مضامین

مسلم ممالک کے باشندے یوروپ، امریکہ کیوں جانا چاہتے ہیں؟

منور مرزا

گزشتہ دنوں اٹلی کے ساحل کے قریب ایک حادثہ میں 100 کے قریب تارکینِ وطن ہلاک ہوئے۔ یہ حادثہ اْس وقت پیش آیا، جب غیر قانونی نقل مکانی کرنے والے تارکینِ وطن سے بَھری کشتی اٹلی کے ساحل کے قریب چٹان سے ٹکرا کر تباہ ہو گئی۔ اس کشتی میں دو سو کے قریب افراد سوار تھے، جن کا تعلق پاکستان، ایران، افغانستان اور صومالیہ سے بتایا گیا۔ سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان ڈوبنے والوں میں 12 بچّے بھی شامل تھے، یعنی موت کے اس کھیل میں جہاں انسانی اسمگلرز نے ظالمانہ کردار ادا کیا، وہیں ان بچّوں کے والدین بھی کم بے رحم ثابت نہیں ہوئے، جو اپنے جگر کے ٹکڑوں کو لالچ یا کسی مجبوری کے تحت اس خونی کھیل میں شامل کرنے پر آمادہ تھے اور اْنہیں سمندر کی لہروں کے حوالے کردیا۔
ترکی سے روانہ ہونے والی اس چھوٹی سی کشتی میں اسمگلرز نے دو سو افراد کو بھیڑ بکریوں کی طرح بَھرا ہوا تھا۔ افریقہ، تْرکی اور یونان سے بحرِ روم کے راستے کشتیوں یا پھر ٹرالرز کے ذریعے یہ غیر قانونی موت کا سفر کوئی پہلا واقعہ نہیں۔اِس خونی کھیل کو 2014ء میں اْس وقت زیادہ فروغ حاصل ہوا، جب شام میں خانہ جنگی عروج پر تھی۔ شامی صدر، بشار الاسد کے اپنے ہی شہریوں کے خلاف فوجی آپریشن کی وجہ سے ایک کروڑ سے زاید افراد بے گھر ہوئے۔
اْن میں سے بیش تر شام، ترکی سرحد پر پناہ گزیں ہیں اور اْن کی تعداد35 لاکھ سے زاید بتائی جاتی ہے۔اقوامِ متحدہ کے ذرائع کے مطابق، اردن اور عراق کی سرحدوں پر بھی اْن کے بڑے بڑے کیمپس قائم ہیں۔شام کی یہ خانہ جنگی گیارہ سال جاری رہی، جس میں ایران، اْس کی مسلّح تنظیموں اور بعد میں روس نے بھی اسد افواج کے ساتھ مل کر عوام پر یلغار کی اور بے بس شامی شہری قتل اور تباہ ہوتے رہے۔ کئی شہروں کا محاصرہ سال سال بَھر جاری رہا، جس میں بچّے، عورتیں اور بوڑھے گھاس پھونس اور درختوں کی جڑیں تک کھانے پر مجبور ہوئے۔اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادیں ویٹو پر ویٹو ہوتی رہیں کہ روس کو ویٹو پاور حاصل ہے اور اس معاملے میں چین نے بھی اْس کا ساتھ دیا۔
شامی خانہ جنگی بین الاقوامی بے حسی کی ایک مثال ہے، تو مسلم امہ کی نا اتفاقی اور لاچاری بھی اس سے عیاں ہوتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق، اس خانہ جنگی میں پانچ لاکھ سے زاید شامی مسلمان ہلاک ہوئے۔یہ اس صدی کا سب سے بڑا انسانی المیہ تھا، جو فروری2011 ء میں شروع ہوا۔آج دنیا میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد شامی مہاجرین ہی کی ہے۔ اِنہی مہاجرین نے موت، بھوک اور افلاس سے بچنے کے لیے بحرِ روم پار کرکے یوروپ جانے کا سلسلہ شروع کیا،جسے درندہ صفت انسانی اسمگلرز نے ایک کاروبار بنا لیا۔ بحرِ روم کا غیر قانونی سفر، جو شامی مہاجرین کی تباہی سے شروع ہوا، انسانی اسمگلرز کی کمائی کا ذریعہ بن گیا۔
یہ افریقہ کے ساحل پر پھیل گئے، جب کہ یونان اور ترکی میں بھی یہ ایک منافع بخش کاروبار کا روپ اختیار کر گیا۔اقوامِ متحدہ کی رپورٹس کے مطابق، یہ اسمگلر زیادہ تر لیبیا، تیونس اور دیگر قریبی ساحلوں سے اپنے اس موت کے کاروبار کا آغاز کرتے ہیں،جہاں ان کے باقاعدہ دفاتر قائم ہیں۔ کچھ یوروپی ممالک فرانس، اٹلی اور جرمنی وغیرہ نے ان کے خلاف کارروائی کی ہے، لیکن مسلم دنیا اِس معاملے پر مکمل طور پر خاموش ہے، شاید اِس لیے کہ اْن کے اپنے زخم اور بدترین نااہلی دنیا کے سامنے مزید عیاں نہ ہو جائے۔ نقل مکانی کرنے والے شامی تارکینِ وطن کے بعد پاکستان، افغانستان، ایران، صومالیہ اور یمن کے شہری بھی اس طرح کے کاموں میں شامل ہوگئے۔
افسوس اور شرم کا مقام یہ ہے کہ یہ تمام ممالک مسلم دنیا کا حصہ ہیں۔ان ممالک میں گورنینس اور معاشی حالات انتہائی دگر گوں ہیں۔ روز گار اور اچھی زندگی کے مواقع ناپید ہوتے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں کے باسی، خاص طور پر نوجوان اپنے مستقبل سے مایوس ہوکر جان کی بازی تک لگا کر خطرناک سفر پر نکل پڑتے ہیں۔ پہلے یہ اکیلے جاتے تھے اور اب پورے پورے خاندان ساتھ لے جانے لگے ہیں۔ ہم ایسے بہت سے خاندانوں کو جانتے ہیں، جو اِسی طرح سفر کرکے ترکی جا چکے ہیں اور شاید کسی دن یوروپ بھی پہنچ جائیں گے۔ عین ممکن ہے کہ وہ حالیہ واقعے سے کچھ سبق سیکھ لیں، جس کی امید کم ہی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے نقل مکانی یا ریفیوجیز کے ادارے کے اعداد وشمار کے مطابق، گزشتہ آٹھ سال میں پچاس ہزار سے زاید افراد یوروپ اور امریکہ جانے کی کوشش کے دوران سمندر میں غرق ہوکر ہلاک یا لاپتا ہوئے۔اسی ادارے کا اندازہ ہے کہ دنیا میں 280 ملین مہاجرین موجود ہیں۔ ان کا وطن ہوتے ہوئے بھی کوئی وطن نہیں اور ان کی ایک بڑی تعداد اقوامِ متحدہ کے کیمپس میں زندگی گزار رہی ہے، جہاں سے آگے بڑھنے کے راستے نہ ہونے کے برابر ہیں۔
بحرِ روم کے ساحل، افریقی ممالک، ترکی اور یونان انسانی اسمگلرز کی آماج گاہ بن گئے ہیں۔اگر دیکھا جائے، تو یہ بھی دہشت گردی کی ایک قسم ہے۔ان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ یوروپ جانے کے خواہش مند افراد سے فی کس پانچ، سات ہزار ڈالرز کرایہ وصول کر کے اْنھیں ٹرالرز یا لوڈر کشتیوں میں بَھر دیا جاتا ہے۔ لیبیا جیسے ساحلوں سے، جو اِن دنوں مختلف قبائل کی راج دھانی بنا ہوا ہے اور انتشار کا شکار ہے، یوروپی ساحل بمشکل بیس، پچیس میل کے فاصلے پر ہیں۔ لوگوں کو یہ لالچ دیا جاتا ہے کہ اْنھیں یوروپی ممالک میں انسانی حقوق کے نام پر پناہ مل جائے گی اور پھر مزے ہی مزے ہوں گے۔
ان خبروں کو شہ سرخیوں میں لگوایا جاتا ہے کہ یوروپ میں بوڑھوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، اِس لیے اْنھیں کام کرنے والے جوانوں کی اشد ضرورت ہے۔جب کشتی یوروپی ساحل کے قریب پہنچتی ہے، تو اس میں سوراخ کر کے یا کسی چٹان سے ٹکرا کے ڈیمیج کر دیا جاتا ہے، پھر کوسٹ گارڈز کو جان بچانے کے پیغامات دیے جاتے ہیں، جب تک وہ بچاؤ کے لیے وہاں پہنچتے ہیں، تارکینِ وطن کی خاصی بڑی تعداد ڈوب چکی ہوتی ہے، جو بچ جاتے ہیں، اْنہیں پناہ مل جاتی ہے،لیکن اس کے بعد اْنھیں اْن ممالک میں آباد ہونے کے لیے جس قسم کی اذیت اور ذلت جھیلنی پڑتی ہے، وہ وہی جانتے ہیں۔ یوروپی میڈیا میں ان کی کہانیاں دیکھی جاسکتی ہیں، لیکن پھر بھی کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔اب صْورتِ حال اِس حد تک خراب ہوچکی ہے کہ بچوں اور عورتوں کو اِس لیے ساتھ بھیجا جا رہا ہے کہ یوروپی ممالک کے رحم کے جذبات کو ابھارا جاسکے۔ ان انسانی درندوں کے خلاف، جو اس غلیظ کاروبار میں مصرف ہیں، کارروائیاں کی تو جاتی ہیں،لیکن لالچ اور اچھی زندگی کے پْرفریب خواب پھر بھی بہت سوں پر غالب آجاتے ہیں، اِسی لیے یہ کاروبار آج بھی پَھل پْھول رہا ہے اور انسانی جانوں کو نگل رہا ہے۔بحرِ ہند کے راستے جانے والے مہاجرین میں روہنگیا مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے،جنھیں ایک تو ہزاروں میل کا سفر طے کرنا پڑتا ہے اور پھر بھی منزل اور پناہ کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ایک بار کشتی میں سوار ہونے کے بعد یہ مسافر سمندر کی لہروں اور اپنی تقدیر کے حوالے ہوجاتے ہیں کہ ان بے وطن افراد کا کوئی والی وارث نہیں رہتا۔
اس معاملے کے تین اہم پہلو ہیں اور تین ہی فریق ہیں۔ایک تو متاثرین اور انسانی اسمگلر ہیں۔ پھر وہ ممالک ہیں، جو تارکینِ وطن کی منزل ہیں، ان میں یوروپ سرِ فہرست ہے، اس کے بعد امریکہ اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک ہیں۔تیسرے فریق وہ ممالک ہیں، جہاں سے یہ تارکینِ وطن تعلق رکھتے ہیں۔ہم متاثرین اور اسمگلرز کا ذکر کرچکے ہیں۔ جو ممالک اِن افراد کی منزل ہیں، وہاں کی صورت حال اب بہت بدل چکی ہے۔ وہ ایسے کہ جب شامی خانہ جنگی کے دوران یہ سلسلہ شروع ہوا، تو اْس وقت بین الاقوامی سطح، خاص طور پر یوروپ کے بہت سے ممالک میں مہاجرین کے لیے ہم دردی پائی جاتی تھی۔ جرمنی ان ممالک میں سرِ فہرست تھا، انجیلا مرکل اْنھیں وہاں بسانے کی سب سے بڑی حامی تھیں اور اِسی پاداش میں اْنہیں اقتدار تک سے ہاتھ دھونا پڑا۔
یوروپ میں انسانی حقوق کے معاملات پر بہت زور دیا جاتا ہے اور اس ضمن میں اْن کے قوانین بھی بہت سخت ہیں،ان قوانین میں پناہ لینے والوں کے حقوق بھی شامل ہیں،لیکن جب ان مہاجرین کی فوج در فوج آمد شروع ہوئی، تو اْن کے خلاف آوازیں اْٹھنا شروع ہوئیں اور پھر یہ مخالف آوازیں، قوم پرستی کی لہر کے ساتھ مل کر ایک نیا رْخ لینے لگیں۔ اس میں کچھ تارکینِ وطن کی مجرمانہ حرکتوں کا بھی ہاتھ ہے۔ صورت حال کو مزید پیچیدہ بنانے میں امریکی صدر اوباما کا کردار بھی بہت زیادہ رہا۔پہلے تو وہ شام میں صدر اسد کے کٹر مخالف اور مدّ ِمقابل رہے، شامی اپوزیشن کی بھرپور حمایت کی، ترکی اور دیگر ممالک کو پناہ گزین لینے پر شاباش دی، یوروپ کو اشارے دیئے کہ وہ مہاجرین کو قبول کرے۔اْس وقت امریکہ کو یقین تھا کہ صدر اسد کا اقتدار ختم ہو جائے گا اور ایران پیچھے ہٹ جائے گا۔
سلامتی کونسل شام میں کوئی جمہوری راستہ نکال سکے گی کہ اْس نے شام کے انتخابات کا ایک روڈ میپ بھی منظور کیا تھا،جس سے خیال ہوا کہ مہاجرین واپس اپنے وطن میں آباد ہو جائیں گے، لیکن جب صدر پوٹن نے کریمیا پر قبضہ کر لیا اور وہ عالمی طور پر”مردِ آہن“ بن کر سامنے آئے، تو اوباما صاحب نہ معلوم کیوں ڈھیلے پڑنے لگے۔جب شام پر اسد فوج کا کیمیائی حملہ ہوا، تو اس کے بعد سے وہ دباؤ بڑھانے کی بجائے پیچھے ہٹتے گئے۔ اسی زمانے میں اوباما نے اعلان کیا کہ امریکہ مشرقِ وسطیٰ سے جا رہا ہے، افغانستان سے پسپائی اختیار کرے گا اوراب مشرقِ بعید میں انڈو چائنا اس کا محور ہوگا۔
اسی کے ساتھ، اْنہوں نے نہ صرف صدر پوٹن کو مشرقِ وسطیٰ میں آگے بڑھنے کا موقع دیا، بلکہ شامی شہریوں پر بم باری کرنے پر بھی اْن کی کوئی سرزنش نہیں کی۔اس پر خود امریکہ اور یوروپ میں بڑی تنقید ہوئی اور کہا گیا کہ یہ شامی عوام سے بے وفائی اور وعدہ خلافی ہے۔ صدر اوباما کی اس پالیسی کو مغربی میڈیا نے بھی بے وقوفی قرار دیا۔ اسی کے ساتھ جو اپوزیشن اور مہاجرین اسد کے خلاف کھڑے تھے، وہ مایوس ہونے لگے۔پھر مایوسی نے افراتفری کی کیفیت اختیار کی اور مہاجرین اپنے خاندانوں سمیت جان کی بازی لگانے پر تیار ہوگئے، لیکن اب یہ بازی وہ فرار کے لیے لگا رہے ہیں۔یعنی یوروپ کی طرف جانے لگے ہیں تاکہ بہتر زندگی مل سکے کہ اپنے وطن کے دروازے تو ان پر بند ہوچکے تھے۔ اسی دوڑ میں دیگر مسلم ممالک کے افراد بھی شامل ہوگئے، جو اچھے مستقبل کے لیے یوروپ جانے کے لیے غیر قانونی طریقے استعمال کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے، لیکن اب یوروپ اور امریکہ میں قوم پرستی نے اْنہیں ناقابلِ قبول بلکہ نفرت کا نشانہ بنا دیا ہے۔وہاں وہ جماعتیں اقتدار میں آرہی ہیں، جن کے منشور میں تارکینِ وطن کی مخالفت سرِ فہرست ہے۔ پھر یہ کہ ان کے مذہب اور روایات کو بھی وہ قبول کرنے کو تیار نہیں۔

یہ نہیں کہ اِس غیر قانونی نقل مکانی کے خلاف صرف یوروپ یا امریکا اقدامات کر رہا ہے، بلکہ اہم مسلم مْلک تْرکی بھی روز روز کے مسائل سے تنگ آچکا ہے اور وہ بھی اس کی روک تھام کے لیے پیش رفت کر رہا ہے۔اس نے شام کی سرحد کے ساتھ 911 کلو میڑ لمبی دیوار مکمل کر لی ہے۔یہ دیوار جدید ترین مانیٹرنگ آلات سے لیس ہے۔ اِسی طرح اس نے افغانستان اور پاکستان سے آنے والے تارکینِ وطن کی حوصلہ شکنی کے لیے 500 کلو میٹر لمبی دیوار تعمیر کی ہے۔ دیوارِ چین اور امریکہ، میکسیکو سرحد کی دیوار کے بعد یہ دیواروں کا سلسلہ دنیا کا سب سے طویل سلسلہ ہے۔بہت سے مسلم ممالک کی معیشتیں انتہائی کم زور ہیں۔ ایران میں ایک ڈالر40 ہزار ریال کے برابر ہے، شام، عراق، افغانستان، لیبیا اور یمن بھی تباہ حال ہیں، پاکستان کی حالت بھی ہمارے سامنے ہے۔ مایوسی کی کیفیت عوام کو ایک ایسے مقام پر لے آئی ہے کہ اْنہیں انسانی اسمگلرز کے شکنجے میں پھنسنے پر مجبور ہونا پڑ رہاہے۔ اْنہیں اپنے ملک میں اپنا اور اپنے خاندانوں کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔
دْکھ کی بات یہ بھی ہے کہ جنہیں اہلِ علم اور اہلِ دانش کہا جاتا ہے، وہ گمبھیر صورت حال کو سمجھنے کی بجائے پراپیگنڈے میں مصروف ہیں اور اس افراتفری کو حقیقی آزادی اور آزادی اظہار رائے قرار دینے پر مْصر بھی ہیں۔لگتا ہے کہ وہ چلتے پھرتے روبوٹ ہیں، جن میں کسی نے کوئی خاص پروگرام انسٹال کردیا ہے اور اْن کا لکھنا، بولنا، سب اسی پروگرامنگ کے مطابق ہے۔بہرکیف، سانحہ اٹلی جیسے واقعات کے بعد تو کم ازکم مسلم ممالک کی آنکھیں کْھل جانی چاہیے۔