طنز و مزاحمضامین

تم بن جیانہ لگے

ایم اے حفیظ کوڑنگلی

٭یہ کسی محبوب کے الفاظ نہیںہیں جو اپنی محبوبہ سے ملنے بے قرار ہے، یہ اُس شخص کے احساسات و تاثرات ہیں جس کا موبائیل کہیں کھو گیا ہے……..سنا کرتے تھے کہ بچپن‘ جوانی اور بوڑھاپے میں بلحاظ عمر خواہشات و ترجحات بدلتی رہتی ہیں، لیکن یہ مختصر سا آلہ بلا لحاظ عمر مذہب و ملت سب کے لیے یکساں پسندیدہ اور منظور نظر بنا ہوا ہے۔
٭یہ ایک ایسا مہلک ہتھیار ہے جو انسان کو اس کے بیوی بچوں، ماں باپ، رشتہ داروں دوست احباب سے محبت کو تہہ تیغ کردیتا ہے۔ جب حجرہ¿ عروسی میں نوشہ ایک ہاتھ میں mobile تھامے دوسرے ہاتھ سے گھونگھٹ اُٹھانے لگے تو نئی نویلی دلہن نے اسے متنبہ کیا کہ آگے اِس گھر میں میں رہوں گی کیا یہ مردود‘ ناہنجار۔ ازدواجی تعلقات میں اس کا عمل ودخل بہت بڑھ گیا ہے۔
٭شوہر نے بیوی کو ڈاٹتے ہوئے کہا….”یہ کیسی دال بنائی ہے نہ نمک نہ مرچ نہ دال کا مزہ تم mobile میں لگی رہتی ہوکچھ پتہ نہیں چلتا ہانڈی میں کیا ڈالنا ہے کیا نہیں“؟
بیوی نے غصہ میں جواب دیا….”پہلے تم mobile ایک طرف رکھ کر کھاﺅ۔ کب سے دیکھ رہی ہوں گلاس میں روٹی ڈبوکر کھارہے ہو“……..
٭ اس کے بے جا استعمال سے انسان ملنے جلنے کے بجائے تنہائی پسند اور معاشرہ سے بے خبر و بے ربط ہورہا ہے۔ انسان اسے ہاتھ میں لیے ایک پر اسرار سمندر میں غوطہ زن ہوجاتا ہے نہ اُسے اپنا پتہ ہوتا ہے نہ کسی اور کا……..
٭ ایک شخص نے اپنے دوست کو sms کیا۔ ”یار! میرے گھر والے بہت اچھے اور نہایت نیک لوگ ہیں۔“
دوست نے کہا۔ ”یہ بات اتنے سالوں بعد معلوم ہوئی“؟ کہنے لگا۔ ”نہیں یار۔ آج صبح سے Internet بند ہے، دن تمام گھر والوں کے ساتھ گزارا۔“
٭کبھی کبھی sms غلط نمبر پر پہنچ جائے تو وبال جان بن جاتا ہے۔
٭ ایک صاحب تبادلہ کے بعد دوسرے شہر گئے۔ دو دن بعد اپنی بیوی کو sms کیا جو غلط نمبر پر اس عورت کو چلا گیا جس کا شوہر دو دن پہلے فوت ہوگیا تھا۔ sms پڑھتے ہی وہ عورت بے ہوش ہوگئی۔
اس میں لکھا تھا….”خیریت سے پہنچ گیا ہوں۔ بہت پریشان تھا، نئے مقام پر کس طرح رہ سکوں۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جگہ مختصر ہے مگر جنت کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہواﺅں کا مزہ لے رہا ہوں۔ فرش صاف ہے دھول نہیں ہے۔ میں نے جو وہاں سفید کپڑے پہنے تھے، اب بھی ویسے ہی صاف ستھرے ہیں دو چار دن میں تم کو بلالوں گا۔“
٭ ہمارے ایک دوست اپنی بیوی سے بے حد محبت کرتے ہیں کہتے ہیں۔ ”میری جان، میرا مال، میری دولت، عزت آبرو، آل اولاد تمام میری بیوی پر قربان مگر!“ ہم نے حیرت سے پوچھا یہ مگر کیا؟ ”کچھ نہیں صرف میرا mobile اُن کو نہیں دے سکتا۔“
جب خدا انسانوں سے ناراض ہوجاتا ہے تو ان کو مغرور بنادیتا ہے اور زیادہ ناراض ہوجاتا ہے تو ان کے چہروں پر ماسک لگادیتا ہے۔ مزید اور زیادہ ناراض ہوجاتا ہے تو ہر ہاتھ میں mobile پکڑا دیتا ہے۔
٭ لوگ زندگی میں کبھی ضعیف و کمزور ماں باپ کا ہاتھ پکڑ کر toilet تک پہنچا نہیں سکے۔ آج شب و روز موبائیل ہاتھ میں تھامے گلی گلی گھوم پھر رہے ہیں۔……..
٭ بعض عادتیں انسان کا پیچھا کرتی ہیں اور اس کو اس حد تک لے جاسکتی ہیں جس کا وہ گمان بھی نہیں کرسکتا۔
٭ ایک لڑکے کی شادی موبائیل کمپنی میں کام کرنے والی لڑکی سے ہوئی۔ نوشہ جب سہاگ رات پر گھونگھٹ اُٹھانے لگا تو دلہن بولی….برائے مہربانی گھونگھٹ اُٹھانے سے پہلے ”ایک“ دبائیں اور چہرہ دیکھنے سے پہلے ”دو“ دبائیں اور بات کرنے سے پہلے ”تین“ دبائیں…. نوشہ غصہ میں بولا۔ ”طلاق کے لیے کتنے دباﺅں“؟ لڑکی ”آپ کا موجودہ بیلنس اس کے لیے ناکافی ہے۔ برائے مہربانی فوراً ‘recharge’ کروالیں اور آپ کو ”مہر کی ادائیگی“ ”جیل کی سزا“ اور ‘maintenance’ کی تفصیلی معلومات مل جائیں گی….”شادی کرنے کا شکریہ“
٭ ‘facebook’ بھی عجیب و غریب شئے ہے۔ کوئی نا سمجھ کسی کے بارے میں کچھ بھی لکھ دیتا ہے اور ہزاروں گھر بیٹھے بیروزگاروں کے لیے بے تکے بے مقصد comments کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے……..ایک شوہر نے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ زن مرید نہیں ہے، خودمختار و آزاد ہے ،اپنے facebook پر گانے کا مکھڑا پوسٹ کیا….
”پنچھی بنوں اُڑتا پھروں مست گگن میں، آج میں آزاد ہوں دنیا کے چمن میں“
بیوی نے جب دیکھا تو آگ بگلولہ ہوگئی اور غصہ میں یوں comment کیا۔
”دھرتی چھوئے دھنیا لانا اپنے بھون میں۔ ورنہ کوئی بال نہ بچے گا سیّاں کے چمن میں“
یاسر گونڈوی نے کیا خوب کہا ہے۔
ادب سے چومتی دُنیا ہمارے ہاتھ کو صاحب
موبائیل کی طرح گر ہاتھ میں قرآن رکھتے ہم
٭٭٭

a3w
a3w