سیاستمضامین

ہندوستان میں پیشہ ٔ وکالت سے مسلمانوں کی عدم دلچپسی ‘اسی عنوان پر ایک سابقہ کالم کی قارئین کرام کی خواہش کی تکمیل میں دوبارہ اشاعتآپ نے حالیہ دنوں میں دیکھا کس طرح ایک فیصلہ حکومت کے ایوانوں کو متزلزل کرسکتا ہےوہ کس کا فیضان تھا جس کی وجہ سے دین و مذہب سے بیگانہ ایک نوجوان دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کا بانی بن گیایہ نوجوان محمد علی جناح(قائد اعظم) تھا جس نے برصغیر ہندوپاک کی تقدیر بدل دی

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

٭ نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں۔
٭ بیرسٹری کی تعلیم حاصل کرنے والے دین و مذہب سے بیگانہ مغربی لباس میں ملبوس نوجوان کی نظر ادارہ کے باب الداخلہ پر آویزاں ایک بورڈ پر پڑی۔
٭ بورڈ پر دنیا کے دس عظیم قانون دہندگا (Law Givers) کے نام لکھے ہوئے تھے۔
٭ قانون دہندگان کی فہرست میں سب سے اوپر جو نام لکھا تھا‘ اُسے پڑھ کر نوجوان کا دل دہل گیا۔
٭ یہ نامِ نامی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھا۔
٭ نوجوان کو احساس ہوا کہ وہ کس عظیم قوم کا ایک فرد ہے۔ نوجوان کی سوچ کا دھارا بدل گیا۔
وہ ایک گجراتی تاجر کا نوجوان بیٹا تھا۔ اُردو سے نابلد۔ دین اسلام سے بیگانہ۔ صرف نام کا مسلمان تھا۔ نہ اس کی لمبی داڑھی تھی اور نہ ہی اس کی پیشانی پر نماز کا نشان۔ اس کی زندگی کا صرف ایک ہی مقصد تھا۔ پیشۂ وکالت سے پیسہ کمانا اور اس پیسے کو خاندانی بزنس میں مصروف کرنا۔ سینئر کیمبرج کی تعلیم حاصل کرکے وہ ساحلِ بمبئی سے انگلینڈ روانہ ہوا اور ہاتھ میں اس قدر پیسہ تھا کہ وہ تعلیم و رہائش کا بہ آسانی بندوبست کرسکتا تھا۔ انگلستان کے ساحل پر اتر کر جب وہ(LINCOLNS INN) کی طرف روانہ ہوا تو اس کی آنکھوں میں بس ایک ہی خواب تھا۔ بیرسٹری کی تکمیل اور پھر بمبئی ہائی کورٹ میں گجراتی مسلمانوں کے مقدمات کی پیروی اور پھر ہزاروں لاکھوں روپیوں کی کمائی۔ بمبئی میں ایک شاندار مکان کی خرید۔ اور ساری زندگی انگریزوں کے اسٹائل میں زندگی گزارنے کی تمنّا۔ دنیا کے سب سے قیمتی سگار پینا اور بہترین سوٹ زیب تن کرنا۔ اعلیٰ سوسائٹی میں وقت گزارانا۔ بڑے بڑے تاجروں سے رابطہ قائم کرنا اور اس طرح زبردست مالیتی مقدمات کا حصول اور اس کے دریعۂ دولت کمانا۔ ادارہ میں داخل ہوتے وقت یہی خیالات اس کے ذہن میں گھوم رہے تھے۔ یہ 1896ء کا زمانہ تھا۔ اس نے سن رکھا تھا کہ جنوبی افریقہ میں بھی ایک گجراتی بیرسٹر وہاں کے مقیم گجراتی تاجروں کے مقدمات کی پیروی میں بہت پیسہ کمارہا ہے۔ اس نے سمجھا میں بمبئی اور کراچی میں اس سے بھی زیدہ پیسہ کماؤں گا۔ چونکہ گجراتی تاجر کا بیٹا تھا وہ صرف تجارت اور کاروبار اور پیسہ ہی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ کافی ذہین و حاضر جواب تھا۔ انگریزوں سے بہتر انگریزی زبان بولتا تھا اور بلا کا حاضر جواب تھا۔ بہت نڈر اور بہادر تھا۔ مگر دبلا پتلا ۔ طویل قامت اور خوبصورت نوجوان۔ اس کے قانونی تعلیمی کیریر کا آغاز ہونے والا۔ آگے ادارہ کی عمارت تھی۔
ادارہ میں داخل ہونے سے پہلے اس کی نظر اچانک ایک بہت بڑے آویزاں بورڈ پر پڑی جس کے اوپر لکھا تھا یہ وہ دس عظیم قانون دہندگان ہیں جن کی ممنون آج کی عدالتیں اور نظم عدل ہیں۔ نوجوان کی نظر جب سب سے اوپر پڑی اور اس نظر نے اس کی زندگی اور سوچ کا دھارا بدل دیا۔ اس کے بعد اس نوجوان نے قانونی تعلیم کے علاوہ سیرتِ طیبہ کا گہرا مطالعہ کیا اور اس نے دل میں کچھ سوچا اور اس سوچ پر قائم رہا اور اسی سوچ نے برصغیر ہندوپاک کی تقدیر بدل ڈالی۔ اس نے سوچا کہ جب اس عظیم ہستی کو ساری دنیا عظیم ترین قانون دہندہ سمجھتی ہے تو ہم یعنی ان کے پیرو خود ان ہی کے لائے ہوئے قوانین سے اتنے بے بہرہ کیوں ہیں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب سلطنتِ مغلیہ ختم ہوچکی تھی اور برصغیر ہند پر برطانیہ کی حکمرانی تھی ۔ مسلمان چاروں طرف زبوں حالی کا شکار تھے۔ تعلیم کے میدان میں وہ اپنے دوسرے ہم وطنوں کے بالمقابل بہت پیچھے تھے۔
دنیا کے سب سے بڑے قانون دہندہ کے فیضان کا یہ اثر ہوا کہ ان کے نامِ نامی پر نظر پڑتے ہی اس نوجوان نے سوچا کہ ان کے صدقہ و طفیل میں مجھے اب کچھ کرنا ہے۔
انہوں نے ایک خیال پال رکھا تھا جس کی ترویج و اشاعت کے لئے پیسوں کی ضرورت پڑتی تھی۔ وہ چندہ لینے کے قائل نہیں تھے۔ چونکہ انہیں از خود تحریک کو بڑھانا تھا تو یہ ضروری تھا کہ انہیں معاشی استحکام حاصل ہو ورنہ یہ عظیم کام سرانجام نہیں دیا جاسکتا۔ لہٰذا انہوں نے زورشور سے وکالت کی۔ بمبئی۔ کراچی یہاں تک کہ حیدرآباد ہائیکورٹ میں بھی انہوں نے اپنی دھاک جمائی۔ اس دور میں ان کی فیس مشورہ ایک ہزار روپیہ فی گھنٹہ تھی۔ موکلین کی لائن لگی ہوتی اور کسی کو بھی ایک ماہ سے پہلے اپوائنٹمنٹ نہیں ملتا۔ انہوں نے دولت جمع کرنا شروع کی ‘ مکانات خریدے اور ایک خاص رقم یعنی چالیس لاکھ روپیہ کا بینک بیلنس تھا۔ اب انہوں نے سوچا کہ مجھے معاشی استحکام حاصل ہوگیا اور اپنی قوم کے لئے یہ خدمت بغیر کسی فکر و تردد کے ساتھ کرسکتا ہوں۔ مجھے پوری طرح سے سیاست میں اترنا ہے اور سیاست کو پیشہ بناکر پیسہ نہیں کمانا ہے۔ ان کا اپنا خیال تھا کہ جب چاروں جانب ظلم وستم ‘ لاقانونیت اور فتنوں کا دور دورہ ہو تو ہر فرد کو سیاست دان بنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
ان کی اصول پسندی نے ایک دن ان کو اپنے مقصد میں کامیاب کیا۔ وہ ہندوستان میں ہر کسی کے لیے انصاف و مساوات کے طلب گار تھے۔ لیکن انہوں نے محسوس کیا کہ ایسا ممکن نہیں ہے لہٰذا انہوں نے مسلمانوں کے لئے ایک علاحدہ مملکت کی مانگ کی جو آخرِ کار14اگست1947ء کو پاکستان کی شکل میں مل ہی گئی۔ لہٰذا ایک عظیم مملکتِ اسلامیہ اندرون برطانوی ہندوستان بن گئی۔ وہ کتنے صحیح تھے یا غلط ۔ اس کا جواب تو آنے والے زمانے کا مورخ دے گا لیکن حالیہ دنوں میں فاروق عبداللہ سابق چیف منسٹر جموں و کشمیر نے صاف طور پر کہہ دیا کہ قائد اعظم اپنے مطالبہ میں حق بجانب تھے۔
لیکن ایک بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ یہ مملکت خدادادجنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان کی وجہ سے وجود میں آئی۔
وہ ہندو لاء کے ایک نامی گرامی وکیل تھے ۔ سارے ملک کے راجے مہاراجے ان کے موکلین تھے ۔ ایک بار وہ حیدرآباد ہائیکورٹ میں ایک سمستھان کے مقدمہ میں پیروی کے لیے آئے۔ بحث ختم ہوئی اور فیصلہ ان کے موکل کے حق میں ہوا۔ انہو ںنے بحث ایک اجلاسِ متفقہ کے روبرو کی جس میں ججس اکبر یار جنگ اور ناظر یار جنگ تھے ۔ ناظر یار جنگ بیرسٹر ایٹ لاء تھے اورانہو ںنے آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اکبر یار جنگ انگریزی سے اچھی طرح واقف نہیں تھے ۔ بحث کے بعد کئی انگریزی اخباروں کے نمائندوں نے ان سے انٹرویو لیا اورکہا کہ آپ کے خیال میں حیدرآبادہائیکورٹ کے ججس کا معیار کیسا ہے۔ انہوں نے صاف طور پر کہا کہ میں نے دو ججوں کے سامنے بحث کی ۔ جو جج قانون سے اچھی طرح واقف تھا اسے انگریزی زبان نہیں آتی تھی اور وہ جو بہت اچھی انگریزی بولتا تھا‘ قانون سے اچھی طرح واقف نہیں تھا۔
قانونی تعلیم کی اہمیت۔ مسلمان قانونی تعلیم کی اہمیت کو کیوں نہیں جانتے!
یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ اب بھی حیدرآباد کے مسلمان اپنے بچوں کو قانونی تعلیم نہیں دلواتے۔ انہوں نے اپنے ذہنوں میں ایک خام خیالی پال لی ہے کہ پیشۂ وکالت اچھا پیشہ نہیں۔ اس پیشہ میں جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ یہ ایک غلط مفروضہ ہے۔
آج ہماری پسماندگی کی وجہ قانونی تعلیم سے دوری ہے۔ قانون دان مال و جائیداد عزت و جان کا محافظ ہوتا ہے۔ اس پیشہ سے اس قدر معاندانہ رویہ بہت بری بات ہے۔ موجودہ دور میں جب ظلم و ستم ۔ لاقانونیت کا دور دورہ ہے صرف پیشۂ وکالت ہی وہ تمام تحفظات فراہم کرسکتا ہے جو کہ ضروری ہیں۔ اب جبکہ تجارت ترقی پر ہے ‘ قانون سے واقفیت ضروری ہوگئی ہے۔
ہماری اولیائے طلباء سے خواہش ہے کہ ایسی خام خیالیوں کا شکار نہ ہوں۔
ایک سوال کا جواب
آپ کا سوال از خود ایک جواب ہے۔ ایسی صورت ہر طرف دیکھا جارہی ہے ۔ ناانصافیوں اورحق تلفیوں کا دور دورہ ہے۔ اس معاملہ میں سب سے بہتر صورت یہ ہوگی کہ متعلقہ ڈسٹرکٹ کورٹ میں ایک تقسیم ترکہ کا مقدمہ دائر کیا جائے۔ جو بھی تقسیم ہوئی ہے غیر شرعی اور غیر قانونی ہے اور انصاف کی کسوٹی پر کھوٹی ثابت ہوگی۔

a3w
a3w