مہنگائی سے پریشان دنیا

منور مرزا
ان دنوں عالمی فورمز کے ہونے والے تمام اجلاسوں کا فوکس مہنگائی اور اس سے نمٹنے کے طریقوں پر ہے۔ جی سیون کا اجلاس جرمنی اور برکس اجلاس بیجنگ میں ہوا۔ دونوں ہی رکن ملک اس امر پر متفق نظر آئے کہ عوام کو ریلیف دینے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مہنگائی امیر اور غریب، دونوں طرح کے ممالک کا مسئلہ ہے۔ ان اجلاسوں میں اہم سوال یہ رہا کہ مہنگائی کے اس جن پر کیسے قابو پایا جائے، جسے یوکرین جنگ نے بوتل سے نکالا ہے۔
یہ بات بھی درست ہے کہ کورونا کے دوران طویل لاک ڈاﺅن اور ریلیف پیکیجز نے ترقی یافتہ ممالک پر منفی اثرات مرتب کیے، لیکن کم ترقی یافتہ ممالک تو اس وبا میں پِس کر رہ گئے۔کورونا ویکسین کے بعد دنیا کھلنا شروع ہوئی، اعتماد بحال ہوا اور تجارت نے زور پکڑا۔ بڑی معیشتوں میں بحالی کا عمل تیزی پکڑ رہا تھا کہ یوکرین کی جنگ نے ساری توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔کورونا کے فوراً بعد امریکہ، یوروپ، برطانیہ، جاپان اور چین میں بحالی شروع ہوگئی تھی اور ان طاقت ور معیشتوں نے اپنے ساتھ چھوٹے ممالک کو بھی کساد بازاری سے نکالنا شروع کردیا تھا۔
مواصلات اور فضائی رابطوں کی شروعات امید افزا تھی اور توقع ہونے لگی کہ دنیا کی معیشت واپس پٹری پر آجائے گی۔ 2022-23 کے عالمی مالیاتی اداروں کی تمام پیش گوئیاں اسی جانب اشارہ کر رہی تھیں، لیکن فروری کے آخری ہفتے میں صدر پوٹن نے یوکرین پر حملہ کر کے دنیا کوغیر مستحکم کردیا۔ 80 سالوں میں یہ یوروپ کی پہلی بڑی جنگ تھی، جسے کسی غیر یوروپی طاقت کی طرف سے تھوپا گیا تھا۔ مغرب اور یوروپ نے اس کا جواب بھرپور انداز میں دیا،نتیجہ ظاہر تھا کہ ایک بحران پیدا ہوگیا اور پہلے یوروپ اور پھر دنیا اس کی لپیٹ میں آگئی۔ یہ بحران فوجی سے زیادہ معاشی تھا۔
روس نے جنگ کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا تھا، شاید اس کا گمان تھا کہ اسے کریمیا یا شام کی طرح یہاں بھی واک اوور مل جائے گا۔تاہم وہ بھول رہا تھا کہ یوکرین یوروپ میں ہے۔ اسی روسی تاثر کے زیر اثر یا شاید امریکہ سے روایتی نفرت کے جذبات کے تحت افغانستان سے امریکی انخلاءکے ساتھ ہی بعض دفاعی تجزیہ نگاروں کے ایک بڑے طبقے نے پیش گوئی کرنی شروع کردی کہ امریکہ تباہ اور ناٹو برباد ہوگیا۔ ان کے مطابق اب روس، پاکستان، چین اور ترکی مل کر افغانستان کے ساتھ ایک بلاک بنائیں گے اور پھر دنیا ایک نئی شکل اختیار کرے گی، جس میں طاقت کا محور یہی خطہ ہوگا۔ مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔روس نے ایسے کسی منصوبے میں حصہ لینا تو دورکی بات، اس حوالے سے سوچا تک نہیں۔
یہ ماہرین یہ بات کیوں یاد نہیں رکھتے کہ اِس خطے میں روس کا سب سے قریبی اور دیرینہ دوست ہندوستان ہے۔ ان ماہرین میں سے اب بھی کچھ روس سے سستے تیل کے خیالی معاہدوں کی باتیں کر رہے ہیں، یہ جانے بغیر کہ روس صرف نقد میں سودے کرتا ہے اور یہ کہ وہ ان معاہدوں سے قبل ہندوستان سے بھی مشورہ کرے گا۔ نیز، ایسے معاہدے کا مطلب اقتصادی پابندی ہوگی اور اس وقت پھر ان ماہرین پر یاسیت طاری ہو جائے گی۔ روس کی مجبوریاں ایسی ہیں کہ وہ ادھار پر تیل دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
جی سیون اجلاس میں مغرب کے ساتوں طاقت ور اور امیر ترین ممالک کے اعصاب پر یوکرین کی جنگ سوار رہی۔ مودی اس میں شریک تھے، جو روس سے تیل اور ہتھیار خرید رہے ہیں، لیکن ادائیگی ڈالرز میں کرتے ہیں۔ظاہر ہے، یہ روس کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کواڈ فورم پر امریکہ اور مغرب کے ساتھ چین کے گھیراﺅ میں بھی ساتھ دے رہا ہے۔ مغربی ممالک کی کوشش یہی ہے کہ یوکرین کو زیادہ سے زیادہ ہتھیار دیے جائیں۔ کچھ عرصے پہلے یوکرین نے یوروپی یونین میں شمولیت کی درخواست کی تھی،جسے قبول کر لیا گیا۔روس کا اس پر سخت ردعمل آیا،جسے یوکرین کا یوروپ میں جانا قبول نہیں، لیکن اس کے پاس آپشن کم ہیں کیوں کہ وہ یوکرین پرحملہ کرچکا ہے۔
اب وہ شرائط منوانے کے مرحلے سے نکل کر جنگی مقاصد حاصل کرنے کے مراحل میں ہے۔پہلے ایک سو دنوں میں پوٹن وہ کام یابی حاصل نہ کرسکے، جس کا وہ اعلان کرتے رہے اور جسے انہوں نے جنگ کا حاصل بتایا، یعنی یوکرین کو مغرب کی طرف جانے سے روکنا۔ اس کے برعکس، جتنا آج یوکرین، یوروپ اور مغرب پر انحصار کر رہا ہے، ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔روس کو سوچنا چاہیے کہ جلد بازی میں کہیں اس سے کوئی چوک تو نہیں ہوگئی۔یوکرینی صدر روس کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گئے ہیں اور جس طرح انہوں اپنے عوام کو جنگ کی مشکلات برداشت کرنے کے لیے قائل کیا، وہ اس جیسے چھوٹے ملک کے لیے قابل تحسین بات ہے۔
ان کی فوج اور عوام فتح اور شکست سے بے پروا ہوکر شہر شہر روس کی طاقت ور فوج سے لڑ رہے ہیں۔ صدر زیلنسکی آج آزاد دنیا میں مزاحمت کی علامت بن گئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ مغرب ان کی غیر معمولی پشت پناہی کر رہا ہے، لیکن قربانی تو یوکرینی عوام ہی دے رہے ہیں۔صدر پوٹن کی فوجی حکمت عملی یہ نظر آتی ہے کہ وہ روسی بولنے والے علاقوں، ڈوناسیک اور لوہانسک کو، جو مشرقی یوکرین میں واقع ہیں، خود مختاری دلا دیں یا انہیں کریمیا کی طرح روس میں ضم کرلیں۔
لیکن یوکرین کے ٹکڑے کرنے سے انہیں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا،بلکہ اس کے منفی اثرات برداشت کرنے پڑیں گے، جو روس کے لیے بے حد تکلیف دہ ثابت ہوں گے۔ اگر صدر پوٹن لسانی بنیادوں پر یوکرین کے ایک حصے کو توڑ کر روس سے ملا بھی لیتے ہیں، تو بعد میں ان کے اور روسی آبادی کے لیے یہ علاقے مسئلہ بن سکتے ہیں۔ روس کی معیشت کا تمام تر انحصار تیل اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر ہے، لیکن کب تک؟
یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ یوکرین نے جنگ کو مزاحمت میں تبدیل کردیا ہے، تو دوسری طرف اس جنگ نے عالمی سطح پر توانائی اور خوارک کا جو بحران پیدا کیا ہے، اس سے روس کے امیج پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں روس ایک جارح کے طور پر سامنے آیا ہے، جس نے خود سے چار گنا چھوٹے ملک پر حملہ کیا۔ مغرب اور امریکہ اس مہم میں کام یاب نظر آتے ہیں کہ عالمی مہنگائی کو یوکرین اور روس کی جنگ سے جوڑ دیں، جوایک حقیقت بھی ہے۔ لوگ کورونا کو بھول گئے، یوکرین جنگ اور مہنگائی سے چیخ اٹھے ہیں۔
چھوٹے ممالک اور کم زور معیشتوں کی کوشش رہی کہ کورونا کے زمانے میں جو قرضے لیے، ان کی ادائیگی میں تاخیر ہوسکے تاکہ انھیں ریلیف ملے، تاہم سود کے بڑھتے ریٹس کی وجہ سے یہ بہت مشکل ہو رہا ہے۔ جی سیون اجلاس میں ایک اچھا قدم یہ اٹھایا گیا کہ کم زور ممالک کی ترقی کے لیے60 بلین ڈالرز فراہم کیے جارہے ہیں۔ یہ” بلڈ اے بیٹر ورلڈ“ منصوبے کے تحت ہوگا۔
ایک طرح سے یہ چین کے ون بیلٹ منصوبے کے مقابلے کے لیے ہے، جو ساری دنیا میں کام یاب ہے اور اس نے چین کا امیج بہتر بنایا ہے۔ چین نے کمایا ہے،تو وہ غریب ممالک پر لگا بھی رہا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ یہ جی سیون ممالک کی طرف سے قرضے نہیں بلکہ سرمایہ کاری ہے اور لانگ ٹرم بنیاد پر شراکت داری کی جائے گی۔ بظاہر تو یہ اچھے ارادے ہیں، اب یہ طرفین پر منحصر ہے کہ وہ ان پر عمل درآمد کا کیا طریقہ کار اختیار کرتے ہیں۔
معیار زندگی اور افراط زر کا براہ راست تعلق ہے۔اگر اس میں بے روز گاری اور بے قابو آبادی بھی شامل ہوجائے، تو یہی عناصر عوام میں بے چینی کا باعث بنتے ہیں۔ماہرین کے مطابق، اِس وقت افراطِ زر کی بڑی وجہ خوراک اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں، جو یوکرین جنگ کا براہِ راست نتیجہ ہے۔ خاص طور پر اُن ممالک کے لیے یہ بہت اہم ایشو ہے، جن کے امپورٹ بل کا زیادہ حصہ تیل اور خوراک کی خریداری پر صرف ہوتا ہے۔مختلف ممالک میں یہ بے چینی مختلف صورتوں میں سامنے آئی۔ پاکستان میں یہ عدم اعتماد کی شکل میں سامنے آئی، جس میں عمران خان کو اقتدار سے باہر ہونا پڑا۔
اس بے چینی کی ایک شکل انتشار اور تشدد بھی ہے،جو سری لنکا، پیرو اور تیونس وغیرہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ترکی کی معیشت مسلسل روبہ زوال ہے،تاہم عوام پُرامن طور پر مشکلات برداشت کر رہے ہیں اور اپنی قیادت پر اعتماد رکھتے ہیں کہ وہ کوئی حل نکال لے گی۔ صدر اردغان نے اپنے ملک کے لیے بہت کام کیا ہے، انہوں نے درست سمت میں قدم اٹھاتے ہوئے امریکہ، سعودی عرب اور کئی دوسرے ممالک سے تعلقات بہتر کیے ہیں، جس سے ترکی کی تجارت بڑھنے کی توقع ہے۔آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ41 قرض لینے والے ممالک کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، جب کہ 77 میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ افراط زر اور مہنگائی کی وجہ سے اکثر ممالک میں رشوت ستانی اور غیر قانونی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر اگر سرکاری اہل کاروں کو ان کی عادت ہو، جیسے ہمارے ہاں ہے۔
ٹیکس کے پیچیدہ طریقوں سے چھٹکارا پاکر اس شعبے میں رشوت ستانی کی روک تھام ممکن ہے۔ لوگوں کونظر آنا چاہیے کہ اگر انہوں نے خود کو بدلا، قانون کو اپنایا ہے، تو حکومت کے انداز بھی بدل گئے ہیں۔ سیاسی نعرہ لگایا جاتا ہے کہ لوگ ٹیکس اس لیے نہیں دیتے کہ انہیں حکم رانوں پر بھروسا نہیں۔یہ بات غلط ہے۔
حکومتیں عموماً بڑھتی قیمتوں کا حل سبسڈیز یا مالی امداد میں تلاش کرتی ہیں۔اس طرح لوگ کچھ عرصے کے لیے مطمئن ہو جاتے ہیں، لیکن حکومتیں وہ اقدامات نہیں کرتیں، جن سے برآمدات میں اضافہ اور درآمدات پر انحصار کم ہو۔ سبسڈیز کے لیے قرض پر قرض لینے پڑتے ہیں۔ یقینا یہ تباہی کا راستہ ہے، لیکن اس کے ذمہ دار عوام بھی ہیں، جو اپنے طرززندگی میں تبدیلی پر آمادہ نہیں۔ قربانی نہیں مانگی جا رہی، عوام سے صرف یہ مطلوب ہے کہ وہ فضول خرچی سے پرہیز کریں۔
عرض یہ ہے کہ چین کے انقلابی رہنما ماﺅزے تنگ کے زمانے میں عرصہ دراز تک چین کے فیکٹری ورکرز کو گیارہ بجے اور تین بجے کی بریک میں چائے کے بدلے نیم گرم پانی فراہم کیا جاتا اور وہ خوشی خوشی قوم کی خاطر یہ سب برداشت کرتے رہے، تب ہی آج کی نسل فوائد سمیٹ رہی ہے۔ بیرون ِ ملک سے آنے والے ہمارے بھائی اس بات پر ہنستے ہیں کہ ہمارے بازار رات بارہ بجے تک کھلے رہتے ہیں، جب کہ ان کے ممالک میں بازار شام چھ بجے بند ہوجاتے ہیں۔ایک اور بنیادی چیز گڈ گورنینس ہے۔
یعنی اچھے طریقے سے ملک کو چلانا۔ جن ممالک میں بے چینی ہے، احتجاج کیے جارہے ہیں، وہ کیا چاہتے ہیں؟ بہتر اور تجربہ کار حکومت، جو نہ صرف ان کے مسائل جانتی ہو بلکہ ان کے حل کی طرف بڑھنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔اگر ترقی کرنی ہے، تو پھر اس میں ہر فرد کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔صبر اور محنت سے چلنا ہوگا۔ راتوں رات امیر بننے کے خواب کبھی تعبیر پاسکے ہیں اور نہ ہی کبھی پاسکیں گے۔