حیدرآباد

الیکشن سے قبل کانگریس کو لگا بڑا جھٹکہ ، پونالہ لکشمیا پارٹی سے مستعفی

پونالہ لکشمیا کے استعفیٰ سے کانگریس پارٹی کو ایسے وقت برا دھکہ پہونچا جبکہ پارٹی امیدواروں کی فہرست کو قطعیت دینے کا کام آخری مراحل میں ہے۔ پی لکشمیا، 4بار رکن اسمبلی رہے ہیں۔

حیدرآباد: اسمبلی انتخابات سے قبل تلنگانہ پردیش کانگریس کو اس وقت بڑا دھکہ لگا جب سابق صدر پردیش کانگریس و سابق وزیر پونالہ لکشمیا نے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے پارٹی صدر ملکارجن کھرگے کو روانہ مکتوب استعفیٰ روانہ کردیا جس میں پونالہ لکشمیا نے غیر منصفانہ ماحول کا حوالہ دیا۔

متعلقہ خبریں
دھان کی خریداری میں دھاندلیوں کی سی بی آئی جانچ کروائے گی:بی جے پی
رئیل اسٹیٹ ونچرکی آڑ میں چلکور کی قطب شاہی مسجد کو شہید کردیاگیا: حافظ پیر شبیر احمد
جمعہ کی نماز اسلام کی اجتماعیت کا عظیم الشان اظہار ہے: مولانا حافظ پیر شبیر احمد
تلنگانہ میں کانگریس کو 10 نشستیں ملیں گی، چیف منسٹر پرامید
تلنگانہ:ایم ایل سی کی نشست کے ضمنی انتخاب کی مہم کااختتام

 اپنے مکتوب استعفیٰ میں پونالہ لکشمیا نے الزام عائد کیا کہ جب50بی سی قائدین پر مشتمل گروپ تلنگانہ سے دہلی روانہ ہوا تاکہ پسماندہ طبقات کو ترجیح دینے کی درخواست کرنا تھا۔ مگر اس گروپ سے اے آئی سی سی قائدین نے ملاقات کرنے سے انکار کردیا گیا۔

جس سے ریاست کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنے مکتوب میں تحریر کیا کہ مجھے بہت دکھ، بوجھل دل سے کانگریس پارٹی سے روابط، تعلقات کو منقطع کرنے کے فیصلہ کا اعلان کرناپڑرہا ہے۔ پونالہ لکشمیا نے تحریر کیا کہ وہ اس مقام پر پہنچ گئے جہاں انہیں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ نا انصافی پر مبنی ماحول میں اب ان کی ضرورت نہیں ہے۔

 انہوں نے ان برسوں میں ان کے ساتھ تعاون کرنے پر تمام پارٹی قائدین اور کارکنوں سے اظہار تشکر کیا۔ لکشمیا نے اپنے مکتوب استعفیٰ کو واٹس ایپ گروپ پر پوسٹ کیا ہے۔

متعدد مساعی کے باوجود سابق وزیر لکشمیا سے ربط پیدا نہیں ہوسکا۔ پونالہ لکشمیا کے استعفیٰ سے کانگریس پارٹی کو ایسے وقت برا دھکہ پہونچا جبکہ پارٹی امیدواروں کی فہرست کو قطعیت دینے کا کام آخری مراحل میں ہے۔ پی لکشمیا، 4بار رکن اسمبلی رہے ہیں۔

وہ متحدہ ریاست اے پی  میں 12 برسوں تک وزیر بھی رہے ہیں۔ پارٹی امیدواروں میں ٹکٹوں کی تقسیم کے عمل پر ناخوشی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں پارٹی کے ارکان اور ان کی قربانیوں کا خیال نہیں رکھا جارہا ہے۔ کانگریس پارٹی میں بی سی قائدین خود کو ثانوی حیثیت کا احساس ستانے لگا ہے۔

حکمراں جماعت بی آر ایس، بی سی طبقات کی اہمیت کو تسلیم کررہی ہے اور بی سی قائدین کو اہم عہدوں پر فائز کررہی ہے جبکہ کانگریس میں اس کے برخلاف کام ہورہا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ مجھ جیسے کئی سینئر قائدین کو پارٹی سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیلئے مہینوں تک انتظار کرناپڑتا ہے۔ میراذاقی مشاہدہ ہے کہ انہیں دہلی میں اے آئی سی سی کے جنرل سکریٹری وینو گوپال سے ملاقات کیلئے10 دنوں تک انتظار کرنا پڑا۔

a3w
a3w