200روپئے کی رشوت کا کیس: کروڑوں کا نقصان، 25سال بعد ملزم انجینئر عدالت سے بری
بمبئی ہائی کورٹ نے 200 روپئے کی رشوت لینے کے کیس میں ملزم انجینئر کو 25سال بعد بے قصور قرار دیا۔ ڈھائی دہائیوں سے رشوت خوری کے داغ کی وجہ سے ذہنی اذیت کا سامنا کررہے جونیئر انجینئر (اب سبکدوش) پروین شیلکے کو ہائی کورٹ نے ثبوتوں کے فقدان کے سبب بری کردیا۔

ممبئی: بمبئی ہائی کورٹ نے 200 روپئے کی رشوت لینے کے کیس میں ملزم انجینئر کو 25سال بعد بے قصور قرار دیا۔ ڈھائی دہائیوں سے رشوت خوری کے داغ کی وجہ سے ذہنی اذیت کا سامنا کررہے جونیئر انجینئر (اب سبکدوش) پروین شیلکے کو ہائی کورٹ نے ثبوتوں کے فقدان کے سبب بری کردیا۔
ستمبر1998ء میں انسداد رشوت ستانی بیورو نے شولاپور کے کورڈوواڑی علاقہ سے شیلکے کو ایک شخص سے 200روپئے رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
2002ء میں شولاپور کی خصوصی عدالت نے اس کیس میں شیلکے کو مجرم ٹھہراتے ہوئے دو سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔ کورٹ کے اس فیصلے کو شیلکے نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
حالانکہ مہاراشٹرا کے بجلی بورڈ نے خصوصی عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد ہی شیلکے کو ملازمت سے برطرف کردیا۔ تب وہ 16سال کی ملازمت کرچکے تھے اور 18سال کی ملازمت باقی تھی۔ اس اثناء شیلکے کا خاندان بکھر گیا۔ بیوی اور بچے چھوڑگئے لیکن وہ بضد رہے اور بے شمار سماعتوں کے بعد آخر کار ہائی کورٹ سے انصاف ملا۔
ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران شیلکے کے وکیل انیکیت نکم نے دعویٰ کیا کہ استغاثہ یہ ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا کہ ملزم (شیلکے) نے رشوت طلب کی اور اسے لیا۔ ملزم پر کیبل وائر دینے کے عوض رشوت طلب کرنے کا الزام ہے لیکن یہ وائر دینا ملزم کی ڈیوٹی کا حصہ ہی نہیں تھا۔
ملزم کے ساتھ کام کرنے والے گواہ نے کہا کہ ملزم کو شکایت کنندہ نے کچھ دیا اور انہوں نے جیب میں رکھ لیا تھا۔ گواہ کے بیان سے یہ صاف نہیں ہوتا کہ ملزم کو حقیقت میں کیا دیاگیا تھا اور انہوں نے جیب میں کیا رکھا تھا۔ ان دلائل کو سننے کے بعد ہائی کورٹ نے کہا کہ خصوصی عدالت اس معاملے میں استغاثہ کی خامیوں کو دیکھنے میں ناکام رہی۔
اس معاملے میں جس طرح سے اے سی بی نے جال بچھاکر ملزم کو پکڑا وہ بھی شبہ کے دائرے میں ہے۔ اس کا فائدہ ملزم کو دیا جانا ضروری ہے۔ بے قصور پروین شیلکے نے کہا کہ سچ پریشان ہوسکتا ہے لیکن اسے شکست نہیں دی جاسکتی۔ مجھے شروع سے بھروسہ تھا کہ انصاف میں دیر ہے لیکن اندھیر نہیں ہے۔
کبھی میرا سچ سماج کے سامنے ضرور آئے گا۔ جب مجھے ملازمت سے نکالا گیا تو میری18سال نوکری باقی تھی۔ اس لیے اس لڑائی میں میرا ایک کروڑ روپئے کانقصان ہوگیا اور پوری مقدمے بازی میں دو لاکھ روپئے سے زائد خرچ ہوگئے۔
اب میں اپنے نقصان کی پابجائی کے لیے وکیل سے مشورہ لے کر معاوضہ کے لیے قدم اٹھاؤں گا۔ اس جیت سے من ضرور ہلکا ہوگیا لیکن اس مقدمے کی سماعت کو دو دہائی کا جو عرصہ گزرا ہے، اس کی تلافی کسی سے نہیں ہوسکے گی۔“