مضامین

کاشی کس مکھ سے جاو¿گے مودی!

صوفی انیس دُرّانی

دنیا میں بول بچن کے دوبین الاقوامی پروفیسر ہیں جو کسی بھی موقع پر بول بچن کرنے سے چوکتے نہیں۔ اول نمبر پرامریکہ کے صدرجو بائڈن ہیں جو عالمی سطح پر اتنے اعتماد کے ساتھ بول بچن کرتے ہیں کہ دنیا بھر کے ممالک ان پر ایمان لے آتے ہیں وہ یہ سب بھول جاتے ہیں کہ صدربائیڈن نے ماضی میں کیا کیا وعدے کیے تھے۔ کیاکیا یاد دہانیاں کرائی تھیں۔ عیاری ومکاری کے ساتھ جملے کہنا شگوفے چھوڑنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے، مگر ہم بھارتی شہریوں کے لےے یہ تمغہ امتیازہمارے وزیر اعظم نریندر بھائی دامودرداس مودی کو حاصل ہے ۔ ہمیں اپنے وزیراعظم پر فخر ہے۔ اس فن کے اصول سیکھنا ہرایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ برجستہ کسی کے جملے کواپنے حق میں استعمال کرلینا،کوئی آسان کام نہیں ہے، بس انسان کو چکنا گھڑا بننا پڑتاہے۔ محمد زبیر کی گرفتاری سے توبیشترلوگ آگاہ ہوچکے ہیں۔ اس تعلق سے وزیراعظم کے بول بچن کو دیکھئے اور داددیجئے۔ وزیراعظم چند روز قبل زبیر کی گرفتاری کے دوران Bricsکی بین الاقوامی میٹنگ میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ یہ بین الاقوامی معیشت کے لحاظ سے بہت اہم تنظیم ہے جو بیشتر مواقع پر امریکہ کے موقف کی حمایت کرتی ہے۔ دنیا کی معیشت کو آگے بڑھانے اور ممبرممالک کی معاشی ترقی کے لیے بڑے بڑے وعدے کرتی ہے، لیکن عملاً اگر دیکھیں توآمدن نشستند گفتند برخاستند سے زیادہ معاملہ آگے کبھی نہیں بڑھتا ۔ ان اجلاسوں میں دہشت گردی اور سماجی اصلاحات پر بھی بڑی بڑی قراددادیں پاس کی جاتی ہیں، ان کی کیا اوقات ہوتی ہے ، اس کا اندازہ اس سے لگالیجئے کہ وہاں پریس کی آزادی کی ایک قرارداد بھی منظورکی گئی جس میں ممبرممالک کے سربراہوں نے اپنے اپنے ملک میں پریس کی آزادی پر کسی بھی قسم کا قدغن لگانے کی ممانعت کی تھی۔ ہمارے وزیراعظم نے بھی اس قرار داد یا ریزولیوشن پر دستخط کیے۔ اس وقت بھارت میں زبیر کو پولیس حراست میں لے چکی تھی، اس لیے میں نے کہا کہ ہمارے وزیراعظم بھی بول بچن کے ماہر ہیں۔
کاسی کس مکھ سے جاو¿گے دابو
لجا تم کو تنک نہیں آتی
مرزاغالب کا یہ شعر کہ کعبہ کس منہ سے جاو¿گے اسد بھارتیہ راج بھاشامیں اسی طرح لکھا جائے گا۔ زبیر توجیل بھیج دیے گئے، مگر ان کا سارامعاملہ بڑا عجیب وغریب ہے اور قابل تذکرہ ہے ۔ زبیر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہے اور بنگلور میں مقیم ہیں اور ایک ویب سائٹ آلٹ نیوز نام سے چلاتے ہیں۔ تعلیم یافتہ حلقوں میں ان کی ویب سائٹ بہت مقبول ہے کیونکہ یہ دیگر ویب سائٹس پر پھیل رہے موادکی حقیقت کا تجزیہ کرتی ہے۔ انہوں نے کیا ٹوئٹ کیا تھا۔آپ جان کر روئیں گے اور ہنسیں گے بھی۔
۳۹سال پہلے ۱۹۸۳میں مشہور فلم ساز رشی کیش مکرجی نے ایک فلم بنائی تھی ” کسی سے نہ کہنا۔“ انھوں نے ایک سین میں ایک منظر دکھایا ہے جس میںایک ہوٹل کے بورڈ پر موٹا موٹا لکھا ہے ”ہنومان ہوٹل“ پہلے اس ہوٹل کا نام ہنی مون ہوٹل تھا۔ اس بورڈ کو دھیان سے دیکھیں گے توآپ پر واضح ہوجائے گاکہ ہندی میں لکھے اس بورڈکانام ماتراو¿ں کواوپر نیچے کرکے بدلا گیا ہے۔ زبیر کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے مسلمان ہونے کے باوجود اس سچ کو دوبارہ سب کے سامنے رکھ دیا، انھوں نے ۲۰۱۸ میں ٹوئٹ کیا کہ ۲۰۱۴ءسے پہلے ہنی مون ہوٹل۔۲۰۱۴کے بعد ہنومان ہوٹل۔
یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ ۲۰۱۸ءکے ٹوئٹ کے خلاف اب کارروائی کیوں ہوئی ہے۔ زبیر پر تعزیرات ہند کی دفعہ 153-A (دوفرقوں کے درمیان فرقہ وارانہ نفرت بھڑکانے ) اور 295A (مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ دہلی پولیس کے سب انسپکٹرارون کمار کی شکایت پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر ”ہنومان بھکت“ نامی ٹوئٹر ہینڈل نے زبیر پر مذہبی جذبات بھڑکانے کا الزام لگایا ہے۔ اس ٹوئٹر ہینڈل کے ناظرین کی تعدادصرف ایک ہے۔جن کی شکایت پرزبیر کے خلاف کارروائی کی گئی۔ گزشتہ دنوں زبیر کافی متحرک رہے۔ انھوں نے خلیجی ممالک تک بھاجپا کی ترجمان نوپور شرما اورجندل کی خرافات کو پہچانے میں بڑا رول ادا کیا۔ دراصل بھاجپا زبیر کے ٹوئٹس سے کافی پریشان تھی، کیوں کہ ٹوئٹس کے سبب خلیج کے ممبر عرب ممالک میں کافی بے چینی پیدا ہوگئی تھی اور بھارت کے برسوں پرانے عرب تعلقات میں خلا پیدا ہوگیا تھا۔ اور بھاجپا جو ایسے گھٹیا عناصر کی ہمت افزائی کرتی آئی تھی اپنی قومی ترجمان نوپور شرما کو ہٹانے کے لےے مجبور ہوگئی۔ ساتھ میں ہی ان کے دہلی کے میڈیا انچار ج جندل کو بھی ان کے عہدے سے ہٹادیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بہت دن سے ہمارے پاس لوگوں کی شکایتیں آرہی تھیں۔ہم نے اب اس پر کارروائی کی ہے!زبیر کافی دن سے بھاجپا کے نشانے پر تھے۔ اس ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی پرتیک سنہانے زبیر کی گرفتاری کی خبرڈالی کہ آج دہلی پولیس کی اسپیشل برانچ نے زبیر کو طلب کیا جو کہ ۲۰۲۰ کے ایک دوسرے مقدمہ میں ماخوذ ہیں ۔ اس میں دہلی ہائی کورٹ نے انہیں گرفتاری سے تحفظ دے رکھا ہے۔ شام کو پونے سات بجے ایک افسر نے بتایا کہ زبیر کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ انہیں وہ قانونی نوٹس بھی نہیں دیا گیا جو دفعات کے تحت ملزم یا اس کے وکیل کو دینا لازمی ہوتاہے۔ پرتیک کے مطابق ان کے باربار مانگنے کے باوجود زبیر کے خلاف درج ایف آئی آر کی کاپی بھی نہیں دی گئی ہے۔ ۲۰۲۰ کامقدمہ بھی یہ تھا کہ کسی نے ٹوئٹ کرکے گالم گولج کی تھی جس پر مشتعل ہوکر انھوں نے بھی سخت الفاظ استعمال کیے تھے۔ پولیس نے ان پر تو POSCOکے تحت مقدمہ درج کرلیا مگر جس نے انہیں گالیوں بھرا ٹوئٹ کیاتھا ،اس کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی یا نہیں اس کا کوئی پتا نہیں۔ یہ تمام واقعہ تفصیل سے سنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ عام آدمی کے علم میں رہے کہ کس طرح مسلم احتجاجی ویب سائٹس کے ساتھ حکومت سخت بلکہ دشمنانہ رویہ اپناتی ہے اور کیسے غیرمسلم ٹوئٹس کرنے والوں کی چشم پوشی کرتی ہے۔ آپ اسلام کے حق میں کوئی ٹوئٹ کرکے دیکھیں توان ٹوئٹس کے جواب میں ایسی ایسی خرافات آپ کو بھیج دی جاتی ہیں کہ آپ کے چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں ۔ زیادہ ترجواب دینے والوں کا تعلق سنگھ پریوار مشتملہ وشواہندو پریشد سے ہوتاہے، لیکن شاذونادرہی ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جاتاہے ۔ عام طورپرایک حکمت عملی کے طورپریہ کیا جاتاہے کہ ٹوئٹس کرنے والا اپنی ٹوئٹر ہینڈلس کو معطل کردیتاہے اور کچھ عرصہ کے لےے خاموش ہوجاتاہے۔ پھر معاملہ رفع دفع ہوتے ہی میدان میں اترآتاہے۔ زبیر کے معاملے میں بھی ایساہی ہواہے۔ ہنومان بھکت کاسلسلہ اب موقوف ہوچکا ہے ۔ زبیر کو پولیس اپنے ساتھ ان کے گھر بنگلور لے گئی ہے تاکہ ان کا لیپ ٹاپ برآمد کرسکے ۔ زبیر ابھی اس بات پر اڑے ہیں کہ لیپ ٹاپ ان کانجی سامان ہے، وہ پولیس کی تحویل میں کیوں دیں۔ پولیس یہ جاننے میں دلچسپی رکھتی ہے کہ لیپ ٹاپ سے اور کیا کیا بھیجا گیا ہے تاکہ وہ اپنا شکنجہ مزید کس سکیں۔
مسلم ٹوئٹس کے تعلق سے حکومت کا رویہ کیاہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ زبیر کی گرفتاری کے خلاف ایڈیٹرگلڈ اور دوسری صحافتی تنظیموں نے سخت احتجاج کیا ہے اور اسے پریس کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے، لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی بلکہ اس کا رخ اور زیادہ جارحانہ ہوگیاہے۔
وشواہندوپریشد کی جانب سے چندروز قبل مطالبہ کیا گیاہے کہ بھارت میں ہندوو¿ں کے خلاف بیانات کے لیے ایک قانون بنایا جائے تاکہ کوئی ہندومخالف بات نہ کہہ سکے اور نہ ٹوئٹس کرسکے۔ ہم بھی اس بیان کاخیرمقدم کریں گے بشرطیکہ ساتھ ہی ساتھ مسلم دشمن اور اسلام کے خلاف بیان بازی کے خلاف بھی ایسا ہی قانون بنایا جائے۔ مسلمان تواپنے مذہب کے بہت پابند ہیں ۔ قرآن پاک میں واضح طورپر اس بات کی ممانعت کی گئی ہے کہ کسی کے بھی معبود کو برابھلا نہ کہو، اس لیے کبھی نہیں دیکھا ہوگاکہ مسلمان نے اپنے بیان میں کسی ہندو دیوی دیوتاو¿ں کی توہین کی ہو یا ان کی حرم کی حرکتوں پر انگشت نمائی کی ہو یا کسی جنگل میں ان کے منگل منانے کی طرف اشارہ کیا ہو۔ ہم توایک اچھے مسلمان ہوہی نہیں سکتے جب تک ہم قرآن کے واضح حکم پر عمل درآمدنہ کریں۔
مسلمان توکیا کریں گے۔ ہمیں تو ہندوبھائیوں کی سوچ پر رونا آتاہے۔ برسہا برس پہلے کالج کے ایک تفریحی سفر میں ہم نے اپنے ساتھ جانے والے طلبا کے ذریعہ صبح کی آرتی سنی تھی توہم نے شرم سے سرجھکالیا تھا ۔ ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کوئی اپنے دیوی دیوتاو¿ں کو ایسے شرمناک انداز میں یاد کرسکتاہے ۔ اگریہی رویہ ہمارے غیرمسلم بھائیوں کارہا تو ان کابھگوان ان سے ضرور ناراض ہوجائے گا۔ ہمارے ہندو بھائیوں کو اپنے دھرم کے تقدس کا دھیان رکھنا چاہےے اور پہاڑوں اورجنگلات میں دیوی دیوتاکیا کرتے ہیں وہ دیوی دیوتاو¿ں کا معاملہ ہے۔ ان کے بھگتوں کا اس سے کیا لینا دینا۔
بھگوان نریندر بھائی دامودر مودی اور اب تو شری شری امیت شاہ جی خود کوبھگوان سمجھنے لگے ہیں، ملک کی خارجی سطح پر اور داخلی طورپر کچھ بھی ہوجائے دونوں بھگوان کی طرح خاموش رہتے ہیں۔ البتہ جب آگ بھڑکانے اور اسے جلائے رکھنے کے لیے چنگاری کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تووزیر داخلہ کوئی نہ کوئی ایسا جملہ پھینک دیتے ہیں جو الاو¿ کو بھڑکا دیتاہے۔

a3w
a3w