طنز و مزاحمضامین

غم کا فسانہ …

حمید عادل

غم کے کئی روپ اور کئی عنوان ہیں مثلاً دکھ، رنج ،الم، حزن و ملال وغیرہ وغیرہ، چنانچہ جوبیچارہ غم سے بچ جاتا ہے اسے دکھ دبوچ لیتا ہے اور جو دکھ سے محفوظ رہتا ہے، اسے رنج پکڑ لیتا ہے اور جو رنج سے دامن بچاتا ہے ، اسے الم گھیر لیتا ہے یا پھر اس پرجڑواں بھائی حزن و ملال حاوی ہوجاتے ہیں…
غم کے موضوع پرلکھا گیا ایک معروف نغمہ ہے ’’ ہم کو بھی غم نے مارا، تم کو بھی غم نے مارا، ہم سب کو غم نے مارا، اس غم کو مار ڈالو۔‘‘ لیکن اچھے اچھوں کو ہم نے غم کو مارنے کی چاہ میں خود مرکر دوسروں کو غم دیتے دیکھا ہے۔ ’’ غم‘‘ ہے تو دوحرفی لفظ لیکن وہ کون ہے جسے اس نے دردو کرب سے دوچار نہ کیاہو۔ڈاکٹر عائض القرنی کی بڑی معروف کتاب ہے ’’ لا تحزن‘‘ یعنی ’’ غم نہ کریں‘‘ اس کتاب کی غیر معمولی مقبولیت کا اندازہ محض اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی اب تک لاکھوں کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج کے اس پرآشوب اور مایوس کن دور میں اس کتاب کا مطالعہ اور بھی زیادہ ناگزیر ہوجاتا ہے۔دل کے بند دریچے کھولنے والی معروف کتاب ’’ غم نہ کریں‘‘ حال ہی میں نگاہوں سے گزری…جس کا ایک دلچسپ اور سبق آموز واقعہ ہم یہاں رقم کررہے ہیں…
’’1413ہجری میں، میں نے ریاض سے دمام شہر کا سفر کیا اور تقریباً دوپہر دو بجے وہاں پہنچا۔ ہوائی اڈے پر اپنے ایک دوست کا انتظار کیا جو ڈیوٹی پر تھا اور دیر سے ہی نکلتا تھا، قریب کے ایک ہوٹل کے لیے میں نے گاڑی کرایہ پرلی، ہوٹل میں داخل ہوکر میں نے دیکھا کہ وہاں زیادہ لوگ نہ تھے۔ چھٹی اور وزٹ کے دن بھی نہ تھے۔ کارکنوں اور ملازموںسے ہٹ کر میںنے چوتھی منزل پر ایک کمرہ لیا۔ میرے ساتھ کوئی نہ تھا۔ کمرہ میں داخل ہوکر میں نے بیاگ بستر پر رکھ دیا اور وضو کے لئے آیا۔ باتھ روم کو بند کرکے میں نے وضو کیا پھر دروازہ کھولنے کے لئے آیا تو وہ بند ملا،میں نے ہرطرح اسے کھولنے کی کوشش کی لیکن نہیں کھلا، اب میں وہاں بالکل اکیلا تھا۔ نہ کوئی کھڑکی نہ فون جس سے رابطہ کروں، نہ پاس میں کوئی آدمی جسے آوازدوں۔ اب مجھے اللہ رب العزت کی یاد آئی۔ میں اس جگہ پون گھنٹہ رہاجو مجھ پر پورے تین دن کی طرح گزرے۔ پسینہ پھوٹ پڑا، دل تھراکررہ گیا کیونکہ میں نئی جگہ تھا۔ یہ جو معاملہ پیش آیا، وہ بالکل اچانک تھا۔ پھر میں کسی سے رابطہ بھی نہیں کرسکتاتھا۔ صرف پون گھنٹہ میں کتنی عبرتیں ،حادثات اور یادیں دماغ میں گھوم گئیں۔ بقول شاعر:’’کبھی پوری عمر تنگ ہوجاتی ہے اور ایک گھڑی کی راحت ملتی ہے اور پوری زمین پرایک ہی جگہ پائوں دھرنے کو ملتی ہے‘‘۔ میں نے دروازے کو دھکا دینے کے بارے میں سوچا ،چنانچہ کمزور و نحیف جسم سے میں نے دھکا دینا شروع کیا، مجھے لگا کہ گھڑی کے ڈائل جتنا لوہے کا ٹکڑا آہستہ آہستہ کھسک رہا ہے۔ میں اس میں لگارہا، جب تھک جاتا رک جاتا، پھرشروع کردیتا پھر تھک جاتا تو رک جاتا اور پھر کوشش شروع کردیتا، آخرمیں دروازہ کھل گیا مجھے لگا کہ میں قبر سے نکل آیا ہوں…‘‘
جب ہم نے مذکورہ بالاواقعہ پڑھا تو ہمیں اسی قبیل کا اپنا واقعہ یادآگیا،یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ہم شادی کے ایک عرصہ بعد سسرالی گاؤں پہنچے تھے اور بے چین ہوکر باتھ روم کا رخ کیا تھا۔باتھ روم کے کامیاب دورے کے بعد جیسے ہی ہم خوشی خوشی دروازے کی طرف لپکے اور کنڈی کھولنی چاہی تو پتا چلا کہ کنڈی کا ایک حصہ دوسرے حصے سے لپٹ کر ’’ ایک جان ہیں ہم ‘‘ بن چکاہے۔ یوں توہم کھڑے تھے لیکن یہ دلخراش نظارہ دیکھ کر ہمارا دل بیٹھ گیا۔ ’’مرض بڑھتا گیا ، جوں جوں دوا کی ‘‘ کے مصداق ہم باتھ روم کی کنڈی کھولنے کی جتنی کوشش کررہے تھے، اتنا ہی ناکام ہورہے تھے۔ہم یہ سوچ سوچ کر مرے جارہے تھے کہ اب ہم آخریہاں سے کس طرح باہر نکلیں گے؟ اس سوال نے ہمیںدیکھتے ہی دیکھتے پسینے میں شرابور کر دیا۔ دل نے چاہا کہ مدد کے لیے کسی کوآواز دیں لیکن ہمیں اس حرکت سے اس خیال نے بازرکھا کہ مدد کے لیے ہم جیسے مردبلکہ جواں مردشور نہیںمچایا کرتے اور پھر سسرالی گھر کے باتھ روم میں اس طرح قید ہوکر بچوں کی طرح غل غپاڑہ مچانا خود کو ذلیل و خوار کرنے کے سوا کچھ نہ تھا، حالانکہ ہماری حالت دیدنی تھی،ہمیں رونا آرہا تھا لیکن ہم روبھی نہیں پا رہے تھے۔ جب ہماری ساری کوششیں ناکام ہوگئیں توہم باتھ روم کے بند دروازے کے روبرو کھڑے ہوکر سوچنے لگے کہ کیا ہمیں باقی زندگی یہیں گزارنی پڑے گی؟کیا اب ہم کبھی کھلی فضا میں سانس نہیں لے پائیں گے؟ کیا اب ہم کبھی پھول بانو اور اپنے پھول جیسے بچوں کے دیدار نہیں کرپائیں گے؟ان سوالات سے بیزار ہوکرہم فوری تقدیر سے گلہ کر بیٹھے کہ: اے بے رحم! تجھے اگر ہمیں پھنسانا ہی تھا تو کہیں اور پھنسا دیتی، باتھ روم اور وہ بھی سسرالی باتھ میں پھنسانے کی بھلا تجھے کیا ضرورت تھی؟دریں اثنا ہم اپنی داہنی آنکھ پھڑپھڑاتے ہوئے فلیش بیک میں جاپہنچے تو ہماری نگاہوں کے آگے وہ منظر گھوم گیا، جب ہم پہلی دفعہ اپنی اکلوتی شریک حیات پھول بانو کے گاؤں ’’ گوری تیرا گاؤں بڑا پیارا، میں تو گیا مارا آکے یہاں رے‘‘ گنگناتے ہوئے پہنچے تھے اور صبح صبح حسب معمول ہمارے دل میں ’’ ہلکا‘‘ ہونے کی خواہش انگڑائیاں لینے لگی تھی۔ چنانچہ ہم نے اس کا اظہار بیگم سے کیا تو انہوں نے پانی سے بھراایک عدد لوٹا ہمارے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا تھا ’’جاؤ کہیں بھی ہو آؤ!‘‘ ہم سمجھ گئے کہ اس گاؤں میں Lavatory Air Open کا چلن ہے لیکن ہمارے لیے اس مرحلے سے گزرنا بڑا اذیت ناک تھا،ہمیں تذبذب میں مبتلا دیکھ کر ہمارے برادر نسبتی نے لاپرواہی سے کہا تھا:
’’ارے بھائی جان ! گاؤں کی ٹھنڈی ٹھنڈی فرحت بخش ہواؤں میں فراغت پانے کی تو بات ہی کچھ اور ہے، میرا دعویٰ ہے کہ ایک بار فارغ ہونے کے بعد آپ شہر سے بار بار فارغ ہونے کے لیے یہاں آئیں گے، جائیے جائیے، مزہ آجائے گا!‘‘
کتنی افسوسناک بات ہے کہ ہمارے جنت نشاں ہندوستان میں پہلے تو کسی عام آدمی کودو وقت کی روٹی ملنا دشوار ہے اور اگر وہ کسی طرح اسے میسر آجائے تو پھر ہندوستان کی نصف سے زیادہ آبادی کوبیت الخلا کی سہولت تک حاصل نہیں ہے۔گاوں میں اس قسم کی فراغت پانے کو ’’ بیٹھک‘‘ کہا جاتا ہے ، سنا ہے کہ دوران بیٹھک لوگ ایک دوسرے سے مساوی فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے خیر خیریت دریافت کرنے کے علاوہ مختلف موضوعات پر سیر حاصل تبصرے اور بحث و مباحثہ میں بھی حصہ لیتے ہیں، بلکہ ہم نے تو یہاں تک سن رکھا ہے کہ لوگ گاؤں کے کئی سنگین مسائل یوں ہی بیٹھے بیٹھے حل کرلیتے ہیں…
بہرکیف !ہم غم کی مورت بنے باتھ روم میں کھڑے سوچنے لگے کہ کاش ! اس بار بھی ہم باتھ روم کی بجائے ’’ بیٹھک‘‘ چلے جاتے توبہتر ہوتا۔باتھ روم میں ہماری حالت انتہائی نازک تھی،گویا ہم یہاں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھے اور ہمیںدور دور تک کوئی چارہ گر نظر نہیں آرہا تھا۔ہماری سوچ ماؤف ہوکر رہ گئی تھی البتہ ہماری سماعت غیر متاثر تھی، چنانچہ ہم نے محسوس کیا کہ ہال سے اٹھنے والے پھول بانو، ہمارے بچوں ، خوش دامن صاحبہ، نسبتی برادر اور نسبتی بہنوں کی پرمزاح گفتگو اور ان کے فلک شگاف قہقہے اچانک مدھم پڑچکے ہیں۔اسی دوران سرگوشیوں کے نام پر کی جانے والی زور دار گفتگو ہمیں صاف طور پرسنائی دینے لگی۔ ہماری خوش دامن صاحبہ نہایت تشویشناک لہجے میںاپنی بیٹی یعنی پھول بانوسے کہنے لگیں:
’’ کیا بات ہے اماں!، تیرے شوہرباتھ روم میں جاکے ایک گھنٹہ ہونے آرا، باہر نہیں نکلے! ‘‘
’’ امی جان !اِن کا ہر کام تفصیلی ہوتا ہے، وہ اکثر مجھ سے کہتے رہتے ہیں، جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے۔‘‘پھول بانو نے لاپرواہی سے جواب دیا۔
’’ وہ تو ٹھیک ہے باجی! لیکن ایسا بھی کیا کہ آدمی ایک ایک گھنٹہ باتھ روم میں بند ہوجائے۔‘‘ہماری شرارتی نسبتی بہن لہک اٹھی اور پھر قدرے توقف سے ہمیںنسبتی برادر کی آواز سنائی دی:
’’ ٹھہرو! میں ابھی باتھ روم کے قریب جاکر تازہ ترین حالات کا جائزہ لیتا ہوں۔‘‘
ہمیں پہلے قریب آتے بھاری قدموں کی چاپ سنائی دی اور پھر نسبتی بردارکی گرجدار سرگوشی ہماری سماعت سے ٹکرائی: ’’ باجی! باتھ روم کے اندر تو زندگی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں، مکمل سناٹا ہے ، جیسے موت کا سناٹاہو!‘‘اور پھر نسبتی برادر کا ایک زور دار قہقہہ فضا میں گونجا اور ہم باتھ روم کے اندر شرم سے پانی پانی ہوگئے۔
’’ کم بخت چپ! ایسی باتیں نہیں کرتے!‘‘
پھول بانو نے ٹوکااور پھرہمیں ان کے پازیبی قدموں کی آہٹ سنائی دی اور پھرباتھ روم کے دروازے کے قریب ’’ اونھ‘‘ کی ڈری سہمی آواز آئی ۔ اب ہمیں ’’ اونھ‘‘ کا جواب ’’ اونھ‘‘ سے دینا تھا، چنانچہ ہم نے جی کڑا کرکے ’’ اونھ‘‘ کہہ دیا تاکہ اپنے زندہ رہنے کا ثبوت فراہم کر سکیں۔ ہمارے حلق سے خارج ہونے والی اس ’’ اونھ‘‘ میں آواز کم تھی اور ہوا زیادہ۔ جیسے ہی پھول بانو نے ہماری ’’ اونھ‘’ سنی، وہ خوشی سے چہک اٹھیں:
’’ سوگئے تھے کیا جی؟‘‘
اب ہماری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ہم کیا جواب دیں، چنانچہ ہم چپ رہے… ہمارے دور اندیش نسبتی برادر نے ہماری جانب سوال اچھالا:
’’ دروازہ نہیں کھل رہاہے کیا بھائی جان؟‘‘
اس سلگتے ہوئے سوال کا جواب ’’ ہاں‘‘ میں دینا ہماری توہین تھی ، چنانچہ ’’ خاموشی بہ ہزار زبان،در سخن است‘‘ کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہم نے چپی سادھ لی۔ ہماری متواترخاموشی کو ہمارے سمجھدار نسبتی برادر تاڑگئے اور باتھ روم کا دروازہ انہوں نے پوری قوت سے اپنی جانب کھینچتے ہوئے کہا ’’اب کنڈی کھول لو بھائی جان! ‘‘ ہم نے فوری ہدایت پر عمل کیا تو کنڈی کھل گئی اور ہم دوسرے ہی لمحے باتھ روم کے باہر تھے، باہر آتے ہی ہم کسی دلہن کی طرح نظریں جھکائے فوری اُس کمرے میںجا گھسے، جہاں ہم نے ڈیرا جمایا ہوا تھا لیکن باتھ روم میں ساٹھ منٹ گزار کر ہمیں لگ رہا تھا جیسے ہم نے ساٹھ سال کی قید بامشقت کی سزا کاٹ کر رہائی پائی ہے۔’’ غم نہ کریں‘‘تصنیف کے کردار ہی کی طرح جب ہم اپنے کمرے میں آئے تودل ہی دل میں اللہ کا شکرادا کرنے لگے، ہمیں اللہ کی قدرت کے ساتھ انسان کی کمزوری، بے تدبیری اور موت کے پیچھے لگے ہونے کا احساس ستانے لگا، ساتھ ہی اپنے نفس اورعمر میں اپنی غلطیاں اور آخرت فراموشی بھی اچھی طرح یادآچکی تھی…
۰۰۰٭٭٭۰۰۰