مضامین

مہاراشٹرا کا سیاسی منظرنامہ اور بے وقعت مسلمان

محمد ضیاءالدین

ملک کی ایک اہم ریاست مہاراشٹرا جس میں بمبئی جیسے شہر کی موجودگی کے سبب یہ ایک بین الاقوامی سطح کا درجہ رکھتی ہے کہ اگر دلی اس ملک کی سیاسی راجدھانی ہے تو بمبئی اس ملک کی معاشی راجدھانی ہے ایک کاسمو پولٹین شہر جو نہ صرف قومی سطح پر بلکہ اپنی گوناگوں خوبیوں کے سبب بین الاقوامی سطح پر اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے با وجود اپنی خوبیوں اور اپنی سیاسی و معاشی اہمیت کے یہ ریا ست آج کل سیاسی شورش سے متاثر ہے جب سے بھاجپا نے یہاں پچھلے دروازے سے سرکار بنائی ہے یہ ریاست غیر یقینی حالات کی زد میں ہے۔ ایک طرف اس ریاست کے اقتدار کے ہتیانے والوں کے سر پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی تلوار لٹک رہی ہے تو دوسری طرف حکومت کے ایک جز یعنی شیوسینا سے غداری کرکے بی جے پی سے جا ملنے والے گروپ کو عوامی ناراضگی کا سامنا ہے۔ شیوسینا سے بھاگے ہوے چالس ایم ایل ایز کے لیے موجودہ صورتحال جائے ماندن نہ پائے رفتن کی ہے کہ ان کے آگے کنواں ہے تو پیچھے کھائی اور ہر دو طرف انھیں اپنی موت نظر آرہی ہے کہ اپنی بے محابہ دولت کے سبب ای ڈی کا خوف دلا کر اور پیسوں و اقتدار کا لالچ دکھاکر انھیں شیوسینا سے توڑ تو دیا گیا اور اقتدار کی مسند پر بھی بٹھایا گیا لیکن انھیں یہ آرام دہ مسند کانٹوں کی سیج لگ رہی ہے کہ یہ اقتدار ابھی بھی ان کے ذہن میں چار دن کی چاندنی سے زیادہ نہیں اور یہ خوف ان کے سر پرمسلط ہے کہ نہ جانے کب اور کس لمحے اس اقتدار کی زندگی کی شام ہوجائے اوراگر ایسا ہوا تو وہ ان لوگوں کے بیچ کیسے جا پائیں گے جن کو اپنے اس اقدام کا جواب دینا ہے یہ وہ خوف ہے جو رات دن ان کے سر پر سوار ہے ان کی اس کیفیت سے اس سارے ڈرامے اور اس سازش کی ماسٹر ماینڈ بی جے پی بھی پریشان ہے کیو ں کہ بی جے پی کے لیے ان کی موجودگی بہت ضروری ہے ورنہ اس کے سارے کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا، اس صورت حال پر قابو پانے اور اس ریاست کے اکثریتی طبقے کے ذہن کو موڑنے کے لیے بی جے پی کے پاس ایک ہی تیر بہ ہدف نسخہ ہے اور وہ یہ کہ اس سارے معاملے کا رخ فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی کی طرف موڑ دیا جائے تاکہ ریاست میں نفرت کی لہر چلا کر لوگوں کو ان معاملات سے بھٹکا دیا جائے، بصورت دیگر شیوسینا کے ایم ایل ایز کی غداری کی آگ میں بی جے پی بھی جل کر بھسم ہوجاے گی ویسے بھی اس ریاست کی یہ بدترین روایت رہی ہے کہ یہاں اقتدار کے حصول کے لیے ایک طویل عرصے سے فرقہ وارانہ زہر پھیلایا جاتا رہا ہے جو ان فاشسٹ طاقتوں کے لیے سیاسی ٹانک کا کام کرتا رہا ہے۔ مہاراشٹر کی موجودہ حکومت بھی اسی راستے پر گامزن ہے اور اپنی بقاء کے لیے ریاست کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونکنے سے اسے دریغ نہیں۔ کسی زمانے میں شیوسینا اس ریاست میں ہندوتوا کی چمپئن تھی۔ یہ وہ دور تھا جب بی جے پی اپنی بقاء اور اقتدر میں حصہ داری کے لیے شیوسینا کے قدموں میں بیٹھنے پر مجبور تھی، وہ دور شیوسینا کے عروج کا دور تھا اور اپنی اسی مقبولیت کے زعم میں شیوسینا بی جے پی کو خاطر میں نہیں لاتی تھی بلکہ بال ٹھاکرے اس سے اپنے نوکروں جیسا سلوک کرتے تھے۔ بی جے پی اپنے معماروں کی فطرت کے مطابق توہین و تذلیل کے کڑوے کسیلے گھونٹ خاموشی سے پیتی رہی، لیکن جیسے ہی اس کو قوت ملی، اس نے اپنے پرانے حساب کتاب برابر کرنا شروع کردیا۔ ہندوتوا کی چمپئن شپ کے یہ دونوں دعویدار رہے اور مرکز میں اقتدار کا فائدہ اٹھاکر بی جے پی شیوسینا کو دھوبی پچھاڑ دینے میں کامیاب ہو گئی۔ اپنی چمپئن شپ ثابت کرنے کے لیے اب بی جے پی اسی روش پر چل رہی ہے، جس کا ساتھ شیوسینا چھوڑکر بھاگے ہوئے چالیس ایم ایل اے دے رہے ہیں تاکہ وہ عوام کو یہ باور کراسکیں کے کانگریس اور این سی پی کے ساتھ اقتدار میں شراکت داری کرکے شیو سینا ہندوتوا کا راستہ چھوڑ چکی ہے اور یوں وہ شیوسینا کی ہندوتوا کی سیٹ پر قابض ہونے کے لیے جتن کررہے ہیں۔ گوکہ یہ ساری لڑائی دو موزیوں کے بیچ ہے اور اقتدار کے حصول کے لیے ہے لیکن اس کی تان ٹوٹ رہی ہے مسلمانوں پر اور مہاراشٹر کا مسلمان چکی کے دو پاٹوں کے بیچ خوامخواہ پسا جارہا ہے۔جب کہ اس سارے قضیہ میں مسلمانوں کا کوئی عمل دخل ہے نہ کوئی کردار۔ اگر ادھو ٹھاکرے کی کانگریس و این سی پی کے گٹھ جوڑ سے حکومت بنی تھی تب بھی اس میں مسلمانوں کا دور دور تک پتہ نہیں تھا نہ جب یہ حکومت ٹوٹی تب کوئی رول۔ نہ تو مسلمانوں نے شیو سینا کے بھاگے ہوئے اراکین کو روکنے کی کوئی کوشش کی نہ ہی وہ ان بھاگے ہوئے شیوسینکوں کی بی جے پی کے ساتھ بننے والی حکومت کی راہ کا روڑا بنے۔ اس سارے منظرنامے میں مسلمان دور دور تک کہیں بھی نظر نہیں آتے۔ اس کے باوجود مہاراشٹرا کی موجودہ حکومت مسلمانوں کے لیے دشواریاں پیدا کررہی ہے، کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس ریاست میں اقتدار کی منزل کو مسلمانوں سے نفرت کی سیڑھی پر چڑھ کر ہی حاصل کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ جب تک مسلمانوں کے خلاف ماحول نہیں بنایا جائے گا اور مسلمانوں کی توہین و تذلیل کے مواقع فراہم نہیں کیے جائیں گے، وہ سیاسی فائدے سے محروم ہی رہیں گے۔
اب جب کہ موجودہ مہاراشٹر سرکار کو ممبئی میونسپل الیکشن کا سامنا کرنا ہے جس کا بجٹ ملک کی کئی ریاستوں کے سالانہ بجٹ سے زیادہ ہوتا ہے، وہیں آگے آنے والے پارلیمنٹ الیکشن بھی ہیں جن میں کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے یہ سارے پاپڑ بیلے گئے۔ ان کے لیے اپنے سیاسی فائدے کی خاطر مسلمانوں کو نشانہ بنانا ضروری ہے کہ اس کے بغیر ماحول گرم نہیں ہوتا، اسی لیے آج حکومت کی ایما یا سرپرستی میں کھل کر مسلمانوں کے خلاف زہر فشانی کی جارہی ہے اور مسلمانوں کو اشتعال دلا کر تصادم اور فرقہ وارانہ محاذ آرائی کے لیے میدان تیار کیا جارہا ہے تاکہ بڑے پیمانے پر ہونے والے فسادات کی آگ پر اپنے مفادات کی روٹیاں سینکی جا سکیں اور اس مقصد کے لیے مسلسل شرانگیزیاں کی جارہی ہیں۔ اس کے لیے مہاراشٹر سرکار نے ریاست کے دو اضلاع اورنگ آباد اور عثمان آباد کے نام کی تبدیلی کا حکم نامہ نکالا اور اورنگ آباد کو سمبھاجی مہاراج کے نام سے جب کہ عثمان آباد کو دھارا شیو سے بدل دیا کیونکہ یہ فرقہ پرست حکومت جانتی تھی کہ مسلمان ان ناموں کی تبدیلی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے تب ہندو فرقہ پرستوں کو ان کے خلاف اشتعال انگیزی کا بہانہ مل جائے گا۔ اب اگر مسلمان دستوری راستے کو اختیار کرتے ہوئے سرکار کو کوئی احتجاجی میمورنڈم پیش کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاے گا کہ یہ ان ہی کے خلاف ہے جو یہ صورت حال پیدا کررہے ہیں، دوسری بات یہ کہ اگر مسلمان اشتعال میں آکر جوابی کارروائی کرتے ہیں تو فسادی اور پولیس کا گٹھ جوڑ انھیں ہر طرح سے تباہ و تاراج کرنے کے لیے تیار ہے اور یوں مسلمانوں کو دیوار سے لگا دیا ہے کہ وہ ہر طرح سے مجبور ہوکر رہ گئے ہیں پھر و ہ درگاہوں کی بے حرمتی ہو یا ریاستی اسمبلی میں ایک وزیر کی جانب سے لو جہاد کے بے بنیاد عنوان پر کی گئی ہرزہ سرائی ہو یا سکل ہندو سماج کے مورچہ کے نام پر نکلنے والے بڑے بڑے جلوس ہوں جن میں کھلے عام مسلمانوں کو گالیاں دی جارہی ہیں، دھمکیاں دی جارہی ہیں، ان کی لڑکیوں کے دھرمانترن اور غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کرنے کی تشہیر کی جارہی ہے۔ اورنگ زیب کے نام پر ذہنی اذیت دی جارہی ہے۔ اورنگ زیب کی قبر کھود نے اور اورنگ زیب کی قبر پر پیشاب کرنے کی مذموم بیان بازی کی جارہی ہے۔ دیگر ریاستوں سے راجہ سنگھ، سریش چوہان کے اور دیگر فرقہ پرست اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والوں کو زہر افشانی اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کے لیے بلایا جارہاہے اور یہ سب اس لیے ہورہاہے کہ حکومت ان کے ساتھ ہے۔
دوسری طرف مسلمان ہیں جو بحالت مجبوری زہر کے یہ گھونٹ پینے پر مجبور ہیں، کیوں کہ وہ کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ریاست میں مسلمان کم ہیں۔ اس ریاست میں ان کی تعداد بارہ فیصد سے زائد ہے، پھر بھی وہ مجبور و بے دستو پا ہیں۔ آئے دن کی شرانگیزیوں کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں کہ ان کا کوئی سیاسی وزن نہیں، ان کی کوئی مضبوط قیادت نہیں، ان میں اتحاد نہیں، منافقوں اور ابن الوقتوں کی بھر مار ہے۔ مسلمانوں کے حالات سے کسی کو بھی کوئی سروکار نہیں، سب اپنی اپنی مصروفیات میں مگن ہیں۔ یوں تو دینی طبقہ بھی ہے جس کے وجود اور فروٖغ کا سارا دارومدار اسی ملت پر ہے، لیکن اس کی دنیا ہی کچھ اور ہے، ان کے تذکروں میں کہیں بھی حالات حاضرہ کا ذکر نہیں، مسلمانوں کو ہونے والی قلبی و ذہنی اذیت کے احساس کا ان کے رویے سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ سیاسی قیادت کے نام پر بھی سوائے صفر کے کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ ہماری سیاسی قیادت ایک سازش کے تحت کبھی کی ختم کردی گئی اب جو مختلف جماعتوں میں قیادت کے نام پر موجود ہیں وہ صرف سیاسی دلال ہی کہے جاسکتے ہیں کہ وہ اپنے سیاسی آقاوں کی چشم و ابرو کے اشارے پر چلنے پر مجبور ہیں، کیوں کہ ان کے اپنے کاروبار ہیں، جائز بھی ہیں اور ناجائز بھی جو ان ہی سیاسی آقاؤں کے مرہون منت ہیں اور ان کی بقاء و فروغ کے لیے ان کا رسی سے بندھے رہنا ضروری ہے اور یہ بھی تو ہے کہ ان میں کوئی ملی و سماجی شعور بھی نہیں۔ یہ ملت کی با شعور قیادت کو ختم کرنے کے لیے لادے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف وہ ہیں جو ملت کی اس زبوں حالی و کشمکش کو جذباتی رنگ دے کراپنا الو سیدھا کرتے ہیں، یہ وہ عناصر ہیں جو دین دھرم کے نام پر لوگوں کا جذباتی استحصال کرتے ہیں اور بے محل نعرہ تکبیر بلند کرتے ہیں جبکہ شاعر کہتا ہے کہ ناحق کے لیے ہو تو نعرہ تکبیر بھی ہے فتنہ، لیکن ان کو اپنا الو سیدھا کرنا ہے، نتائج و عواقب سے ان کو کیا لینا دینا یوں تو مسلمانوں کا پڑھا لکھا طبقہ بھی ہے جس کی تعداد بھی کم نہیں لیکن ان حالات میں اس کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں، بہت کیا تو اپنے کسی دوست کے سامنے حالات کی سنگینی پر اظہار تشویش کردیا اور بس اللہ اللہ خیر صلی۔مسلمانوں کے نوجوان طبقے کی ایک بڑی تعداد وہ ہے جو موبایل سے چپکی اپنی راتیں فضولیات میں غارت کررہی ہیں، ایک وہ طبقہ ہے جو مفادات کا بندہ اور مفت کے حصول کا خوگر ہے یہ ان سیاسی لوگوں کے لیے نرم چارہ ہے جو اپنی حرام کمائی بے محابا خرچ کر سکتے ہیں جو ایسے نوجوانوں کو گھیرتے ہیں کیوں کہ ان کا نہ کوئی سیاسی نہ ہی سماجی شعور ہے نہ کوئی نظریہ یا مقصد حیات۔ جماعتوں، اداروں تنظیموں کی کوئی کمی نہیں لیکن زیادہ تر کاغذی یا پھر بے فیض۔ سماج کا ایک بڑا طبقہ وہ ہے جو محنت مزدوری کے ذریعہ اپنا پیٹ پالتا ہے، یہ تعلیم تربیت سے عاری چھوٹے چھوٹے مفادات کی تکمیل کے لیے دین و ایمان کو تج دینے والا، الیکشن کے موقع پر پیسہ لے کر ووٹ دینے والا، ان کے علاقے اخلاقی برایوں کے اڈے، ان کے پیش نظر صرف آج ہے، ان کو حالات حاضرہ کا کوئی شعور ہے نہ اس سے کوئی لینا دینا نہ انھیں اس کی خبر ہے کہ پانی کہاں تک آچکا ہے یا یہ کہ کہاں تک آئے گا، غرض ایک طرف وہ قوتیں ہیں جن کو ہمارا وجود ہی گوارا نہیں، ہم کو دی جانے والی تکلیف کا فائدہ انھیں اقتدار و اختیار کی شکل میں مل رہا ہے، دوسری طرف ہم ہیں جو بے دست و پا ہیں، وہیں ہماری عقل بھی گم ہوچکی ہے اور ہم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوگئے ہیں اور شاید اسی سبب ہم بے وقعت ہوچکے ہیں۔
٭٭٭