نکا ح کے لئے عمر اور نکاح کی استطاعت ؟
استطاعت سے کیا مراد ہے ، آج کل کا پڑھا لکھا مسلمان اچھی نوکری نہ پانے کی وجہ سے اگر کسی معقول ذریعۂ معاش کا انتظام نہیں کرتاہے ، تو اس کا یہ کہنا کس حد تک صحیح ہوگاکہ ابھی استطاعت نہیں ہے؟ (امیر الدین،حیات نگر )

سوال:-نکاح کے لئے عمر اور استطاعت کے متعلق شریعت کے کیا احکام ہیں ؟
استطاعت سے کیا مراد ہے ، آج کل کا پڑھا لکھا مسلمان اچھی نوکری نہ پانے کی وجہ سے اگر کسی معقول ذریعۂ معاش کا انتظام نہیں کرتاہے ، تو اس کا یہ کہنا کس حد تک صحیح ہوگاکہ ابھی استطاعت نہیں ہے؟ (امیر الدین،حیات نگر )
جواب:- نکاح کے صحیح ہونے کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں ، اولیاء نابالغ کا نکاح کردیں تو نکاح منعقد ہوجائے گا ، لیکن قرآن و حدیث کے مجموعی مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ خصوصی حالات کو چھوڑ کر عام حالات میں نکاح کی ایک عمر ہونی چاہئے ،
چنانچہ ارشاد باری ہے: حَتّٰی اِذَا بَلَغَ النِّکَاحَ (النساء: ۱۰) یہاں اللہ تعالیٰ نے عمر نکاح کا پہونچنے کا ذکر کیا ہے ،
مفسرین متفق ہیں کہ یہاں عمر نکاح سے بلوغ مراد ہے ، چنانچہ علامہ سیوطی ؒ لکھتے ہیں: أی صار أھلا لہ بالاحتلام أو السن وھو استکمال خمس عشر سنۃ (تفسیر جلالین:۷۰) ؛ اس لئے بالغ ہونے کے بعد جلد سے جلد نکاح ہونا چاہئے ۔
استطاعت سے مراد خانہ داری کی ضروریات کی تکمیل ہے ، ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج (صحیح مسلم، حدیث نمبر:۳۴۰۰)
’’ تم میں سے جو پناہ فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو ، ا سے نکاح ضرور کر لینا چاہئے ، ’’باءۃ‘‘ کا ماخذ ’’ تبوء ‘‘ ہے ، جس کے معنی ٹھکانہ دینے کے ہیں ، ٹھکانہ کم سے کم سامان بقا ء کی فراہمی کے لئے بولاجا تا ہے ،
ملا علی قاری ؒ نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے : أی کونہ الباء ۃ من المھر والنفقۃ (مرقاۃ المفاتیح: ۳؍۴۰۲)
آج کل لوگوں نے اپنے ذہن میں جو ایک مخصوص معیا ر مقرر کرلیا ہے ،اور اس کے حصول تک خود کو نکاح کے لئے غیر مستطیع قرار دیتے ہیں ، وہ شریعتِ اسلامی کے مزاج سے ہم آہنگ اور درست نہیں ہے۔