مذہب
ٹرینڈنگ

پاکیزہ سیاست اہل اسلام کے عروج کا باعث

سیاست کا صحیح اسلامی تصور یہ ہے کہ ’’حاکم اور محکوم‘‘ منزل من اللہ '' قانون کے یکساں تابع ہو کر معاشرے میں اقدار حیات کے عادلانہ قیام، تحفظ اور فروغ کیلئے کوشش کی جائے۔ یہ تعریف جہاں آمریت و ملوکیت کا شدید رد کرتی ہے وہیں آج کی مغربی فکر کو بھی مسترد کرتی ہے۔ بلکہ یہ تعریف تمام انسانوں کو یکساں مقام عطا کرتی ہے اور ایک ہی صف میں لا کھڑا کرتی ہے۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
(شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ)

سیاست کے لغوی معنی حکومت، حکمت عملی، تدبیر، پالیسی، ملکی معاملات کی تدبیر وانتظام کے آتے ہیں۔

سیاست کا صحیح اسلامی تصور یہ ہے کہ ’’حاکم اور محکوم‘‘ منزل من اللہ ” قانون کے یکساں تابع ہو کر معاشرے میں اقدار حیات کے عادلانہ قیام، تحفظ اور فروغ کیلئے کوشش کی جائے۔ یہ تعریف جہاں آمریت و ملوکیت کا شدید رد کرتی ہے وہیں آج کی مغربی فکر کو بھی مسترد کرتی ہے۔ بلکہ یہ تعریف تمام انسانوں کو یکساں مقام عطا کرتی ہے اور ایک ہی صف میں لا کھڑا کرتی ہے۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے کیا خوب کہا:

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

اسلام ایک مکمل اور آزاد دین ہے۔ یہ افکار و نظریات کے حصول کیلئے کسی مذہب کا محتاج نہیں بلکہ قرآن مجید اور سنت نبویہ کے مطالعہ سے سیاست، معیشت اور معاشرت کا ایک واضح اور روشن مستقل تصور سامنے آتا ہے۔

قرآن مجید متعدد مقامات پر اس امر کی شہادت مہیا کرتا ہے۔ دین حق کا سیاسی غلبہ و استحکام صحیح طور پر بحال کئے بغیر معاشرے میں مطلوبہ اخلاقی انقلاب بپا نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک سیاسی انقلاب کے ذریعے معیاری دین بحال نہ ہو معمول بہ دین کی برکات اور ثمرات سے بہرہ ور نہیں ہوا جا سکتا۔ اس سلسلہ میں قرآن حکیم میں ارشاد باری ہے :

وَعَدَ اللَّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِیْ الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْنا (سورہ نور) اللہ نے ایسے لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے (جس کا ایفا اور تعمیل امت پر لازم ہے) جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ ضرور انہی کو زمین میں خلافت (یعنی امانت اقتدار کا حق) عطا فرمائیگا جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو (حق) حکومت بخشا تھا جو ان سے پہلے تھے اور ان کیلئے ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے (غلبہ و اقتدار کا ذریعہ) مضبوط و مستحکم فرما دیگا اور وہ ضرور اس تمکن کے باعث انکے پچھلے خوف کو (جو ان کی سیاسی، معاشی اور سماجی کمزوری کی وجہ سے تھا) ان کے لئے امن و حفاظت کی حالت سے بدل دیگا۔

سیاسی اقتدار کے بغیر دین کا استحکام ممکن نہیں: اس آیت میں صالح مسلمانوں کو زمین میں خلافت یعنی حکومت و سلطنت اور قوت و اقتدار عطا کئے جانے کا ذکر ہے۔ اس کا مقصد یہی بیان کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے دین حق کو استحکام نصیب ہو اور شرعی قوانین واحکام کے نفاذ کا ماحول میسر آئے۔ کیونکہ سیاسی اقتدار کے بغیر دین کا استحکام اورقوانین کا نفاذ ممکن ہی نہیں۔ اسی طرح یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ سیاسی انقلاب کے بعد ہی معاشرے سے خوف و غم کی حالت کو بدلا جا سکتا ہے اور اس کی جگہ امن و سلامتی کا ماحول پیدا کیا جاسکتا ہے۔

موجودہ سیاست میں جھوٹ، دھوکہ، فریب، مکر وغنڈہ گردی، آمریت شامل ہونے کی وجہ سے عرف عام میں مشہور ہو گیا ہے کہ اسلام میں سیاست درست نہیں، یہ بالکل غلط تصور ہے۔ دور ِ حاضر میں پاکیزہ وبا مقصد سیاست کیلئے قابل باصلاحیت، امانت دار، مسلمانوں کا سیاست میں داخل ہونا نہایت ضروری ہے۔

ہمارے نبی و سردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں ایسی واضح مثالیں موجود ہیں جو آپ کی کمال درجہ سیاسی بصیرت و حکمت پر دلالت کرتی ہیں جن کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ کس قدردانشمندی اور دوراندیشی سے آپ پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کو حل کرتے تھے، اختلافِ آراء کو دور فرما دیتے تھے، معاہدے کرتے اور نبھاتے تھے، کسی مشکل سے نجات حاصل کرنی ہوتی تو کمال حسن کے ساتھ چھٹکارا حاصل کرلیتے، اور انتہائی دور بینی سے کام لیتے تھے، آپ کی زیرکی ودانائی کا نتیجہ تھا کہ ظاہری و باطنی مصلحتیں حاصل ہو جاتی تھیں، نفع و فائدہ حاصل ہوتا، برائی کا سد باب ہو جاتا، ذرائع کا بندوبست ہو جاتا، اور ہر کام اپنی اپنی جگہ پر مناسب انداز سے انجام پا جاتا، آپ کو ایسی کامیابی عطا ہوئی تھی کہ جو پہلے کسی کو نہیں ملی۔

آپ کی راست سیاست ہی کا نتیجہ تھا کہ جب آپ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو دیکھا کہ عقائد ونظریات کے اختلاف کی بنا لوگوں کے درمیان آپس میں محبت اور تال میل نہیں ہے تو آپ نے اپنے نظام میں ایسے قوانین جاری فرمائے جن کے تحت تمام لوگوں کے حقوق کا تحفظ، عقیدے کی آزادی، جان و مال اور عزت کی حفاظت کا مقصد حاصل ہو جاتا تھا اور تمام لوگ جو ریاست کے باشندے تھے ان کو اس بات کا یکساں طور پر مکلف کر دیا کہ وہ ہر طرح کی جارحیت سے اپنے شہروں کا دفاع اکھٹے ہو کہ کریں گے۔

اور امن و جنگ دونوں حالتوں میں ایک دوسرے کی حفاظت وضمانت پر کار بند رہیں گے، اور یہ قوانین ایک باقاعدہ دستاویز کی صورت میں قلمبند فرما دئیے، جو اس طرح ہے: بِسمِ اللہِ الرَّحْمنِ الرَّحِیم یہ تحریر قریش ویثرب کے مومنین مسلمین کے بارے میں ہے اور اس کا تعلق ان سے بھی ہے جو ان سے لاحق ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ کاروبار میں شامل ہیں اور یہ سب ایک قوم ہیں۔ پھر آپ نے یہ واضح کیا کہ یہود میں سے جو ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں ان کے لیے ہماری مدد ہو گی، ان پر ظلم نہیں ہونے دیا جائے گا اور بنی عوف کے یہودی مسلمانوں کے ساتھ ایک قوم ہیں مسلمانوں کے لیے ان کا دین اور یہودیوں کے لیے ان کا دین ہے یعنی ہر مذہب کے ماننے والوں کو ان کے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی حاصل رہے گی اور یہ دونوں با ہم عہد کے پابند ہیں، پھر آپ نے باقی یہودیوں کے لیے بھی وہی کچھ روا رکھا جو بنی عوف کے یہودیوں کے لیے مقرر فرمایا۔ دستاویز میں یہ بھی لکھا گیا: یہود کا اپنا اور مسلمانوں کا اپنا نفقہ ہو گا، اور اس معاہدے کے لوگوں کے ساتھ جو بھی جنگ کرے گا تو اہل معاہدہ مل کہ اس کے خلاف جنگ کریں گے، ان کے درمیانی تعلقات کی بنیاد خیر خواہی، بھلائی اور نفع رسانی پر قائم رہے گی، ضرر رسانی اور گناہ پر مبنی نہ ہوگی۔

معاہدہ میں شامل تمام لوگوں پر یثرب (مدینہ منورہ) کے شہر میں خون ریزی حرام ہوگی۔ ہمسایہ بھی معاہدے کے حقوق میں شامل ہوگے۔ اس معاہدے میں شامل لوگوں کے مابین کوئی نئی بات یا جھگڑا پیدا ہو جائے اور فساد کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں فیصلہ اللہ اور اس کا رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کریں گے۔

اس دستاویز کے ساتھ ہی مدینہ منورہ کی ساری قوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں سمٹ آئی، معاہدے کا تقاضا ہی یہی ہوتا تھا کہ اختلاف کی صورت میں فیصلہ کا حق آپ کو ہوگا، اور اس وقت سے ہی اسلامی حکومت کی داغ بیل ڈالدی گئی جب سے یہ معاہدہ عمل میں آیا۔

آپ کی سیاسی بصیرت کا ایک واقعہ یہ ہے کہ غزوہ بنی مصطلق کے موقعہ پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک خادم اور ایک انصاری میں جھگڑا ہو گیا، انصاری نے انصاریِ ساتھیوں کو مدد کے لیے پکارا اور حضرت عمر کے خادم نے مہاجرین کو آواز دی ایسے میں شدید لڑائی چھڑ جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی ابن سلول نے ایسے میں جلتی پر تیل چھڑکنے کا ارادہ کیا۔ اس وقت زید بن ارقم ابن ابی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، کہ ابن ابی نے کہا: دیکھو مہاجرین نے یہ کیا کیا؟ انہوں نے تو ہمارے ہی وطن میں ہم سے جھگڑا کیا ہم پر مال و دولت میں فخر کیا، اور ہماری ان کی مثال تو ایسی ہے کہ جیسے کسی نے کہا:

اپنے کتے کو فربہ کرو وہ تمہیں ہی کاٹے گا۔ خدا کی قسم! اگر ہم مدینہ پہنچے تو معزز ترین، وہاں سے ذلیل ترین کو ضرور نکال باہر کر دے گا، زید بن ارقمؓ نے یہ ساری بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جا کرسنائی، تو حضرت عمر نے کہا، یا رسول اللہ کسی کو حکم دیں کہ ابن اُبی کو قتل کردے مگر اس کے جواب میں اس حکیم دانا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر یہ بات کیسی ہوگی کہ جب لوگ کہیں گے کہ محمدؐ اپنے ہی ساتھیوں کو مارڈالتے ہیں یہ کہہ کر آپ نے حکمت سے کام لیتے ہوئے لشکر کو فوراً وہاں سے کوچ کرنے کا حکم دیا۔ حالانکہ بظاہر وہ وقت کوچ کا نہ تھا، بہرحال آپ لشکر کو لے کر وہ سارا دن اور اگلی رات سفر میں رہے تا آنکہ صبح ہوگئی، اگلے روز بھی مسلسل سفر میں رہے۔ دھوپ نے بہت تکلیف دی اور سارا لشکر تھک کر چور ہو گیا تو آپ نے پڑائو ڈالنے کا حکم دیا اور زمین کو چھوتے ہی سارا لشکر گہری نیند سو گیا۔ مسلسل سفر سے آپ کا مقصود یہ تھا کہ لوگ اس فتنہ میں پڑنے اور غیض وغضب کا شکار ہونے سے بچ جائیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ کی پاکیزہ زندگی امت کی رہبری اور احکام کی پابندی، فتنوںکی سرکوبی، قوانینِ اسلام کے نفاذ کیلئے وقف تھی جس میں ہمارے لیے عظیم رہنمائی موجود ہے جو آپ نے قولاً نہیں بلکہ عملاً کرکے دکھایا اور ایسے واضح رہنمایانہ اصول وہدایت دیے کہ جن کو اپنا ناحکام کیلئے ازبس ضروری ہے۔ اسی طرح آپ ؐکی سیاسی بصیرت اس واقعہ سے بھی واضح ہوتی ہے جب آپ ؐمدینہ منورہ تشریف لائے تو مدینہ کے دو مشہورقبیلے اوس وخزرج میں شدید عداوت ودشمنی تھی، معمولی سی بات کیلئے آپس میں لڑا کرتے تھے، اس قدیم دشمنی سے نت نئے واقعات رونما ہو رہے تھے، اس پر یہود فتنہ کی آگ الگ بھڑ کا رہے تھے۔ آپ کے صحابہ جنہوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی انہیں سوائے اس کے کوئی خوف نہ تھا کہ وہ ایک ایسی قوم کی پناہ میں تھے جو ان کے خاندانوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔

الغرض آپ کو مدینہ منورہ میں انتہائی پیچیدہ صورت حال کا سامنا تھا مگر آپ نے کمال حکمت اور حسن تدبیر سے موقع و محل کو سمجھا اور پوری صورت حال کو حکمت ودانائی سے بہتر طور پر قابومیں کر لیا۔ بلاشبہ یہ آپ کی سیاسی دانشمندی کی دلیل ہے اور اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آپ ہر مسئلہ کو حل کرنے کے اہل تھے، آپ نے فوری طور پر وہاں مسجد کی تعمیر کا کام شروع کیا اور اسی مسجد سے آپ نے دین و دنیا کی صلاح و فلاح وبہبود کی بنیادیں اٹھائیں، یہیں سے اسلامی قیادت کا آغاز ہوا اور یہیں سے دعوت الی اللہ کا غلغلہ بلند ہوا اور یہیں سے توحید ورسالت کا پرچار کیا جانے لگا۔ یہی مسجد تھی جہاں مومنین کی تربیت ہوتی، یہیں تمام سیاسی، عسکری اور انتظامی امور کے بنیادی خطوط طے کیے جاتے تھے، اسی مسجد میں وفود سے ملاقات فرماتے اور یہیں پر تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہتا قرآن مجید نے اسلام کی سیاسی فکر و ادیان باطلہ پر اسلام کے سیاسی غلبے کے تصور کو دو آیات مبارکہ سے واضح کیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یُرِیْدُونَ أَن یُطْفِؤُواْ نُورَ اللّہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَیَأْبَی اللّہُ إِلاَّ أَن یُتِمَّ نُورَہُ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُون (سورہ توبہ) وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنی پھونکھوں سے بجھادیںاور اللہ (یہ بات) قبول نہیں فرماتا مگر یہ (چاہتا ہے) کہ وہ اپنے نور کو کمال تک پہنچا دے اگر چہ کفار (اسے) ناپسند ہی کریں۔ ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ (سورہ توبہ) وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (رسولؐ) کو ہر دین (والے) پر غالب کر دے اگر چہ مشرکین کو برا لگے۔

مذکورہ بالا آیات کریمہ میں یہ بات قابل غور ہے کہ ’’اللہ کے نور‘‘ سے کیا مراد ہے؟ یاد رہے کہ اس جگہ ’’اللہ کے نور‘‘ سے مراد حضور نبی کریم کی ذات مطہرہ بھی لی جائے تو مفہوم وہی نکلتا ہے یعنی اسلام میں مرکز و محور چونکہ حضور نبی کریم اللہ کی ذات گرامی ہے۔ اسلام کا وجود پیغمبر اسلام ﷺ کی رسالت کے ساتھ قائم ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کو ہی اسلام تمام مذاہب پر غالب کرنا تھا لہٰذا کفار و مشرکین آپ کو سخت اذیتیں دیتے رہے۔ راہ استقامت سے ہٹانے کی اپنی طرف سے بھر پور کوشش کی۔ حتی کہ شہید کرنے کے درپے ہوئے۔ وہ مقصد یہ رکھتے تھے کہ اسلام کے چراغ کو گل کر دیں تاکہ غلبہ اسلام کی تحریک دب جائے اور منزل مقصود یعنی سیاسی غلبہ اسلام کو حاصل نہ ہو۔

دورِ حاضر میں پاکیزہ سیاسی بصیرت، اتحاد ہی مسلمانوں کو عروج کے منازل طے کرا سکتے ہیں، جن مسلمانوں میں قائدانہ صلاحیت ہے ان کا رضائے الٰہی کی خاطر آگے بڑھ کر قوم وملت کی سیاسی رہنمائی کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعاء ہے کہ اسلام کو غلبہ عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭

a3w
a3w