سیاستمضامین

انصاف ملتا ہے لڑائی اگر ٹھنڈے دماغ سے لڑی جائے

محمد مصطفی علی سروری

نظامس انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (نمس) شہر حیدرآباد کا وہ تاریخی دواخانہ ہے جو کہ نواب میر عثمان علی خان نے ایک روپئے کی لیز پر ریاستی حکومت کے حوالے کردیا تھا اور لیز کے اس معاہدے کے لیے بتلایا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک ہی شرط رکھی تھی۔ اس دواخانہ میں غریب مریضوں کا مفت میں علاج ہو۔ آج ریاست تلنگانہ میں یہ وہ سرکاری اسپتال ہے جو آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کے طرز پر ریاست کے مریضوں کو اعلیٰ معیار کی طبی خدمات فراہم کرتا ہے۔ خیر سے قارئین ہمارے کالم کا اصل موضوع نمس نہیں ہے۔ اس لیے ہم اپنے اصل موضوع کی طرف لوٹ آتے ہیں۔
انگریزی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے 12؍ مئی 2023 کو ایک خبر شائع کی جس کے مطابق رات بارہ بجے کے وقت نمس دواخانے میں 62 برس کی ایک ضعیف خاتون کو لایا گیا جس کی طبیعت انتہائی نازک تھی۔ نمس کے ڈاکٹروں نے جب علاج شروع کیا تو دوران علاج یہ خاتون چل بسی اور جب یہ اطلاع مریضہ کے رشتہ داروں کو دی گئی تو ان لوگوں نے ڈاکٹرس (خاتون ڈاکٹر کے بشمول) پر حملہ کردیا اور ان پر لاپرواہی کا الزام عائد کیا۔
ابتداء میں مریضہ کے دو رشتہ دار جھگڑا کر رہے تھے۔ خاتون ڈاکٹرس کے ساتھ رشتہ داروں کی برہمی کو دیکھتے ہوئے نفرالوجی کے تیسرے سال میں زیر تعلیم ڈاکٹر راہول نائیرنے درمیان میں مداخلت کی اور خاتون ڈاکٹر کو جھگڑے سے باہر نکال لیا۔ لیکن تھوڑی دیر بعد قریب آٹھ لوگوں نے کڈنی انٹنسیو کیئر یونٹ (KICU) میں داخل ہوکر دروازہ توڑ دیا اور ہنگامہ کرنے لگے۔
پولیس نے اس صورتحال کا نوٹ لیا کیونکہ ڈاکٹرس پر حملے کے بعد ریسڈنٹ ڈاکٹرس نے وارڈ کے باہر احتجاج شروع کردیا تھا۔
قارئین یہ تو اب آئے دن کا معمول بن گیا ہے کہ ڈاکٹرس کی لاپرواہی کا الزام عائد کرتے ہوئے مریضوں کے رشتہ دار احتجاج پر اتر آتے ہیں یا سوشیل میڈیا کے ذریعہ اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔ لیکن انہیں انصاف نہیں ملتا اور تو اور توڑ پھوڑ کرنے، الجھنے کے بعد الٹا پولیس انہی کے خلاف کیس درج کردیتی ہے۔ ایک جانب مریض کے رشتہ داروں کو انصاف بھی نہیں ملتا دوسری جانب الٹاپولیس اور عدالت کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔ لیکن ایسے پس منظر میں تاملناڈو سے آنے والی ایک خبر ہماری توجہ مبذول کرواتی ہے کہ یقینا ڈاکٹرس بھی انسان ہیں اور ان سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں۔ لیکن کوئی بھی فرد قانون کو ہاتھ میں لے کر ڈاکٹرس کے خلاف زیادتی کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ ہاں اگر صحیح پلیٹ فارم پر مناسب انداز میں شکایت درج کروائی جائے تو انصاف ملنے کی امید کی جاسکتی ہے۔
واسو کی تاملناڈو کی ایک گرہست خاتون ہے جس کا شوہر یومیہ اجرت پر کام کرتا ہے۔ اس خاتون کو 19؍ جولائی 2013 کو دوسرا لڑکا پیدا ہوا۔ تب اس خاتون نے اپنے شوہر کے مشورے سے طئے کیا کہ وہ خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کرے گی۔ جس کے تحت اس خاتون نے 29؍ جولائی 2013کو اپنا ایک آپریشن کروالیا تاکہ انہیں آئندہ کوئی اولاد نہ ہو۔ غریب خاتون تھی۔ سرکاری دواخانے کے علاوہ دوسری جگہ جانے کے بارے میں سونچ بھی نہیں سکتی تھی۔
واسوکی نے آپریشن کرواکر سکون کی سانس لی اور اپنے گھر کو چلی گئی لیکن اس خاتون کی حیرت کی انتہاء اس وقت نہ رہی جب سال 2014 میں اسے حمل ٹھہر گیا اور 6؍ جنوری 2015 کو اس کے ہاں ایک اور ڈیلیوری ہوگئی۔ اس مرتبہ واسوکی نے ڈاکٹرس سے کہہ کر دوبارہ اپنا آپریشن کروایا تاکہ اب مستقبل میں اس کو حمل نہ ٹھہر سکے۔
قارئین انصاف کی لڑائی جذبات سے اور غصہ سے ہرگز نہیں لڑی جاسکتی ہے۔ واسوکی غریب ضرور تھی مگر اپنے اندر انصاف کے لیے لڑائی کرنے کا جذبہ رکھتی تھی۔
تاملناڈو کی اس خاتون نے اپنے ساتھ ہونے والے اس لاپرواہی کے واقعہ کے خلاف مدورائی بینچ مدراس ہائی کورٹ میں درخواست داخل کی اور تھوتھوکڈی گورنمنٹ میڈیکل کالج اور ڈاکٹر ڈی شوبھنا کے خلاف شکایت کی کہ سرکاری دواخانے کے خلاف اس لیے شکایت کہ اس خاتون کا اسی دواخانے میں علاج ہوا تھا۔ ڈاکٹر ڈی شوبھنا کے خلاف اس لیے شکایت کی کہ یہی وہ ڈاکٹر تھی جنہوں نے اس کے علاج (آپریشن) کیا تھا۔ اور ڈاکٹر شوبھنا نے واسوکی کو جب آپریشن کے بعد بھی حمل ٹھہر گیا تھا تو مشورہ دیا کہ وہ اپنا حمل ساقط کروادے۔
عدالت میں سرکاری وکیل نے دلیل دی کہ خاندانی منصوبہ بندی کے آپریشن سے پہلے ہی واسوکی کو آپریشن کے متعلق باضابطہ طور پر واضح کردیا گیا تھا اور یہ بھی بتلایا گیا تھا کہ اس طرح کے آپریشن میں کامیابی کے امکانات کس قدر ہیں اب واسوکی کی ذمہ داری تھی کہ وہ دواخانے کو اپنی ماہواری میں ہونے والی بے قاعدگی کے متعلق اندرون دوہفتے آگاہ کردیتی۔ چونکہ واسوکی نے ایسا نہیں کیا اس لیے اس کو صرف 30 ہزار روپئے جیسا کہ اس نے اخراجات کا دعویٰ کیا ہے دے دیئے جائیں اور عدالت یہ کیس ختم کردے۔
سرکاری وکیل کا موقف جاننے کے بعد جسٹس پوگلاندھی نے فیصلہ صادر کیا کہ درخواست گزار کو 3 لاکھ کا معاوضہ ادا کیا جائے اور ساتھ ہی درخواست گذار کے بچے کو سرکاری ہو یا خانگی اسکول میں مفت تعلیم کا بھی انتظام کیا جائے۔
اگر واسوکی نے اپنے بچے کی فیس ادا کی ہے تو اس کو یہ فیس واپس کی جائے۔ ساتھ ہی کتابوں اور اسٹیشنری کے علاوہ ڈریس کے اخراجات بھی دیئے جائیں۔(یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اب واسوکی کا لڑکا 8 برس کا ہوگیا ہے۔)
قارئین واسوکی نامی خاتون نے بجائے رشتہ داروں کو طلب کر کے دواخانے کے باہر احتجاج کرنے یا ڈاکٹرس کے خلاف شور شرابہ کرنے کے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا اور کامیابی بھی حاصل کی۔ یقینا واسوکی تو ایک گرہست خاتون ہے تو کوئی غیر سرکاری تنظیم اور این جی او والوں نے اس خاتون کو قانونی چارہ جوئی کے لیے مدد کی ہوگی۔ تب ہی تو یہ خاتون مدراس ہائیکورٹ کی مدورائی بنچ سے اپنے معاملے کو رجوع کرپائی۔
قارئین فیصلہ صرف اسی بات پر ختم نہیں ہوتا ہے۔ مدورائی بینچ کے جج نے دواخانے اور ڈاکٹر کو ہر سال کے لیے ایک لاکھ 20 ہزار روپئے (ماہانہ 10 ہزار روپئے) خاتون کو ادا کرنے کا بھی حکم دیا تاکہ آپریشن کروانے کے بعد بھی پیدا ہونے والے بچے کی غذائی ضروریات اور دیگر اخراجات کو پورا کیا جاسکے اور یہ ادائیگی بچے کے 21 برس کی عمر کو پہنچنے تک جاری رہنی چاہیے یا اس وقت تک جب تک بچہ گریجویشن کی تعلیم مکمل نہیں کرلیتا۔ (بحوالہ ۔ 2؍ مئی 2023ء پرمودما دھو کی رپورٹ۔ مطبوعہ ٹائمز آف انڈیا)
اخبار ٹائمز آف انڈیا نے ہی 8 ؍ مئی 2023 کو حیدرآباد کے ایک کارپوریٹ دواخانے کے متعلق کنزیومر فومر میں درج معاملے اور فورم کے فیصلے کے متعلق تفصیلی خبر شائع کی۔
تفصیلات کے مطابق جناردھن ریڈی کی اہلیہ کے واسومتی نے ڈسٹرکٹ کنزیومر فورم میں شکایت درج کروائی کہ ان کے شوہر جناردھن ریڈی کو ورنگل اور حیدرآباد کے ڈاکٹرس نے دل کی سرجری کروانے کا مشورہ دیا۔ اس پس منظر میں وہ اپنے شوہر کے علاج کے متعلق ماہر ڈاکٹرس کا سکنڈ اوپینین لینے کی خاطر بنجارہ ہلز کے ایک دواخانے سے رجوع ہوتی ہے۔
جہاں پر مختلف میڈیکل ٹسٹ کروانے کے بعد ڈاکٹرس نے Mic سرجری کروانے کا مشورہ دیا۔ حالانکہ اوپن ہارٹ سرجری کے مقابل یہ دوگنا مہنگا علاج تھا لیکن ڈاکٹرس کی یقین دہانی کے بعد واسومتی نے اپنے شوہر کے علاج کے لیے آمادگی ظاہر کی۔ کیونکہ ڈاکٹر نے اس طریقے علاج میں کامیابی کا 99 فیصدی ریکارڈ بتایا تھا۔
27؍ فروری کو واسومتی نے اپنے شوہر جناردھن ریڈی کو دواخانے میں شریک کروایا اور چھ اعشاریہ دو پانچ لاکھ اڈوانس رقم بھی جمع کروادی۔ اس کے اگلے دن سرجری مقرر تھی۔ صبح 8بجے سرجری شروع ہوئی جو کہ تین سے چار گھنٹے میں ختم ہونا تھا لیکن آدھی رات کے بعد ڈاکٹرس نے اطلاع دی کہ مریض کی موت ہوگئی۔
واسومتی نے اپنی شکایت میں بتلایا کہ سرجری کا نتیجہ ڈاکٹرس کے تیقن کے برخلاف آیا اور آج بھی خود ڈاکٹرس کو پتہ نہیں کہ اس کے شوہر کی موت کیسے واقع ہوگئی۔
حالانکہ دواخانے نے اپنے جوابی حلف نامے میں لاپرواہی کی تردید کی لیکن پورے معاملے کی سنوائی کے بعد District Consumer Disputes Redressal Commission نے کہا کہ مریض کے رشتہ داروں کو اعتماد میں لیے بغیر مریض کو 16 گھنٹے آپریشن کی میز پر رکھا گیا۔ ساتھ ہی مریض کے رشتہ داروں کو کسی طرح کا کوئی میڈیکل ریکارڈ بھی فراہم نہیں کیا گیا۔ ساتھ ہی کمیشن نے کہا کہ مریض کا بہت خرچیلا آپریشن کرنے کا وعدہ کرنے کے باوجود کم قیمت کا طریقہ علاج استعمال کیا گیا اور دواخانہ مریض کے آپریشن میں 16 گھنٹے کا طویل دورانیہ لگنے کے باوجود مریض کی موت کی وجوہات بھی نہیں بتلاسکا جو کہ طبی لاپرواہی کو ثابت کرتا ہے۔ اس لیے کنزیومر کمیشن نے بنجارہ ہلز کے دواخانے کو متوفی کی اہلیہ کو 15 لاکھ روپئے ادا کرنے کے علاوہ 25 ہزار روپئے قانونی چارہ جوئی کے اخراجات کے طور پر ادا کرنے کا حکم جاری کیا۔
قارئین مندرجہ بالا دونوں واقعات اس بات کے مظہر ہیں کہ اگر کسی فرد یا شخص کو کسی خانگی یا سرکاری دواخانے کی سہولیات یا علاج میں غفلت کے متعلق شکایت ہو تو وہ انصاف حاصل کرسکتا ہے جس کے لیے شرط ہے کہ وہ کنزیومر فورم یا کمیشن اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے اور قانونی دائرے میں قدم اٹھائے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی ہر معمولی اور موذی مرض سے حفاظت فرمائے اور جو بیمار ہیں ان کو شفائے کاملہ عاجلہ عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں) -sarwari829@yahoo.com