گجرات اسمبلی انتخابات اور مسلم رائے دہندے

محمد محبوب
ظلم والو ظلم کی تاریخ ہو جب تمہیں لکھنا
قیامت اگر لکھنا ہو تو بس گجرات لکھ دینا
جب کبھی گجرات کا ذکر میری سماعتوں سے ٹکراتا ہے تو منور رانا کا مندرجہ بالا شعر میرے ذہین میں رقص کرنے لگتا ہے۔ گجرات فسادات کے20 سال مکمل ہوچکے ہیں۔ اس اثناء میں میری ان گنہگار آنکھوں نے ہزاروں ظلم و ستم، تکلیف و مصائب کے مناظر دیکھے ہیں، لیکن گجرات میں 2002 میں جو مسلم کش فسادات ہوئے تھے، جس طرح مسلمانوں کا قتل کیا گیا تھا، جس طر ح ان کے گھروں اور مذہبی مقامات کو برباد کیا گیا تھا۔ وہ مناظر یقینا قیامت صغری سے کم نہ تھے۔ رکن پارلیمنٹ احسان جعفری پر ظالموں نے جو ظلم کیا ان دردناک و ہولناک مناظر سے میری آنکھیں ابھی تک پیچھا نہیں چھڑا سکیں۔ ایک عر صہ تک بھی گجرات کے مسلمان 2002 کے فسادات کے بعد خوشی سے عید نہیں منا سکے۔ جب بھی عیدگاہ سے جاتے وقت فسادات میں شہید ہو نے والے اپنوں کی قبروں پر پہنچتے تو ان کا کلیجہ منہ کو آجاتا۔ ہر عید اور بقر عید‘ گجرات کے مسلمانوں کے لیے گو یا وعید کی طرح ہوتی۔ خیر اس وقت میرایہ مو ضوع نہیں ہے۔ اس وقت جو موضوع ہے وہ یہ کہ گجرات میں اسمبلی انتخابات اگلے ماہ ہو نے والے ہیں۔ان انتخابات میں اقلیتی اور خا ص طور پر مسلم رائے دہندے بادشاہ گر کا موقف رکھتے ہیں۔ حا لانکہ گجرات میں پٹیل برادری کے ووٹ بھی فیصلہ کن ہیں، لیکن یہ بی جے پی کے حق میں جانا یقینی ہے۔ اب مسلمانوں کے ووٹ بی جے پی کو نہیں ملتے اس لیے تمام ملک کے عوام کی نظر یں گجرات کے اسمبلی انتخابات اور اس کے نتائج پر ٹکی ہوئی ہیں۔ گجرات کے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی اور کانگر یس کے سواکوئی طاقتور جماعت مقابلہ میں نہیں تھی۔ اب جبکہ مجلس کے بشمول عام آدمی پارٹی بھی مقابلے میں ہے، عام آدمی پارٹی گرچیکہ دلی اور پنجاب میں اقتدار میں ہے، ممکن ہے کہ وہ گجرات میں حکومت تشکیل دے، لیکن اس بات کی کو ئی ضمانت نہیں کہ عام آدمی پارٹی مسلمانوں کی ہمدرد ہوگی۔
گجرات وزیر اعظم نر یندر مودی کی آبائی ریاست ہے اور گزشتہ تین معیادوں سے اس ریاست میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ گجرات کو بی جے پی حکومت کی رول ما ڈل ریاست کہا جا تا ہے۔ نر یندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے اس ریاست کی تر قی کے لیے وزیراعظم نے مختلف اقدامات بھی کیے ہیں۔ کئی پراجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اس ریاست میں ایسے وقت انتخابات ہورہے ہیں جب کانگریس کی بھارت جو ڑو یاترا اپنے شباب پر ہے اور ستم بالائے ستم کے مصداق6 ریاستوں کے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کا کوئی خاص مظاہرہ نہیں رہا ہے۔ اس پس منظر میں بی جے پی کے لیے گجرات اسمبلی انتخابات انتہائی اہمیت کے حا مل ہیں اور گجرات اسمبلی انتخابات کے نتا ئج یقینا ملک کے عام پارلیمانی ا نتخابی نتائج پر بھی اثر انداز ہوں گے۔
گجرات اور ہماچل پردیش دونوں ہی بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستیں ہیں۔ ہماچل میں رائے دہی ہوچکی ہے۔ جبکہ گجرات اسمبلی انتخابات دو مرحلوں میں یکم اور پانچ ڈسمبر کو مقرر ہیں۔ جبکہ 8 ڈسمبر کو نتائج جاری کیے جائیں گے۔ گجرات کی جملہ آبادی 6.5 کروڑ ہے۔ اس میں 11% آبادی مسلمانوں کی ہے اور گجرات اسمبلی کی 182 نشستوں کے منجملہ 25 نشستیں ایسی ہیں کہ جس میں مسلم ووٹ بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ یعنی کہ مسلمان رائے دہندے جس اُمیدوار کو چاہتے ہیں وہی کامیاب ہوسکتا ہے، لیکن گجرات کے سال 2017 اور 2012 کے انتخابی نتا ئج کا جا ئزہ لیں تو حیرت انگیز انکشاف ہوگا کہ 182 اراکین اسمبلی کے منجملہ گجرات میں اب تک دو یا تین مسلم اُ میدوار ہی کامیاب ہوتے ہیں وہ بھی کانگریس پا رٹی کے ٹکٹ پر۔ تاہم رواں سال کے اسمبلی انتخابات کا منظرنامہ بدلا ہوا ہے۔ ان انتخابات میں گجرات میں برسر اقتدار جماعت بی جے پی، اپوزیشن جماعتوں میں کانگر یس کے علاوہ عام آدمی پارٹی اور مجلس اتحاد المسلمین اور دیگر علاقائی پارٹیاں بھی مقابلہ کررہی ہیں۔ اس طرح ایک طرف مسلمان رائے دہندوں کو بی جے پی کا متبادل کانگر یس کے علاوہ عام آدمی پارٹی اور مجلس بھی ہے تو دوسری طرف یہ خدشہ بھی ہے کہ آیا متبادلات میں اضافہ کیا مسلمانوں کے ووٹوں کو تقسیم کر ے گا یا پھر اس کا انہیں فائد ہ ہوگا۔ گزشتہ 2017 کے انتخابات میں مسلم رائے دہندوں نے مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق کانگریس کو ووٹ دیا تھا، لیکن اتنا فا ئدہ نہیں ہوسکا۔ موجودہ حا لات میں کانگریس کی حالت تو قومی سطح پرماہی بے آب کی طرح ہے۔ وزیر اعظم نر یندر مودی نے گجرات اسمبلی انتخابات کے اعلامیہ کی اجرائی سے قبل تک ریاست میں کئی ایک پرا جیکٹوں کا فتتاح کرتے ہوئے رائے دہندوں کو سبز باغ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ گجرات کے مسلمانوں کے بشمول ملک کے مسلمانوں کی نظریں اب گجرات کے اسمبلی انتخابات پر ہیں۔ گجرات فسادات کے بعد سے بی جے پی نے وہاں خالص ہندوتوا نظر یات پر اکثر یتی طبقہ کے ووٹ حا صل کیے ہیں۔ اس وقت گجرات کے مسلمانوں کے پاس کا نگر یس کے سوا کو ئی دوسرا مضبوط متبادل بھی نہیں تھا۔
اس بار کے انتخابات میں مسلم رائے دہندوں کے ووٹ انتہائی اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ اب شاید بی جے پی کو بھی خوف نہیں ہے کہ اب مسلم ووٹ کو تقسیم کر نے کے لیے کانگریس کے علاوہ دیگر پارٹیاں بھی میدان میں ہیں۔ دیگر پارٹیوں عام آدمی پارٹی اور مجلس کے مقابلہ کر نے سے گجرات کے مسلمانوں کو فائدہ ہوگا یا نقصان، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ گجرات میں پٹیل برادری کے ووٹ بھی کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ پٹیل برادری کی زیادہ آبادی کی وجہ سے کئی اسمبلی نشستوں پر ان کے ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔ تاہم عام آدمی پارٹی‘ پٹیل بر ادری کو قریب کر نے کی کوششوں کا آغاز کرچکی ہے مگر وہ اس میں کامیاب ہونا ممکن نہیں۔ گر چیکہ گجرات کے موجودہ چیف منسٹر بھوپیندر پٹیل بھی بی جے پی میں ہیں اور پٹیل برادری کو تحفظات کی تحر یک چلا نے والے ہاردک پٹیل بھی بی جے پی میں ہی ہیں۔ اس لحاظ سے ممکن ہے کہ پٹیل برا دری کے نصف سے زائد ووٹ بی جے پی کے کھا تے میں ہی جا ئیں گے، البتہ پٹیل برادری کا ناراض طبقہ ممکن ہے عام آدمی پارٹی کا ہا تھ تھا م لے۔
کانگریس پارٹی بھی ”دل نا تواں نے مقابلہ تو خوب کیا“ کے مصداق گجرات انتخاب کے لیے دل و جان سے کوشیش کررہی ہے۔ کانگریس کی جانب سے پرکشش انتخابی منشور جاری کیا گیا، جس میں کا نگریس نے گجرات میں کامیابی کی صورت میں خانگی و سرکاری محکموں میں 10 لاکھ ملازمتیں فرا ہم کر نے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ کا میابی کی صورت میں ہر شہری کو دس لاکھ رو پیوں تک کا مفت علاج، 500 رو پیوں میں گیاس سلنڈر، ہر گھر کو ماہانہ 300 یو نٹ تک مفت برقی سربراہ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں تعلیم یافتہ بے روزگار اُمیدواروں کو ماہانہ 3000 رو پئے بے روز گاری بھتہ، معذورین، بیواؤں اور معمر شہر یوں کو ماہانہ 2000 رو پئے وظیفہ، ما ہی گیروں اور خواتین کے 300000 لاکھ رو پیوں تک کے قرض کی معافی کا اعلان کیا ہے۔ ریاست کی اپوزیشن جماعت نے راجستھان کے چیف منسٹر اشوک گہلوت کو گجرات کے انتخابات کا انتخابی مبصر بھی مقرر کیا ہے۔دوسری طر ف بی جے پی بھی گجرات میں نہ صرف اقتدار کو بر قرار رکھنا چا ہتی بلکہ وہ اکثر یت سے اقتدار پر قبضہ جمانے کے لیے مختلف حکمت عملیاں اپنا رہی ہے۔ بی جے پی نے اسٹار کمپینرس کی فہر ست جاری کی ہے اور جس کے تحت جے پی نڈا کے بشمول مختلف مرکزی وزراء کو انتخابی تشہیر کے لیے مقرر کیا ہے۔ بی جے پی نے 182 اُمیدواروں کے منجملہ 160 اُمیدواروں کی فہرست بھی جاری کی ہے۔ ان میں ہاردک پٹیل، کرکٹ کے کھلاڑی رویندر جڈیجہ کی اہلیہ کے بشمول گزشتہ انتخا بات میں کانگریس کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کرتے ہو ئے بی جے پی میں شامل ہو نے والے 20 اراکین اسمبلی بھی شامل ہیں۔
بہرحال گجرات کے مسلمانوں کے لیے یکم ڈسمبر اور 5 ڈسمبر فیصلے کے دن ہیں۔ دانشمندی اور سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کر یں۔ ہم مسلمانوں کو انتخابات میں اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کر تے ہوئے ووٹ دینا چاہیے۔ حا لانکہ انتخابات کے وقت بہت پا رٹیاں میدان میں آتی ہیں، لیکن انتخابات کے بعد وہ منظر نامہ سے اس طرح غائب ہوجاتی ہیں کہ جس طرح اماوس کی کالی راتوں میں آسمان سے چاند غائب ہوجاتا ہے۔ گجرات کے انتخابات یقینا ملک کے عام پا رلیمانی انتخابات پر اثر انداز ہوں گے۔ بی جے پی کی اس ریاست میں کا میا بی سے ممکن ہے کہ حو صلے بھی بلند ہوں گے۔ رائے دہندوں کو یہ بات یا د رکھنا چاہیے کہ اس وقت کئی پارٹیوں کے اُمیدوار ان سے ملا قات کریں گے۔ ان کے کاروبار کے مقام پر آکر تصاویر لیں گے۔ ان سے ہمدردی ظاہر کر نے وہ تمام حربے استعمال کر یں گے، لیکن آپ ان سے متا ثر ہو ئے بغیر ان افراد کو ووٹ دیں جو آپ کے حقیقی ہمدرد ہیں۔ دوسری ریاستوں میں ہوئے انتخابات کا جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہوگی کہ بی جے پی مسلمانوں کے ووٹ حا صل کر نے کی کبھی کوشش نہیں کرتی بلکہ وہ ہمیشہ مسلمانوں کے ووٹ تقسیم کر نے کے لیے تمام تر توانائیاں استعمال کرتی ہے۔ اس لیے دانشمندی یہ ہے مسلمان اپنے ووٹوں کو تقسیم ہو نے سے بچا ئیں۔ ایک ووٹ بھی بہت قیمتی ہوتا ہے۔ اب بی جے پی کی سیا سی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ ایک مخصوص طبقہ کے 30-35فیصد ووٹ لے کر اقتدار پر قابض ہوتی ہے۔ اس کے لیے اسے اقلیتی طبقہ کے فیصلہ کن ووٹ کو تقسیم کرنا لازمی ہو تا ہے۔ گجرات کی جہاں تک بات ہے رائے دہندے علاقہ واریت، طبقہ واریت اور لسانی، و ثقافتی اعتبار سے بالاتر ہوکر وووٹ کا ستعمال کریں۔ را ئے دہی ہر شہری کا جمہوری حق ہے اور یہ ایسا ہتھیار ہے کہ کو ئی تحفہ اس کا متبادل نہیں ہوسکتا۔
عارضی طور پر رائے دہندوں کو اپنی جا نب راغب کر نے کے لیے دولت کا بے تحاشہ استعمال کیا جاتا ہے۔مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی شناخت کی برقراری اور اپنے دین اور دستور کی بر قراری کے لیے ووٹ کی اہمیت کو سمجھیں۔ دانشمندی کے ساتھ ووٹ کا استعمال کر یں۔ گجرات کے مسلمان ووٹ دیتے وقت صرف یہ نہ سمجھیں کہ ان کے ووٹ ایک ریاست کی حکومت تشکیل دیں گے بلکہ یہ سمجھیں کہ ان کے ووٹ پارلیمانی انتخابات کی راہ ہموار کر یں گے یا اس جماعت کی کا یا پلٹ دیں گے جو مسلم مخالف ہے۔
٭٭٭