چنوبھائی حاجی ہوگئے

ڈاکٹرجاوید کمال
شہر بھر میں چنو بھائی کے چرچے تھے۔روز اخباروں میں اُن کی تصاویر چھپ رہی تھیں جن میں وہ پھولوں سے لدے لوگوں کے درمیان کسی ولیمے کے دولہے کی طرح نظر آرہے تھے۔ حالانکہ ولیمہ کے پھول پہننے کا اب کوئی چانس باقی ہی نہیں تھا۔ نا تو انہوں نے کوئی آئی اے ایس یا آئی پی ایس کا امتحان کامیاب کیا تھا اور نہ ہی کھیل کود میں کوئی مڈل جیتا تھا تو پھر….؟ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بلدیہ کے الیکشن کے لیے اپنا پرچہ نامزدگی داخل کیا ہوگا تاکہ کارپوریٹر بن کے محلہ صاف کرسکیں، میرا مطلب ہے محلے کی گندگی صاف کرسکیں۔ یا پھر کارنامہ¿ حیات ایوارڈ مل گیا ہوگا۔ (کوئی کارنامہ کیا ہی نہیں تو ایوارڈ کیسے ملتا۔؟)آپ کہہ سکتے ہیں کہ آج کل یہ ایوارڈ بغیر کارناموں کے بھی دیئے جارہے ہیں۔ شاعری کرنا اور دوچار مجموعہ کلام چھپالینا کوئی کارنامہ تھوڑا ہی ہے۔؟ ہاں مرزا غالب، اقبال، حالی، میر تقی میر، جگر، فراق اور فیض احمد فیض کے مرتبہ کو پہنچ جانا یا کم سے کم اُن جیسی معیاری شاعری کرنا کارنامہ ہوسکتا ہے۔آٹھ دس کہانیاں یا مضمون نما افسانے لکھ دینا اور کسی مقامی اخبار کے ادبی صفحہ میں چھپالینا کارنامہ ہوتا ہے کیا۔؟ پریم چند، قرة العین حیدر، کرشن چندر عزیز احمد یا عصمت چغتائی کا اسلوب بھی اپنے افسانوں میں اختیار کرنا کارنامہ ہوسکتا ہے۔ زندگی بھر ایک ہی نصاب طلبہ کو پڑھا دینا درس وتدریس کا کوئی کارنامہ کہلاتا ہے۔؟ خیر چھوڑیئے ان باتوں کو….
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ چنو بھائی کی چوتھی یا پانچویں کتاب کی رسم اجراءعمل میں آئی ہوگی۔ جسے قارئین کم وہ خود زیادہ پڑھیں گے….؟ جی نہیں آپ غلط سوچ رہے ہیں۔ اصل میں وجہ یہ ہے کہ چنو بھائی ابھی ابھی حج کرکے لوٹے ہیں۔ ”تو کون سی نئی بات ہے۔ ہر سال ہی لاکھوں مسلمان حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔اُن کے تو چرچے نہیں ہوتے۔“؟ آپ یہی کہنا چاہتے ہیں نا۔؟صحیح کہا آپ نے ….مذہبی فرائض کی ادائیگی کا چرچہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ تو خالصتاً اللہ کی خوشنودی کے لئے کرنی چاہئے۔ دکھاوے یا ریاکاری کا اس میں کیا دخل….؟ مگر محترم حضرات آپ چنوبھائی کو نہیں جانتے۔ اُن کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو چھینکتے اور….تو بھی چرچہ چاہتے ہیں۔ اور چنو بھائی اپنی ہر حرکت اپنے ہر کام کا چرچہ چاہتے ہیں۔ شہر کی سینکڑوں انجمنوں سے وابستہ ہیں۔ کہیں ایک رکنی انجمن کے صدر ہیں تو کہیں دو رکنی بزم کے معتمد عمومی ہیں تو کہیں شہر کے کسی بدنام محلے کی عنقابین الاقوامی تنظیم کے رکن ہیں اور ”سونے پر سہاگہ“ اخبارات میں بھی اپنی دریا دلی کی وجہ سے نچلی سطح کے رپورٹرس میں اونچا مقام رکھتے ہیں۔ اسی لئے اُن کے ہر چھوٹے سے چھوٹے کام کا چرچہ خوب سے خوب تر ہوتا ہے۔ جن جن تنظیموں سے وابستہ ہیں اُن کے ناکام جلسوں کے مکمل اخراجات تنہا وہی برداشت کرتے ہیں۔ رپورٹرس کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے کے فن سے وہ خوب واقف ہیں۔ اور تو اور کڑی دھوپ میں، طوفانی بارش میں اور کڑاکے کی سردی میں خود ہی جاکر اخباروں تک خبریں پہنچاتے ہیں۔ اتنا سب کرنے کے بعد چرچہ تو ہونا ہی ہے۔ چنو بھائی اُن خوش نصیبوں میں سے تھے جن کو حج کی سعادت نصیب ہوگئی تھی اور وہ اپنا چرچہ کرواکر اور خود کو حاجی کہلواکر صرف یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ دیکھو اللہ نے مجھے اپنے گھر بلایا اور اپنے محبوب بندے کی بارگاہ کی زیارت نصیب کروائی جبکہ شہر میں ہزاروں کروڑپتی بدنصیب ایسے بھی ہیں جنہیں اللہ ہدایت نہیں دیتا کہ وہ یہ مقدس فریضہ ادا کریں اور میں نے حج کرلیا۔ ہمارا مسئلہ یہ تھا کہ ہم چنو بھائی کے جگری دوست تھے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اُن کی دلجوئی کرنا فرض کفایہ، نہیں بلکہ فرض عین تھا۔ کہتے ہیں ناکہ ”اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے“ چنو بھائی نے کئی مرتبہ ہمارے چھوٹے موٹے کارناموں پر (حالانکہ کارنامہ چھوٹا بڑا نہیں ہوتا، کارنامہ، کارنامہ ہوتا ہے) ہماری عزت افزائی اور حوصلہ افزائی اپنی انجمنوں کی جانب سے بڑی دھوم دھام سے کی تھی جس میں تقریباً دس بارہ افراد کی کثیر تعداد شریک ہوا کرتی تھی۔ ہم نے سوچا، اس سے پہلے کہ چنو بھائی اپنے گہرے مراسم کا حوالہ دے کر کہیں ہم سے شکوہ نہ کر بیٹھیں۔ ہمیں بھی ان کی دعوت اور گلپوشی کا شرف حاصل کرلینا چاہئے۔ پھر ہم نے اپنے کوتاہ گنجائش والے دیوان خانے میں اُن کی دعوت کا اہتمام کر ڈالا اور ان کی انجمن کے صدر، صدرالدین۔ بزم کے معتمد اعتماد شریف اور گمنام تنظیم کے باوقار رکن وقارالدین کو بھی مدعو کرلیا۔ ہمارا دیوان خانہ ان چاروں مہمانوں کے آجانے سے تنگ دامنی کا شکوہ، جواب شکوہ پڑھ رہا تھا لیکن ہمارا دل کشادہ ہونے کی وجہ سے ہم نے انہیں قریب قریب ایک دوسرے کی گود میں بیٹھنے پر آمادہ کرلیا۔کلیانی بریانی، چکن 75(چکن کے ٹکڑے ذرا بڑے تھے)توالی روٹی (ہم لوگ رومال نہیں کہتے)میٹھی بوندی اور سادی چائے سے اُن لوگوں کی خوب خاطر تواضع کی۔ ہر مہمان نے ہماری مہمان نوازی کی تعریفوں کے پل تعمیر کردیئے اور اسی پل کے راستے تعریف سیدھے ہمارے قلب تک پہنچتی رہی۔ ہم نے صدرالدین کے ہاتھوں چنو بھائی کو شال اوڑھائی جو کئی دن سے ہماری الماری میں پڑھی ہوئی تھی، شاید کسی تقریب میں ہمیں اوڑھائی گئی تھی۔ اتفاق سے ایک دن پہلے ہی ہمارے صاحبزادے کا یوم پیدائش تھا۔ ہم نے اسراف نہ کرتے ہوئے وہی ہار اعتماد شریف کے ہاتھوں چنو بھائی کے گلے میں ڈلوادیا۔ شال اوڑھ کر اور پھول کا ہار پہن کر چنو بھائی پھولے نہیں سمارہے تھے۔ پرانی شال اور باسی ہار کا یہ کرشمہ تھا، اگر نئی شال اور تازہ پھول ہوتے تو شاید چنو بھائی خوشی سے پاگل ہی ہوجاتے۔ لیکن اس وقت ہم خوشی سے پاگل ہورہے تھے کیوں کہ بیٹے کی سالگرہ کا کھانا، پرانی شال اور باسی پھول سب کام میں آگئے تھے اور ہم ایک فرض سے سبکدوش ہوگئے تھے اور امید کررہے تھے کہ دوسرے دن کے اخباروں میں حاجی چنو بھائی کے حج کے چرچے کے ساتھ ہماری مہمان نوازی کا چرچہ بھی شامل ہوگا۔٭٭
٭٭٭