مذہب

کیا ہندؤں کی وید، آسمانی صحائف ہیں!؟

جن مقدس کتابوں کا قرآن نے ذکر کیا ہے وہ صرف توریت ‘ زبور اور انجیل سمجھی جاتی ہیں۔ شری گنگا پرشاد اپادھیائے اپنی کتاب میں اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں:

مولانا شمس نوید عثمانی
(۲)

آخری گواہی باقی ہے

جن مقدس کتابوں کا قرآن نے ذکر کیا ہے وہ صرف توریت ‘ زبور اور انجیل سمجھی جاتی ہیں۔ شری گنگا پرشاد اپادھیائے اپنی کتاب میں اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں:

’’حضرت آدمؑ کے بعد قرآن شریف میں خاص طور پر چار مُلہموں (پیغمبروں) کا ذکر آتا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ ،حضرت داؤدؑ ، حضرت عیسیٰ ؑاور حضر ت محمد ؐ۔ ان سے چار کتب منسوب ہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ سے تورات، حضرت داؤدؑ سے زبور، حضرت عیسیٰؑ ؑسے انجیل اور حضرت محمد ؐ سے قرآن۔ حضرت آدم ؑ کا نام مُلہموں میں مذکور ہے، نہ ان کے ساتھ کسی کتاب کو منسوب کیا گیا ہے۔ حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت موسیٰ ؑ تک ایک مدت گذر جاتی ہے اس میں انسانی تاریخ میں بہت سے مدوجزر آجاتے ہیں۔ بہت سی سلطنتیں پیدا ہوتی اور فنا ہوجاتی ہیں۔ کوئی اہل کتاب پیدا نہیں ہوتا۔‘‘

آپ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف بنیادی طور پر کتاب ہدایت ہے۔ یہ رسولوں کے نام یا ان کی کتابوں کے ناموں کی انسائیکلوپیڈیا نہیں ہے، لیکن شری گنگا پرشاد کے اعتراض سے قطع نظر یہ سوال تو یقیناً پیدا ہوتا ہے کہ جن صاحب شریعت رسولوں کا ذکر قرآن کریم نے خصوصی اہمیت کے ساتھ بار بار کیا ہے یعنی حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ اور حضرت محمدؐ۔ ان سب کی کتابوں کے نام بتائے سوائے حضرت نوحؑ کی کتاب کے۔ یہاں تک کہ حضرت دائودؑ کی کتاب کا نام بھی بتایا لیکن حضرت نوحؑ کے لائے ہوئے صحیفوں کے نام قرآن کیوں نہیں بتاتا؟

یا یہی سوال دوسرے الفاظ میں یوں دہرایا جاسکتا ہے کہ جن بڑی بڑی قوموں کا قرآن ایک ساتھ ذکر کرتا ہے وہ مومنین ‘ عیسائی ‘ یہودی اور صابئین ہیں۔ ان میں سے قرآن نے اول الذکر تین قوموں کے پاس آئے صحیفوں کا نام تو بتایا لیکن صابئین کے پاس حضرت نوحؑ کون سے صحیفے لائے تھے۔ یہ کیوں معلوم نہ ہوسکا؟ اس سوال کی اہمیت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ صابئین قرآن ِ عظیم میں ویدک قوم کو کہا گیا ہے اور اس ویدک قوم کے تبدیل ہوکر اسلام میں داخل ہونے کی پیشین گوئیاں بھی موجود ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں احادیث سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تبدیل ہوکر آنے والی قوم ’’اعجب القوم‘‘ عجیب ترین قوم ‘‘ براہ ِ راست قرآن پر ایمان نہیںلائے گی بلکہ پہلے اپنے صحائف جن سے وہ کٹی ہوئی تھی ان کی طرف متوجہ ہوگی اور ان صحائف ہی میں موجود قرآنی تعلیمات اور قرآن کی تصدیق پانے کے بعد ایمان لائے گی۔

آدگرنتھ (اولین صحائف) کے نام سے ڈھونڈیئے

یہ حقائق اس امر کے متقاضی ہیںکہ قرآن حکیم میں ویدک دھرم کے صحائف کا ذکر ہم تلاش کریں۔ قرآن پاک میں جب ہم پچھلی کتابوں کا ذکر ڈھونڈتے ہیں تو ہمیں توریت زبور‘ انجیل اور صحف ابراہیمؑ کے علاوہ پچھلی کتابوں کے لیے صحف ِ اولیٰ اور زبر الاولین کے الفاظ ملتے ہیں جن کے لفظی معنی ہیں ’’سب سے پہلے صحیفے‘‘ اور ’’سب سے پہلے بکھرے ہوئے اوراق‘‘۔ ان دونوں الفاظ کے سنسکرت مترادف الفاظ آدگرنتھ (आदि ग्रन्थ) اور آدگیان (आदि ज्ञान) ہیں ویدوں کے بارے میں ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ یہ آدگرنتھ اور آدِگیان ہیں۔ کیا کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ قرآن جنھیں زبرالاولین یا صحف اولیٰ کہتا ہے وہ کہیں یہی کتابیں تو نہیں ہیں ہندو آدِ گرنتھ کہتے ہیں۔ یہاں اس بات کا خیال رہے کہ اگر وید نام کی کسی کتاب کو ہم نے قرآن کریم میں ڈھونڈنے کی کوشش کی تو یہ سعیِ لاحاصل رہے گی۔ آج کی دنیا میں حضرت داؤدؑ سے منسوب صحیفے کا نام سامن (Psalm) ہے۔ اب اگر سام کے نام سے آپ قرآن کریم میں حضرت داؤدؑ کے صحیفے کو تلاش کریں تو ظاہر ہے کہ نہیں ملے گا۔ قرآن نے اس کتاب کا نام زبور رکھا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم پچھلے مضمون میں یہ مثال دے چکے ہیں کہ آج کوئی عیسائی اپنے آپ کو نصاریٰ نہیں کہتا۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ قرآن نے نصاریٰ اس قوم کو کہا ہے جو آج اپنے آپ کو عیسائی کہتی ہے۔

ہم سے کیسی غفلت ہوگئی

جو اپنے آپ کو نصاریٰ نہیںکہتے، انھیں تو ہم نصاریٰ کے نام سے جانتے ہیں جو اپنی کتاب کو زبور نہیں کہتے ان کی کتاب کو ہم زبور کے نام سے جانتے ہیں اور یہاں ایک بہت بڑی قوم ہزاروں سال سے نزول قرآن سے بھی پہلے سے یہ دعویٰ کرتی چلی آرہی ہے کہ اس کے پاس صحف اولیٰ یا زبر الاولین ہیں۔ اپنی زبان میں وہ یہی الفاظ اپنی کتابوں کے لیے استعمال کرتی چلی آرہی ہے اور ہم ایک ہزار سال سے اسی ملک میں اسی قوم کے درمیان رہتے ہوئے بھی بغیر تحقیق کیے، بغیر ان کے آدِگرنتھوںکو پڑھے یہی کہے چلے جارہے ہیں کہ صحف اولیٰ اور زبر الاولین کا دنیا میں اب کوئی وجود نہیں ہے اور پھر ایسا بھی تو نہیں کہ بہت سی قومیں اس نام کی کتاب رکھنے کا دعویٰ کرتی ہوں۔ جس سے سب دعویٰ مشکوک ثابت ہورہا ہو بلکہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہبی قوم ہے جو اس کی مدعی ہے۔ اللہ ہمیں معاف کرے شاید اللہ کی یہی مصلحت تھی کہ یہ راز اسی دور کے قریب کھلے جو تبدیلیٔ قوم کے لیے لکھا جاچکا، ورنہ ہمیں قرآن میں واضح بتادیا گیا ہوتا کہ صحفِ اولیٰ یا زبرالاولین کس رسول کے ذریعے آئے۔ لیکن اس سے ہماری غفلت کے جرم میں کمی نہیں ہوتی قرآن میں صاف الفاظ میں تشخص صرف ان کا ہے جن کو نزولِ قرآن کے وقت عرب جانتے تھے باقی رہتی دنیا تک کے تمام اہم واقعات اس میں تلاش کرنے سے ملیں گے۔ جوایسے الفاظ میں ہوں گے جن پر 1400 سال پرانے عرب عمومیت کا اطلاق کرتے تھے۔ یہ ہمارا اور خصوصاً ہندوستانی مسلمانوں کا فریضہ تھا کہ اس قوم کا تعلق قرآن سے تلاش کرتے جس کے درمیان ہم ایک ہزار سال سے ہیں۔

اولین صحائف موجود ہیں

اولین صحائف کا دنیا میں آج بھی وجود ہے اس پر قرآن کی مندرجہ ذیل آیت دلیل ہے۔
ترجمہ: ’’اور وہ کہتے ہیں کہ یہ شخص اپنے رب کی طرف سے ہمارے پاس کوئی غیر معمولی ثبوت کیوں نہیں لاتا اور کیا ان کے پاس صحف اولیٰ میں جو کچھ بھی ہے (اس کی شکل میں) واضح دلیل نہیں آگئی؟‘‘ (سورۂ طہٰ : 133)
یہ آیت اس بات کا ثبوت ہے کہ اولین صحیفے یاآدِگرنتھ غائب نہیں ہوگئے بلکہ دنیا میں آج بھی موجود ہیں بلکہ اس بات کو تو قرآن دلیل اور معجزے کے طور پر پیش کررہا ہے کہ ہزاروں سال گذر جانے کے بعد بھی اولین صحائف میں وہ تعلیمات موجود ہیں جن کے مجموعے کی شکل میں قرآنِ عظیم سب سے آخر میں نازل ہوا۔ اولین صحیفوں کے دنیا میں موجود ہونے کے لیے جو لوگ ثبوت طلب کرتے ہیں ان کے لیے اس آیت میں باری تعالیٰ نے ایک خاموش چیلنج پیش کیا ہے۔

’’قرآنی دلیل چاہتے ہو ؟ اللہ کے الفاظ میں ثبوت طلب کررہے ہو؟ اولین صحائف آدِگرنتھ کو اٹھاکر تو دیکھو ہمارا ثبوت‘ ہمارا معجزہ ‘ ہماری دلیل تمہارے سامنے آجائے گی۔‘‘

اس آیت کا جو مفہوم آج تک سمجھا جاتا رہا ہے وہ یہ ہے کہ پچھلے صحائف میں جتنی بھی تعلیمات تھیں ‘ جتنے بھی مضامین تھے ان کی عطر کی شکل میں تمام کتابوں کا مجموعہ قرآن ہمارے پاس آگیا ہے، اور یہ نبی اُمی ؐ کا اللہ کی طرف سے معجزہ ہے۔ بیشک یہ مفہوم بھی اس آیت کا ہے لیکن کیا اس میں بھی وہی چیلنج واضح طور پر آپ کو محسوس نہیں ہورہا ہے؟ جب تک پچھلے تمام صحائف میں کیا تھا۔ یہ آپ کو نہیں معلوم ہوتا معجزے کا یہ رُخ کیسے ثابت ہوگا؟ یہ کیسے معلوم ہوگا کہ قرآن ان سب مضامین کا مجموعہ ہے۔

یہ تھی قرآن میں پچھلے صحائف کی اصل تعلیمات تلاش کرنے کی تاکید اور اس تاکید کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا میں ناپید نہیں ہیں۔

دید ہی اولین صحائف ہیں

صحفِ اولیٰ کے الفاظ جامع الفاظ ہیں ان میں عمومیت بھی ہے اور خصوصیت بھی تمام پچھلے صحیفے بھی اس کے مفہوم میں داخل ہیں اور سب سے پہلے صحیفے بھی۔ قرآن خاص طور سے نام لے کر جن پچھلے صحائف کا ذکر کرتا ہے وہ صحفِ ابراہیمؑ، توریت، زبور اور انجیل ہیں یہ تمام کتابیں وہ ہیں جن سے اہل عرب واقف تھے۔

حضرت نوح ،ؑ سیلاب کے واقعات، ان کی قوم کے حالات اور ان کے صحائف کو قرآن کے اولین مخاطب اہل عرب نہیں جانتے تھے۔ اس کے ثبوت میں خودقرآن مجید کی سورۂ ہود میں حضرت نوح ؑکے واقعے کو بیان کرنے کے بعد اللہ جل جلالہ کا یہ ارشاد ہے: ترجمہ: ’’یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کررہے ہیں۔ اس سے پہلے نہ تم ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم…‘‘ (سورۂ ہود: 49 )

بہر حال قرآن نے اپنے مخصوص طرز بیان میں ‘ جن نبیوں کی کتابوں سے اس وقت کے قرآن کے مخاطب واقف تھے۔ ان کا نام ان الفاظ میں لیا کہ وہ لوگ آسانی سے پہچان لیں۔ لیکن ان سے پہلی کتابوں کا ذکر بھی چھوڑا نہیں اس کے لیے ایسے جامع اور ذو معنی الفاظ استعمال فرمائے جو صرف اللہ رب العزت ہی کی خصوصی شان ہے۔ صحف اولیٰ اور زبر الاولین کے الفاظ سے اس دور کے لوگوں کو بھی کوئی دِقت پیش نہیں آئی کیوں کہ ان سے وہی تمام صحائف وہ مراد لیتے رہے جن کو وہ جانتے تھے اور انہی الفاظ نے مصابیح الاسلام کے مصنف گنگا پرشاد اپادھائے کو بھی بتادیا کہ قرآن میں تمہاری کتابوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اُس میں آدِ گرنتھ یعنی اولین صحائف کا ذکر ہے۔ ہماری حکمت سے تم یہ کیوں امید رکھتے ہو کہ دنیا کی بڑی بڑی قوموں کے جن پیشواؤں (حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیم ؑ، حضرت موسیٰ ؑ، حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت محمد ؐ) کا ہم نے ایک ساتھ نام لیا ہے۔ ان میں سے سب کی کتابوں کے نام تو بتائے لیکن تمہارے پیشوا (حضرت) نوحؑ ہی کی کتاب کا ذکر قرآن میں نہیں کیا۔‘‘

اب آیئے زبرالاولین کے الفاظ پر غور کریں۔ قرآن بتاتا ہے: ’’بے شک زبرالاولین میں یہ (قرآن) ہے۔‘‘ (سورہ ٔ شعراء :196)
زبر کے لفظی معنی ہیں بکھرے ہوئے اوراق زبرالاولین کا مطلب ہوا: ’’سب سے پہلے والے بکھرے ہوئے اوراق‘‘ سب سے پہلے صاحب شریعت رسول حضرت نوحؑ تھے۔ ہندو حضرت نوحؑ کی امت ہیں۔ وہ اپنی مقدس کتابوں ‘ ویدوں کے آدِ گیان یعنی اولین علم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ویدوں کی تاریخ (جو مختصراً آپ کی نظر سے گذر چکی) پر نظر ڈالنے سے سب سے ’’پرانے بکھرے ہوئے اوراق‘‘ کی تعریف ان پر پوری طرح صادق آتی ہے۔

آیئے اب ایک اور رُخ سے دیکھیں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ : ’’اور آپؐ سے قبل بھی ہم نے مرد (ہی) بھیجے تھے جن پر ہم وحی کرتے تھے۔ اگر تم کو نہیں معلوم تو اہل ذکر سے پوچھ لو ان کو ہم نے بینات اور زُبر کے ساتھ بھیجا تھا۔‘‘ (النحل : 44-43)

یہاں اور دوسرے معانی کے ساتھ ایک لطیف اشارہ یہ بھی چھپا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ رسولوں پر جو کتابیں نازل ہوئیں۔ وہ کچھ بینات تھیں اور کچھ زُبر یعنی زُبر اور بینات مختلف نوع کے صحیفے ہیں۔ بینات کے معنی ہیں ’’جن میں صاف صاف سمجھ میں آنے والے الفاظ میں بیانات ہوں۔‘‘ بینات سے مختلف قسم کیا ہوئی؟ ’’جن میں تمثیلی انداز میں واقعات کا بیان ہو۔‘‘ رگ وید میں کہا گیا ہے کہ میں واقعات کو حمد کے پیرائے میں تمثیلی زبان میں بیان کرتا ہوں۔ (رگ وید:11-6-8 ) ویدک علم کو ہم دیکھیں تو وہ زُبر کی اس تعریف پر بھی پورے اترتے ہیں اور انکے اولین ہونے میں تو کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے۔

ویدوں کے صحف اولیٰ یازبر الاولین ہونے اور حضرت نوحؑ سے متعلق ہونے کا ایک آخری عقلی ثبوت یہ ہے کہ پُرانوں اور ہندوؤں کی دیگر مذہبی کتابوں میںتو بہت سے انبیاء علیہم السلام کی ناموں کے ساتھ پیشین گوئی ملتی ہے لیکن ویدوں میں انبیاء میں سے صرف آدمؑ اور حضرت نوحؑ کے تذکرے ملتے ہیں۔ آسمانوں کے رسول اول ہونے کی حیثیت سے حضرت احمدؐ کی تفصیلات ملتی ہیں یا پھر ان کے علاوہ حضرت محمدؐ کی بعثت کی پیشین گوئیاں ملتی ہیں۔ رسولِ آخرالزماںؐ کی پیشین گوئیاں تو ہر مقدس صحیفے میں ہیں۔ ان کے علاوہ انبیاء میں سے حضرت نوحؑ سے آگے کسی نبی کا بیان نہ پایا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ وید نہ تو نوحؑ سے پہلے کے صحیفے ہیں اور نہ ان کے دور کے بعد کے۔

ویدوں کو کتب الٰہی یا کتب مقدسہ تسلیم کیے جاسکنے میں جو اشکال ہمارے خیال میں پیدا ہوسکتے تھے وہ ہم سمجھتے ہیں کہ اب باقی نہیں رہ گئے ہوں گے، خود ویدوں کے مضامین وید پڑھنے والے چند مسلمان علماء کے خیالات اور سب سے بڑھ کر قرآن عظیم کی نشاندہی کے بعد اس میں کوئی شک باقی نہیں رہتا کہ یہ کلام ربانی کے حصے ہیں۔

وید اور دیگر ہندو مذہبی کتب

ہندو عقیدے کے مطابق ویدوں کو خدا کا کلام مانا جاتا ہے۔ جس کے کسی لفظ میں تبدیلی ان کے نزدیک جائز نہیں ہے اور دوسری مذہبی کتابیں جیسے پُران (पुराण)، براہمن (ब्राह्मण)، اُپنشد (उपनिषद)، اور آڑینک (आरण्यक)، اسمر تیاں (स्मृतियाँ) وغیرہ کو ویدوں کی تفسیر مانا جاتا ہے۔ ان تمام کتابوں کے الفاظ براہِ راست خدا سے منسوب نہیں ہیں بلکہ انکا صرف مفہوم خدا کی طرف سے ماناجاتا ہے۔ یہ مختلف رشیوں سے منسوب مانا جاتا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے قرآن اور حدیث کا باہمی تقابل۔’’کلیان پدم پُران انک‘‘ میں یہ بات اس طرح کہی گئی ہے۔

’’خدا کے اپنے الفاظ کو کوئی بولنے والا ویسے ہی مطلب والے دوسرے الفاظ سے بدل نہیں سکتا۔ اگر بدلے تو اُسے خدا کے الفاظ نہیں کہا جائے گا۔ اس قاعدے کے مطابق وید کے الفاظ خدا کے الفاظ ہی ہیں … یہی نہیں جملے میں الفاظ کی ترتیب بھی نہیں بدلی جاسکتی پُران ‘ نیک لوگوں کے جملوں کی طرح ہیں۔ ان جملوں میں الفاظ بدلنے میں کوئی حرج نہیں مانا جاتا ہاں ان کے جملوں کے مطلب میں تبدیلی نہ ہونا چاہئے۔‘‘

ہندو عالموں کا دعویٰ ہے کہ ویدوں کو یاد کرنے میں اتنی تکنیکی احتیاط برتی گئی ہے کہ وہ شروع سے بغیر تبدیل ہوئے ویسے ہی چلے آرہے ہیں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہزاروں سال سے حافظوں میں چلے آرہے ویدوں کو اٹھارہویں صدی کے آخر میں پہلی بار میکس ملر نے کتابی شکل میں شائع کرایا۔ اگر ہم تمام تر احتیاطوں کو تسلیم بھی کرلیں تب بھی حافظوںمیں ویدوں کے ساتھ پرانوں اور دوسری کتابوں کے مضامین کا خلط ملط ہوجانا عین ممکن ہے۔ ویدوں کے انگریز مفسر سب اس بات کی تصدیق کرتے ہیں (حوالے اس باب میں دیئے جاچکے ہیں) ہماری سمجھ اور تحقیق کے مطابق ویدوں اور ان تمام کتابوں میں جتنے حصے کی قرآن سے تصدیق ہوتی ہے وہ اصل وید ہے۔

(جاری)