100 سال بعد بھی گولوالکر کی وراثت کے سیاہ سائے میں آرایس ایس، بنیادی ایجنڈے میں کوئی تبدیلی نہیں
’انڈیا ٹوڈے‘ نے ممبئی میں 4-5 اکتوبر 2023 کو منعقدہ اپنے سالانہ سیمینار میں آر ایس ایس پر مرکوز ایک سیشن کا بھی اہتمام کیا تھا۔ موضوع تھا- ’’آر ایس ایس کے 100 سال: ایم ایس گولوالکر ابھی تک کیوں ٹکے ہوئے ہیں؟‘‘ اجلاس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مقررین نے شرکت کی۔
رام پنیانی
’انڈیا ٹوڈے‘ نے ممبئی میں 4-5 اکتوبر 2023 کو منعقدہ اپنے سالانہ سیمینار میں آر ایس ایس پر مرکوز ایک سیشن کا بھی اہتمام کیا تھا۔ موضوع تھا- ’’آر ایس ایس کے 100 سال: ایم ایس گولوالکر ابھی تک کیوں ٹکے ہوئے ہیں؟‘‘ اجلاس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مقررین نے شرکت کی۔ اس میں گولوالکر سے متعلق بنیادی طور پر دو موضوعات پر بات کی گئی: پہلا، قوم کی تعمیر کے بارے میں ان کا نظریہ اور اقلیتوں کے تئیں ان کا رویہ اور دوسرا، ہندوستان کے آئین پر ان کی تنقید۔ ہندوستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے پر ان کی سوچ کے اثرات پر زیادہ بات نہیں کی گئی، خاص طور پر اس تناظر میں کہ آج ہندوستان میں اقلیتوں کی حیثیت دوسرے درجے کے شہریوں کی ہے اور حکومت کے اعلیٰ افسران ہندوستانی آئین پر تنقید کرنے میں سب سے آگے ہیں۔
گولوالکر نے اپنی کتاب We or Our Nationhood Defined میں لکھا ہے، "جرمنی کا اپنی نسل پر فخر آج بحث کا موضوع ہے۔ اپنی نسل اور ثقافت کی پاکیزگی برقرار رکھنے کے لیے جرمنی نے اپنے ملک سے یہودیوں کا خاتمہ کر کے پوری دنیا کو چونکا دیا۔ جرمنی میں نسل پر فخر کا احساس اپنی اعلیٰ ترین شکل میں نظر آتا ہے۔ جرمنی نے یہ بھی دکھایا ہے کہ جن نسلوں اور تہذیبوں میں فرق اس کی جڑوں تک پھیلا ہوا ہے انہیں ایک اکائی میں جوڑنا ناممکن ہے۔ ہندوستان میں بھی ہم یہ سبق سیکھ سکتے ہیں اور اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس کے جواب میں ہندو قوم پرست مقررین نے کہا کہ اس حوالے کو اس کے سیاق و سباق سے ہٹ کر نہیں لینا چاہیے اور یہ کہ چند سطریں کسی شخص یا کسی تنظیم کے نظریے کی عکاسی نہیں کر سکتیں۔
اس کے جواب میں ایک پینلسٹ نے گولوالکر کے 1972 میں ‘دی السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا’ کے ایڈیٹر خوشونت سنگھ کے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گولوالکر نے کہا تھا کہ ’’تاریخی وجوہات کی بناء پر مسلمانوں کی وفاداریاں منقسم ہیں لیکن اس کے لیے ہندو اور مسلمان دونوں ہی ذمہ دار ہیں۔ اس میں ہم یہ بھی شامل کر سکتے ہیں کہ موجودہ آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے 2018 میں دہلی کے وگیان بھون میں تقریر کرتے ہوئے اس سے بھی زیادہ نرم رویہ اپنایا تھا۔ بعد میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندو اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک ہی ہے۔ موہن بھاگوت نے لنچنگ کرنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ’’جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ ہندوتوا کے خلاف ہیں۔ حالانکہ بعض مواقع پر لوگوں کے خلاف لنچنگ کی جھوٹی شکایتیں بھی کی گئی ہیں۔ اس خوف کے چکر میں نہ پھنسیں کہ ہندوستان میں اسلام خطرے میں ہے۔‘‘
1939 میں شائع ہونے والی کتاب سے لے کر 1972 کے انٹرویو تک اور اس وقت سے لے کر آر ایس ایس کے موجودہ سربراہ کے بیان تک سنگھ پریوار کا بیانیہ مسلسل بدلتا رہا ہے۔ مگر اس کے فعل کا کیا؟ آر ایس ایس کی شاخوں اور اس کے زیر انتظام اسکولوں میں کیا پڑھایا جاتا ہے؟ بی جے پی کے آئی ٹی سیل اور بہت سے چہرے والے سنگھ پریوار کے زیر کنٹرول سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے گئے پروپیگنڈے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ سنگھ کی تعلیمات خالص نفرت پر مبنی ہیں۔ اس تنظیم کے اثرات کو سمجھنے کے لیے صرف اس کی اعلیٰ قیادت کے بیانات پر توجہ دینا کافی نہیں ہوگا۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ سنگھ کی سوچ کا سماجی تانے بانے پر کیا اثر ہو رہا ہے اور اس کی وجہ سے بے بس مسلم اقلیت کیا نقصان اٹھا رہی ہے۔
ایک طرح سے گولوالکر نے 1937 میں جو کہا تھا وہ آج زمینی حقیقت بن چکا ہے۔ ایک کے بعد ایک واقعات کے ذریعے اقلیتوں کو یہ واضح پیغام دیا جا رہا ہے کہ وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں، وہ ہندوستان میں صرف ایک پسماندہ طبقے کے طور پر رہ سکتے ہیں اور انہیں شہری حقوق نہیں دیئے جا سکتے۔ ایسے وقت میں جب ملک میں مختلف مقامات پر لنچنگ کے واقعات ہو رہے تھے، بھاگوت اور ان کے گروہ نے اپنے ہونٹ بند کر رکھے تھے۔
اس بڑی تنظیم کی مختلف شاخوں کے درمیان ’’محنت کی تقسیم‘‘ اتنی ہوشیاری سے کی گئی ہے کہ زمین پر رونما ہونے والے واقعات کا بنیادی تنظیم کے امیج پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ رضاکاروں کو شاخوں میں پہلے سے پکایا اور تیار کیا جاتا ہے۔ پھر آر ایس ایس کے سابق پرچارک اور اس وقت ملک کے وزیر اعظم انہیں اشاروں کے ذریعے ہدایات دیتے ہیں – ’’ہم دو ہمارے دو، وہ پانچ ان کے پچیس ہیں‘‘، ’’ان کے کپڑوں سے پہچانا جا سکتا ہے‘‘، ’’شمشان، قبرستان‘‘، ’’رانا پرتاپ نے گائے کی حفاظت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ معاشرے میں نفرت اور تشدد پھیلانے اور مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو پولرائز کرنے کی ہدایات ہیں۔
ملک میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اسے سنگھ پریوار کی اعلیٰ قیادت کی منظوری حاصل ہے۔ اس لیے ان کے ایم پیز قتل کے ملزمان کو ہار پہناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلقیس بانو کے ساتھ زیادتی کرنے والے جلد جیل سے رہا ہو جاتے ہیں اور انہیں سرعام مبارکباد دی جاتی ہے۔ اسی لیے NRC-CAA کے نام پر مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس لیے مسلم دکانداروں سے بائیکاٹ کی اپیلیں کی جارہی ہیں۔ اس لیے مسلمانوں سے کہا جاتا ہے کہ اگر وہ اپنی جان کی فکر میں ہیں تو اپنے گھر اور گاؤں چھوڑ دیں۔ کیا گولوالکر نے 1939 میں یہی خواب نہیں دیکھا ہوگا؟
جہاں تک آئین کا تعلق ہے، آر ایس ایس کے غیر سرکاری ترجمان ’’آرگنائزر‘‘ نے گولوالکر کے آر ایس ایس سربراہ کے دور میں لکھا تھا، ’’لیکن ہمارے آئین میں قدیم ہندوستان میں ہونے والی منفرد آئینی ترقی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ منو کے لکھے ہوئے قوانین کی تخلیق کا زمانہ سپارٹا اور فارس میں لکھے گئے آئینوں سے بہت پہلے کا ہے۔ آج بھی، منوسمرتی میں بتائے گئے اصولوں کی پوری دنیا میں تعریف ہو رہی ہے اور آسانی سے ان پر عمل کیا جا رہا ہے۔ لیکن ہمارے آئینی پنڈتوں کے لیے یہ سب بے معنی ہے۔‘‘
قوم پرست اس سب کا یہ کہہ کر دفاع کرتے ہیں کہ لوگ کسی بھی معاملے پر مختلف خیالات رکھ سکتے ہیں۔ یہ بالکل ٹھیک ہے۔ کیا ہم بھول سکتے ہیں کہ وگیان بھون میں اپنے لکچر میں موہن بھاگوت نے آئین ہند کا تمہید پڑھا تھا۔ لیکن قول و فعل میں فرق کی ایک روشن مثال پیش کرتے ہوئے ہندو قوم پرست گروہ کے مفکر اسی آئین کے جمہوری، سیکولر اور سوشلسٹ کردار پر شدید حملے کر رہے ہیں اور جے این یو کی وائس چانسلر شانتی سری دھولیپوڈی کہتی ہیں کہ ’’بھارت کو صرف آئین کے پابند شہری ملک کے طور پر دیکھنا اس کی تاریخ، اس کے قدیم ورثے، ثقافت اور تہذیب کو نظر انداز کرنا ہوگا۔ میں ہندوستان کو ایک تہذیبی ریاست کے طور پر دیکھتی ہوں۔‘‘
ایک اور قوم پرست مفکر جے سائی دیپک دلیل دیتے ہیں کہ ہمارا آئین استعمار کی علامت ہے اور اس کی جڑیں عیسائی اقدار میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہندوستانی آئین کو مذہب، ثقافت، تاریخ، تعلیم، زبان وغیرہ کے حوالے سے نوآبادیاتی اقدار سے آزاد کرنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے ذہن کو نوآبادیاتی ذہنیت سے آزاد کرنا ہوگا۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ نوآبادیاتی زبان میں سوچنا انسان کی سوچ کو بھی نوآبادیاتی بنا دیتا ہے۔
وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کے سربراہ، Bibek Debroyکا خیال ہے کہ ہمارا آئین نوآبادیاتی میراث ہے اور وہ اس میں موجود سوشلزم، سیکولرازم، انصاف، مساوات اور آزادی جیسی اقدار پر سوال اٹھاتے ہیں۔ ہمیں ہچکچاتے ہوئے بتایا جاتا ہے کہ ڈیبرائے اس کونسل کے خیالات کی نمائندگی نہیں کرتے جس کی وہ صدارت کرتے ہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ آج سنگھ کا نظریہ بالکل وہی ہے جو گولوالکر چاہتے تھے۔
سنگھ کے بنیادی ایجنڈے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ہاں، کڑوی گولی کو کھانے لائق بنانے کے لیے اس پر چاشنی لپیٹنے کی کوششیں ضرور ہوئی ہیں۔۔ تقریب میں کچھ مقررین نے گولوالکر کو ’’آئوٹ ڈیٹیڈ‘‘ قرار دیا ۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ تاریخ اور وقت کے لحاظ سے آئوٹ ڈیٹیڈ ہو سکتے ہیں، لیکن ان کا نظریہ، اس کی سوچ اور اس کا ایجنڈا ملک پر مسلط کیا جا رہا ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰