مذہب

بیوی کانفقہ :احکام ومسائل

شریعت نے کسی زندگی کی بقاء کے لئے جو خرچ ضروری قرار دیا ہے اس کو نفقہ کہتے ہیں، اور انسان کے لئے کھانے پینے کا سامان، کپڑا اورمکان نفقہ ہے۔

قاضی محمدفیاض عالم قاسمی
فون نمبر: 8080697348

شریعت نے کسی زندگی کی بقاء کے لئے جو خرچ ضروری قرار دیا ہے اس کو نفقہ کہتے ہیں، اور انسان کے لئے کھانے پینے کا سامان، کپڑا اورمکان نفقہ ہے۔عقد نکاح کی وجہ سے عورت خاوند کے لیے مشغول ہوجاتی ہے، اس لیے خاوند پرواجب ہے کہ وہ اس کے بدلے میں اس پرخرچ کرے۔ بیوی کی ضروریات پوری کرنا مثلا کھانا ، پینا ،کپڑا،گھر کے ضروری ساز و سامان، رہائش، علاج ومعالجہ اوربوقت ضرورت خادم وغیرہ ، یہ سب کچھ نفقہ میں شامل ہے اورعرف کے مطابق خاوند کے ذمہ واجب ہے۔ (ردالمحتار: ۳/۵۷۲، الفقہ الاسلامی وادلتہ: ۱۰/۷۳۴۹ش، مجموعہ قوانین اسلامی:دفعہ نمبر:۱۶۱)

زیب وزینت اورگھریلوسامان نفقہ میں شامل ہے:

عورت کی زیب وزینت اورگھرکے ضروری ساز وسامان کا انتظام کرنا شوہر پر لازم ہے۔ جیسے کچن کے سارے برتن، پلنگ، بیڈ، بستر، کبارڈ، ٹیبل، کرسی، واشنگ مشین، گیس، چولھا وغیرہ حتیٰ کہ تیل،کنگھی،آئینہ شیمپو اور صابن وغیرہ کی بھی فقہاء کرام نے صراحت کی ہے کہ ان سب چیزوں کاانتظام کرنامرد پر لازم ہے۔ (ردالمحتار: ۳/۵۸۰)

اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے،ترجمہ: اورجن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان عورتوں کا روٹی کپڑا اوررہائش دستور کے مطابق ہے۔(سورۃ البقرۃ:۲۳۳) اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا،ترجمہ:اورکشادگي والا اپنی کشادگي میں سے خرچ کرے اورجس پر رزق کی تنگی ہو اسے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرنا چاہيے (الطلاق: ۷)

حضرت حکیم بن معاویہ قشری اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے پوچھااے اللہ کے رسول! بیوی کاکیاحق ہے؟ تو آپؐ نے جواب دیاکہ جب تم کھاؤ اسے بھی کھلاؤ، جب تم پہنو تو اسے بھی پہناؤ،اس کے چہرہ پر نہ مارو،اس کوبرانہ جانو، اور اسے صرف گھر ہی میں رکھاکرو۔(سنن ابوداؤد،حدیث نمبر: ۲۱۴۲)

نفقہ کب واجب ہوتاہے؟

بیوی کانفقہ شوہر پر واجب ہونے کےلئے نکاح کاصحیح ہونا ضروری ہے، پس اگر نکاح باطل یافاسد ہو، تو نفقہ واجب نہیں ہوگا۔ خواہ شوہر مالدارہویافقیر، تندرست ہو یا مریض، بالغ ہو یا نابالغ، اسی طرح بیوی خواہ مسلمان ہو، یا کتابیہ ہو، بالغ ہو یاقابل وطی نابالغ، تندرست ہو یامریض، بہرحال اس پر بیوی کانفقہ واجب ہوگا۔ (ردالمحتار:۳/۵۷۴)

جب بیوی میکہ میں رہے:

اگر نکاح ہوگیا، لیکن ابھی رخصتی نہیں ہوئی توبھی بیوی کا خرچہ شوہرپرواجب ہوگا، ہاں اگر شوہرنے رخصتی کی کوشش کی اوروہ کسی جائز حق مثلانقدمہر کی ادائیگی کی وجہ سے، یا شوہر کے یہاں گھر کاانتظام نہ ہونے کی وجہ سے، یاشوہر کے موجودنہ ہرنے کی وجہ سے سسرال رخصت ہوکرنہیں گئی تو پھر خرچہ واجب نہیں ہوگا۔

اگر بیوی کی بیماری، تعلیم، نوکری،بیوی کے گھر میں کسی کی شادی وغیرہ کی وجہ سےاس کی رخصتی نہیں ہوئی تو اگر شوہراس پرراضی ہے تو خرچہ واجب ہوگا،اوراگر راضی نہیں ہے توخرچہ واجب نہیں ہوگا۔

اگرخصتی کے بعد بیوی اپنے میکہ میں شوہرکی اجازت سے رہے تو اس کاخرچہ شوہرپرواجب ہوگا۔اوراگر بغیر اجازت کے رہ رہی ہے تو خرچہ واجب نہیں ہوگا۔(درمختار مع ردالمحتار: ۳/۵۷۵)

اگر بیوی مالدارہے یانوکری کرتی ہے:

اگر بیوی مالدارہے اوراس کے پاس مال ہےتو بھی خاوند کے ذمہ نفقہ واجب ہوگا۔البتہ اگروہ نہ لے تو یہ الگ بات ہے۔ (درمختار مع ردالمحتار:۳/۵۷۴)

اگربیوی نوکری کرتی ہے جس سے شوہر راضی ہےخواہ کل وقتی نوکری کرے یاجزء وقتی، شوہر کو پوراوقت دے پاتی ہو یانہ دے پاتی ہو، چوں کہ شوہربیوی کے اس عمل پر راضی ہے، اس لئے اس کاپورا نفقہ اس پرپوراواجب ہوگا۔

اگرعورت کے نوکری کرنے کی وجہ سے شوہر کوبالکل بھی وقت نہیں دے پاتی ہے،اورشوہر راضی بھی نہیں ہے،تو اس کا نفقہ شوہر پر واجب نہیں ہوگا۔

اگر دن بھر وقت نہیں دے پاتی ہے، صرف رات بھر دیتی ہے تودن بھرکانفقہ اس کے شوہر پر واجب نہیں ہوگا، رات کانفقہ واجب ہوگا۔البتہ اگر دن کے کچھ حصہ میں نوکری کرتی ہے، جس سے شوہر کا کوئی حق متاثر نہیں ہوتاہے تو نفقہ کی مستحق ہوگی۔(ردالمحتار:۳/۵۷۷)

واضح رہے کہ جب عورت دن میں نوکری کرے، اور رات میں شوہر کو وقت دے توبہت سارے علماء کرام کہتے ہیں کہ سپردگی مکمل نہ پائے جانے کی وجہ سے نفقہ واجب نہیں ہوگا۔ (ردالمحتار: ۳/۵۷۷)

بیوی کاعلاج کون کرائے؟

فقہاء متقدمین کے نزدیک بیوی اگر بیمارہوجائے تواس کا علاج کراناشوہرکے ذمہ واجب نہیں، دراصل اُس زمانہ میں اولاً بیماری ہی کم ہوتی تھی، ثانیا عام طورپرجڑی بوٹی سےعلاج ہوتا تھا، جو مفت یابہت ہی کم قیمت میں جڑی بوٹی مل جاتی تھی، اور عورت کے پاس بھی کچھ نہ کچھ رقم ہوتی تھی جس سے وہ اپنا علاج خود کراتی تھی، لیکن فی زمانہ بیماریاں بہت بڑھ گئیں ہیں، اور علاج مہنگاسے مہنگاتر ہوتا جارہا ہے، مناسب اورصحیح علاج پر ہی پر زندگی کی بقاءمنحصر ہے، اس لیےجمہور علماء متاخرین نے نفقہ کی تعریف میں بیوی کے علاج کو بھی شامل فرمایا ہے۔ (ردالمحتار: ۳/۵۷۲) (مباحث فقہیہ: از قاضی مجاہدالاسلام قاسمی، مجموعہ قوانین اسلامی:۱۷۲)

نفقہ میں شوہرکی مالی حالت کالحاظ کیاجائے گایابیوی کی حیثیت کا؟

خرچہ شوہر کی مالی حالت اوربیوی کی حیثیت اوراس کے اخراجات دونوں کالحاظ کرتے ہوئے ادا کرنا ضروری ہے۔ (ہدایہ: ۲/۲۸۵،درمختار:۳/۵۷۴)

جوائنٹ فیملی میں جہاں پر اجتماعی کھانے پینے کانظم ہو، اور بیوی کو کھانےپینے کااختیارہوتو الگ سے نفقہ کے مطالبہ کا حق نہیں ہوگا۔البتہ اگر کھانے پینے میں دشواری ہو، یا بیوی کو اپنے اختیار سے کھانے پینے کاموقعہ نہ ملتاہو، یا جو کھانا بنتاہے وہ بیوی کے لئے نقصاندہ ہو، یا کھانا اس کے مزاج کے موافق نہ ہو تو پھر ایسی صورت میں بیوی کے لئے الگ کھانے پینے کا انتظام کرناضروری ہوگا۔ (البحر الرائق: ۴/۱۸۸مجموعہ قوانین اسلامی: ۱۷۵)

ڈیلیوری کے اخراجات کن پر؟

ڈیلیوری یعنی بچہ کی ولادت کے موقعہ پر ہونے والے سارے اخراجات خواہ پہلابچہ یادوسرا ،مکمل طورپرشوہرپر واجب ہوتے ہیں۔اس سلسلے میں عرف یا رسم ورواج کا لحاظ نہیں کیاجائے گا۔ (درمختار: ۳/۵۷۹)

گزشتہ دنوں کانفقہ:

اگر شوہر نے ایک زمانہ تک خرچہ نہیں دیا، عورت گزرے ہوئے دنوں کے نفقہ کامطالبہ نہیں کرسکتی ہے، البتہ اگر دونوں میاں بیوی نے باہمی رضامندی سے نفقہ متعین کررکھاتھا یا قاضی یا جج نے نفقہ متعین کیاتھا تو پھر گزرے ہوئے دنوں کے نفقہ کامطالبہ کرنادرست ہے، کیوں کہ ایسی صورت میں وہ شوہر پر قرض ہوجائے گا۔ (ہدایہ: ۲/۲۸۷)

مطلقہ کانفقہ:

جو عورت طلاق کی عدت گزاررہی ہے اس کاخرچہ بھی شوہر پر واجب ہوتاہے۔(ہدایہ:۲/۲۹۰)البتہ جب عدت گزر گئی تو پھر اس کانفقہ اس کے شوہر پر واجب نہیں ، اگر شوہر ازخود دے تو احسان عظیم ہوگا۔ مگر عورت کے لئے زورزبردستی یا کورٹ وغیرہ کے ذریعہ نفقہ حاصل کرناجائز نہیں ہے، ایسانفقہ اجنبی سے نفقہ حاصل کرنے کے مرادف ہے۔ جو درست نہیں ہے۔

کیابیوی کانفقہ اس کے سسر پر واجب ہوتاہے؟

بیوی کاخرچہ شوہرپر واجب ہوتاہے، شوہر کے باپ پر نہیں۔ اگر اداکرے تو احسان ہے، ثواب ملے گا۔البتہ اگر شوہر نابالغ ہے، یا قدرتی طورپرکمانے سے عاجز ہے، اس کے پاس مال نہیں ہے، باپ نے اس کو اپنے ساتھ میں شامل کر رکھا ہے، پس جس طرح شوہر کاخرچہ باپ نے اپنے اوپر لازم کر رکھا ہے، اسی طرح اس کے بیٹے کی بیوی کاخرچہ بھی اسی پر واجب ہوگا۔ (درمختار:۳/۵۷۳)

نفقہ کب ساقط ہوتاہے اورکب نہیں؟

اگر بیوی ناشزہ ہوجائے تو نفقہ ساقط ہوجاتاہے۔ ناشزہ ہونے کامطلب یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو شوہر کے سپر د نہ کرے، یا شوہرکے گھرسے بلااجازت کہیں چلی جائے، یا شوہر کو اپنے گھر میں داخل ہونے نہ دے۔ وغیرہ۔ (درمختار مع ردالمحتار: ۳/۵۷۶) البتہ اگربیوی شوہرکے ظلم وستم سے تنگ آکر میکہ آگئی ہو تو اس کا خرچہ اس کے شوہر پر واجب ہوگا، چاہے وہ بغیراجازت کے آئی ہو۔(مجموعہ قوانین اسلامی:دفعہ نمبر:۱۶۷)

اگر بیوی میکہ میں ہو، شوہر نے رخصتی کرانے کی کوشش کی، مگر بیوی نہیں آئی، تو ایسی صورت میں نفقہ ساقط ہوجائے گا۔اگر شوہر نے کسی غیرمحرم مثلا اپنے بھائی، بہنوی وغیرہ کو رخصتی کرانے کے واسطے بھیجا ،مگر بیوی نہیں آئی تو نفقہ ساقط نہیں ہوگا۔

شوہر نے فون کرکے اطلاع دی کہ میں اپنی بیوی کو لے جانے کے لئے آرہاہوں، بیوی نے ہامی بھرلی، شوہرنہیں آیا، تو نفقہ واجب رہے گا، اگربیوی نے آنے سے منع کردیا تو نفقہ ساقط ہوجائے گا۔اگر بیوی سے بات چیت نہیں ہوسکی، بلکہ اس کے والدین یااس کے بھائی بہن نے آنے سے منع کردیاتو عرف کا لحاظ کرتے ہوئے نفقہ ساقط ہوجائے گا، بشرطیکہ اس کی اطلاع عورت کو بھی ہوئی ہو، ورنہ محض والدین یابھائی بہن کے منع کردینے سے نفقہ ساقط نہیں ہوگا۔

اگر شوہر نے رخصتی کرانے کی کوشش کی، مگر چونکہ سسرال میں مکان قابل رہائش نہیں تھا،یانفقہ کی تکلیف تھی، یاوہاں پر عورت پر ظلم وستم ہوتاتھا، اس لئے اس نے سسرال جانے منع کردیا تو نفقہ ساقط نہیں ہوگا۔ (درالمختار: ۳/۵۷۷)

اگر بیوی اپنے شوہرکو صحبت کرنے نہ دے تو ناشزہ نہیں ہوگی اورصرف اس وجہ سے اس کانفقہ بھی ساقط نہیں ہوگا۔ (ردالمحتار: ۳/۵۷۶)

اگر ناشزہ ہونے یانہ ہونے میں اختلاف ہوجائے؟

اگر اس بارے میں اختلاف ہوجائےمثلا شوہرکہے کہ بیوی ناشزہ ہے، اس لیے نفقہ کی مستحق نہیں ہےاوربیوی کہے کہ وہ ناشزہ نہیں ہے، اورنفقہ کی مستحق ہے، یا شوہر کہے کہ نفقہ ساقط ہوچکاہے اوربیوی کہے کہ نفقہ ساقط نہیں ہواہے،تو ایسی صورت میں معاملہ کسی قاضی کی خدمت میں پیش کرناضروری ہے، وہ طے کریں گے، کہ آیاوہ ناشزہ ہے یانہیں؟اور کیا نفقہ ساقط ہوچکا تھا یا نہیں؟

اگر بیوی نفقہ معاف کردے:

اگربیوی آنے والے دنوں کا نفقہ معاف کردے تو معاف نہیں ہوگا،البتہ جس دن اس نے نفقہ معاف کیاصرف اسی دن کانفقہ معاف ہوجائے گا۔یعنی معاف کرنے کے باوجود دوسرےدن اس کو مانگنے کاحق رہے گا۔ کیوں کہ نفقہ شیئا فشیئا یعنی روزانہ کانفقہ روزانہ واجب ہوتاہے۔پس اگلے دن کانفقہ ابھی واجب ہی نہیں ہواہے تو معافی کیسی؟ پس جس دن معاف کیا، صرف اس دن کامعاف ہوا، اس سےاگلےوالے دن کامعاف نہیں ہوگا۔(بدائع الصنائع: ۴/۲۹)

اگر میاں بیوی نے از خود نفقہ متعین کررکھاتھا یا قاضی، جج، پنچائت کے ذریعہ نفقہ متعین تھا ، مگر شوہر نے ادانہیں کیا، لیکن بیوی اس کو معاف کرناچاہے تو معاف کرسکتی ہے۔ ایسی صورت میں معاف ہوجائے گا۔ (بدائع الصنائع:۴/۲۹)

بیوی کے لئے رہائش کا انتظام:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے،ترجمہ: تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہووہاں اُن عورتوں کو رکھو۔ (سورۂ الطلاق ۶) اس آیت میں مطلقہ عورتوں کا حکم بیان کیا جاررہا ہے کہ عدت کے دوران ان کی رہائش کا انتظام بھی شوہر کے ذمہ ہے۔ جب شریعت نے مطلقہ عورتوں کی رہائش کا انتظام شوہر کے ذمہ رکھا ہے تو حسب استطاعت بیوی کی مناسب رہائش کی ذمہ داری بدرجہ اولیٰ شوہر کے ذمہ ہوگی۔

شوہرپر ایسی رہائش کاانتظام کرناضروری ہے، جو بیوی کے لئے خالص ہو،جس میں اس کاساز وسامان ہو، اس کی چابی بھی اسی کے پاس ہو ،نیزاس میں شوہرکے رشتہ داروں میں کوئی بالغ مرد یاعورت نہ رہے۔ رہائش کاانتظام میاں بیوی دونوں کے حالات کے مطابق کیاجائے گا۔ (ابن عابدین: ۳/۵۹۹)

جب بیوی جوائنٹ فیملی میں رہنانہ چاہے:

جوائنٹ فیملی میں بعض دفعہ بیوی کو تکلیف ہونے لگتی ہے، شوہر کے رشتہ دارمثلاًاس کی ماں بہن وغیرہ ستاتی ہیں، ایسی صورت میں بیوی الگ مکان کامطالبہ کرسکتی ہے؛لیکن اگر بیوی نے صبر وقناعت سے کام لیاتواسے بہت ثواب ملے گا۔ (ہندیہ: ۱/۵۵۶،فتاویٰ قاضیخان:۲۰۹)

بیوی کااس کے نام پر مکان لینے کامطالبہ کرنادرست نہیں۔کیوں کہ بیوی کی رہائش کاانتظام کرناواجب ہے، خواہ کرایہ کےذریعہ ہویا ذاتی مکان ہو۔البتہ اگر شوہر بیوی کے نام پر کوئی مکان خریدتاہے تو اس بات کی صراحت کردے کہ کیا وہ صرف اس کے نام پر لے رہاہے یا خریدکربیوی کو ہدیہ کر رہا ہے، یا صرف رہنے کے واسطے دے رہاہے۔تاکہ بعد میں جھگڑے کاسبب نہ بنے۔

اگر شوہربیوی کانفقہ ادانہ کرےتو؟

اگر شوہر بیوی کے اخراجات نہیں دیتاہے یااس میں کمی کرتا ہے تو اپنی اوراپنی اولاد کے خرچے کو پورا کرنے کے لئے شوہر کی اجازت کے بغیر بھی اس کے مال سے لےسکتی ہے۔ ایسی صورت میں وہ دارالقضاء میں بھی معاملہ درج کرسکتی ہے تاکہ اس کو شوہر کو نفقہ اداکرنے کاحکم دیا جائے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ حضرت معاویۃ رضی اللہ عنہ کی ماں ہند بنت عتبہ نے اپنے شوہرسفیان رضی اللہ عنہ کے بخل کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی اورآپ نے فرمایا: اتنا مال لے لیا کرو جو تمہارے اور تمہاری اولاد کے لئے کافی ہو۔(صحیح بخاری:۲۲۱۱)

اگر شوہرکے پاس مال نہ ہوتو؟

اگرشوہر کے پاس مال نہ ہو تواسے کمانے اوربیوی پر خرچ کرنےکے لئے کہاجائے گا، اگر وہ کمانا اوربیوی پر خرچ کرنا شروع کردےتوالحمدللہ ورنہ عورت یاتوصبر کرے، یاپھر دارالقضاء میں نکاح ختم کرانے کی درخواست کرے۔ایسی صورت میں اس کانکاح فسخ کیاجاسکتاہے۔
٭٭٭