طنز و مزاحمضامین

کچھ لے آنا!

زکریا سلطان

ماضی کا ایک بہت ہی معروف و مقبول نغمہ ہے جس کے بول کچھ اس طرح تھے: بتادوں کیا لانا، تم لوٹ کے آجانا، ایک چھوٹا سا نذرانہ پیا یاد رکھو گے کہ بھول جاؤ گے۔ سب ہی عورتوں کی یہ امنگ و آرزو ہوتی ہے کہ ان کا پیا لوٹ کر ان کے پاس آجائے، ان سے بے رخی نہ کرے مگر۔۔۔۔۔
پچھلے دنوں ہمارے لائق وزیر اعظم مودی جی امریکہ کے دورے پر تھے، تصویر میں ہم نے انہیں امریکہ کی خاتون اول جِل کو تحفہ دیتے ہوئے دیکھا۔ جل کو تحفہ دے کر انہوں نے تعلقات کو جِلا بخشی۔تحفہ ان کی آبائی ریاست گجرات کے سورت میں تیار کردہ 7.5قیراط کا ایک خوبصورت ہیرا تھا، اچھی بات ہے تحفے تحائف دینا چاہیے، اس سے تعلقات خوشگوار ہوتے ہیں اور محبت بڑھتی ہے۔ ہند امریکہ تعلقات میں اس تحفہ سے بہتری آسکتی ہے اور مودی جی کا یہ تحفہ ہندوستان اور امریکہ کی تاریخ میں درج ہوچکا ہے، مستقبل کا مورخ جب بھی مودی جی کے2023 میں امریکہ کے دورہ کی تفصیل درج کرے گا تو اس میں ہیرے کا ذکر بھی ضرور آئے گا۔ مودی جی بیرونی دوروں کے بہت شائق ہیں، جب بھی وہ باہر جاتے ہیں کوئی نہ کوئی زبردست کارنامہ انجام دے کر میڈیا کی سرخیوں میں چھا جاتے ہیں، مختلف ممالک کے سربراہان سے بغل گیر ہونے کا رواج انہوں نے ہی ایجاد کیا ہے، اس سے پہلے کے وزرائے اعظم کو اس کی توفیق نہیں ہوئی تھی، وہ تو صرف مصافحہ ہی کیا کرتے تھے۔ بغلگیرہوکر سینے سے سینہ جوڑنے میں جو لطف و اخلاص ہے وہ مصافحہ میں کہاں مگر مودی صاحب کا مصافحہ بھی بڑا پاورفُل ہوتا ہے، اس قدر زبردست کہ بعض حضرات کے ہاتھوں پر محترم کی انگلیوں کی پکڑ کے نشانات ثبت ہوجاتے ہیں۔مودی جی کا ذکر چل پڑا ہے تو ہمیں ان کا وہ امریکی دورہ بھی یاد آرہا ہے جس میں انہوں نے سارے اصول و ضوابط اور سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ کر اپنے ہم خیال و ہم مزاج جگری دوست ڈونالڈ ٹرمپ کے لیے کھلم کھلا انتخابی مہم چلائی تھی اور ان کے حق میں ”اب کی بار ٹرمپ سرکار“ کا زوردار نعرہ لگایا تھامگر امریکہ کے نا سمجھ عوام نے اس منصوبہ پر پانی پھیر دیا اور ٹرمپ کے کٹر مخالف جو بائیڈن کو اقتدار کی کرسی سونپ دی جس پر ٹرمپ صاحب اڑ گئے تھے کہ ناانصافی اور دھاندلی ہوئی ہے،میں ہی در اصل فاتح ہوں، کرسی ہرگز نہیں چھوڑوں گا، مگر قانون نے اپنا کام کیا اور دنیا کے سب سے طاقتور ترین اور ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے ٹرمپ کو دھکے دیکر وائٹ ہاؤس سے نکال دیاگیا، لاچار ومجبورٹرمپ روتے پلاتے چیختے چلاتے وائٹ ہاؤس سے بڑے بے آبرو ہوکر نکلے اور ان کے دل کے ارمان آنسوؤں میں بہہ گئے۔ یہ ہے دنیا کا نظام اور قدرت کا کمال کہ مالکِ کائنات کسی بھی شخص یا گروہ کو مستقل اور دائمی اقتدار نہیں دیتے، اس کے برعکس ایک دوسرے سے بدلتے رہتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا پر ایک ہی شخص یا جماعت کا تسلط اور اجارہ داری قائم ہوتی، خون خرابہ اور ظلم و زیادتی ہوتی، قوموں سے ناانصافی ہوتی اور ساری دنیا کا نظام درہم برہم اور متزلزل ہوجاتا، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اپنی حکمت و مصلحت اور قدرت سے ہر ظالم و جابر کااس کے مقررہ وقت پرخاتمہ کر کے اسے کیفر کردار تک پہنچایا اور دنیا والوں کے لیے عبرت بنادیا۔ مختصر یہ کہ ٹرمپ کے جانے اور زوال پذیر ہونے کا بعض لوگ تصور ہی نہیں کرتے تھے، مگر قدرت کو اس کا تنزل مقصود تھا چنانچہ وہ ہوکر رہا۔ مودی صاحب کو فطری طور پراپنے دوست ٹرمپ کی شکست سے صدمہ ہوا ہوگا اور خفت کا سامنا بھی انہیں کرنا پڑا، مجبوراً نئے صدر سے ہاتھ ملانا اورتعلقات کی بحالی کی کوشش کرنا پڑا ورنہ دونوں ممالک کے درمیان کھٹاس آجاتی اور تعلقات متاثر ہوتے۔ ہندوستان میں سرکاری اور درباری میڈیا ہمیشہ مودی جی کو چھتری فراہم کرتا ہے مگر امریکہ میں ان پر اولے گرے، وہاں کے صحافیوں نے اقلیتوں پر ہونے والے مظالم پر سوال اٹھائے جس سے مودی جی بغلیں جھانکنے لگے، انہیں زبردست جھٹکا لگا چنانچہ اپنے دفاع میں انہیں حقیقی صورتحال کے برعکس متضاد بیانات دینے پڑے جس پر صحافتی حلقے حیران ہیں۔
امریکہ کی خاتون اول کی خدمت میں مودی نے ہیرا پیش کیا، مگر ہم جیسے لاکھوں ہندوستانیوں کے دل میں یہ خیال آنے لگا کہ بہت بہتر ہوتا اگر کسی دن ہمارے وزیراعظم اپنی خود کی شریک حیات کوبھی کسی عید تہوار یا ان کی سالگرہ کے موقع پر ایک آدھ ہیرا یا نیکلیس تحفہ میں دیتے جس کی تصویر اور ویڈیو دیکھ کر سارے ہندوستانیوں کو خوشی ہوتی کہ خواتین کے حقوق کی بات کرنے اور اس پر زور دینے والے ہمارے ملک کے سربراہ ایک باعمل شخص ہیں جو اپنی بیوی سمیت ساری خواتین کے حقوق کی ادائیگی میں سنجیدہ اور مخلص ہیں۔ ہندوستان کی مایہ ناز خواتین کھلاڑیاں جو ظلم و ناانصافی، ہراسانی اور بربریت کا شکار ہوئی ہیں، ان سے بھی وزیر اعظم اگرملاقات کرتے اور شکایت سنتے، انصاف فراہم کرتے تو لوگوں کو تسکین ہوتی، مگر ایسا نہیں ہوا جس کا افسوس ہے۔ بیرون ملک خواتین کو تحفے اور اندرونِ ملک خواتین کو ڈھکوسلے! یہ تو چراغ تلے اندھیرا والی بات ہوئی، پہلے اپنے گھر کو روشن کرنا چاہیے،غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم ٹھیک نہیں ہے۔ ساس اور سسرال والوں سے تو بغض و عناد ہوسکتا ہے، نوک جھونک بھی ممکن ہے مگر گھر والی کا دل توڑنا اچھا نہیں۔ ایک صاحب دفتر سے گھر جانے کی تیاری کررہے تھے کہ ان کی بیگم کا فون آگیا، کہنے لگیں میرے ممی، پپّا اور بھائی بہن آئے ہوئے ہیں، آپ آتے آتے ان کے لیے کچھ لے آئیے۔ تھوڑی دیر بعدصاحبِ خانہ گھرپہنچے، بیگم نے انہیں خالی دیکھ کر پوچھا کیا ہوا کچھ نہیں لائے؟ انہوں نے کہا لایا ہوں باہرہے، بیگم خوشی خوشی باہر جاکر دیکھی تو ٹیکسی کھڑی تھی!!!