مذہب

وطن سے محبت فطرت اور شریعت کا تقاضہ ہے!

انسان جس سر زمین میں پیدا ہوتا ہے، اُس سے محبت و اُنس اس کی فطرت میں ہوتی ہے۔ہر ایک کے دل میں اپنے مسکن اور وطن سے بے پناہ اُنس ہوتا ہے۔

قاضی محمد فیاض عالم قاسمی

انسان جس سر زمین میں پیدا ہوتا ہے، اُس سے محبت و اُنس اس کی فطرت میں ہوتی ہے۔ہر ایک کے دل میں اپنے مسکن اور وطن سے بے پناہ اُنس ہوتا ہے۔ا ِسی لیے بعض فلاسفہ کا کہنا ہے: فِطْرَةُ الرَّجُلِ مَعْجُوْنَةٌ بِحُبِّ الْوَطَنِ.(محاضرات الادباء للراغب الاصفهانی، 2: 652) یعنی انسان کی فطرت میں وطن کی محبت شامل ہے۔ انسان ہی کیاحیوان کو بھی اپنے مسکن سے محبت ہوتی ہے، ہر جاندار صبح سویرے اٹھ کر روزی پانی کی تلاش میں زمین میں گھوم پھر کر شام ڈھلتے ہی اپنے ٹھکانے پر واپس آجاتا ہے۔ ان بے عقل حیوانات کو کس نے بتایا کہ ان کا ایک گھر ہے، ماں باپ اور اولاد ہے، کوئی خاندان ہے؟ اپنے گھر کے در و دیوار، زمین اور ماحول سے صرف حضرتِ انسان کو ہی نہیں بلکہ حیوانات کو بھی اُلفت و محبت ہوجاتی ہے۔پس انسان کااپنے وطن سے محبت فطری ہے۔

دوسری طرف اپنے ملک کی حفاظت کرنا، اس پر جان نچھاور کرنا، اس کوآزادکرانے کے لئے لڑائی لڑنابھی شریعت کاحکم ہے۔ قرآن کریم اور سنّتِ مقدسہ میںاس حقیقت کو شرح و بسط سے بیان کیا گیا ہے۔قرآن کریم میں ہے:ترجمہ:ان لوگوں کو (فتنہ و فساد اور اِستحصال کے خلاف دفاعی جنگ کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جارہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بے شک اﷲ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہے۔ (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے (یعنی انہوں نے باطل کی فرمانروائی تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا)۔ (الحج، 22: 39-40)اس آیت مبارکہ میں وطن سے ناحق نکالے جانے والوں کو دفاعی جنگ لڑنے کی اجازت مرحمت فرمائی گئی ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل جب اپنی کرتوتوں کے باعث ذلت و غلامی کے طوق پہنے ،بے وطن ہوئے تو ٹھوکریں کھانے کے بعد اپنے نبی یوشع یا شمعون یا سموئیل علیہ السلام سے کہنے لگے کہ ہمارے لئے کوئی حاکم یا کمانڈر مقرر کر دیں جس کے ماتحت ہو کے ہم اپنے دشمنوں سے جہاد کریں اور اپنا وطن آزاد کروائیں۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا: ایسا تو نہیں ہوگا کہ تم پر جہاد فرض کردیا جائے اور تم نہ لڑو؟ اِس پر وہ کہنے لگے:ترجمہ:ہمیں کیا ہوا ہے کہ ہم اﷲ کی راہ میں جنگ نہ کریں حالاں کہ ہمیں اپنے وطن اور اولاد سے جدا کر دیا گیا ہے، سو جب ان پر (ظلم و جارحیت کے خلاف) قتال فرض کر دیا گیا تو ان میں سے چند ایک کے سوا سب پھر گئے، اور اﷲ ظالموں کو خوب جاننے والا ہے۔(البقرة، 2: 246)اس آیت میں وطن اور اولاد سے جدائی کروانے والوں کے خلاف جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔

حدیث، تفسیر، سیرت اور تاریخ کی تقریبا ہر کتاب میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نزولِ وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ ورقہ بن نوفل نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نزولِ وحی کی تفصیلات سن کر تین باتیں عرض کیں:

پہلی بات :آپ کی تکذیب کی جائے گی یعنی آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے گی۔ اس پر آپ ؐ نے خاموشی اختیارفرمائی۔دوسری بات انھوں نے یہ کہی:آپ کو اذیت دی جائے گی ۔اس پر بھی آپ نے خاموشی اختیارفرمائی۔تیسری بات یہ کہی:آپ کو اپنے وطن سے نکال دیا جائے گا۔اس پر آپؐ نےکہا: أَوَ مُخْرِجِيَّ؟ کیا وہ مجھے میرے وطن سے نکال دیں گے؟یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد امام سہیلی لکھتے ہیں: فَفِيْ هٰذَا دَلِيْلٌ عَلٰی حُبِّ الْوَطَنِ وَشِدَّةِ مُفَارَقَتِهِ عَلَی النَّفْسِ۔اِس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے وطن سے شدید محبت پر دلیل ہے اور یہ کہ اپنے وطن سے جدائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کتنی شاق تھی۔ (الروض الأنف للسهيلی، 2:273)

ہجرت کرتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا:ترجمہ:تُو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے! اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجھے مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا۔(سنن الترمذی،حدیث نمبر: 3926) یہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صراحتاً اپنے آبائی وطن مکہ مکرمہ سے محبت کا ذکر فرمایا ہے۔

اِسی طرح سفر سے واپسی پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے وطن میں داخل ہونے کے لئے سواری کو تیز کرنا بھی وطن سے محبت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ گویا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وطن کی محبت میں اتنے سرشار ہوتے کہ اس میں داخل ہونے کے لیے جلدی فرماتے، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر سے واپس تشریف لاتے ہوئے مدینہ منورہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی اونٹنی کی رفتار تیز کر دیتے، اور اگر دوسرے جانور پر سوار ہوتے تو مدینہ منورہ کی محبت میں اُسے ایڑی مار کر تیز بھگاتے تھے۔(صحيح البخاري:1886)

اِس حدیث مبارک میں صراحتاً مذکور ہے کہ اپنے وطن مدینہ منورہ کی محبت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سواری کی رفتار تیز کردیتے تھے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے: وَفِی الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ۔۔۔ عَلٰی مَشْرُوعِيَةِ حُبِّ الْوَطَنِ وَالْحَنِيْنِ إِلَيْهِ.(فتح الباری، 3: 621)یہ حدیث مبارک وطن سے محبت کی مشروعیت و جواز اور اس کے لیے مشتاق ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ ان تمام روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ وطن کی محبت فطری چیز ہے نیز جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمل کی وجہ سے یہ محبت شرعی بھی ہوگئی ہے۔ لہٰذا اس پر اجروثواب کی امید بھی ہے۔اسی وجہ سے بعض لوگوں کایہ قول منقول ہے۔ حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَان ِیعنی وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔ محدثین اورمحققین کے مطابق یہ حدیث تو نہیں ہے، لیکن اس کا مفہوم درست ہے۔ حب الوطن من الإیمان لم أقف علیہ ومعناہ صحیح۔ (تذکرۃ الموضوعات للهندي الفَتَّنِي: ۱۱)۔
٭٭٭