سیاستمضامین

ڈیولپمنٹ معاہدات مالکینِ اراضی کی تباہی کا باعث بن رہے ہیںسخت احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی رائےچار سال گزرنے کے بعد بھی تعمیر نہیں ہوئی۔ ڈیولپر منظر سے غائب۔ مالکین کو سخت مشکلات کا سامنا

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

٭ 800 مربع گز اراضی پر تکمیل کی مدت 24ماہ مقررہوئی۔
٭ آبائی مکان کو منہدم کرکے ڈیولپر کے حوالے کیا گیا۔
٭ اڈوانس میں بھی کوئی رقم وصول نہیں کی گئی۔
٭ زمین پر ڈیولپر کے لوگوںکا قبضہ ہے۔
٭ صرف بنیاد پر پلرس کی تعمیر ہوئی۔
سوال:- میرا ایک آبائی ساٹھ ستر سال قبل تعمیر شدہ دو منزلہ مکان شہر کے ایک مرکزی تجارتی مقام پر واقع ہے۔ اس جگہ اراضی تو ملتی ہی نہیں اور اگر خریدکرنا چاہے تو دو لاکھ روپیہ فی مربع گز میں بھی نہیں مل سکتی۔ 800 مربع گز سے زیادہ اس اراضی کا رقبہ ہے اور سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ مکان کے دونوں جانب وسیع سڑکیں ہیں اور تینوں سمتوں میں شاندار ملگیاں نکل سکتی ہیں جن کا کرایہ فی ملگی ساٹھ ستر ہزار روپیہ سے کم نہیں آسکتا۔ اس مکان کے صرف دو ہی مالکین ہیں یعنی میں راقم الحروف اور میری ایک بہن جو امریکہ میں مقیم ہے۔ میں نے بھی تقریباً چالیس سال ایک عرب ملک میں سروس کی اور واپس آکر خیال ہوا کہ اس مکان کو فروخت کرکے امریکہ منتقل ہوجاؤں جہاں میرے دو لڑکے اور دو لڑکیاں رہتے ہیں اور وہ وہاں کے شہری ہیں۔ جائیداد کو فروخت کرنے کا خیال بالکل ٹھیک تھا لیکن میرے ایک دیرینہ رفیق نے کہا کہ اتنی بڑی جائیداد کا واحد خریدار ملنا مشکل ہے۔ اگر جائیداد چھوٹی ہو تو آسانی سے فروخت ہوسکتی ہے دوسری جانب بڑی بڑی جائیدادوں کا فروخت ہونا بہت مشکل ہے کیوں کہ ہر خریدار کو خرید کی رقم کا حساب دینا پڑتا ہے۔ میرے دوست نے یہ بھی کہا کہ اگر مطلوبہ قیمت فروخت اگر مل بھی جائے تو اتنی بڑی رقم کا امریکہ لے جانا بھی ایک مسئلہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس بڑی جائیداد کو ڈیولپ کیا جائے تو پانچ منزلہ کامپلکس بن سکتا ہے اور کم وبیش اپنے حصہ میں آئی ہوئی ملگیوں کا ماہانہ کرایہ بھی کئی لاکھ ہوسکتا ہے اور اپارٹمنٹس کا کرایہ بھی کئی لاکھ آسکتا ہے۔ اس طرح بچوں کے لئے ایک مستقل آمدنی کا ذریعہ یہ جائیداد بن سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک تجربہ کار اور معاشی طور پر بہت مستحکم بلڈر ہی یہ کام کرسکتا ہے۔ کچھ دنوں کی تلاش کے بعد ایک پارٹی سے رابطہ قائم ہوا۔ یہ حیدرآباد کی ایک بڑی رئیل اسٹیٹ کمپنی ہے جس کے کئی ایک وینچرس چل رہے ہیں۔ یہ ایک طاقتور ریڈی لابی ہے جو بہت سیاسی اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ ان لوگوں نے پہلے تو اس جائیداد کو خریدنے کو کہا لیکن میں نے فروخت کرنے سے انکار کردیاتو ان لوگوں نے کہا کہ ہم 18مہینوں میں آپ کی جائیداد کو ڈیولپ کردیں گے جس میں ہمارا 50 فیصد اور آپ کا 50 فیصد حصہ ہوگا۔ جتنی ملگیاں ہوں گی ان میں نصف ہماری اور نصف آپ کی ہوں گی۔ پانچ منزلہ کامپلکس جو کہ رہائشی اور کمرشیل ہوگا اور تعمیر بالکل ایسی ہی ہوگی جیسی کہ ہمارے دوسرے وینچرس میں ہورہی ہے۔ میں اور میرا دوست اس کی باتوں میں آگئے۔ اس پارٹی نے کہا کہ آپ اپنی بہن صاحبہ سے اپنے نام GPA منگوالیجئے پھر ہم ڈیولپمنٹ معاہدہ کرلیں گے۔ پھر اس کے بعد اس کمپنی نے ہماری آؤ بھگت شروع کردی۔ بہت خوش اخلاقی سے ملتے رہے۔ پھر GPA آنے کے بعد ڈیولپمنٹ معاہدہ ہوگیا اور ساتھ ہی ان کو اپنے حصہ میں آئے ہوئے فلیٹس اور ملگیوں کو فروخت کرنے کا حق بھی دے دیا گیا۔ میں نے اڈوانس رقم کا مطالبہ نہیں کیا اور نہ انہوں نے اس ضمن میں کوئی بات کی۔ صرف18مہینوں کی تو بات تھی پھر اس کے بعد لاکھوں روپیہ ماہانہ کی آمدنی کا ذریعہ بن رہا تھا۔ اس کے بعد ان لوگوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے تعمیری اجازت بھی حاصل کرلی اور قدیم مکان کو منہدم کرکے ایک گہری فاؤنڈیشن بنائی جو چھ سات منزلہ عمارت کا بوجھ سنبھال سکتی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ پلرس ڈالنا شروع کیا اب کام میں سست رفتاری پیدا ہوئی اور ایک سال گزرگیا۔ میں نے دریافت کیا تو کہنے لگے کہ ہمارا ارادہ یہ ہے کہ ہم آپ کی اس جائیداد کوخرید لیں اور جو بھی قیمت ہوگی ہم امریکہ ٹرانسفر کردیں گے۔ میں دم بخود رہ گیا۔ میرے ساتھ شدید دھوکہ ہوا تھا۔ ان لوگوں نے بالکل خاموشی اختیار کی اب وہاں ان لوگوں کا قبضہ ہے اور میری جائیداد کی نگرانی ان کے ملازمین کررہے ہیں۔ اب وہ لوگ مجھ سے بات بھی نہیں کررہے ہیں۔
میں اپنے دوست کی باتوں میں آکر شدید نقصان برداشت کرچکا ہوں۔ عمر 80سال کے قریب ہوگئی ہے۔ بلڈ پریشر اور شوگر کا مریض ہوں ۔ بیوی بھی امریکہ میں ہے او رمیری خدمت کے لئے صرف ایک ملازم ہے جو کھانا بھی پکاتا ہے اور میرا خیال رکھتا ہے۔ میرا کوئی بھائی نہیں جو میری مدد کرتا۔ مجھے قانونی رائے ملی ہے کہ ان لوگوں کے خلاف معاہدہ کی منسوخی اور حصول قبضہ کا دعویٰ کروں لیکن ایڈوکیٹ صاحب نے کہا کہ اس قانونی عمل میں بہت وقت لگے گا ۔ شائد دو تین سال یا اس سے بھی کچھ زیادہ۔
میری عمر اور صحت اس قابل نہیں کہ میں اتنا وقت انتظار میں گزاروں۔ اس پریشانی نے صحت پر بھی اثر ڈالا ہے۔ بلڈ پریشر بڑھ رہا ہے اور شوگر بھی کنٹرول سے باہر ہورہی ہے۔
اب میرے پاس کیا صورت رہ جاتی ہے کہ میں اس معاہدہ کو منسوخ کردوں۔ وہ لوگ تو اب بات کرنے پر تک راضی نہیں۔
ایسی صورت میں مجھے ایک ہمدردانہ قانونی رائے کی ضرورت ہے۔ براہِ کرم میری اس افتاد کو اپنے موقر کالم میں شائع فرماکر ممنون فرمائیں اور اس کا جواب شائع کریں۔
نوٹ: میں قانونی مشاورتی کالم کا مستقل قاری ہوں۔ فقط
ABC سابق NRI حیدرآباد
جواب:- شائد آپ زندگی کی اونچ نیچ سے واقف نہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے ساری زندگی میں صرف کامیابیاں ہی دیکھی ہیں اور کبھی بھی شائد آپ کو مایوسی یا ناکامیوں کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔ جو اس بات سے ظاہر ہے کہ آپ چالیس سال یا اس سے کچھ زیادہ ہی بہت ہی خوشحال زندگی گزاری ہے ۔ آپ نے زندگی کے تاریک پہلوؤں کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں۔ دونوں بیٹے اور دونوں بیٹیاں امریکہ کی شہریت رکھتی ہیں۔ اہلیہ محترمہ بھی بیمار اور بدحال شوہر کو اکیلا چھوڑ کر بیٹیوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ آپ نے صررف کمانی سیکھا اور ہمیشہ فائدے ہی فائدے میں رہے اور کامیابیوں نے آپ میں اس قدر خود اعتمادی پیدا کردی کہ آپ اپنے تئیں ہی بہت کچھ سمجھنے لگے اور آپ نے کسی بھی مشورے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ آپ ان فریبیوں کے جال میں پھنس گئے۔ اگر آپ نے دوسرے مالکینِ جائیداد کی طرح قانونی رائے حاصل کی ہوتی اور اس رائے پر عمل کیا ہوتا تو موجودہ ناخوشگوار صورت کبھی پیدا نہیں ہوتی۔ سخت حیرت کی بات ہے کہ آپ قانونی مشاورتی کالم کے مستقل قاری ہیں ۔ آپ یہ کالم کیا صرف لطف اندوز ہونے کے لئے پڑھتے ہیں یا آپ نے اس سے کچھ سبق حاصل کیا جو آپ کے جیسے حالات کا تذکرہ ایک عرصۂ درام سے کرتا چلاآرہا ہے۔
اس کالم میں متعدد مرتبہ ایسے ہی سوالات آئے جن کے جوابات شائع کئے گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی حضرات ایسے دھوکہ بازوں کے چنگل میں پھنسنے سے محفوظ رہے ۔
اگر دیکھا جائے تو آپ کی عمر اور امراض اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ ایسا معاہدہ کریں خصوصاً ایسے حالات میں کہ آپ کے بیٹے بیٹیاں اور اہلیہ امریکہ میں رہتے ہیں اور ہندوستان نہیں آسکتے۔
آپ کو فی الوقت قانونی رائے دی جارہی ہے کہ اس معاہدہ کو منسوخ کردیں اور اس غرض کی تکمیل کے لئے آپ کو قانونی نوٹس جاری کرنی ہوگی۔ پھر مدت کے اختتام کے بعد اس فراڈ کمپنی پر معاہدہ کی تنسیخ کا دعویٰ کریں۔ اگر آپ یہ عمل کریں تو وہ بھی خائف ہوجائیں گے۔ اور آپ سے بات چیت پر راضی ہوجائیں گے۔ اگر وہ لوگ معقول قیمت دے رہے ہیں اور رقم امریکہ ٹرانسفر کرنے پر راضی ہوں تو آپ اس مکان کو ان لوگوں کو فروخت کرسکتے ہیں۔
نوٹ:- یہ واقعہ ان حضرات کی آنکھ کھولنے کیلئے کافی ہوگا جو از خود بغیر کسی قانونی رائے کے ایسے اقدامات کرتے ہیں اور خود کو ہی بہت کچھ سمجھتے ہیں۔ ہر شخص کے معلومات محدود ہوتے ہیں۔ ہر کوئی قانونی امور سے واقف نہیں ہوتا۔ کوئی بھی بیمار اپنا علاج نہیں کرسکتا‘اسے معالج سے رجوع ہونے کی ضرورت پڑتی ہے‘ لہٰذا جو بھی حضرات معاہدۂ ڈیولپمنٹ کررہے ہیں وہ قانونی رائے ضرور حاصل کریں ورنہ سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
فیملی پنشن
سوال:- اگر اہلیہ ملازم سرکار ہو اور اس کا انتقال ہوجائے تو اس کا فیملی پنشن اس کے شوہر کو ملے گا ‘ اور اگر شوہر اہلیہ کے انتقال کے بعد دوسری شادی کرلے تو کیا پنشن ملتی رہے گی یا بند ہوجائے گی؟
ایک قاری حیدرآباد
جواب:- بیوی اگر ملازم سرکار ہو تو وہ اپنے شوہر کو اپنے فیملی پنشن کے لئے نامزد کرسکتی ہے ۔ اگر بیوی کا انتقال ہوجائے تو شوہر فیملی پنشن پائے گا۔ اگر اس نے دوسری شادی کی تو شامت آجائے گی۔ ایک تو فیملی پنشن بند ہوجائے گی اور اس کے بعد دوسری بیوی اس کے ساتھ کیسا سلوک کرے گی وہ خود سمجھ سکتا ہے۔
سوال:- میں نے شہر کے ایک علاقہ میں ایک بڑا مکان خریدنے کا معاہدہ کیا اور اڈوانس میں ایک خطیر رقم بطورِ اڈوانس ادا کردی اور مابقی رقم چھ ماہ کی مدت کے اندر ادا کرنے کا وعدہ کیا۔ اڈوانس میں دی ہوئی رقم دو قسطوں میں ادا کی گئی جو جملہ خرید کی قیمت کا 75فیصد تھا۔ یہ رقم کچھ نقدی میں دی گئی اور کچھ بینک ٹرانسفر کے ذریعہ دی گئی۔ مدت ختم ہونے کے بعد جب رجسٹری کے لئے گئے تو دستاویزساز نے کہا کہ یہ پراپرٹی Dotted ہے یعنی اس علاقہ میں پلاٹس اور مکانات کی رجسٹری پر پابندی ہے ۔ یہ بات مجھے پہلے نہیں بتائی گئی۔ رجسٹری نہ ہوسکنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ مکان گورنمنٹ لینڈ پر بنایا گیا ہے۔
میں نے فروخت کرنے والے سے کہا کہ آپ میری رقم واپس کردیجئے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ میں نے دوسرا مکان خریدنے کے لئے آپ کی رقم اڈوانس میں ادا کردی ہے۔
وہ پیسہ واپس کرنے سے انکار کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ مابقی رقم دے کر قبضہ حاصل کرلوں۔ یہاں بہت سارے مکانات بنے ہوئے ہیں اور یہ ایک آباد بستی ہے۔ یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ گورنمنٹ آرڈر آیا ہے کہ ایسے قبضوں کو باقاعدہ بنایا جائے گا۔ باقاعدہ بنانے کی درخواست دیتے وقت جو رقم مقرر ہوئی وہ مابقی رقم کے برابر ہے۔ میں نے کہا کہ یہ رقم آپ ادا کردیجئے اور مجھے مکان کا قبضہ دے دیجئے اس پر انکار کررہے ہیں۔
اب اس مسئلہ کا کیا حل ہے؟
XYZ
جواب:- آپ اگر اسمکان کا رجسٹریشن آفس سے E.C نکال لیتے تو پتہ چل جاتا کہ اس جائیداد کی رجسٹری پر امتناع ہے۔ یہ جائیداد پہلے ہی سے رجسٹر شدہ ہے ۔ عجیب صورتحال ہے۔ آپ کے پیسہ کی واپسی مشکل نظر آرہی ہے۔

a3w
a3w