مذہب

ارزان قیمت میں کرنسی خرید کر گراں قیمت میں فروخت کرنا

کرنسی کو فقہ کی اصطلاح میں ثمن کہتے ہیں ،ہر ملک کی کرنسی کو الگ الگ جنس مانا گیا ہے اور جب دونوں طرف سے ثمن ہو ؛ لیکن ان کی جنس الگ الگ ہو تو کمی بیشی کے ساتھ خرید و فروخت میں کوئی حرج نہیں ؛

سوال:- آج کل مختلف ملکوں کی کرنسیوں کی ایک دوسرے سے خرید و فروخت ہوتی ہے ، یہ خرید و فروخت آن لائن بھی ہوتی ہے ، مثلاً ایک شخص ہندوستانی روپیوں کے بدلہ ڈالر خرید لیتا ہے ،

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

پھر جب ڈالر کی قیمت بڑھ جاتی ہے تو ضرورت مند کے ہاتھوں اس کو فروخت کردیتا ہے ، اس کو فورکس ٹریڈنگ (Forex Trading) کہتے ہیں ، بعض لوگوں نے اس کو کسب ِمعاش کا ذریعہ بنالیا ہے ، کیا یہ صورت جائز ہے ؟ (فضل الرحیم، گوونڈی )

جواب :- کرنسی کو فقہ کی اصطلاح میں ثمن کہتے ہیں ،ہر ملک کی کرنسی کو الگ الگ جنس مانا گیا ہے اور جب دونوں طرف سے ثمن ہو ؛ لیکن ان کی جنس الگ الگ ہو تو کمی بیشی کے ساتھ خرید و فروخت میں کوئی حرج نہیں ؛

البتہ ضروری ہے کہ ایک طرف سے نقد اور دوسری طرف سے اُدھارنہیں ہو ؛ لہٰذا آن لائن قبضہ کی جو بھی صورت ہوتی ہو ،اس کے مطابق اگر ایک طرف سے ڈالر دیا جائے اور دوسری طرف سے اسی وقت روپیہ یا دوسری کرنسی ادا کردی جائے ،

نیز دونوں کرنسیاں خریدنے اور بیچنے والے کے اکاؤنٹ میں آجائے ، یہاں تک کہ ان کی قیمت میں گراوٹ یااضافہ اس شخص سے متعلق ہوجائے، جس نے کرنسی حاصل کی ہے اورڈالر بیچنے کے وقت خریدوالی قیمت سے زیادہ روپیہ مل جائے تو یہ جائز ہے:

’’علۃ القدرمع الجنس فان وجد ا حرم الفضل والنساء، وان عد ما حلا، وان وجد أحد ھما حل الفضل، وحرم النساء‘‘ (درمختارمع الشامی،باب الربا، ۷؍۴۰۳)