین سالوں میں کسی بھی جماعت،پارٹی یا کوئی بھی نام نہاد مسلم تنظیم کی جانب سے اس ضمن میں کسی پروگرام کا نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ مسلم قیادت اور مسلمان دونوں اس معاملہ کو بھول چکے ہیں

ڈاکٹر ظل ھما بنت مولانا عبد العلیم اصلاحی ؒ

کسی ظلم ونا انصافی کے خلاف خاموشی اختیار کرنا اور اسکے خلاف آواز بلند نہ کرنا اس ظلم و نا انصافی اور درندگی کو معتبر بنا دیتا ہے۔ 6دسمبر یوم شہادت ِبابری مسجد کو پورے ملک میں کسی منظم احتجاج کا نہ ہونا اور خاموشی اختیار کرنا پوری مسلم قوم کی جانب سے اظہارِرضا مندی ہے کہ ہم ہر ظلم و ناانصافی کو پورے دل سے قبول کررہے ہیں پوری قوم مسلم کی خاموشی اس ظلم و ناانصافی کو معتبر کر رہی ہے ۔اس ضمن میں مسلمانان ہند کے رویہ اور طرز عمل کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ بابری مسجدکی شہادت کے بعد علماءو قائدین سمیت تقریبا ایک تہائی قوم نے بابری مسجد سے عملا دستبرداری اختیار کرلی تھی اور ہر قسم کی جدوجہد سے کنارہ کرلیا تھا جبکہ باقی لوگ عدالتوں کے ذریعہ انصاف کے طلبگار تھےجن کی ساری جدوجہد صرف عدالتی محاذ تک محدود تھی نتیجہ یہ نکلا کہ عدالت عظمی کے فیصلہ کے بعد باقی دو تہائی مسلمانوں نےبھی بابری مسجد سے دستبرداری اختیار کرلی حتی کہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے بھی اس معاملہ سے اپنے آپ کو الگ کرلیا ہے اب صورتحال یہ ہے کہ پورے ملک میں بابری مسجد کا نام لینے والا بھی کوئی نظر نہیں آتا ۔
حالانکہ شریعت کی رو سے کسی مسجد سے کوئی مسلمان کسی حال میں دستبردار نہیں ہو سکتا کیونکہ مسجد اللہ کی ملکیت ہوتی ہے اور ایک دفعہ جس جگہ مسجد بن جاتی ہے وہ جگہ فرش سے لیکر عرش تک مسجد ہوتی ہے چاہے اسکے درو دیوار سلامت ہوں یا نہ ہوں ۔شریعت کے اس قانون کی رو سے بابری مسجد مسجد تھی مسجد ہے اور تاقیامت مسجد ہی رہے گی لہٰذا مسلمانان ہند بھی اس شرعی موقف کو اختیار کرنے کے پابند ہونگے اسے محض ایک سرسری جملہ کے طور پر نہ لیا جائے بلکہ مسلمانان ہند کا یہی موقف ہونا چاہیئےاور پوری پامردی کے ساتھ اس شرعی موقف پر جمے رہنا ہوگا اسی کے ساتھ انھیں یہ بھی سمجھ لینا ہوگا کہ بابری مسجد کا مسئلہ صرف ایک مسجد کے انہدم کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ مسئلہ مسلمانوں کی غیرت اور اسلامی تشخص پر منصوبہ بند یلغار ہے۔لیکن افسوس کہ اس مسئلہ کی اہمیت اور حساسیت کا کسی کو احساس تک نہیں ہورہا ہےاور صورتحال کی سنگینی سے ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے اپنا دامن بچانے کی کوشش کر رہے ہیں جسکی وجہ سے ہر روز ہم ایک نئے مسئلہ سے دوچار ہو رہے ہیں اور کوئی مسئلہ بھی حل نہیں ہو پا رہا ہے اسطرح بے شمار لا ینحل مسائل کا انبار ہمارے سامنے موجود ہے جن کا حل کسی کے پاس نہیں ہے اور حالات بتا رہے ہیں کہ یہ مسائل روز بروز بڑھتے ہی جائیں گے ۔ان حالات میں بھی ایک طبقہ ابھی تک مسلمانوں کو اس خوش فہمی میں مبتلا کیئےہوئے ہے کہ اس ملک کے آئین یا عدالتوں کے ذریعہ ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے افسوس کہ بابری مسجد کی شہادت سے پہلے فرقہ پرست طاقتوں کی منظم مہم اور مسلم قیادت کا عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اندھا اعتماد، بابری مسجد کی شہادت کے بعد اس کا بار بار عدالتی قتل اور ناانصافیوں کی طویل داستان بھی ہم کو اس سسٹم کی دشمنی اور منافقت سے آشنا نہیں کراسکی ۔نہیں معلوم کہ اتنی نا انصافیوں کے بعد بھی اس سسٹم پر بھروسہ قوم مسلم کی مجبوری ہے ،یا ناعاقبت اندیشی !لیکن یہ بات پورے وثوق سے ضرور کہی جا سکتی ہے کہ بابری مسجد کے خلاف فیصلہ کو حتمی تصور کرنااور بابری مسجد سے دستبرداری اختیار کرلینا نہ صرف مسلم قیادت بلکہ پورے مسلمانان ہند کی بے غیرتی ،بزدلی اور غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔بابری مسجد کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد جس روش اور طرزِعمل کےمظاہرہ کا وقت متقاضی اور متمنی تھا اس کے برعکس ہم مسلمانان ہند اور مسلم قیادت نے بابری مسجد کو بھلادینے میں اپنی عافیت اور نجات سمجھی اور آہستہ آہستہ اس مسئلہ کو دبادینا چاہا اور کسی حد تک اسمیں کامیاب بھی ہوگئے اس بات کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ6 دسمبریوم شہادت بابری مسجد کو یوم سیاہ کی مناسبت سے ہونے والے احتجاجی جلسے ،جلوس،دعائیہ اجتماعات اب نا ہونے کے برابر ہیں پچھلے دو تین سالوں میں کسی بھی جماعت،پارٹی یا کوئی بھی نام نہاد مسلم تنظیم کی جانب سے اس ضمن میں کسی پروگرام کا نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ مسلم قیادت اور مسلمان دونوں اس معاملہ کو بھول چکے ہیں جبکہ مسلم تنظیموں اور جماعتوں کی جانب سےسال بھر مختلف عنوانات کے تحت کانفرنسیں،اجتماعات، سمپوزیمس ،ادبی نشستیں اور پروگرامس کا انعقاد کیا جاتا ہے لیکن بابری مسجد کےمسئلہ پر منہ سے ایک لفظ تک نہیں نکالا جاتا لہٰذا ہمارا احساس ہے کہ اصل مسئلہ حکومت کی بربریت، عدالتوں کی نا انصافیاں ،ہندوتوا تنظیموں کے خوفناک عزائم اور ان کے آقاؤں کی پشت پناہی نہیں بلکہ اصل مسئلہ بابری مسجد پر مسلم قیادت کی بے حسی اور مجرمانہ خاموشی کے ساتھ عام مسلمانوں کی بے تعلقی اور غفلت ہے۔
اس موقع پر اس ادراک کی ضرورت ہے کہ بابری مسجدکا مسئلہ ہندوستان میں ملت اسلامیہ کا سب سے بڑا مسئلہ ہے یہ مسئلہ ہندوستان میں مسلمانوں کے تمام مسائل کی جڑ ہے بلکہ اسی ایک مسئلہ میں مسلمانوں کے سارے مسائل ضم ہوگئے ہیں مسلمانوں کے ان گنت مسائل اگر حل ہوں گے تو اسی مسئلہ کے حل ہونے کی صورت میں حل ہونگے اگر یہ ایک مسئلہ حل نہیں ہوگا تو آئندہ بھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا جیسا کہ ستر سالوں میں ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہوا ہے اور یہ بات اظھر من الشمس ہوگئی ہیکہ یہ سسٹم اس مسئلہ کو حل کرنے میں بری طرح ناکام ہوگیا ہے لہٰذا اپنے مسئلہ کو حل کرنے کیلئے مسلمانوں کو خود کھڑا ہونا ہوگا اپنی مزاحمت خود پیدا کرنی ہوگی اپنا دفاع خود تیار کرنا ہوگا اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم قیادت اور عام مسلمان آنکھیں کھولیں اور حقائق کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہوئے مسلمانان ہند کی وحدت ،اسلامی تشخص کی برقراری ،مساجد و مدارس اور دیگر شعائر اسلام کے تحفظ اور ملت اسلامیہ ہند کی خود مختاری کی بحالی کے لیے ٹھوس اور مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں ورنہ کاشی متھرا سمیت نہ صرف تمام مساجد سے دستبردار ہونا پڑےگابلکہ عزت ا و ر ایمان کی زندگی سے بھی محروم ہونا پڑےگا اور دنیا میں بھی ذلت و رسوائی مقدر بنے گی اور آخرت میں بھی عذاب عظیم مقدر بن جائے گا ۔ بچاؤ کی صورت نہ یہاں ہوگی اور نہ وہاں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w