مضامین

گاندھی جی کا قتل، گوڈسے اور آر ایس ایس‘ حقیقی تاریخ

رام پنیانی

حال ہی میں (اپریل 2023) NCERT نے اسکول کی نصابی کتابوں سے بہت سارے مواد کو ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ ہٹائے گئے مواد میں مغل تاریخ، گجرات فسادات، ورنا نظام کے عروج اور گاندھی جی کے قتل سے متعلق کچھ تفصیلات شامل تھیں۔”ہندو مسلم اتحاد کے لیے ان کی (گاندھی جی) کی مسلسل کوششوں نے ہندو انتہا پسندوں کو اس حد تک مشتعل کیا کہ انہوں نے گاندھی جی کو قتل کرنے کی کئی کوششیں کیں…گاندھی جی کی موت کا ملک کی فرقہ وارانہ صورتحال پر تقریباً جادوئی اثر پڑا۔ حکومت ہند نے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والی تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کی… راشٹریہ سویم سیوک سنگھ جیسی تنظیموں پر کچھ عرصے کے لیے پابندی لگا دی گئی…“ جہاں اس تفصیل کو ہٹانے پر سخت تنقید کی گئی ہے، آر ایس ایس کے رہنما رام مادھو نے 22 اپریل 2023 کو دی انڈین ایکسپریس میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں اس تنقید پر تنقید کی ہے۔ اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے اس حصے کو ہٹانے کو مناسب قرار دیا جس میں قاتل گوڈسے کو ہندو انتہا پسند، اگرانی نامی ہندو انتہا پسند اخبار کا ایڈیٹر اور مہاراشٹر کا برہمن بتایا گیا ہے۔وہ اپنے مضمون کا آغاز ایک مسلمان عبدالرشید کے ہاتھوں سوامی شردھانند کے قتل کو بیان کرتے ہوئے کرتے ہیں۔ گاندھی نے اس قتل پر تنقید کی لیکن راشد کو بھائی کہہ کر مخاطب کیا اور کہا کہ اس پر قتل کا الزام نہیں لگایا جانا چاہیے۔ بلکہ نفرت کا ماحول پیدا کرنے والوں کو قصوروار ٹھہرایا جائے۔ مادھو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ رشید اور گوڈسے کے رویہ ایک دوسرے سے متضاد تھا جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ یقینا گاندھی جی گوڈسے کے بارے میں ان کے قتل کے بعد اپنی رائے دینے کے لیے موجود نہیں تھے، لیکن اس بزدلانہ حرکت کے بارے میں ان کا رویہ اسی وقت واضح ہوا جب گوڈسے نے 1944 میں پونے کے قریب پنچگنی میں ان پر خنجر سے حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ واقعات کی ترتیب کچھ یوں تھی: "اس شام ایک دعائیہ میٹنگ کے دوران، گوڈسے، نہرو کی قمیض، پاجامہ اور جیکٹ میں ملبوس، گاندھی جی کی طرف لپکا۔ وہ ہاتھ میں خنجر لیے ہوئے تھا اور گاندھی مخالف نعرے لگا رہا تھا۔ لیکن گوڈسے کو قابو میں کرلیا گیا…” اور گاندھی جی کی جان بچ گئی۔ اس پر گاندھی نے گوڈسے سے کہا کہ ”آٹھ دن تک ان کے ساتھ رہیں تاکہ وہ دونوں ایک دوسرے کو سمجھ سکیں۔“ گوڈسے نے دعوت نامہ مسترد کر دیا اور وسیع القلب گاندھی جی نے اسے وہاںسے جانے دیا۔ اس طرح عبدالرشید اور گوڈسے دونوں کے لیے گاندھی جی کا ردعمل ایک جیسا تھا۔ جہاں تک گاندھی جی کا سوامی شردھا نند کے قتل کی وجہ نفرت کو بتانے کا تعلق ہے، یہی رائے گاندھی جی کے ایک شاگرد سردار پٹیل کی تھی جنہوں نے آر ایس ایس پر پابندی لگا دی تھی۔ مادھو کا یہ کہنا غلط ہے کہ نہرو کے اصرار کی وجہ سے آر ایس ایس پر پابندی لگائی گئی۔ حقیقت‘ وزارت داخلہ (جو کہ سردار پٹیل کے پاس تھی)، کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز سے ظاہر ہوتی ہے۔
4 فروری 1948 کو جاری کردہ ایک اعلامیہ میں، مرکزی حکومت نے کہا کہ ”نفرت اور تشدد کی قوتیں، جو ملک کی آزادی کو خطرے میں ڈالنے اور اسے بدنام کرنے میں ملوث ہیں، جو ہمارے ملک کی نیک نامی کو بدنام کر رہی ہیں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے آر ایس ایس پر پابندی لگائی جا رہی ہے… یہ پایاگیا ہے کہ ملک کے کئی حصوں میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے تعلق رکھنے والے لوگ آتش زنی، لوٹ مار، ڈکیتی اور قتل جیسی پرتشدد کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں اور انہوں نے غیر قانونی اسلحہ اور گولہ بارود جمع کر رکھا ہے۔ وہ پمفلٹ تقسیم کرتے ہوئے پائے گئے ہیں جن میں لوگوں کو دہشت گردانہ حملوں کے لیے ہتھیار جمع کرنے، حکومت کے خلاف عدم اطمینان پھیلانے اور پولیس اور فوج کو بغاوت پر اکسانے کی تلقین کی گئی ہے۔
ایم ایس گولوالکر کو لکھے گئے خط میں پٹیل نے لکھا، ”ان کی (آر ایس ایس اراکین) کی تقریریں فرقہ وارانہ زہر سے بھری ہوتی تھیں… اس زہر کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کو گاندھی جی کی انمول جان قربان کرنی پڑی۔ عوام اور حکومت میں آر ایس ایس کے لیے ذرا بھی ہمدردی نہیں بچی ہے۔ یہ مخالفت اس وقت مضبوط ہوئی جب آر ایس ایس کے لوگوں نے گاندھی جی کی موت پر خوشی کا اظہار کیا اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔ آر ایس ایس مفکر مادھو کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس پر پابندی کا حوالہ آدھا سچ ہے، کیوں کہ عدالتوں نے پابندی کو غیر قانونی قرار دے کر ہٹا دیا تھا، لیکن جو آرٹیکل حذف کر دیا گیا ہے اس میں ٹھیک یہی کہا گیا کہ پابندی صرف مختصر مدت کے لیے لگائی گئی تھی۔ تاہم، گاندھی سے لے کر پٹیل اور نہرو تک سبھی نے محسوس کیا کہ ایک فرد کے طور پر گوڈسے سے زیادہ نفرت کا ماحول ہی گاندھی جی اور سوامی شردھانند کے قتل سمیت تشدد کے تمام واقعات کا ذمہ دار تھا۔ اگرچہ آر ایس ایس پر پابندی قانونی طور پر درست نہیں پائی گئی، لیکن یہ پابندی آر ایس ایس کی طرف سے پھیلائی جانے والی نفرت کی وجہ سے لگائی گئی، جس کے نتیجے میں تشدد اور قتل و غارت گری، بشمول گاندھی کا قتل ہوا۔ آر ایس ایس گاندھی جی کی تعریف کرتے ہوئے کبھی نہیں تھکتی لیکن وہ اب بھی وہی کر رہی ہے جو وہ شروع سے کر رہی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانا اور ساتھ ہی قدیم اونچ نیچ کے سماج کی تعریف کرنا۔
گوڈسے کے ذہن میں جو نفرت بھری تھی وہ آر ایس ایس کی دین تھی۔ گوڈسے لکھتا ہے، ”ہندوو¿ں کی ترقی کے لیے کام کرتے ہوئے، میں نے محسوس کیا کہ ہندوو¿ں کے منصفانہ مفادات کے تحفظ کے لیے ملک کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا ضروری ہے۔ چنانچہ میں نے سنگھ (آر ایس ایس) چھوڑ دیا اور ہندو مہاسبھا میں شامل ہو گیا“(گوڈسے، ”میں نے مہاتما گاندھی کو کیوں قتل کیا“ 1993، صفحہ 102)۔ اس نے نے مہاتما گاندھی کو مسلمانوں کی خوشنودی اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی تخلیق کا قصوروار ٹھہرایا۔ وہ اس وقت کی واحد ہندوتوا سیاسی جماعت ہندو مہاسبھا میں شامل ہوا اور اس کی پونے شاخ کا جنرل سکریٹری بن گیا۔ بعد میں اس نے اگرانی یا ہندو راشٹر کے نام سے ایک اخبار شائع کیا، جس کا وہ بانی ایڈیٹر تھا۔ عبدالرشید اور گوڈسے کے دلوں میں بھری ہوئی نفرت کو آج کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے کہ مذہبی جلوسوں میں لاٹھیاں اور تلواریں چلانے اور پستول اٹھانے والے نوجوان بلاشبہ قصوروار ہیں لیکن ان سے زیادہ قصور وار ہے تفرقہ انگیز نفرت انگیز نظریہ، نفرت انگیز تقاریر اور سوشل میڈیا جو مسلسل مذہبی اقلیتوں کے تئیں زہر پھیلاتا ہے۔ اگر ہم اپنے پڑوس کی طرف دیکھیں تو اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ مذہب پر مبنی قوم پرستی کی اصل بنیاد نفرت پیدا کرنا اور پھیلانا ہوتی ہے۔ ایک طرح سے ہم پاکستان اور سری لنکا کے راستے پر چل رہے ہیں۔ پاکستان میں اسلامی قوم پرستی کی وجہ سے ہندوو¿ں اور عیسائیوں کے خلاف لوگوں کے دلوں میں بھری نفرت کے نتیجہ میں ان کی ہراسانی ہورہی ہے۔ سری لنکا میں بدھ مت سنہالی قوم پرستی سے پیدا ہونے والی نفرت کا خمیازہ ہندو (تامل)، مسلمان اور عیسائی بھگت رہے ہیں۔
اب نصابی کتب میں کی گئی ان تحریفوں کے ساتھ ہندو قوم پرست اور ان کے حامی نفرت کی اس آگ کو اور بھڑکارہے ہیں جو پُرتشدد واقعات کے لیے ذمہ دار ہے اور جس سے اقلیتیں یکا و تنہا ہورہی ہیں۔ خاص طور پر گاندھی کے قتل اور اس میں آر ایس ایس کے کردار سے متعلق مواد کو ہٹانا، موجودہ دور کے نفرت انگیز ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی ایک اور کوشش ہے۔