حیدرآباد: آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی، ایم آئی ایم) تلنگانہ قانون ساز اسمبلی کی 7 نشستوں پر اپنا اثر و رسوخ وقبضہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ماضی کے ریکارڈز اور ووٹنگ کا جائزہ لیا جائے تو مجلس، حیدرآباد کے پرانے شہر کے مسلم اکثریتی حلقوں میں ناقابل تسخیر دکھائی دے رہی ہے۔
ماضی کی طرح مجلس نے دوسروں سے پہلے اپنی انتخابی مہم شروع کی ہے۔ گذشتہ چند دنوں سے مجلس کے صدرو ایم پی حیدرآباد اسد الدین اویسی حالات حاضرہ کے عنوان سے عوامی جلسوں سے خطاب کررہے ہیں۔ جس کا مقصد عوام میں مجلس کی مقبولیت کو بڑھانا اور پارٹی کو عوام سے مزید قریب کرنا ہے۔
ان جلسوں کے دوران وہ عوام سے اپیلیں کررہے ہیں کہ وہ بدستور متحد رہیں اور اپنے سیاسی پلاٹ فارم کو بچائے رکھیں۔ اسد اویسی تواتر کے ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مجلس، قانون ساز اسمبلی میں عوامی مسائل اٹھائے گی اور ان عوامی مسائل کو حل کرے گی۔
اویسی کو قوی اعتماد ہے کہ بی جے پی تلنگانہ میں برسر اقتدار نہیں آئے گی۔ دلت برادری اور پسماندہ طبقات کے ہمارے ہندو بھائی امن چاہتے ہیں اور وہ تلنگانہ میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ حالات حاضرہ کے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اسد الدین اویسی نے یہ بات کہی۔
حیدرآباد کی سیاست پر مجلس کا دبدبہ گزشہ 4دہائیوں سے برقرار ہے۔ طاقتور سیاسی لہروں اور ریاست میں اقتدار کی تبدیلی کے باوجود مجلس کا مضبوط گڑھ پرانا شہر محفوظ رہا۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ تمام سیاسی لہریں۔ نیا پل پر رک جاتی ہیں۔ موسیٰ ندی پر موجود یہ پل (نیاپل) حیدرآباد کے پرانے اور نئے شہر کو آپس میں جوڑتا ہے۔
2014 میں تشکیل تلنگانہ کے باوجود یہاں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی اگر چیکہ اسد الدین اویسی کو آندھرا پردیش کی تقسیم پر تحفظات تھے مگرنئی ریاست تلنگانہ میں مجلس نے نئی سیاسی صورتحال سے خود کو ہم آہنگ کرلیا جبکہ تلنگانہ میں ٹی آر ایس کو غلبہ رہا۔
حلقہ لوک سبھا حیدرآباد اور مسلم اکثریتی 7 اسمبلی حلقوں پر مجلس کی گرفت ہنوز مضبوط ہے جبکہ2014 اور2019 انتخابات میں مجلس نے پس پردہ ٹی آر ایس کی حمایت کی۔ یہ دوستی اور چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی سیکولر امیج کے سبب ٹی آ رایس کو مسلمانوں کی حمایت حاصل ہوپائی۔ ریاست کی4کروڑ کی آبادی میں مسلمان12 فیصد ہیں۔
ریاست کے صدر مقام حیدرآباد اور دیگر اضلاع میں مسلمانوں کی کثیر آبادی ہے اور انہیں 119 رکن اسمبلی کے نصف حلقوں میں بادشاہ گر کا موقف رکھتے ہیں اور نصف حلقوں میں مسلمان، متوازن طاقت رکھتے ہیں۔
حیدرآباد کے 10 اسمبلی حلقوں میں مسلم ووٹوں کا تناسب 35سے60 فیصد ہے جبکہ ریاست کے دیگر50اسمبلی حلقہ جات میں مسلم رائے دہندے10تا40فیصد ہیں۔ حریف جماعتیں مجلس پر فرقہ وارانہ سیاست کا الزام عائد کرتے ہیں۔
کئی مواقع پر چیف منسٹر کے سی آر نے اپنے دوست وحیدرآباد ایم پی اسد الدین اویسی کی مدافعت کی کے سی آر کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ جمہوری انداز میں اسد الدین اویسی، مسلمانوں کو آئینی حقوق کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔
ان کی یہ جدوجہد یقینا لائق ستائش ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی، امیت شاہ اور بی جے پی کے سرکردہ قائدین، مجلس سے سیاسی تعلقات برقرار رکھنے پر چیف منسٹر کے سی آر کو تنقید کا نشانہ بناچکے ہیں۔ زعفرانی جماعت کے قائدین، مجلس کو رضا کاروں کی جماعت قرار دے چکے ہیں۔
1927میں مجلس کی داغ بیل ڈالی گئی جس کا مقصد سماجی، اقتصادی اور تعلیمی شعبہ جات میں مسلمانوں کو ترقی دینا ہے۔بی جے پی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسد الدین اویسی نے کئی بار کہا ہے کہ مجلس، ملک کے آئین پر یقین رکھتی ہے اور ان کی پارٹی اقلیتوں، دلتوں اور دیگر آئینی حقوق کیلئے جدوجہد کرتی رہے گی۔
مجلس نے پہلی بار1960 میں حیدرآباد بلدیہ کے2حلقوں پر کامیابی حاصل کی اس طرح مجلس، شہر میں اصل اپوزیشن کے طور پر ابھرنے لگی۔ 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں پارٹی کے2 ارکان پارلیمنٹ منتخب ہوئے ان میں حیدرآباد اور اورنگ آباد کے حلقہ شامل ہیں۔
ملک بھر میں فی الوقت مجلس کے10ایم ایل ایز ہیں۔ ان میں تلنگانہ کے7، مہاراشٹرا کے 2 اور بہار کا ایک ایم ایل اے شامل ہے۔ ہرسال17ستمبر کو سیاسی استحصال کرنے سے بی جے پی کو روکنے کی حکمت عملی کے تحت گزشتہ سال 17 ستمبر(سقوط حیدرآباد) کو مجلس نے پہلی بار یوم قومی یکجہتی کے طور پر منایا ہے۔