سیاستمضامین

ووٹوں کی خاطر کرناٹک سرکار نے مسلم ریزرویشن ختم کر دیا

ابراہیم آتش (گلبرگہ ۔ کرناٹک)

کرناٹک میں مسلمانوں کو معاشی طور پرجو ریزرویشن 27 سالوں سے حاصل تھااس کو کرناٹک کی بی جے پی سرکار نے ختم کر دیا اور اس وجہہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ مذہب کے نام پرریزر ویشن نہیں دیا جا سکتا اس کا فیصلہ تو عدالت کر سکتی تھی کرناٹک سرکار کو فیصلہ لینے کی کیا ضرورت تھی کیا کرناٹک کے علاوہ کسی دوسری ریاستوں میں معاشی طور پر ریزرویشن نہیں مل رہا ہے ہو سکتا ہے مذہبی منافرت کی وجہہ سے شمالی ریاستوں میں مسلمانوں کو معاشی طور ریزر ویشن نہ ہو مگر ملک کے جنوبی ریاستوں میں کیرالا ,آندھرا پردیش‘ تلنگانہ اور ٹمل ناڈو میں آج بھی مسلمانوں کو ریزرویشن مل رہا ہے مسلمانوں کو 2b کے تحت چار فیصد ریزرویشن دینے کا سہرا دیوے گوڑا کو جاتا ہے کیونکہ انھیں کے دور میں 1995 جب وہ وزیر اعلی تھے اس وقت مسلمانوں کی معاشی اور تعلیمی پستی کو دور کرنے کے لئے ریزرویشن کا اعلان کیا تھا آج اس ریزر ویشن کو بی جے پی حکومت برخاست کر کے ان چار فیصد میں سے دو دو فیصد لنگایت اور وکیلیگا طبقہ کو دینے کا اعلان کیا ہے ملک کی مختلف کمیشنوں اور سروے رپورٹس میںمسلمانوں کی تعلیمی پستی سب سے زیادہ بتائی جاتی ہے اور نو کریوں میں خاطر خواہ نمائندگی نہیں ہے ملک میں اگر تمام لوگوں کو انصاف ملنے کی بات کریں توایک ہی فارمولہ اپنانا ہوگا جس کی جتنی آبادی ہو اس کی اتنی حصہ داری ہونہ پندرہ فیصد والا دو فیصد پر ہوگا نہ تین فیصد والا پندرہ فیصد پر قابض ہوگا نہ بارہ فیصد والا بیس فیصد پر ہوگا کرناٹک میں دلتوں کے بعد سب سے زیادہ آبادی مسلمانوں کی ہے تقریبا 75 لاکھ کی آبادی ہے جبکہ وکیلیگااور لنگایت کی آبادی مسلمانوں سے کم ہیںان دونوں کے لئے سات سات فیصد ریزر ویشن کر دیا گیا ہے بی جے پی کے اس فیصلے کو کسی کا ذہن قبول نہیں کرے گا اس فیصلے نے انصاف کا گلا نہیں گھونٹا بلکہ انصاف خود خود کشی کر لے گا۔
سب کا ساتھ سب کا وکاس سب کا وشواس ایک تعرہ ہے اور بہت خوبصورت نعرہ ہے حقیقت میں بی جے پی حکومت کو اس نعرے سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اس نعرے کے ذریعہ بی جے پی اپنی امیج کو بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہے بعض ایسے بھی لوگ نظر آتے ہیںبظاہر ان کی گفتگو سے ایسے لگتا ہے شیرنی ٹپک رہی ہے مگر ان کے ذہنوں میں زہر ہوتا ہے سب کا ساتھ سب کا وکاس یہ نعرہ تو دنیا میں ایک اچھا پیغام دیتا ہے مگر حقیقت میں اس کے برعکس ہے۔
کرناٹک ریاست میں مسلم ریزر ویشن ختم کئے جانے کے بعدمختلف اداروں میں شدت کے ساتھ بے چینی محسوس کی جارہی ہے جمیعتہ العلماء کے سربراہ سید محمود مدنی کے طرف سے بیان جاری کیا گیا جس میں بہت افسوس اور دکھ کا اظہار کیا گیا اور اس کے لئے قانونی لڑائی لڑنے کا اعادہ پیش کیا گیا دوسری جانب بنگلور میں جامعہ حضرت بلال میں کرناٹک سنی علماء بورڈ کی جانب سے ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں ریاستی وقف بورڈ کے چیرمین شافع سعدی نے شرکت کی شافع سعدی کے توسط سے مسلمانوں کے اس احساس کو حکومت تک پہنچانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے حکومت کے فیصلے کے اسی دن شام میںرحمان خان صاحب سابق مرکزی وزیراور سینئیر کانگریس لیڈر کے دفتر میں سرکردہ سیاسی قائدین کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں ریاستی حکومت کے غیر منصفانہ فیصلے کی مذمت کی گئی حکومت کی جانب سے کی گئی نا انصافی کے خلا ف قانونی جنگ کا اعلان کر دیا جس میں کانگریس کے بیشتر ایم یل اے موجود تھے ریاست کرناٹک کے امیر شریعت مولانا صغیر احمد رشادی نے اس ضمن میں ایک اخباری بیان جاری کر تے ہوئے اس اقدام کی سخت مذمت کی انھوں نے کہا ہم ہمارے دستوری حق ریزرویشن کو حاصل کرنے کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اس کے لئے اعلی سطح پر وکلاء کی ٹیم تشکیل دی جا رہی ہے۔
یہاں یہ بات غور کرنے کی ہے عین الیکشن سے قبل بی جے پی کی یہ کوشش تو سمجھ میں آتی ہے دیگر طبقات کے ووٹ لینے کے لئے اس طرح مسلمانوں کی حق تلفی کی ہے کرناٹک سرکار کے اس فیصلے پر مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے بنگلور کی ریلی میں بسوراج بومئی کے فیصلے کو درست اور صحیح کہا بی جے پی سرکار مسلمانوں کو یہ کہہ کر تسلی دے رہی ہے اس سے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں ہوگا اس طرح بی جے پی کا بیان سراسر جھوٹ اور فریب ہے بی جے پی کا یہ کہنا ews عینی اکنامی کمزر طبقہ کے لئے جو دس فیصد کوٹہ مختص کیا گیا ہے جس برہمن, جین اور دوسرے سماج کے لوگ فائدہ حاصل کر رہے ہیں ویسے ہی مسلمان بھی فائدہ اٹھائیں پہلی بات تو یہ کہ اس کوٹہ کہ نہیں بڑھایا گیا اور دوسری بات مسلمان جو معاشی طور پرکمزور ہیں کیا وہ برہمنوں کا مقابلہ کر پائیں گے ایک طرف ہندئوں اور مسلمانوں میں نفرت کے بیج بونے کی کوشش کی ہے دوسری طرف کانگریس اور جنتا دل کو کمزور کرنے کی بھی کوشش کی ہے کیونکہ کانگریس اور جنتا دل میں وکیلیگا وار لنگایت کا بہت بڑا ووٹ بینک ہے جس کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کی ہے۔
مسلمانوں کی مختلف جماعتوں کی جانب سے الگ الگ بیانات اچھا تاثر تو نہیں کہا جا سکتا اس سے ظاہر ہوتا مسلمانوں میں اتحاد نہیں ہے جمعیتہ العلماء قومی سطح پر ایک بڑی تنظیم ہے وہ مقامی سطح پر مقامی علماء کرام کو اپنے اعتماد میں لیتے ہوئے ہی کوئی بھی فیصلہ کرنا ہوگا سنی علماء بورڈ کا ایک الگ اجلاس دوسری جانب امیر شریعت کرناٹک کا الگ بیان پھر کانگریسی لیڈروں کا علحدہ اجلاس اس سے ظاہر ہوتا ہے مسلمانوں میں اتحاد نہیں ہے۔
ریزر ویشن ختم کئے جانے سے مسلمانوں کو نوکریوں میں جو نقصان ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے اسی طرح انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے والے طلباء کو بھی بہت بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے شاہین گروپ کے بانی قدیر احمد صاحب کے بقول کرنا ٹک میں ریزرویشن ختم کئے جانے سے 106 میڈیکل سیٹوں کا مسلمانوں کو نقصان ہو سکتا جس کا اثر ہم دیکھ سکتے ہیںاگر ان سیٹوں کے نقصان سے معاشی نقصان دیکھا جائے تو اندازہ 100 کروڑ کا نقصان صرف میڈیکل سیٹوں کے ذریعہ ہو سکتا ہے دوسرا نقصان یہ ہوگا میڈیکل کے شعبے میں مسلمانوں کی نمائندگی بالکل کم ہو جائےگی۔
مسلمانوں میں لاکھ اختلافات ہوں مگر ایک بات پر سب متفق ہو جائیں کرناٹک یا ملک میں کسی بھی جگہ مسلم ریزر ویشن کے خلاف مسلمان سڑکوں پر نہیں آئیں گے قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے کچھ لوگ جذباتی لیڈر شپ کو ابھارنے کے لئے اس طرح کے موقع تلاش کرتے ہیں کرناٹک کے عام مسلمان اس طرح کے جذباتی لیڈروں کے بہکاوے میں نہ آئیںتھوڑی سی بھی مسلمانوں کی غلطی بے پناہ نقصان کو دعوت د ے۔
بی جے پی کے ساتھ نظریاتی لڑائی میں مسلمان اپنے آپ کو اکیلا کیوں پاتا ہے حجاب کا مسئلہ مذہبی مسئلہ ہے اذاں کا مسئلہ دینی مسئلہ ہے گائو کشی کا مسئلہ مذہبی نہیں ہے وہ ایک سماجی مسئلہ ہے ریزر ویشن کا مسئلہ بھی مذہبی نہیں وہ ایک سیاسی اور سماجی مسئلہ ہے مگر ہمارے پاس ہر مسئلے کے لئے علماء کرام کی فوج میدان میں اترتی ہے سیاسی پارٹیاں آنکھ موند کر لیتی ہیںاس نظریاتی لڑائی میں اگر مسلمان اپنی کامیابی چاہتے ہیں تو انھیں اپنے دائرے سے باہر آنا ہوگا اپنے محدود نظریہ کو بدلنا ہوگا وہ جس ملک میںبستے ہیں وہاں بی جے پی سے اختلافات رکھنے والے اور بھی بہت سے لوگ ہیں اور بھی بہت سے مذہب ہیں اور بھی بہت سی ذاتیں ہیں ان کے قریب جانا ہوگا اپنا حال دل ان کا حال دل آمنے سامنے رکھنا ۔ہوگا یہ متحدہ لڑائی ہے اس لڑائی کو مسلمان اکیلا نہیں لڑ پائے گا ماضی کے تمام تجربات یہی ثابت کررہے ہیں مسلمان اس لڑائی کو اکیلا لڑنا چاہتا ہے وہ دوسری تمام قوموں کو اپنے مدمقابل سمجھتے ہیں اور تمام قوموں کو اپنا دشمن سمجھتا ہے یہی ان کی حماقت ہے اور اسی حماقت کی سزا وہ مسلسل بھگت رہے ہیں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰