شمال مشرق
ٹرینڈنگ

ہلدوانی میں تشدد کے بعدبے قصور مسلمانوں کو قیامت صغریٰ کا سامنا

شمع پروین نے جو ایک مقامی سرکاری اسکول میں مڈڈے میل ورکر کی حیثیت سے کام کرتی ہیں، ویب سائٹ’دی کوئنٹ‘ کو بتایا کہ میں نے پولیس سے کہا کہ ہم لوگ تو وہاں تھے ہی نہیں اور ہم نے کچھ نہیں کیا ہے پھر آپ لوگ ایسا کیوں کررہے ہیں۔

دہرادون: ہلدوانی میں ایک مزار اور مدرسہ کے انہدام کے بعد تشدد نے اس علاقہ کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ کئی افراد نے الزام عائد کیا کہ پولیس نے ان کے گھروں پر دھاوے کئے اور افراد خاندان کو بری طرح مارپیٹ کی۔

متعلقہ خبریں
موسیٰ پروجیکٹ، مکانات کے انہدام کی مخالفت،اندرا پارک پرمہادھرنا
ہلدوانی میں صورتحال معمول پرنیم فوجی فورسس کی مزید کمپنیاں تعینات
مہذب سماج میں تشدد اور دہشت گردی ناقابل قبول: پرینکا گاندھی
روسی صدر کی مشرق وسطیٰ میں تنازعات کے خاتمے میں مدد کی پیشکش
ہم موسیٰ پراجکٹ کے متاثرین کی مدد کریں گے: ہریش راؤ

مقامی عوام نے الزام لگایا کہ 10 فروری کی رات  10 تا 10:30 کے دوران پولیس نے ان کے مکانات پر دھاوا کیا اور ان کے ارکان خاندان کو مارپیٹ کی۔ مسجد مریم اور’مَلِک کے باغیچہ‘ کا مدرسہ مسمار کرنے کے دو دن بعد یہ کارروائی کی گئی۔

 شمع پروین نے جو ایک مقامی سرکاری اسکول میں مڈڈے میل ورکر کی حیثیت سے کام کرتی ہیں، ویب سائٹ’دی کوئنٹ‘ کو بتایا کہ میں نے پولیس سے کہا کہ ہم لوگ تو وہاں تھے ہی نہیں اور ہم نے کچھ نہیں کیا ہے پھر آپ لوگ ایسا کیوں کررہے ہیں۔

 تین پولیس ملازمین گھر میں داخل ہوئے۔وہ لوگ دیواریں توڑنے لگے اور لاتیں مارنے لگے۔ پروین نے الزام لگایا کہ پولیس نے پلنگ کو الٹ دیا اور بستروں کے نیچے سامان کی تلاشی لی۔ انہوں نے میرے شوہر کو مارپیٹ شروع کردی اور میری 12 سالہ بیٹی چیخ و پکار کرتی رہی کہ میرے باپ کو مت مارو، اس کے باوجود وہ انہیں مارتے رہے۔

 انہوں نے میرے شوہر کو اتنا مارا کہ ان کے پیر میں فریکچر آگیا۔ سشیلا تیواری ہاسپٹل میں بھی ان لوگوں نے ہم سے کہا کہ مریض کو کہیں اور لے جاؤ۔”ہم غریب لوگ ہیں ہم کہاں جائیں گے؟“۔ اسی شام رخسانہ کے شوہر رحیم کو بھی اٹھالیا گیا۔

رخسانہ نے کہا کہ پولیس نے اس کے شوہر پر سنگباری میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا حالانکہ وہ تو اس وقت وہاں تھے ہی نہیں۔ رخسانہ نے کہا کہ بہت سارے پولیس ملازمین آئے تھے۔ انہوں نے گھر کے باہر رکھی ہوئی گاڑیوں اور ٹیمپوز کو تباہ کردیا۔

 میں اور میری بیٹی قرآن کی تلاوت کررہے تھے۔ انہوں نے میرے شوہر کو باہر بلایا، تمام بستر باہر پھینک دیئے اور انہیں اتنا مارا کہ ان کا پاؤں ٹوٹ گیا۔ وہ انہیں سڑک پر ہی چھوڑ گئے۔

انہوں نے ہمیں بھی مارا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تشدد میں کم ازکم 6 افراد ہلاک ہوگئے۔ بعض مقامی افراد جن پر گولی چلائی گئی تھی، ہاسپٹل میں زیرعلاج ہیں۔ ان میں 30 سالہ محمد شاہنواز بھی شامل ہے جو ہلدوانی سے تعلق رکھنے والا ٹیلر ہے۔

 فائرنگ کے دوران اس کے سینہ میں گولی لگی۔ دوسری ربر کی گولی کاندھے پر لگی جو ٹوٹ گیا۔ اب اس کی حالت نازک ہے اور وہ گزشتہ تین دے سے آئی سی یو میں ہے۔ اس کے بھائی محمد سرفراز نے دی کوئنٹ کو یہ بات بتائی۔ سرفراز نے کہا کہ 8 فروری کو گاندھی نگر کے بنفولپورہ میں بعض شرپسندوں نے تشدد برپا کیا۔

 انہوں نے کہا کہ اس معاملہ میں مسلمانوں کو پھنسایا گیا ہے اور تحقیقات مکمل ہونے کے بعد سچائی سامنے آئے گی۔ ایک اور معاملہ میں 10 فروری کو پولیس نے عائشہ کے 23 سالہ لڑکے ارسلان کو گرفتار کرلیا جو فرنیچر کا کام کرتا ہے۔ عائشہ نے الزام لگایا کہ اس کے بیٹے کو اتنی مار پیٹ کی گئی کہ اس کا سر پھوٹ گیا۔

گزشتہ 4 دن سے ہم لوگ بھوکے ہیں کوئی ہمیں چائے دے رہا ہے اور کوئی کچھ کھانا۔ اس علاقہ میں کرفیو نافذ ہے اور ہم ڈر کے مارے اپنے گھر میں بند ہیں۔ والد کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ ویب سائٹ ’دی کوئنٹ نے اس معاملہ کو ایس ایس پی مینا اور ان کے پی آر او دنیش جوشی سے رجوع کیا۔

 اترکھنڈ کے ڈائرکٹر جنرل پولیس ابھینوکمار نے ”Scroll“ کو بتایا کہ ہم بلاثبوت کسی کے خلاف کارروائی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ ایسے ہی ایک واقعہ میں 38 سالہ محمد عزیز نے بتایا کہ پولیس نے اس کا ٹی وی بھی توڑ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے گھروں میں تھے۔

وہ لوگ اچانک اندر گھس آئے اور سب کچھ تباہ کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے میری بیوی بچوں کو بھی مارا۔ ان کی ایک بڑجمیعت تھی، کوئی خاتون عہدیدار نہیں تھے۔ وہ لوگ بچوں کو بھی لے جانے کی بھی کوشش کررہے تھے۔

 اسی دوران ایک مقامی خاتون صبا نے جو پولیس کی کارروائی کے بعد سے پریشان ہے کہا کہ صرف ہمیں کیوں سزا دی جارہی ہے، صرف مسلمانوں کو ہی کیوں؟ ہم بھی اسی ملک سے تعلق رکھتے ہیں، اور یہیں پلے بڑھے ہیں۔ پھر ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کئی خاندان اس علاقہ میں اپنے مکان چھوڑ کر دوسرے مقامات پر منتقل ہورہے ہیں۔