
مولانا سید احمد ومیض ندوی استاذ حدیث دارالعلوم حیدرآباد
ملک میں جوں جوں عام انتخابات قریب آتے جا رہے ہیں مسلم مخالف اقدامات میں غیر معمولی تیز رفتاری دیکھی جا رہی ہے؛ گزشتہ ایک ہفتے کا جائزہ لیں تو مسلم دشمنی اور فسطائیت پر مبنی متعدد مسلم مخالف اقدامات کی خبریں اخبارات کی سرخیوں میں رہیں؛ اترکھنڈ میں جہاں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کو دو چار دن بھی نہیں گزرنے پائے تھے غیر قانونی تعمیر کا الزام لگا کر ایک مدرسہ اور مسجد کو مکمل طور پر بلڈوز کر دیا گیا؛ روزنامہ منصف کی ٩/ فروری کی اشاعت کے مطابق اترکھنڈ کے ہلدوانی میں غیر قانونی تجاوزات ہٹانے کے نام پر مدرسہ اور مسجد مسمار کرنے کے دوران زبردست ہنگامہ ہوا؛ گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت کا واقعہ بھی حالیہ دنوں میں پیش آیا؛ اسی طرح گزشتہ دنوں ممبئی کے مشہور عالم دین مفتی سلمان ازہری کی گرفتاری اور ان کی جونا گڑھ منتقلی کے واقعہ نے سارے ملک میں تشویش کی لہر دوڑا دی ؛مفتی سلمان صاحب نے اپنے بیانات میں کوئی ایسی بات نہیں کہی جنھیں ہیٹ اسپیچ کے دائرے میں شامل کیا جائے؛ فرقہ پرست ہندو قائدین کی جانب سے آئے دن مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا جاتا ہے وہ برملا اکثریتی طبقے کو مسلمانوں کے خلاف اکساتے رہتے ہیں لیکن کبھی انہیں گرفتار نہیں کیا گیا ؛حیدراباد سے تعلق رکھنے والے ٹی راجہ سنگھ کے اشتعال انگیز بیانات آئے دن ٹی وی چینلوں میں پیش کیے جاتے ہیں ؛ان کے علاوہ شمالی ہند کے کتنے ہی ہندو مذہبی قائدین مسلمانوں کو کاٹ مار ڈالنے کی باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن ان کے خلاف کسی قسم کی کاروائی نہیں کی جاتی ؛مقام اطمینان ہے کہ مفتی سلمان ازہری کی گرفتاری پر امت مسلمہ نے غیر معمولی اتحاد کا مظاہرہ کیا؛ تمام مسالک سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اس گرفتاری کی سخت الفاظ میں مذمت کی؛ سلمان ازہری کی گرفتاری دراصل اس بات کا اشارہ ہے کہ مسلم قائدین اور علماء میں سے جو کوئی اظہار حق کی جرات کرے گا اس کا یہی حشر ہوگا۔
گیان واپی مسجد واقعے کا زخم ابھی بھرا ہی نہیں تھا کہ دارالحکومت دہلی کے مہرولی علاقے میں مدرسہ اور ایک 600 سالہ تاریخی مسجد کو زمین دوز کر دیا گیا؛ مسجد اخونجی جنوبی دہلی میں واقع تاریخی قطب مینار کے قریب واقع ہے؛ مہرولی اور 200 ایکڑ پر پھیلے ہوئے قریبی علاقوں کو ہیرٹیج علاقہ سمجھا جاتا ہے ؛اور یہاں ایک سو سے زائد تاریخی عمارتیں اور دیگر ڈھانچے موجود ہیں؛ مثلا قطب مینار کمپلیکس؛ جمالی کمالی مسجد؛ غیاث الدین بلبن کا مقبرہ اور قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ وغیرہ . ایک ایسے ہی معاملے میں گزشتہ سال دسمبر میں دہلی کی میونسپلٹی نے عوام سے رائے مانگی تھی کہ آیا ٹریفک بہتر کرنے کے لیے سنہری باغ مسجد کو منہدم کرنا چاہیے یا نہیں؟ سنہری مسجد؛ دہلی کے وسطی حصے میں واقع تقریبا 150 سال سے زیادہ قدیم تاریخی مسجد ہے؛ جسے انگریزوں نے تقریبا ایک صدی قبل تعمیر کیا تھا؛ اگرچہ اس علاقے میں پارلیمنٹ اور اہم وزارتیں موجود ہیں لیکن انگریزوں نے مسجد کو ایک خصوصی محفوظ فہرست میں ڈالا تھا؛ جس کے تحت اسے گرانے کی اجازت نہیں تھی؛ سنہری مسجد کے امام نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اس کا کیس عدالت میں زیر سماعت ہے لیکن سنہری مسجد کے برعکس مہرولی کی اخونجی مسجد کا انہدام اچانک آنافانا کر دیا گیا؛ 30 جنوری کے دن علی الصبح چھ بجے 600 سالہ قدیم مسجد اور اس سے متصل مدرسہ بحر العلوم کو مسمار کر دیا گیا ؛اخباری اطلاعات کے مطابق مسجد کے امام مولانا ذاکر حسین نے کہا کہ عوام کی نظروں سے انہدامی کاروائی کو چھپانے کے لیے فوری طور پر ملبے کو ہٹا دیا گیا؛ منگل کو فجر کی نماز سے قبل دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی(ڈی ڈی اے) کے اہلکاروں نے پولیس جمعیت کے ساتھ مسجد کی مسماری شروع کر دی ؛مسجد کی کمیٹی کا کہنا ہے کہ بلڈوزر کاروائی سے قبل کوئی پیشگی نوٹس نہیں دیا گیا؛ مسجد کے امام نے الزام لگایا کہ محکمہ کے اہلکاروں نے زبردستی ان کا اور دیگر افراد کا فون چھین لیا ؛نیز ان کا دعوی ہے کہ انہیں مسجد میں موجود قرآن پاک کے نسخے لے جانے کی بھی اجازت نہیں دی گئی؛ امام ذاکر حسین نے الزام لگایا کہ اہلکاروں نے مدرسے میں زیر تعلیم 22 طلباء کے کپڑے اور کھانے کے سامان کو بھی تباہ کر دیا؛ دہلی میں اس طرح کا یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے؛ اس سے قبل رانی جھانسی روڈ پر درگاہ کا انہدام؛ دہلی کے مختلف علاقوں میں مزاروں کی توڑ پھوڑ اور سنہری باغ مسجد کے معاملات پیش آ چکے ہیں؛ حکام نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ یہ کارروائی ایک محفوظ علاقے میں غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کی گئی ہے؛ لیکن مسجد کی انتظامی کمیٹی کا کہنا ہے کہ یہ مسجد اور مدرسہ علاقے کو محفوظ زون میں تبدیل کرنے سے پہلے بھی موجود تھے۔
مہر ولی کی اخون جی مسجد کے انہدام کے واقعے سے ذہنوں میں مختلف قسم کے خدشات جنم لے رہے ہیں؛ اس قسم کے حکومتی اقدامات سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ اب ملک کی تاریخی مساجد کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے؛ تا حال صرف ان مساجد کے تعلق سے اندیشے تھے جن پر ہندو تنظیموں کا دعوی ہے؛ لیکن مہرولی کے حالیہ واقعے نے واضح کر دیا کہ تمام تاریخی مساجد پر خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے؛ اس لیے کہ مہرولی کی مسجد پر نہ کسی ہندو تنظیم نے دعوی کیا اور نہ ہی اس کے خلاف کسی قسم کی مہم چلائی گئی ہے؛ لیکن اس کے باوجود اس کا جو حشر ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔
ڈی ڈی اے( دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی) کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ مسجد سنجے ون میں تھی جسے ریزروڈ فارسٹ ایریا قرار دیا گیا ہے؛ ان کے مطابق ریج مینجمنٹ بورڈ کے فیصلے کے تحت اس پورے علاقے کو تجاوزات سے پاک کیا جانا ہے؛ مذہبی نوعیت کی اس عمارت کے انہدام کی منظوری متعلقہ محکمے کی مذہبی کمیٹی نے دی تھی؛ ڈی ڈی اے کے حکام سے جب پوچھا گیا کہ کیا آپ نے انہدام سے قبل مسجد کی انتظامی کمیٹی کو نوٹس دی تھی؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم نے ضابطے پر عمل کر کے یہ کاروائی کی ہے؛ اس پورے معاملے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مہرولی کی اس تاریخی مسجد سے متعلق دہلی ہائی کورٹ میں پہلے سے ایک مقدمہ زیر دوراں ہے ؛مقدمے کی سماعت کے دوران ڈی ڈی اے کے ذمہ داروں کی جانب سے عدالت کو یہ تیقن دیا گیا تھا کہ وہ مہرولی آرکیالوجیکل پارک میں کسی بھی مسجد ؛قبرستان یا وقف بورڈ کی املاک کے خلاف انہدامی کاروائی نہیں کرے گی ؛فی الحال مسجد انتظامی کمیٹی ہائی کورٹ سے رجوع ہو چکی ہے؛ اور عدالت نے ڈی ڈی اے کو ایک ہدایت جاری کرتے ہوئے اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کی تاکید کی ہے؛ اس کی آئیندہ سماعت 12 فروری کو رکھی گئی ہے۔
جہاں تک اس 600 سالہ قدیم مسجد کی تاریخی حیثیت کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں بی بی سی اردو کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے دہلی کے مورخ سہیل ہاشمی نے جن کا خاندان کئی نسلوں سے دہلی میں مقیم ہے نشاندہی کی کہ اس مسجد کا تذکرہ 1920 میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئ) کہ ایک اہم سروے میں کیا گیا ہے؛ جس میں دہلی کی تین ہزار عمارتوں اور دیگر ڈھانچوں کی فہرست دی گئی ہے ؛انہوں نے بتایا کہ اس فہرست کی جلد تین میں صفحہ 83 اور 84 پر بالترتیب پرانی دہلی کی عید گاہ اور مسجد اخونجی کا ذکر ہے؛ ان کا مزید کہنا ہے کہ اسی فہرست کی بنیاد پر انگریزوں نے فیصلہ کیا تھا کہ نئے شہر کی تعمیر کے لیے وہ کون سے ڈھانچوں کو گرا سکتے ہیں ؛مولوی ظفر حسن نامی اے ایس ائی کی مدد سے تیار کی گئی فہرست میں بتایا گیا ہے کہ مسجد کی تعمیر کی تاریخ معلوم نہیں ہے لیکن اس کی مرمت 1270 ہجری یعنی 1853 54 کے آس پاس میں ہوئی تھی؛ ایک اور مورخ رانا صفوی جنہوں نے مہرولی قرون وسطی کے فن تعمیر پر ایک کتاب لکھی ہے مسجد کی مسماری کو ایک المیہ قرار دیا۔(بی بی سی اردو دہلی ۲/ فروری 2024)
مہرولی کی اس مسجد کے تاریخی استناد کے تعلق سے معروف صحافی جناب سہیل انجم نے کچھ زیادہ وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے؛ چنانچہ وہ اپنے ایک حالیہ مضمون میں رقم طراز ہیں: "تاریخ دانوں کے مطابق 1922 میں شائع ہونے والی مولوی ظفر حسن اسسٹنٹ سپرنڈینڈٹ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی کتاب” لسٹ آف محمدن اینڈ ہندو مانو مینٹس” جلد تین میں اخوند جی مسجد کے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے؛ اس میں کہا گیا ہے کہ مسجد خوند جی عید گاہ سے تقریبا 100 میٹر کے مغرب میں ہے اور وہ ١٣٩٨ میں ہندوستان پر تیمور کے حملے کے وقت موجود تھی اس کی تعمیر کا سال نامعلوم ہے لیکن 1853 میں اس کی مرمت کی گئی تھی؛ جبکہ ڈی ڈی اے نے اسے غیر قانونی قرار دے کر منہدم کیا ہے؛ اس کے مطابق مسجد خوند جی سنجے ون یعنی سنجے فارسٹ ایریا میں تھی اور غیر قانونی تعمیرات کو ہٹانے کی مہم کے تحت اسے منہدم کیا گیا ماہرین کی بات مانیں تو یہ مسجد تیرہویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی لہذا یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ سنجے ون فارسٹ ایریا میں ناجائز قبضہ کر کے تعمیر کی گئی تھی جبکہ سنجے ون کو خود 1994 میں فارسٹ ایریا قرار دیا گیا ہے؛ معروف تاریخ دان رانا صفوی نے راقم سے گفتگو میں کہا کہ مولوی ظفر حسن کی کتاب مانومنٹس اف انڈیا میں مسجد کے پاس نصب کتبے کا ذکر ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ بہادر شاہ ظفر کا لکھا ہوا ہے؛ اس کے باہر ایک بورڈ آویزاں تھا جس کی تصویر دو سال قبل ہیرٹیج مہرولی نامی ہینڈل سے انسٹا گرام پر پوسٹ کی گئی تھی؛ اس بورڈ پر درگاہ شیخ جلال الدین تبریزی اور اس کے نیچے جنازہ پران لکھا ہوا تھا؛ شیخ تبریزی التمش کے زمانے میں ١٢١٠ ہجری میں دہلی آئے تھے؛ بعد میں وہ بنگال چلے گئے لیکن وہاں ان کی درگاہ نہیں بلکہ خانخاہ ہے؛ درگاہ یہاں تھی ان کے بقول اس مسجد اور درگاہ کا اگر کوئی تعلق شیخ جلال الدین تبریزی سے تھا تو ان کی تعمیر تیرہویں یا چودھویں صدی میں ہوئی ہوگی؛ مزید برآں یہ کہ اس مسجد اور درگاہ کا طرز تعمیر لودھی دور حکومت کا تھا؛ اگرچہ اس میں کافی مرمت ہوئی تھی لیکن یہ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ مسجد سات آٹھ اٹھ سو سال پرانی تھی ؛دہلی میں بہت سی عمارتیں وقف بورڈ لسٹڈ ہیں؛ ایسی عمارتوں کو ڈی ڈی اے کیسے منہدم کر سکتی ہے؛ مقامی باشندوں کے مطابق یہ مسجد رضیہ سلطانہ کے دور میں تعمیر کی گئی تھی؛ یاد رہے کہ رضیہ سلطان نے 1236 سے 1240 عیسوی تک دہلی پر حکومت کی تھی۔بہرحال تاریخی شہادتوں سے ثابت ہو تاہے کہ یہ ایک نہایت قدیم تاریخی مسجد ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود حکومت پر عائد ہوتی ہے لیکن ایک فرقے کے خلاف معاندانہ ذہن رکھ کر جب حکومت خود اس کے آثار مٹانے کا تہیہ کر لے تو اسے کیا کہا جاسکتا ہے؛ اس وقت مساجد اور تاریخی عمارتوں کے تعلق سے خود مسلمانوں کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے؛ مساجد چاہیے قدیم ہوں یا جدید ان کے مالکانہ کاغذات کی موجودگی ضروری ہے ؛نیز کاغذات میں موجود خامیوں کی اصلاح بھی ضروری ہے؛ ویران مساجد کو نمازوں سے آباد کرنے کا اہتمام کیا جائے: اسی طرح جو مساجد غیروں کے زیر قبضہ ہیں ان کی بازیابی کے لیے مضبوط شواہد کے ساتھ عدالتی چارہ جوئی کی جاۓ۔ اس وقت یہ اور ان جیسے دیگر اقدامات ناگزیر ہیں؛ اللہ کے گھروں کی حفاظت ہماری دینی ملی ذمہ داری ہے۔