مذہب

واقعہ معراج النبیؐ اسب سے بڑا معجزہ

اس عالم دنیا میں انسانیت کی رہبری کیلئے اللہ تعالیٰ نے ہر دور و ہر زمانے میں انبیاء کرام ورسولانِ عظام کو بھیجتا گیا۔ ہر نبی ورسول کو معجزات عطا کیا۔ معجزہ اس خلاف عادت چیز کو کہتے ہیں جس کی مثل لانے سے انسان عاجز ہوتا ہے۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ

اس عالم دنیا میں انسانیت کی رہبری کیلئے اللہ تعالیٰ نے ہر دور و ہر زمانے میں انبیاء کرام ورسولانِ عظام کو بھیجتا گیا۔ ہر نبی ورسول کو معجزات عطا کیا۔ معجزہ اس خلاف عادت چیز کو کہتے ہیں جس کی مثل لانے سے انسان عاجز ہوتا ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ نبیوں کے دست مبارک پر معجزہ ظاہر کرتاہے۔ حضرت ابرھیم علیہ السلام کا معجزہ یہ تھا کہ آپ پر آگ گلزار ہو گئی۔ حضرت یونس علیہ السلام کا معجزہ یہ تھا کہ وہ چالیس دن تک مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہے لیکن رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ یہ ہے کہ آپ عشاء کی نماز کے بعد استراحت فرمارہے تھے، رب کریم نے آپ کو مسجد حرام سے بیت المقدس پھر ساتوں آسمانوں کی سیر کرانے کے بعد اپنے دیدار سے مشرف فرمایا، جس کا ذکر متعدد احادیث شریفہ میں اور قرآن حکیم میں تین مقامات پر انتہائی مشفقانہ ومحبانہ انداز میں آیا ہے۔

چنانچہ سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد ربانی ہے: سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْر۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے مختصر سے وقت میں مسجد حرام سے مسجد اقصاء لے گئی جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم ان کو کچھ عجائبات دکھلائیں بے شک اللہ تعالیٰ بڑا سننے والا بڑا دیکھنے والا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں واقعہ معراج کو بیان کرنے سے پہلے کلمہ سبحان لایا گیاتاکہ ساری انسانیت کو بتلادیا جائے کہ وہ ذات لے گئی جو ہر قسم کے عیب و نقص سے پاک ہے، یہی وہ وحدہ لا شریک ہے جس نے زمین وآسمان ، چاند وسورج، بروبحر ،ہوا و پانی، انس وجن، ملک وفلک تمام عالمین کو پیدا کیا تاکہ واقعہ معراج کو جھٹلانے کی کوئی جرأت نہ کرسکے۔ لفظ سبحان سے آغاز کرنے کی غرض یہ ہے کہ کم عقل نادان لوگ ضرور واقعہ معراج سے انکار کریں گے، تو انہیں آگاہ کرنا تھا کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم خود سے نہیں گئے بلکہ ساری کائنات کا خالق ومالک انہیں لے گیا اور اس آیت شریفہ میں بعبدہ کہا عبد کا اطلاق روح مع الجسم پرہوتا ہے صرف روح پر نہیں ہوتا یعنی اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کو حالت بیداری میں جسم کے ساتھ لے گیا۔ اس آیت کریمہ میں لفظ لیلًا کوتنوین کے ساتھ ذکر کرنے میں یہ حکمت ہے کہ معراج شریف رات کے تھوڑے سے وقت میں ہوئی۔

معراج کا زمینی سفر بیت اللہ سے بیت المقدس تک تھا، یقینا دنیا میں سب سے افضل مساجد مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ ہیں۔ بیت المقدس لے جانے کی حکمت یہ تھی کہ بیت المقدس نے بارگاہ الٰہی میں دعاء کی تھی کہ ائے پروردگار عالم تونے انبیاء کرام کو میرے پاس بھیج کر جس طرح مجھے شرف بخشا اسی طرح بنی آخر الزماں افضل الانبیاء خاتم النبین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک سے بھی مجھے شرف عطا فرما۔ رب کریم نے آپ کو بیت المقدس کی سیر کروا کر اس طرح اس کی دعاء قبول فرمائی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ معراج کے عظیم سفر میں ساتوں آسمانوںکی سیر، جنت کی سیر، دوزخ کا مشاہدہ ، سدرۃ المنتہیٰ، لامکاں کی سیر پھر انتہائی مختصر وقت میں مکہ مکرمہ واپسی اس طرح کے واقعات کی خبر جب مشرکین تک پہنچے گی تو وہ ضرور انکار کریں گے اور آپ کو جھٹلانے کی خاطر طرح طرح کے سوالات کریں گے، چونکہ وہ لوگ بیت المقدس دیکھے ہوئے ہیںاور انہیں یہ بھی معلوم ہے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ساری حیات میں بیت المقدس نہیں گئے تو وہ واقعہ معراج کو جھٹلانے میں کو ئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

مخالفینِ اسلام نے مخالفت کرتے ہوئے ایک منظم سازش کا منصوبہ بنا لیا تاکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ اللہ جھوٹا ثابت کرسکیں۔ شہر مکہ کی گلی کوچوں میں یہ بات عام کردی کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ کیا کہ وہ آج کی شب بیت المقدس جا کر واپس آئے ہیں، چنانچہ سارے مشرکین حطیمِ کعبہ کے پاس جمع ہوگئے اور آپ ؐ سے بیت المقدس کے متعلق مختلف سوالات کرنے لگے، اللہ رب العزت نے تمام حجابات اٹھا کر بیت المقدس کو آپ کے سامنے کردیا، آقا صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کو دیکھ دیکھ کر ان کے ہر سوال کا جواب دیتے گئے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے: عن جابر بن عبداللہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: لما کذبتني قریش قمت في الحجر فجلی اللہ لي بیت المقدس، فطفقت أخبرھم عن آیاتہ و أنا أنظر اِلیہ۔ (بخاری ، مسلم، ترمذی)

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جب قریش نے میری تکذیب کی تو اس وقت میںحطیم کعبہ کے پاس کھڑے ہوگیا پس اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس میری نظروں کے سامنے کردیا اور میں اسے دیکھ دیکھ کر اس کی تمام نشانیاں قریش کو بتاتا گیا۔اور اس آیت مبارکہ میں سیر کا مقصد اس طرح بیان کیا : لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا تاکہ ہم انہیں اپنی نشانیاں بتائیں۔اس سفر میں اللہ رب العزت نے ہزار ہا نشانیوں کو دکھانے کے ساتھ اپنے دیدار سے بھی نوازا۔ اس آیت کا اختتام إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْر (بے شک وہی بڑا سنے والا دیکھنے والا ہے) پر فرمایا۔ ان میں سے اہم نشانی دیدار رب تھی۔

سورہ نجم میں واقعہ معراج کا تذکرہ کچھ اس طرح آیا، ارشاد باری ہے: مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَی۔ لَقَدْ رَأَی مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرَی (سورہ نجم) نگاہ نہ جھپکی نہ حد سے بڑھی (جس کو دیکھنا تھا اس پر جمی رہی) بے شک آپؐ نے اپنے رب کی بڑی نشانی دیکھی۔ قرآن حکیم نے یہ واضح فرمادیا کہ شب معراج حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جمال ذات باری تعالیٰ کا مشاہدہ دل کی آنکھ سے بھی کیا اور سر کی آنکھ سے بھی۔ چنانچہ معجم طبرانی میں ہے کہ: ان محمدا رای ربہ مرّتین: مرّۃ بعینہ ومرّۃ بفؤادہ (المعجم الکبیر، المعجم الاوسط، المواھب اللدنیہ، نشر الطیب) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ایک مرتبہ آنکھ سے اور ایک مرتبہ دل سے۔ اس حدیث پاک سے رؤیت باری تعالیٰ کے بارے میں اوپر درج کی گئی قرآنی آیات کے مضمون کی بھر پور تائید ہوتی ہے۔ حضرت امام حسن بصریؒ جو حضرت عمرؓ حضرت علیؓ اور حضرت حسانؓ جیسے برگزیدہ اصحاب رسول کی صحبت سے فیض یافتہ نامور تابعی ہیں، ان سے ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سوال کیا گیا کہ آیا انہوں نے معراج کی شب باری تعالیٰ کا دیدارکیا؟ تو انہوں نے تین بار قسم کھا کر اس بات کا اقرار کیا کہ ہاں انہوں نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔ اسی طرح جب امام احمد بن حنبل ؒ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیت باری تعالیٰ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے: قد رأی ربہ یعنی انہوں نے اپنے رب کو دیکھا، یہاں تک کہ ان کی سانس پھول گئی۔یہ اقوال ومعتقدات سب ممتاز اور قابل ذکر صحابہ، صحابیات، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ کرام کے ہیں۔ قرآن حکیم نے رؤیت باری کی تائید فرماتے ہوئے شک کرنے والوں سے پوچھا: أَفَتُمَارُونَہُ عَلَی مَا یَرَی (سورہ نجم) کیا تم ان سے اس پر جھگڑتے ہو جو انہوں نے دیکھا۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کی رات دو اہم چیزیں ملیں: ۱) مدح (تعریف) ۲) سلامتی۔ ترمذی شریف میں ہے: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر معراج کی شب اللہ نے دو چیزیں عطا کیں ۱) سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں ۲) التحیات۔ مکمل قرآن کریم زمین پر نازل ہوا صرف سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں سدرہ المنتہیٰ پر نازل ہوئیں۔ ۱) آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْہِ مِن رَّبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ (سورہ بقرہ) رسول ؐ ان کے رب کی جانب سے جو کچھ ان پر نازل ہوا اس پر ایمان لے آئے اور مومنین ایمان لے آئے۔ اس آیت سے واضح ہو رہا ہے کہ آپؐ دیدار رب سے مستفیض ہوئے تو اللہ نے آپ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:میرے حبیبؐ پہلے بن دیکھے ایمان لائے تھے اب مجھے دیکھ کر ایمان لائے۔ یہ ہمارے آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رب کی کرم نوازی تھی۔ بعض رؤیت باری تعالیٰ کے قائل نہیں ہے، انہوں نے بھی قرآن واحادیث شریفہ سے استدلال کیا ہے۔

۲)سلامتی : حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رب کی بارگاہ میں عرض کیا: التحیات للہ والصلوات والطیبات میری اور میری امت کے (بدنی، مالی، قولی )ساری عبادتیں میں تیری نذر گزر انتا ہوں، میرے خدا یہی میں آپ کیلئے تحفہ لایا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: میرے حبی ! میں نے تمہاری نذر قبول کی، خوش ہو کر میں اپنا سلام تم پر نچھاور کرتا ہوں : السلام علیک ایھا النبي ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میرا سلام، میری رحمت اور میری برکتیں تم پر ہوںاے میرے نبی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معروضہ: اسی وقت آپ نے عرض کیا : السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین الٰہی آپ کاسلام ہم پر اور آپ کے سارے نیک بندوں پر ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت تو دیکھئے اللہ تعالیٰ کا سلام اپنے اوپر جمع کے صیغہ سے لیا، پھر نیک بندوں کا الگ ذکر کیا، اس جمع کے صیغہ میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے گنہگار، ناکارہ لوگوں کو بھی اپنے دامن رحمت میں چھپالیا اور اللہ تعالیٰ کے سلام کامستحق بنادیا۔

یہ حقیقت ہے کہ سفر معراج کے تین مراحل : سفر معراج کا پہلا مرحلہ مسجد ِحرام سے مسجد ِ اقصیٰ تک کا ہے۔ یہ زمینی سفرہے۔ یہ چونکہ انسانی دنیا کا حصہ ہے اور ذہن انسانی میں اس کی تفہیم نسبتاً آسانی سے ممکن ہے۔ سفر معراج کا دوسرا مرحلہ مسجد ِ اقصیٰ سے لے کر سدرۃ المنتہیٰ تک ہے، یہ کرۂ ارضی سے کہکشائوں کے اس پار واقع نوارنی دنیا تک سفر ہے۔سفر معراج کا تیسرا مرحلہ سدرۃ المنتہیٰ سے آگے قاب قوسین اور اس سے بھی آگے تک کا ہے، چونکہ یہ سفر محبت اور عظمت کا سفر تھا اور یہ ملاقات محب اور محبوب کی خاص ملاقات تھی لہٰذا اس رودادِ محبت کو راز میں رکھا گیا۔

حدیث شریف میں آتاہے کہ ۲۷ ؍ رجب پیر کی شب اللہ رب العزت نے حضرت جبرئیل کو حکم دیا کہ میرا حبیب حطیم کعبہ کے پاس آرام فرمارہاہے، انہیں انتہائی ادب کے ساتھ بیدار کرنا اور سدرۃالمنتہیٰ لے آنا ، جب رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم حطیم کعبہ میں آرام فرمارہے تھے حضرت جبرئیل حاضر ہو کر بڑے ہی ادب کے ساتھ آپ کوجگایا ،جب آپؐ بیدار ہوئے تو حضرت جبرئیل امین نے عرض کی : یا رسول اللہ ! اللہ سبحانہ تعالیٰ نے آپ ؐ کو ملاقات کے لئے مقام خاص(لامکاں) میں بلایا ہے ۔ آپ ؐ کے سینہ مبارک کو حلق سے لیکر ناف تک چاک کیا گیا اور قلبِ اطھر کو نکالا گیا اور تین مرتبہ زم زم سے دھو یا گیا اور نورِمعرفت اور لاکھوںقسم کے انوار جو مخصوص طشت میں اللہ رب العزت کی بارگاہ سے لائے گئے تھے قلب اطھر میں رکھ دیئے گئے تاکہ آپ اللہ تعالیٰ کے انوارو تجلیات سے فیضیاب ہو سکیں۔جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: فرج عن سقف بیتي وأنا بمکۃ،فنزل جبریل صلی اللہ علیہ وسلم ففرج صدری ،ثم غسلہ بماء زمزم ، ثم جاء بطشت من ذھب ممتلیء حکمۃ وایمانا،فأفرغہ فی صدري ، ثم اطبقہ (بخاری) کہ رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرے گھر کی چھت کھولی گئی اس وقت میں مکہ مکرمہ میں تھا ،حضرت جبرئیل ؑ حاضر ہوئے اور میرے سینے کو کھولا ، اسے زم زم کے پانی سے دھویا، پھر حکمت و ایمان سے بھر ا ہوا سونے کا طشت لے آئے، اسکو میرے سینے میںانڈیل کر بند کردیا،پھر آپ ؐکی بارگاہ میں براق سواری پیش کی گئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کے دروازے پر براق سے اترے، جس حلقے سے تمام پیغمبروں نے اپنے سواریوں کو باندھا تھا اسی حلقے سے آپ کا براق باندھا گیا ۔ بیت المقدس میں سارے انبیاء کا تعارف کروایا گیااوروہ سب بڑی خوشی کا اظہار کرتے رہے ،پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اذان کہی، ان کی اذان سے آسمان کے دروازے کھلے اور فرشتے اس قدر اترے کہ پوری مسجد،پورا جنگل حتی کہ زمین وآ سان فرشتوں سے بھر گیا، اذان کے بعد جبرئیل علیہ السلام نے اقامت کہی ،صفیں درست ہوئیں، تمام پیغمبر اور سب فرشتے صفیں باندھکر کھڑے ہو گئے مگر اس وقت امام کی جگہ یعنی مصلیٰ خالی تھا کوئی امام مصلیٰ پر نہیں تھا اور نہ کسی کی ہمت تھی کہ مصلیٰ پر چلا جائے ۔حضرت جبرئیل علیہ السلام صفوں سے باہر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک پکڑ کر عرض کیا: ’’اے اولین و آخرین کے امام مصلیٰ پر تشریف لائیں، آپ نے تمام انبیاء علیہم السلام کی امامت فرمائی۔

دوسرا مرحلہ: بیت المقدس کے دروازہ پر سونے چاندی اور جواہرات سے جڑی ہوئی ایک نہایت خوبصورت سیڑھی لگائی گئی اُس سے آسمانِ اول پر تشریف لے گئے، پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام، دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ و حضرت یحییٰ علیہما السلام، تیسرے پر حضرت یوسف و داود علیہما السلام، چوتھے پر حضرت ادریس علیہ السلام، پانچویں پر حضرت اسماعیل و حضرت اسحاق و یعقوب و حضرت لوط علیہم السلام، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقاتیں ہوئیں، ہر نبی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرحبا بالنبي الصالح ’’اے نبی خوش آمدید‘‘ کہتے ہوئے استقبال کیا، جب ساتویں آسمان پر پہنچے تو ملاحظہ فرمایا کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام بیت المعمور کے پاس ایک سونے کی خوبصورت کرسی پر جلوہ گر ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی مرحبا بالنبي الصالح ’’اے نبی مکرم خوش آمدید‘‘ کہتے ہوئے استقبال کیا۔

تیسرا مرحلہ لامکاں کی سیر تھی وہ راز ونیاز کے معاملات ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمارے نبی کے صدقہ ہماری نمازوں کو معراج المومنین بنادے۔ آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭

a3w
a3w