ایشیاء
ٹرینڈنگ

ملایشیا کی ریاست میں 16 شرعی قوانین رد

عدالت نے کہا کہ ریاست ان موضوعات پر اسلامی قوانین نہیں بناسکتی کیونکہ ان قوانین کا احاطہ ملایشیا کے وفاقی قانون کے تحت ہوتا ہے۔ ملایشیا میں دُہرا قانونی نظام ہے۔ مسلمانوں کے نجی اور خاندانی معاملات دیوانی قوانین کے ساتھ شرعی قانون کے تحت چلتے ہیں۔

کوالالمپور: ملایشیا کی سب سے بڑی عدالت نے جمعہ کے دن شریعت پر مبنی 12 سے زائد سرکاری قوانین یہ کہتے ہوئے رد کردیئے کہ ان سے وفاقی اتھاریٹی پر آنچ آتی ہے۔ اسلام پسندوں نے اس فیصلہ کی مذمت کی۔ انہیں اندیشہ ہے کہ اس سے سارے ملک میں شرعی عدالتوں کی نفی ہوگی۔

متعلقہ خبریں
6ریاستوں میں 10حساس تنصیبات عوام کی پہنچ سے باہر
کجریوال آرڈیننس کی کاپیاں نذرآتش کریں گے

وفاقی عدالت کی 9 رکنی بنچ نے 8-1 کی رولنگ میں اپوزیشن زیراقتدار کلنتن ریاست کے 16 قوانین رد کردیئے جن کی رو سے بدفعلی‘ جنسی ہراسانی اور خواتین کے مردانہ لباس پہننے اور مردوں کے زنانی لباس پہننے پر سزائیں دی جاتی تھیں۔

 عدالت نے کہا کہ ریاست ان موضوعات پر اسلامی قوانین نہیں بناسکتی کیونکہ ان قوانین کا احاطہ ملایشیا کے وفاقی قانون کے تحت ہوتا ہے۔ ملایشیا میں دُہرا قانونی نظام ہے۔ مسلمانوں کے نجی اور خاندانی معاملات دیوانی قوانین کے ساتھ شرعی قانون کے تحت چلتے ہیں۔ نسلی ملے شہریوں میں سبھی کو ملایشیائی قانون کے تحت مسلمان مانا جاتا ہے۔

ملایشیا کی 33 ملین کی آبادی میں ان کی تعداد دوتہائی ہے۔ ملایشیا میں ان کے علاوہ چینیوں اور ہندوستانی اقلیتوں کی بھی بڑی تعداد ہے۔ دیہی شمال مشرقی ریاست کلنتن کی 2 مسلم خواتین نے جہاں کی 97 فیصد آبادی مسلمان ہے‘ 2020 میں ملک کی اعلیٰ عدالت سے رجوع کیا تھا۔

اس ریاست میں 1990 سے قدامت پسند پیان۔ ملایشین اسلامک پارٹی (پی اے ایس) کی حکومت ہے۔ جمعہ کے دن سینکڑوں پی اے ایس حامی عدالت کے باہر جمع ہوئے۔

 وہ شرعی قوانین کے تحفظ کا مطالبہ کررہے تھے۔ عدالت کی رولنگ کے بعد کورٹ بلڈنگ کے باہر میڈیا سے بات چیت میں سکریٹری جنرل پی اے ایس تقی الدین حسن نے کہا کہ ہم آج بے حد مایوس ہیں۔ اسلامی شرعی قوانین کے لئے یہ سیاہ جمعہ ہے۔

 انہوں نے کہا کہ ایک جگہ شرعی قوانین رد ہونے کا مطلب یہ ہوگا کہ دوسری ریاستوں میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ پی اے ایس‘ اپوزیشن بلاک میں شامل ہے اور پارلیمنٹ میں واحد بڑی جماعت ہے۔ ملایشیا کی 13 ریاستوں میں 4 میں اس کی حکومت ہے۔

 وہ سخت اسلامی قوانین کی حامی ہے۔ یہ مسئلہ وزیراعظم انور ابراہیم کے لئے چیلنج بن سکتا ہے جو 2022 کے عام انتخابات میں جیت کے بعد سے ملے مسلمانوں کی تائید حاصل کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ وزیر امورِ مذہبی محمد نعیم مختار نے وعدہ کیا کہ وفاقی عدالت کی رولنگ سے شرعی عدالتوں کا موقف متاثر نہیں ہوگا۔

انہوں نے مسلمانوں سے پرامن رہنے کی اپیل کی اور کہا کہ حکومت رولنگ کا جائزہ لے گی۔ انہوں نے کہا کہ شرعی عدالتوں کو بااختیار بنانے کی کوششیں جاری رہیں گی۔

انور ابراہیم نے پی اے ایس کے اس دعویٰ سے اختلاف کیا کہ فیڈرل کورٹ کی رولنگ شرعی قوانین پر حملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ ریاستی دائرہ کار ہے اور اسے سیاسی رنگ نہیں دینا چاہئے۔

a3w
a3w