ٹوپیاں پہنانا بھی ایک فن ہے

محمد ضیاءالدین
دیکھا جاے تو ٹوپی پہنانا کوئی خاص بات نہیں کہ یہ ایک بے ضرر سا فعل ہے جیسے کہ مدرسہ یا دینی تعلیم کے حصول کے لیے جانے والے بچوں کو ان کی مائیں ٹوپیاں پہناتی ہیں اور پھر اپنے بچے کو توصیفی نگاہ سے بھی دیکھتی ہے کہ میرا لال کیسا لگ رہا ہے ( یہ اور بات ہے کہ مدرسے والے سرپرستوں کو آے دن مختلف حیلے بہانے ٹوپیاں پہناتے رہتے ہیں) غرض کہ فعل کی حد تک ٹوپی پہنانے میں بظاہر کوئی خاص بات نہیں آتی لیکن آج کل بہت سارے سیدھے سادھے الفاظ و جملے محاوروں کا روپ اختیار کرگئے ہیں جس کے سبب و ہ الفاظ و جملے اپنی سادگی کے جامے سے نکل کر زمانے کے فیشن کے عین مطابق ملبوسات میں ملبوس اپنی چھب دکھا رہے ہیں اور یہی ٹوپی پہنانے کا جملہ محاورے کا رخ اختیار کرتا ہے تو اسے سن کر سننے والے کے لب تبسم ریز ہوجاتے ہیں طبیعت میں اوباش پن کے عناصر شامل ہوں تو ایک آنکھ بھی دب جاتی ہے داہنی آنکھ۔ بہت سارے بھولے بھالے سیدھے سادھے لوگ جو بہ سبب شرافت یا بہ سبب عاد ت دیرینہ ٹوپی پہنے رہتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ ٹوپیاں صرف پہنی ہی نہیں پہنائی بھی جاتی ہیں، ان کی سادگی دیکھ کر کچھ سیانے محسوس کرتے ہیں کہ یہ پہنی نہیں پہنائی گئی ہوں گی کہ آجکل ٹوپیاں پہنانے کا چلن بڑھتا ہی جارہا ہے۔
کچھ لوگ جن کا دل ذرانرم ہوتا ہے وہ اس کی ٹوپی اس کے سر کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں کہ وہ بڑے خطرات کا سامنا کرنے کے متحمل نہیں ہوتے۔ یہ اور با ت ہے کہ کچھ ٹوپیاں پہنانے والوں نے ایسی ٹوپیاں پہنائیں کہ اس کے بعد ان کو جوتیاں ہاتھ میں لے کر بدیس بھاگ جانا پڑا لیکن کچھ ایسے ڈھیٹ بھی ہیں کہ ٹوپیاں پہنا کر بھی ڈٹے ہوئے ہیں سینے پر مونگ دلنے کے لیے وہ بھی جوتوں سمیت۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں، چھوٹی موٹی ٹوپیاں پہنانے والوں کے نصیب میں یہ باتیں کہاں۔
کہتے ہیں کہ لوگ کسی برے کو اچھا بنتے ہوئے دیکھنا پسند نہیں کرتے یا ان پر طنز کرتے جس سے ناراض ایسے برے یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ایک ہم کیا شریف ہوئے کہ سارا جہاں بدمعاش ہوگیا، ان کا یہ بھی کہنا ہوتا ہے کہ ہم جب تک بدمعاش تھے، یہ طنز کرنے والے ہمارے سامنے بھیگی بلی بنے رہتے تھے، خیر ایسے ہی ایک شخص کو جب نیک توفیق ملی اور مذہبی تعلیمات کی طرف پلٹا تو اس کا رہن سہن بھی تبدیل ہوگیا جب اس شخص کو اسی کے قبیل کے پرانے دوست نے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ وہ سر پر ٹوپی جمائے ہوئے ہے تو ایک طنز آمیز مسکراہٹ سے کہا بھئی واہ ٹوپیاں پہناتے پہناتے خود ہی ٹوپی پہن لی ۔
جب دو پھاندے باز آپس میں ملتے ہیں تو ایک دوسرے کی مصروفیت کا حال ان الفاظ میں دریافت کرتے ہیں کہ بھائی آج کل کسے ٹوپی پہنا رہے ہو۔ یادش بخیر وہ بھی ایک دور تھا کہ بچے مدارس میں بغیر ٹوپی پہنے جا نہیں سکتے تھے اور اگر کسی روز کوئی بچہ بغیر ٹوپی کے اسکول آجاے تو طئے تھا کہ اسکول کا سب سے بد زبان ٹیچر اس سے یہ کہے گا کہ
” کیوں کیا تیرا باپ مر گیا ہے جو ننگے سر چلا آیا؟“ باپ تو سلامت ہوتا، لیکن وہ بیچارہ زندہ زمین میں گڑ جاتا۔ معاشرے میں بھی ننگے سر پھرنے والوں کو منہ پھٹ لوگوں کی ایسی ہی لعن طعن برداشت کرنی پڑتی تھی۔ وہ بھی ایک دور تھا کہ سماج میں ہر مذہب دھرم میں کھلے سر بالفاظ دیگر ننگے سر گھومنا معیوب سمجھا جاتا تھا اور لوگ اپنے ماحول و معاشرے کے مطابق ٹوپی پہنتے یا پگڑی باندھتے تھے، آزادی کی جد وجہد اور اس کے بعد کے دور میں کپڑے کی ایک سفید و سادہ سی ٹوپی بنام گاندھی ٹوپی ایسی چلی کہ اس کا جادو ہر خاص و عام کے سر چڑھ کر بولنے لگا اور ہر کس و نا کس کا سر اس ٹوپی کے نیچے آگیا یہ وہ دور تھا جب عمر عہدے یا علم و فضل میں اپنے سے بڑے لوگوں کے سامنے ننگے سر جانے کی ہمت نہیں کرتے تھے اور یہ بھی کہ سر پر ٹوپی کا نہ ہونا کسی شخص کے پریشان حال یا بد حواس ہونے کی علامت سمجھا جاتا تھا، غرض کہ سارے معاشرے کے سر پر ٹوپی ہوا کرتی تھی لوگ ٹوپیاں ضرور پہنتے تھے، لیکن کسی کو ٹوپی پہنانے کا اس دور میں تصور بھی نہیں تھا۔
شاہی دربار جب کسی پر مائل بہ کرم ہوتا تو اسے سر دربار دستار سے نوازا جاتا ٹوپی نہیں پہنائی جاتی کہ نہ تو وہ دور دور جمہوریت تھا نہ ہی ٹوپیاں پہنانا بادشاہوں کا شیوہ۔ ایسے ہی علمی مجالس میں یا درگاہوں پر دستار بندی کی جاتی تھی ٹوپی نہیں پہنائی جاتی کہ شاید ان کو پتہ تھا ایک دور وہ بھی آے گا جب وہ جو ٹوپی پہنا رہا ہے اس کو شک بھری نظروں سے دیکھا جاے گا ۔یوں تو جمہوری دور اپنی جلو بہت ساری چیزیں لے کر آیا لیکن سوغات جمہوریت میں جو چیز قابل تذکرہ اور سکہ دوراں ہے وہ ہے چاپلوسی، یہ اسی دور کی برکت ہے کہ عفریت چاپلوسی غیرت حمیت و خودداری کے وجود پر اس کمبل کی طرح سوار ہے جسے چھڑانا چاہیں تو بھی اس سے چھٹکارا ممکن نہیں، یہ کہنا تو غلط ہوگا کہ چاپلوسی کی ولادت باسعادت دور جمہور میں ہوئی کیوں کہ اس ذات شریف کا وجود اس دور سے پہلے والے ادوار میں بھی رہا ہے جس کے شاہد اوراق تاریخ ہیں، جو ہمیں بتاتے ہیں کہ کبھی بادشاہوں کے دربار میں بھانڈ اور خوشامد خورے ہوا کرتے تھے، جن کی روزی روٹی کا دارومدار اسی فن پر ہونے کے سبب وہ اپنے اس فن میں مشاق تھے۔
اس ضمن میں ایک معروف نام بیربل کا بھی ہے، یہ بھانڈ کیسے ہوتے تھے، یہ سمجھنے کے لیے صرف آج کی گودی میڈیا کو دیکھ لینا کافی ہے، ہاں ایک فرق ضرور ہے،اس دور کے بھانڈ محض اپنی روزی روٹی کے لیے اپنی دلچسپ باتوں اور اول جلول حرکتوں سے بادشاہ کا دل خوش کیاکرتے تھے، لیکن اسی قبیل کی موجودہ برادری کو بیک وقت کئی کام کرنے پڑتے ہیں، شاہ کو خوش رکھنا یہ ایک مشترکہ وصف ہے لیکن موجودہ بھانڈ برادری کو شاہ کو خوش رکھنے کے علاوہ شاہ کو خوش کرنا ،اس کی امیج بنانا اور اس کے حوالے سے عوام کو گمراہ کرنا اس لحاظ یہ برادری کچھ زیادہ انعام و اکرام کی مستحق ہے،اطمنان بخش بات یہ کہ وہ مل رہا ہے ۔
بات چلی تھی چاپلوسی کی تاریخ ولادت سے اور جا پہنچی کہاں شاید یہ بھی اس دو رگمراہی کی خوبی ہے کہ لوگ چلتے کہاں کے لیے ہیں اور کہاں جا پہنچتے ہیں تو ذکر تھا چاپلوسی کا جو پہلے بھی تھی لیکن یہ بھی ہے کہ اسے اس دور میں فعل قبیح سمجھا جاتا تھا اور فاعل کبھی بھی لائق عزت نہ ہوتا بلکہ سماج میں ایسے لوگ بری نظر سے دیکھے جاتے تھے جب کہ آج وہ سماج سیوک ہی نہیں قوم کے رہنما بھی کہلاتے ہیں۔ خیر کوئی بات نہیں ویسے بھی چاپلوسی کوئی آسان سی بات نہیں، یہ رسی پر چلنے کی کسرت سے کسی طور کم نہیں کیوں کہ اس میدان میں بھی زبردست مقابلہ آرائی ہے اور مقابلہ آرائی کے دور میں وہی آگے رہے گا جس کا کرتب اوروں سے ہٹ کر ہو ، اسی چاپلوسی کے چکر میں ایک نئی چیز دیکھنے میں آئی اور خاص بات یہ کہ مسلمانوں ہی میں دیکھنے میں آتی ہے وہ ہے غیر مسلم لیڈروں (اب اس میں عہدیدار بھی شامل ہو گئے ہیں) کو ٹوپی پہنانے کا یہ نظار ہ روزہ افطار اور عید ملاپ کی تقاریب سے شروع ہوا جو اب مسلم محلوں میں منعقد ہونے والی ہر تقریب میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پرجوش مسلم کارکن اپنے غیر مسلم لیڈروں کے سر پر ٹوپی چڑھاتے ہیں جسے وہ بھی بڑی خندہ پیشانی سے پہن لیتے ہیں اور من ہی من مسکراتے ہیں شاید سوچتے ہوں کہ ٹھیک ہے ہم بھی تمہیں ضرور ٹوپی پہنائیں گے لیکن ان کا نشانہ غلط ہوتا ہے۔ مسلم کارکن کی پہنائی ہوئی ٹوپی کے بدلے وہ مسلم سماج کو ٹوپی پہناتے ہیں، شاید اسی لیے کبھی مایا وتی نے کہا تھا کہ مسلمانوں کا کیا انھیں ماشاء اللہ سبحان اللہ اور انشاء اللہ کی ٹوپی پہنادو یہ خوشی میں کپڑے اتار کردے دیں گے اور خوشی کی بات یہ کہ دونوں بھی اس پر پوری ایمانداری سے عمل پیرا ہیں۔ مسلم سیاسی ورکرز کی جانب سے غیر مسلم لیڈرس کو ٹوپی پہنانے کے مناظر تو اکثر و بیشتر دیکھنے میں آتے ہیں لیکن غیر مسلم خاتون لیڈرس کو برقعہ اڑھانے کا کوئی واقعہ ابھی تک دیکھنے میں نہیں آیا۔ آگے کا حال اللہ جانے۔ پہلے شادیوں کی تقاریب میں اہیر کا سسٹم تھا کہ مدعوین صاحب و خاتون خانہ کے لیے کپڑوں یا توال شال کا تحفہ لے کر جاتے اسے اہیر کہا جاتا تھا بدلے میں ادھر سے بھی اہیر لانے والوں کو کم و بیش ویسا ہی اہیر کرتے تھے، لیکن سیاسی حلقوں میں ایسا کوئی رواج نظر نہیں آتا ایسا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ ٹوپی پہنانے والے کسی ورکر کو اپنے کسی پروگرام میں بلاکر ٹوپی کے بدلے دھوتی پہنائی گئی ہو، ممکن ہے آگے یہ بھی دیکھنے کو ملے عام طور پر افطار پارٹی میں آنے والے غیر مسلم لیڈرس منتظمین کی ٹوپی پہن کر افطار کی لذیذ اشیاے خورد و نوش سے انصاف کر کے واپسی کا راستہ پکڑتے ہیں اور ورکرز ان سے مصافحہ کرنے اور ان کے ساتھ تصویر کھنچوانے میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ انھیں مغرب کی نماز بھی یاد نہیں رہتی لیکن جنوب میں اس سے قطعی مختلف منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔یہ مناظر ابھی بھی یاد آتے ہیں کہ جنوب کے لیڈرس پھر وہ این ٹی آر ہوں چندرا بابو نائیڈو ہوں، جگن موہن ہوں یا کرونا ندھی یہ جب بھی افطار کی دعوت میں بلاے گئے انھوں نے محض ٹوپی پہننے پر اکتفا نہ کیا بلکہ وہ نمازیوں کی صف میں بھی جا کر شریک ہوگئے۔
ٹوپی پہنانے کا کلچر یوں تو ہر شعبہ حیات میں پایا جاتا ہے، لیکن سیاسی شعبے میں اس کے زاید اور دل چسپ مناظر دیکھنے ملتے ہیں۔ جب اس شعبے کے لوگ ایک دوسرے کو بے دریغ ٹوپیاں پہناتے ہیں عین اس وقت جب الیکشن کی سرگرمیاں اپنے شباب پر ہوتی ہیں ووٹرز اور ورکرز کے جتھے ہر امیدوار سے مل کر اسے نہ صرف اپنی وفاداری اور تعاون کا یقین دلاتے ہیں بلکہ اسی کی کامیابی کی ضمانت بھی دیتے ہیں لیکن اس شرط پہ کہ اسے ابھی اورزور لگانا پڑے گا، وہ کہتے ہیں کہ صاحب سیٹ تو آپ کی پکی ہے لیکن (انگلی کی پوروں کو گن کر بتاتے ہوے) صاحب ذرا زور لگانا پڑے گا اور بے چارے امیدوار کی ہی مجبوری اسے آنکھوں دیکھی مکھی نگلنی ہی پڑتی ہے۔ ایک مخصوص طبقے کی آبادی کی اکثریت والے گاوں کے گرام پنچایت الیکشن میں اسی طبقے کے ہارے ہوے امیدواروں نے کیسے آپسی گٹھ جوڑ سے ٹوپی پہنانے والے ووٹرز کو رات اندھیرے میں منہ چھپا کر گاوں چھوڑکر بھاگنے پر مجبور کیا تھا ایک بے ساختہ اور تا دیر قہقہے لگانے پر مجبور کرنے والا واقعہ ہے، لیکن قصے کے بڑے حجم اور مضمون کے چھوٹے فریم کے سبب اسے موخر کرتے ہیں۔ آئندہ کبھی، یار زندہ صحبت باقی۔
٭٭٭