’’یہ کونسا موسم ہے بھائی؟‘‘
موسم سرماوہ موسم ہے کہ ہمیں اس موسم میں دھوپ کھانا ، بریانی کھانے سے بھی زیادہ محبوب ہوتا ہے۔ شام کے وقت چائے کے ساتھ گرما گرم پکوڑوں کی تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ کھانے والے تو چلغوزے ، اخروٹ اور بادام تک چٹ کر جاتے ہیں لیکن ہم اتنے چالو کہاں کہ چلغوزوں سے لطف اندوز ہوں، ہمیںاتنی آسائش کہاں کہ ہم اخروٹ چبائیں اور پھرہم اتنے بازی گر کہاں کہ بادام ہماری تقدیر بن سکے۔ البتہ ہماری حیثیت ہمیں اس بات کی اجازت ضرور دیتی ہے کہ ہم مونگ پھلی اور بھنے ہوئے چنوں پر اکتفا کرلیں...

حمید عادل
پچھلے سال کی طرح اس سال بھی الحمدللہ بارش خوب ہوئی…اور ہر سو پانی ہی پانی ہوگیا …پانی ایک ایسا عنصر ہے جو انسانی جسم میں 70 فیصد تک پایا جاتا ہے اور کائنات میں ہر ذی روح کی زندگی کا سب سے بڑا سبب ہے، اس حقیقت کو خالقِ کائنات نے قرآنِ حکیم میں بھی واضح کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’ہم نے ہر جان دار شے کو پانی سے پیدا کیا‘‘۔
حضرت انسان شاید ’’پ‘‘ سے پٹرول کے بغیر زندہ رہ جائے لیکن ’’ پ‘‘ سے پانی کے بغیر اس کا جینا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے…جی ہاں! ڈان کو پکڑنے کی طرح… حالانکہ پٹرول پانچ حرفی لفظ ہے اور پانی چار حرفی لیکن یہی چار حرفی لفظ چار روزہ زندگی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتاہے،قصہ مختصر یہ کہ پانی زندگی پانے کا دوسرا نام ہے …
موسم برسات کے بعد اکتوبرسے موسم سرما کا باقاعدہ آغاز ہوجاتا ہے ، لیکن موسم سرماپر بھی بارش اور گرما نے ناجائز قبضہ جما رکھا ہے… چمن بیگ کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ ان عجیب و غریب حالات کو موسم سرما کہیں، موسم گرما یا پھر موسم برسات …. پہلے ہی ڈھیر ساری الجھنوں میں پھنسے ہوئے چمن ، ایک اور نئی الجھن کا شکارہوچکے ہیں …باہر بارش ہورہی ہوتی ہے اور گھرکے اندرموجودبندہ ، پسینے میں نہا رہا ہوتا ہے ،یعنی وہ بارش میں بھیگے بغیر ہی بھیگ رہا ہوتا ہے … بیچارے موسم سرما کی حالت تو کانگریس کی سی ہوکر رہ گئی ہے کہ اس کے گڑھ سمجھے جانے علاقوں پر بھی بی جے پی نے جیسے قبضہ جما رکھا ہے … …وہ دن گئے جب شدید سرما کی بدولت کھوپرے کا تیل منجمد ہوجایا کرتا تھااور ہم پیرا شوٹ کی بوتل کو دھوپ میں کھڑا کردیتے تھے تاکہ تیل پگھلے تو اسے اپنی کھوپڑی پر لگاسکیں…اور اگر ہم عجلت میں ہوتے تو تیل کی شیشی کو مانندآم نچوڑ دیتے اور کچھ نہ کچھ تیل برآمد کرنے میں کامیاب ہوہی جاتے … برسوں بعدپچھلے سال سرما نے اپنی موجودگی کا احساس ضرور دلایا تھا لیکن جانے کیوں کھوپرے کا تیل پھر بھی منجمد نہیں ہوا…پتا نہیںموسم سرما نقلی تھا یا پھر کھوپرے کا تیل؟
موسم سرماوہ موسم ہے کہ ہمیں اس موسم میں دھوپ کھانا ، بریانی کھانے سے بھی زیادہ محبوب ہوتا ہے۔ شام کے وقت چائے کے ساتھ گرما گرم پکوڑوں کی تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ کھانے والے تو چلغوزے ، اخروٹ اور بادام تک چٹ کر جاتے ہیں لیکن ہم اتنے چالو کہاں کہ چلغوزوں سے لطف اندوز ہوں، ہمیںاتنی آسائش کہاں کہ ہم اخروٹ چبائیں اور پھرہم اتنے بازی گر کہاں کہ بادام ہماری تقدیر بن سکے۔ البتہ ہماری حیثیت ہمیں اس بات کی اجازت ضرور دیتی ہے کہ ہم مونگ پھلی اور بھنے ہوئے چنوں پر اکتفا کرلیں…
خیر!بات بارش کی ہورہی تھی ،جاریہ ماہ اکتوبر میں ہونے والی بارش نے شہریوں سے بڑا مذاق کیا. … ایسی بارش ہوئی کہ چمن بیگ کی بستی میں ندی نالے بہنے لگتے ہیں تو ان کے گھر سے کچھ فاصلے پرموجود احتیاط علی محتاط کی بستی میں خشک سالی کا سا ماحول بنا رہتا ہے… موسم برسات کے اس مذاق سے جھوٹ کہنے والے خوب فائدہ اٹھانے لگے ہیں۔ گھوڑے خان نے توسارا موسم برسات اسی جھوٹ کو کہتے کہتے گزار دیاکہ ’’ ہمارے ہاں زور دار بارش ہورہی تھی، اس لیے دفتر پہنچنے میں تاخیر ہوگئی ۔‘‘باس ان کی اس کمزور دلیل کو جھٹلا بھی نہیںسکتے تھے کیونکہ آج کل شہر میںہر سو ’’شرٹ گیلا تو پتلون خشک ‘‘ والی برسات کا راج ہے۔سڑک کی ایک جانب موسم خشک تو سڑک کی دوسری جانب زور دار برسات ہورہی ہے اور لوگ رین کوٹ پہنے ، چھتری کھولے بھیگتے بھاگتے جا رہے ہیں…اور جھیل کے اُس پار ہمارا مطلب ہے کہ سڑک کے اُس پار ہم حیرت سے یہ نظارہ دیکھ رہے ہیں … ہم دفتر سے نکلتے اور طوفانی بارش کو دیکھ کر فوری رین کوٹ اوڑھ لیتے،لیکن بس میں سوار ہوکر مہدی پٹنم پہنچتے تو وہاں برسات ندارد … اور ہرایرا غیرا ہمیں گھور گھور کر دیکھتا اور یقیناسوچتا بھی کہ’’ یہ نمونہ توکسی دوسرے سیارے کی مخلوق معلوم ہوتا ہے ،لوگ موسم گرما میں نکل جاتے ہیں اور یہ موسم برسات میں نکل گیا… ‘‘لوگوں کی معنی خیز نظروں کی تاب نہ لاکر ہم سٹپٹاتے اور فوری رین کوٹ سے باہر آجاتے …
چند سالوں سے حیدرآباد کا موسم عجیب و غریب ہوچلا ہے ،جولائی، اگست ، ستمبر، اکتوبر اور کبھی کبھی نومبر میں تک گرما کو موجود دیکھ کر بھلا کون کہہ سکتا ہے کہ یہ موسم، موسم برسات یا موسم سرما ہے۔ ’’ دھوپ لگ گئی کیا رے،نکل گیا کیا رے؟‘‘ جیسے روایتی حیدرآبادی جملے جنہیںعموماً اپریل یا پھر مئی کے مہینے میں سنا جاتا تھا ، اب ہمیں اکتوبر میںبھی سننے کو مل ر ہے ہیں۔ سورج چاچو کسی ماہر لینڈ گرابر کی طرح ’’ سیزن گرابر‘‘ بنے بیٹھے ہیں۔ موسموں میں اس قدر الٹ پھیر کی وجہ قدرتی معاملات میں انسانی دخل اندازی ضرورہے لیکن چمن بیگ سورج چاچو کے ’’ سیزن گرابر‘‘ بننے کو لینڈ گرابنگ سے منسوب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سورج چاچو نے شہر کے لینڈ گرابرس کو وقف بورڈ کی جائیدادوں حتیٰ کہ قبرستانوں کا تک سودا کرتے دیکھ کر موسم برسات اور موسم سرماپر ناجائز قبضہ جمالیا ہے… چنانچہ موسم برسات اور موسم سرما میںایسی غضب کی گرمی ہورہی ہے کہ اپریل اور مئی کا گمان ہوتا ہے۔ اب ہم آپ کو کیا بتائیں کہ پسینے میں شرابور کردینے والی اسی گرمی سے حواس باختہ ہوکر ہم نے حال ہی میں بینک کے فارم پر 18 اکتوبر کی بجائے 18مئی تحریرکرڈالاتھا !
پچھلے دنوں ہمارے محلے میں ایسی طوفانی برسات ہوئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے سڑکیں جھیل میں تبدیل ہوگئیں… جی نہیں!یہ موڈی برسات نہیں تھی، موڈی برسات سے ہماری مراد وہ برسات کہ بادلوں کا موڈ ہوا،کچھ دیر کے لیے برسے
اور پھرتھم گئے …یہ دھواں دھار بارش توگھنٹوں جاری رہی…جب کہ شہر کے دیگرعلاقوں میں موسم نہایت خشک تھا…ہم نے مشکوک حیدرآبادی سے ملنے کا وعدہ کیا ہوا تھا لیکن بارش تھی کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی…شہر کے کسی دوسرے محلے میں رہنے والے مشکوک نے ہمارے نہ پہنچنے پر ہمیں فون کردیا…ہم نے نہ پہنچ پانے کی وجہ دھواں دھار بارش بتائی تو کہنے لگے ’’ جھوٹ بھی بولو تو ایسا کہ نبھ جائے ،یہاں ہم گرمی سے مرے جارہے ہیں ،بارش کا دور دور تک نام و نشان نہیں اور تم کہہ رہے ہو طوفانی برسات ہورہی ہے …‘‘ خود کو سچا ثابت کرنے کے لیے ہمیں ویڈیو کالنگ کرنی پڑی اور گلی میں بہہ رہے ندی نالوں کے انہیںدرشن کروانے پڑے..تب کہیں جاکر انہیں یقین آیا … اگر سل فون نہ ہوتا تو ہم مشکوک کی نظر میں خود مشکوک حیدرآبادی بن جاتے …اوروہ دنیا کے روبروہمیں ایک نمبر کا جھوٹا اور فریبی ڈکلیر کردیتے …
موسم برسات بالی ووڈکا پسندیدہ موسم رہاہے، جس نے فلم ’’ برسات کی رات ‘‘ سے دل نہیں بھرا تو ’’ برسات کی ایک رات‘‘ بنا ڈالی… برسات یا بارش پر بے شمار نغمے لکھے جا چکے ہیں:
زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات
ایک انجان حسینہ سے ملاقات کی رات
برسات میںہم سے ملے تم سجن،تم سے ملے ہم برسات میں…تک دھنا دھن…
ہائے ہائے یہ مجبوری یہ موسم اور یہ دوری، مجھے پل پل ہے تڑپائے ،تیری دو ٹکیا کی نوکری رے میرا لاکھوں کا سان جائے…
یا پھر بھیگا بھیگا سا یہ نغمہ دیکھیے:
لگی آج ساون کی پھر وہ جھڑی ہے
وہی آگ سینے میں پھر جل پڑی ہے
برسات اور ساون کے عنوان سے بہترے شعرا نے غزلیں، نظمیں اور گیت لکھ ڈالے۔ برسات کا موسم پیار کرنے والو ںکا موسم کہلاتا ہے چنانچہ شاعری میں بھی اس کی جھلک واضح طورپر نظر آتی ہے :
یاد آتے ہو کس سلیقے سے
جیسے بارش ہو وقفے وقفے سے
روحی کنجاہی
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
پروین شاکر
یاد آئی وہ پہلی بارش
جب تجھے ایک نظر دیکھا تھا
ناصر کاظمی
ماضی کی برسات کا اثر دو تین دنوں تک رہا کرتا تھا، ہواؤں میں پائی جانے والی ٹھنڈک کلیجے کو بھی ٹھنڈک پہنچا جاتی لیکن جس طرح آج ہمارے کلیجوں کی ٹھنڈک ہمارے سینوں سے رخصت ہوچکی ہے، ٹھیک اسی طرح برسات کے بعد چلنے والی ہواؤں کی ٹھنڈک بھی غائب ہوچکی ہے۔
ان دنوں شہر کے موسم کا یہ حال ہے کہ دن بھر گرمی ہے اور راتیں پنکھے کی بنا گزاری نہیں جاسکتیں ، اب وہ دن گئے جب دن میں غضب کی گرمی ہوا کرتی تو بزرگ کہتے کہ ’’ سرشام ضرور برسات ہوگی‘‘ اور قدرت ان کے کہے کی لاج بھی رکھتی اور شام کو زور دار برسات ہوجاتی لیکن اب برسات کے تعلق سے اس طرح کی پیشن گوئی کرنے والے کم ہی ہیں اور اگرآج دن کی گرمی کو دیکھ کر کوئی رات کی برسات کی نوید سنا بھی دے تو پھر اس کا کہا، دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ویسے پیش قیاسی کے معاملے میں ہمارا محکمہ موسمیات خاصا مشہور رہا ہے ، جب جب وہ طوفانی برسات کی پیش قیاسی کرتا ہے ، چلچلاتی دھوپ نکل آتی ہے اور جب جب وہ چلچلاتی دھوپ کی بات کرتا ہے زور دار برسات ہوتی ہے۔
آج یہ عالم ہے کہ گھر میں پنکھے یا پھر ایر کولر کے بنا رہا نہیں جارہا ہے ، باہر نکلتے ہیں تو پسینے میں شرابور ہوجاتے ہیں ، بار بارپیاس کی شدت ستاتی رہتی ہے ، لسی اور ٹھنڈے مشروبات پینے کو جی چاہتا ہے ،کہیں آئسکریم نظر آجائے تو دل مچل جاتا ہے او رہم اچھل کر اس کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔چمن بیگ کا معاملہ کچھ ہٹ کے ہے،اکتوبر میں پسینے کے بہنے سے وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ کسی خطرناک موذی مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں…ہر وقت یہ کہتے نظر آتے ہیں ’’ میرا وقت پورا ہوچکا ہے ،اتنا پسینہ باہر آئے گا تو کوئی کیسے زندہ رہے گا بھلا، یہ پسینہ ہے یا پھرمیں پگھل رہا ہوں میرے بھائی ؟‘‘ اور ہم اکتوبر کی پگھلا دینے والی گرمی کو جھیل جھیل کر سمجھ بیٹھے ہیں کہ ماہ اپریل جاری ہے اور ہم اسی کے ستم جھیل رہے ہیں، تبھی ذہن ہمیں ٹوکتا اور کہتا ہے :
’’ نادان ! یہ ماہ اپریل نہیں ،ماہ اکتوبر ہے ! ‘‘ ذہن کی بات سن کر ہم شش و پنج میں پڑ جاتے ہیںاور پریشان ہوکر جو بھی ہمارے روبرو ہوتا ہے، اس پربے ساختہ سوال داغ بیٹھتے ہیں: ’’یہ کونسا موسم ہے بھائی ؟‘‘
۰۰۰٭٭٭۰۰۰