از ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی
بائبل کے کچھ محققین کا خیال ہے کہ شراب کے بنانے اور پینے کا رواج حضرت نوحؑ کے دور کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا۔ اس خیال کی بنیاد توریت میں بیان کردہ وہ واقعہ ہے جس کی رو سے زبردست طوفان اور سیلاب کے رُک جانے کے بعد کشتیٔ نوح کنارے لگی تو لوگوں نے خشکی پر اُتر کر بڑے پیمانے پر انگور کے باغات لگانے شروع کردئیے۔
کافی عرصہ بعد باغ کے انگوروں سے شراب بنائی گئی اور اس طرح شراب کا دور گویا شروع ہوگیا۔ سائنسدانوں کے لئے اس تحقیق سے اتفاق کرنا مشکل ہے کیونکہ حضرت نوحؑ کے واقعہ سیلاب کا زمانہ 2347 سال قبل مسیح بتایا جاتا ہے جبکہ یہ بات یقینی طور سے کہی جاسکتی ہے کہ 2500 سے 3400 سال قبل مسیح مصر کے فرعونی دور میں نشیلی مشروبات حکمرانوں کی زندگی میں خاص رول ادا کرتی تھیں۔
ان دنوں شراب بخور (دھونی) اور ادویاتی جڑی بوٹیوں کے کمالیاتی اثر کی مدد سے ایک طلسماتی ماحول پیدا کیا جاتا اور یہ باور کرایا جاتا کہ یہ سب کچھ فرعون کی خدائی طاقت کا کرشمہ ہیں۔ مصر کے اس دور کے آس پاس ہی میسوپوٹامیہ (موجودہ عراق وشام کا علاقہ) میں بھی جادو اور نشہ، مذہب کے اہم عناصر تصور کئے جاتے تھے۔ گویا کہ شراب کی تاریخ حضرت نوحؑ کی تاریخ سے قدیم تر ہے۔ ہاں ایک بات توتسلیم کی جاسکتی ہے کہ حضرت نوح کے دور کے بعد کی شراب انگور سے حاصل کی گئی ہو جبکہ مصر اور میسو پوٹامیہ کی شراب کا ذریعہ کھجور کے پھل ہوں۔
یوں تو ہندوستا ن میں سوم رس نامی شہد کی شراب بھی انگوری شراب سے زیادہ پرانی معلوم ہوتی ہے۔ بعض حکایات میں شراب کا تعلق ایرانی حکمراں جمشید سے بھی بتایا جاتا ہے اور دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کو مقبولیت بخشنے میں جمشید کی ملکہ کا اہم رول رہا ہے۔ ان حکایات کی صداقت کے لئے نہ تو کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہیں اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ جمشید کی حکمرانی کا دور کب اور کہاں تھا۔
اس سے قبل کہ ہم یہ جاننے کی سعی کریں گے کہ دنیا کے مختلف مذاہب میں شراب سے متعلق کیا احکامات ہیں، بہتر ہوگا کہ یہ معلوم کرلیں کہ کیمیاوی اعتبار سے شراب کیا شئے ہے اور اسے کس طرح حاصل کیا جاتا ہے اور موجودہ سائنسی انکشافات کی بنیاد پر اس کے کیا فائدے اور نقصانات بتائے گئے ہیں؟
شراب عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہر اس رقیق (محلول) کے ہیں جو پی جاسکتا ہے خواہ اس میں نشہ ہو یا نہ ہو۔ اس طرح پھلوں کے رس کو بھی جو نشہ آور نہیں ہوتے، شراب کہا جاسکتا ہے۔ قرآن پاک کی ایک آیت میں مکھیوں کے شکم سے نکلنے والی چیز(شہد) کو بھی شراب کہا گیا ہے۔ (سورۃ النحل۔ آیت۶۹)
عربی کے بر خلاف اردو اور فارسی میں شراب کے معنی و مفہوم صرف نشہ آور مشروبات سے کے ہیں۔ حالانکہ انگریزی میں وائین(wine) کے معنی صرف اس شراب کے ہیں جو انگور کے رس میں موجود شکر کو خمیر(yeast) کے ذریعہ الکوہل (ALCOHOL)میں تبدیل کرکے حاصل کی جاتی ہے۔ گویا کہ وائین مخمر کیا ہوا (FERMENTED)انگوری رس ہے۔
وائین کی بہت سی قسمیں ہیں جن کی پہچان ان میں موجود الکوہل کی مقدارپر ہوتی ہے۔ عام طور سے پی جانے والی شراب کو ٹیبل وائین (TABLE WINE)کہتے ہیں جس میں دس فیصد الکوہل ہوتا ہے۔ دوسری شرابوں میں یہ مقدار چالیس فیصد یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔
ان میں کچھ کے نام اس طرح ہیں۔ برانڈی(Brandy)؛ شیمپین (Champagne)؛ریڈ وائین(Red Wine)؛ سویٹ وائین(Sweet Wine)، اسپائسڈ وائین(Spiced Wine)؛ ڈرائی وائین(Dry Wine) وغیرہ وغیرہ۔
یہ ساری شرابیں انگور سے ہی تیار ہوتی ہیں جن کے بنانے کے لئے اٹلی اور فرانس بہت شہرت رکھتے ہیں۔ انگور کے علاوہ انار اور کچھ دوسرے پھلوں کے رس کو بھی شراب بنانے کے کام میں لایا جاتا ہے لیکن ان مشروبات کی مقبولیت اور کھپت انگوری شراب کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ فرانس اور جرمنی میں تو وائین تیار کرنے میں انگور کے علاوہ کوئی دوسرا پھل استعمال کرنا قانوناً جرم ہے۔ فرانس کی کچھ قیمتی شراب کی بوتلوں پر انگور کی قسم ظاہر کی جاتی ہے اور اس علاقہ کا نام بھی دینا ضروری ہوتا ہے جہاں سے یہ انگور فراہم ہوتے ہیں۔
انگریزی میں بعض شرابیں وھسکی WHISKYکے نام سے جانی جاتی ہیں۔ ان کے بنانے میں پھلوں کی جگہ اجناس کا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے گیہوں، چاول، مکئی اور جو وغیرہ۔ ان اجناس میں موجود اسٹار چ STARCH کو مخمر کر کے الکوہل میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ مشہور اسکاچ وھسکی (SCOTCH WHISKY)مالٹ MALTسے بنائی جاتی ہے جبکہ معروف امریکن وھسکی (AMERICAN WISKY) کا ذریعہ بڑی جوار ہے۔ کچھ شرابیں آلو کے اسٹارچ اور گنے کے رس کی شکر سے بھی تیار کی جاتی ہیں۔ یہ رم RUMیا جن GIN جیسے ناموں سے جانی جاتی ہیں۔
ہندوستان میں سورا نام کی شراب کا ذریعہ چاول بتایا جاتا ہے۔ سنسکرت کی پرانی کتابوں میں جو سے بنی شراب کو کہولا کہا گیا ہے۔ مشہور سائنسی مؤرخ ہوپر (HOPER) نے خیال ظاہر کیا ہے کہ عربی لفظ کہل (الکحل) جس سے انگریزی لفظ الکوہل (ALCOHOL) بنا ہے وہ اصل میں سنسکرت کے کہولا سے اخذ کیا گیا ہے۔
عرب سرزمین میں خاص طور سے عراق شام و فلسطین کے علاقہ میں شراب کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اسی لئے عربی زبان کے نہ جانے کتنے الفاظ شراب کے معنوں میں مستعمل ہیں۔ اکثر یہ الفاظ ان ذرائع کی نشاندہی بھی کرتے ہیں جن سے شراب بنائی گئی ہے۔ چند نام اس طرح ہیں۔ خمر، مدام، نبیذ، السکر، المروح، تبع، الراف، بازقہ،نبت الخابیہ، بنت الکرم، خرطم، خندریس، الماذتیہ، رحاق رحیق، ام زنبق، دمعۃ الکرم، بول العجوز، جعتہ السباء وغیرہ۔
بخاری اور مسلم میں شراب کے حوالے زیادہ تر خمر کے نام سے ہی ہیں۔ لہٰذا اندازہ ہوتا ہے کہ حضور اکرمؐ کے دور میں یہی لفظ زیادہ رواج پاچکا تھا۔ بخاری شریف کی احادیث سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ظہور اسلام کے وقت مدینہ اور مکہ میں پانچ اقسام کی شرابیں دستیاب تھیں یعنی انگور (عنب یا زبیب) کی شراب، کھجور(تمر) کی شراب، جو (شعیر) کی شراب۔ شہد (عسل) کی شراب اور گیہوں (حنطہ) کی شراب، (کتاب الاشربہ۔ بخاری)۔
حضرت انسؓ کے بیان کے مطابق اس وقت مدینہ میں انگور کی شراب کم پائی جاتی تھی۔ کچی اور پکی ہوئی کھجوروں کی شراب ہی عام تھی۔ (کتاب الاشربہ۔بخاری)
ہر نشہ آور شراب کا اصل جز ایتھائیل الکوحل(Ethyl Alcohol) ہوتا ہے۔ یہی الکوحل نشہ پیدا کرتا ہے۔ الکوحل بنانے کے ذرائع قدرت میں لامحدود ہیں۔ درختوں کی عام لکڑیوں سے الکوحل بنایا جاسکتا ہے جو ان میں موجود سیلولوز CELLULOSE کو مخمر کر کے بنتا ہے۔ اسی طرح جنگلی بیج، پتیاں اور جڑیں بھی الکوحل کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ ان کا استعمال موٹر گاڑیوں میں پٹرول ملاکر ایندھن کے طور پر کیا جاسکتا ہے اور جنوبی امریکہ کے کچھ ممالک میں پٹرول اور الکوحل کا مرکب استعمال ہونا شروع بھی ہوگیا ہے۔ ہندوستان میں بھی ایسی ہی پیش رفت ہوئی ہے۔
موجودہ سائنسی اور طبی انکشافات نے شراب کے اتنے زیادہ نقصانات بتائے ہیں کہ لگتا ہے اس کی ایک بوند بھی زہر ہے۔ فرحت بخشنے، سردی اور زکام سے بچانے کی شراب کی خصوصیت صرف خیالی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شراب نوشی سے جسم کا پورا دفاعی نظام کمزور پڑجاتا ہے۔ معدہ، گردے اور دماغ کے خلیوں میں ورم پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے مختلف خطرناک امراض ابھر آتے ہیں۔ جگر اس حد تک متاثر ہوجاتا ہے کہ وہ اپنا کام بند کردیتا ہے جس کو لیورسروسس (LIVER CIRROHSIS)کہتے ہیں۔ یہ زیادہ تر مہلک ہوتا ہے۔
اعصابی تناؤ کے علاوہ شراب کا استعمال جنسی کمزوری بھی پیدا کرتا ہے۔ دل اور پھیپھڑوں کے امراض پر دواؤں کے ذریعہ قابو پانا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مریض شراب کا استعمال یک لخت بند نہ کردے۔ دوسری نشہ آور اشیاء کی طرح شراب میں بھی انسان کو اس کا عادی بنادینے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس کے عادی لوگ الکوہلک(ALCOHOLIC) کہلاتے ہیں جو موجودہ طبی سائنس کے اعتبار سے ایک جان لیوا مرض میں مبتلا لوگ ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح حشیش اور بھانگ کے عادی موت سے قریب آجاتے ہیں۔
امریکہ او یورپ کے شہروں میں شراب کے عادی مریضوں (ALCOHOLICS) کے لئے بازآبادکاری مرکز Rehabilitation Centres قائم ہیں جہاں ہر روز ہزاروں شرابیوں کا علاج ہوتا ہے۔
۱۹۹۰ء کے ایک سروے کے مطابق امریکہ میں ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ افراد الکوہلک (Alchohalic) ہیں جن کے علاج پر حکومت ہرسال اربوں ڈالر خرچ کرتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ مغربی ممالک میں شراب نوشی عام تو ہے لیکن وہاں کے اہم ریسرچ مراکز شراب کے مضر اثرات اور ان سے حفاظت کی تحقیق پر کثیر رقم خرچ کررہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ 40 ہزار سے زیادہ لوگ (تقریباً 97 ہزار مرد اور43 ہزار خواتین) ہر سال الکوحل سے متعلقہ وجوہات کی وجہ سے مرتے ہیں.
شراب کا چلن یوں تو دنیا کے ہر علاقہ اور ہر دور میں کچھ نہ کچھ رہا ہے لیکن یہ بھی ایک سچائی ہے کہ مہذب سماج میں اس کو ہمیشہ ہی بُرا تصور کیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں شراب سے دور رہنے کی بہت واضح ہدایات دی گئی ہیں۔ مسلمانوں کو شراب کی لعنت سے بچانے کے لیے قرآنی ارشادات میں نفسیاتی انداز اپنائے گئے ہیں۔ پہلے ایک آیت (سورۃ البقرہ آیت ۲۱۹) ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئی جس میں ارشاد ہوا:
’’پوچھتے ہیں شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے۔ کہو ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے۔‘‘ (ترجمہ۔ مولانا فتح محمد)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ۔ نماز اس وقت پڑھنا چاہئے جب تم جانو کہ کیا کر رہے ہو۔ (آیت نمبر۴۳۔ ترجمہ فتح محمد)
ان دونوں آیات کے ذریعہ مسلمانوں میں شراب سے بیزاری پیدا کی گئی اور جب انہوں نے خود ہی محسوس کیا کہ شراب واقعی ایمان کی راہ میں رکاوٹ ہے تو چھٹی ہجری کے اواخر میں سورۃ المائدہ کی ایک آیت (نمبر۹۰) کے ذریعہ اسے حرام قرار دے دیا گیا۔
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو یہ شراب یہ جوا اور آستانے اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں۔ ان سے پرہیز کرو تم کو فلاح نصیب ہوگی۔‘‘ (ترجمہ۔ مولانا فتح محمد خان)
شراب کی نحوست کی بنا پر جو نقصانات عربوں کے اخلاق اور ایمان پر اسلام سے قبل مرتب ہوچکے تھے، ان کی روشنی میں شراب کی ممانعت پر قرآنی احکامات پر سختی سے پابندی کے لئے حضور اکرم ﷺ نے اپنے ارشادات کے ذریعہ مسلمانوں کو متعدد ہدایات دیں۔ اس ضمن میں کچھ احادیث اس طرح ہیں:
*شرابی شراب پیتے وقت مومن نہیں رہتا۔ (کتاب الاشربہ۔ بخاری۔ راوی حضرت ابوہریرۃؓ)
*ہر وہ چیز جو نشہ لائے وہ حرام ہے۔ (کتاب الاشربہ۔ بخاری۔ راوی حضرت عائشہؓ)
*اس شراب میں ہرگز شفا نہیں۔ یہ بذات خود بیماری ہے۔ (مسلم۔ داؤد۔ ترمذی۔ راوی طارقؓ بن سوید خضری)
*جس کسی نے شراب سے علاج کیا اس کے لئے اللہ کی طرف سے کوئی شفا نہیں۔ (ابونعی)
*قیامت کی نشانیوں میں ہے کہ جہالت غالب آجائے گی۔ علم گھٹ جائے گا اور شراب خوب پی جائے گی۔ (کتاب الاشربہ۔ بخاری۔ راوی حضرت انسؓ)
شراب سے متعلق قرآنی حکم اور احادیث نبویؐ کا مسلمانوں پر خاطر خواہ اثر ہوا۔ وہ شراب کو ام الخبائث (برائیوں کی ماں) کہنے اور سمجھنے لگے۔ ان کے کردار اور گفتار سے شراب کی برائیاں دور ہوگئیں اور وہ دینی اور دنیاوی کاموں میں اسلامی اصولوں کی پیروی کرنے لگے۔ حضور اکرمؐ کی وفات کے بعد خلفائے راشدین کے دور میں شراب نوشی سے پرہیز کی سختی سے تاکید کی جاتی رہی اور اس کے مرتکب مسلمانوں کو بلا لحاظ منصب سزائیں دی گئیں۔
اسلامی فتوحات کے دوران متواتر سپاہیوں کو شراب سے دور رہنے کا حکم دیا جاتا۔ شاید ایسا نہ کیا گیا ہوتا تو مسلمان فتح عراق و شام کے بعد ہی عیش و طرب میں پڑکر فتوحات فلسطین و مصر سے غافل ہوجاتے۔ ہوسکتا تھا کہ قیصر روم کی بے پناہ فوج کے ہاتھوں شکست اٹھانی پڑتی۔ لیکن ایسانہ ہوا۔ مسلمانوں میں شراب نوشی کے نقصانات کا یقین ہوگیا اور اس میں ملوث و مرتکب ہوکر سزا پانے کا ڈر بھی پیدا ہوگیا۔
واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ فتح دمشق کے بعد مسلمانوں کو بہت مال و متاع میسر ہوا۔ ایسا مال جو انھیں پہلے کبھی نصیب نہ تھا۔ بہترین شرابیں بھی آسانی سے دستیاب ہوگئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سپاہیوں کی ایک جماعت عیش میں پڑ کر شراب نوشی کرنے لگی۔ حضرت ابوعبیدہؓ کو جو اس وقت فوج کے سربراہ تھے جب اس کا علم ہوا تو پورے واقعہ کی اطلاع مرکز کو یعنی مدینہ میں بھیجی۔ خلیفہ وقت حضرت عمرؓ کو یہ خبر پاکر سخت غصہ آیا اور روحانی صدمہ بھی پہنچا جس کا اظہار انہوں نے حضرت ابوعبیدہؓ کو لکھے گئے خط میں اس طرح کیا:
’’جو شراب (خمر) پئے اس کو حد (شرعی سزا کوڑے) لگاؤ۔ میری جان کی قسم عربوں کے لیے فقروفاقہ ہی مناسب ہے۔ لازم تھا کہ وہ اپنے مالک حقیقی سے ڈرتے، سچے دل سے اس کی عبادت کرتے۔ اس کا شکر ادا کرتے۔ بہرحال اگر کوئی دوبارہ شراب پئے تو اس کو پھر حد لگاؤ‘‘ (فتوح الشام۔ واقدی۔ ترجمہ خورشید احمد)
شراب سے متعلق ایک نہایت اہم واقعہ کنزالعمال اور تاریخ طبریٰ میں سیف ابن عمر کے توسط سے بیان کیا گیا ہے کہ حضرت خالد ابن ولیدؓ، دوران مہم عراق و شام اور قنسرین کے ایک حمام میں غسل کرنے گئے اور عصفر نامی ابٹن جو شراب میں گوندھا گیا تھا، جسم پر ملوایا۔ اس واقعہ کی اطلاع حضرت عمر فاروقؓ کو ہوئی تو انہوں نے ایک خط کے ذریعہ ان کو تنبیہ کی اور تحریر فرمایا۔
’’مجھے خبر ملی ہے کہ تم نے شراب سے جسم پر مالش کی حالانکہ خدا نے شراب کو خواہ وہ خالص ہو یا کسی چیز کے ساتھ ملی ہو، حرام قرار دیا ہے جس طرح ظاہری اور پوشیدہ معصیت دونوں کو ممنوع فرمایا۔ واضح ہوکہ شراب نجس ہے اس کو جسم تک میں نہ لگاؤ اور اگر لگا لیا ہے تو خبر دار آیندہ ایسا نہ کرنا۔‘‘
خلافت راشدہ کے دوران شراب نوشی کے مرتکب مسلمانوں کوسخت سزائیں دی گئیں اور ایسا کرتے وقت یہ خیال نہ رکھا گیا کہ ملزم کی حیثیت اور منصب کیا ہے۔ تاریخ طبریٰ میں ایسے کئی واقعات درج ہیں جو عبرت انگیز ہیں اور خلفائے راشدین کے عدل و انصاف کی بہترین مثالیں ہیں۔ عبدالرحمٰن ابن عمر کی لغزش شراب کی مثال اس میں شامل ہے۔
عیسائیت اور یہودیت میں شراب کا کیا حکم ہے، اس کا اندازہ توریت اور انجیل کی ان آیات سے لگایا جاسکتا ہے جن میں شراب سے اجتناب کی تلقین کی گئی ہے۔ بائیبل کے کچھ ارشادات ملاحظہ ہوں۔ (ترجمہ ہائییل سوسائٹی آف انڈیا) کتاب: مثال باب ۳۱۔ آیت ۴ تا ۶۔ ’’بادشاہوں کو اے لمو ایل۔ بادشاہوں کو میخواری زیبا نہیں۔ شراب کی تلاش حاکموں کو شایان نہیں مبادا وہ شراب پی کر قوانین کو بھول جائیں اور کسی مظلوم کی حق تلفی کریں۔‘‘
کتاب یسقیاہ۔ باب ۲۸۔آیت ۷۔ ‘‘لیکن یہ بھی میخواری سے ڈگمگاتے اور نشہ میں لڑکھڑاتے ہیں…وہ نشہ میں جھومتے ہیں وہ رویا میں خطا کرتے ہیں اور عدالت میں لغزش کرتے ہیں۔‘‘
کتاب یرمیاہ باب ۳۵ آیت ۱۴۔ ’’جوباتیں یونا داب بن ریکاب نے اپنے بیٹوں کو فرمائیں کہ مئے نہ پیودہ بجالائے اور آج تک مئے نہیں پیتے…‘‘
کتاب ہوسیع باب ۴۔ آیت ۱۱۔ ’’بدکاری اور مئے اور نئی مئے سے بصیرت جاتی رہتی ہے۔‘‘
کتاب امسیوں باب ۵۔ آیت ۱۸۔ ’’اور شراب میں متوالے نہ بنو کیونکہ اس سے بدچلنی ظاہر ہوتی ہے۔ بلکہ روح سے معمور ہوتے جاؤ۔‘‘
مندرجہ بالا بائیبل کی آیات سے صاف ظاہر ہے کہ شراب کو ایک ناپسندیدہ چیز بتایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انیسویں صدی کے اواخر میں امریکہ کے بعض راہبوں اور پادریوں نے بائیبل کے جوانگیزی تراجم لکھے ہیں، ان میں وائین WINE کا لفظ صرف ان آیات میں دیا گیا ہے جہاں اس سے پرہیز کرنے کو کہا گیا ہے۔ باقی آیات میں جہاں شراب کا ذکر پیغمبروں اور نبیوں کے ضمن میں ہوا ہے، وہاں انگریزی ترجمہ جوسJUICE بہ معنی رس یا ڈرنک (Drink) بہ معنی مشروب جیسے الفاظ سے کیا گیا ہے۔
ان پادریوں کا نظریہ تھا کہ مخمر FERMENTEDاور غیر مخمرNON-FERMENTEDدونوں مشروبات کو عبرانی زبان کی توریت اور انجیل میں ویائین VIYAVIN اور خومت کہا گیا ہے۔ ان سب کا ترجمہ انگریزی لفظ وائین سے کرنا اس لئے صحیح نہیں کیونکہ وائین نشہ آور شراب کا نام ہے جبکہ پیغمبروں اور نبیوں کے گھروں میں پینے والی شراب غیر نشہ آور تھی۔
اس طرح مخمر یعنی نشہ آور شراب کا جائز ہونا بائیبل سے ثابت نہیں ہوتا ہے۔ امریکی پادریوں کے اس نظریہ کی حمایت میں ایک واقعہ ملتا ہے جس کا ذکر تاریخ طبریٰ اور کنز العمال دونوں میں ملتا ہے۔ بیان کیا گیا ہے حضرت علیؓ کے مشورہ پر حضرت عمرؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ کو بیت المقدس فتح کرنے کا حکم دیا۔
حضرت ابوعبیدہؓ نے حکم بجا لاتے ہوئے بیت المقدس کا اتنا زبردست محاصرہ کیا کہ قیصر روم کی مدد کے باوجود وہاں کے باشندوں نے صلح کی پیش کش کی۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ خلیفہ وقت خود تشریف لاکر صلح نامہ پر دستخط کریں۔ شرط منظور ہوئی اور حضرت عمرؓ نے مدینہ سے تشریف لاکر صلح نامہ پر دستخط فرمائے اور بیت المقدس کے شہریوں کو امن وامان کا یقین دلایا۔
اس موقع پر وہاں کے کچھ راہبوں نے مسرت و شادمانی کا اظہار کرتے ہوئے حضرت عمرؓ سے کہا کہ ہم آپ کو آج ایسی شراب پیش کریں گے جس میں نشہ نہیں ہے اور جس کو ہماری آسمانی کتابوں نے مباح قرار دیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے یہ شربت نوش فرمایا اور اسے اتنا پسند کیا کہ مدینہ پہنچ کر اپنے سارے فوجی سپہ سالاروں کو یہ فرمان بھیجا: ’’مجھے ایک شربت دیا گیا جو انگور کے رس سے بنتا ہے، اس کو اتنا پکایا جاتا ہے کہ ایک تہائی رہ جاتا ہے۔ طلاء کی طرح گاڑھا۔ آپ یہ شربت مسلمان فوجیوں کو راشن میں دیجئے۔‘‘
(حضرت عمرؓ کے سرکاری خطوط مولف خورشید احمد)
ہندوستان میں مسلمانوں کے دور اقتدار سے قبل کے کئی تاریخی حوالے ملتے ہیں جن کی رو سے اندازہ ہوتا ہے کہ برہمنوں کے نزدیک بھی شراب بری چیز تھی۔ 375 ہجری میں بیت المقدس کے مظہر بن طاہر نامی ایک عرب سیاح نے اپنی تصنیف کتاب البدوالتاریخ میں بہت واضح الفاظ میں ہندوستانی برہمنوں کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ’’برہمنوں کے نزدیک شراب حرام ہے اور ذبیحہ بھی‘‘۔
اسی طرح خلافت عباسیہ کے دور کے مشہور عالم اور مورخ خردازبہ (۲۵۰ ہجری) نے اپنی ایک تصنیف میں ہندوستان کے ہندوؤں کی کل 7 ذاتیں بتائی ہیں۔ ان میں شاکستری (چھتری) ذات کو طاقت اور ثروت کے اعتبار سے سب سے اہم بتایا ہے‘‘۔
اس کے بعد مذہبی اعتبار سے مقدم براہمہ (برہمن) ذات کا ذکر کرتے ہوئے بتا یا کہ ’’وہ شراب اورنشہ کی چیز نہیں پیتے‘‘۔ مظہر اور خردازبہ کے بیانات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہندوستان میں مذہبی طبقہ شراب نوشی کو ناجائز سمجھتا تھا۔ ہندوستان میں بدھ مت کے زوال کے اسباب میں ایک سبب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس کے پیروکار اہم شخصیات نے ممانعت کے باوجود شراب نوشی شروع کردی اور اپنی بقا اور نصب العین سے بڑی حد تک غافل ہوگئے۔
شراب کی سائنسی کیفیت کو سمجھنے اوراس کی تاریخ کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات بڑی حد تک واضح ہوجاتی ہے کہ شراب نوشی کے عادی حضرات یا تو نا وقت موت کا شکار ہوجاتے ہیں یا پھر ہوش کھو کر یہ نہیں جان پاتے کہ وہ کیا کررہے ہیں اور اس طرح سماج میں ذلیل و رسوا ہوکر اپنوں کے لئے اذیت، کوفت، دکھ، ندامت اور شرمندگی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بسا اوقات ملک و قوم کی تباہی و بربادی کے ذمہ دار بھی بنتے ہیں۔
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ شراب کی ممانعت صرف مذہب اسلام میں ہے جبکہ دوسرے مذاہب میں اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ خیال قطعی غلط ہے۔ سچائی یہ ہے کہ دنیا کے تقریبا سبھی قدیم مذاہب نے شراب نوشی سے پرہیز کی تاکید کی ہے جس کی بعض مثالیں اوپر پیش کی گئی ہیں۔ قدیم مذاہب کے علاوہ جدید تہذیبوں میں بھی شراب نوشی سے بچنے پر زور دیا گیا ہے۔ مغرب کے تقریبا سبھی ممالک میں جہاں شراب نوشی عام ہے، شراب کے نقصانات سے عوام کو ٹی وی، ریڈیو اور اخبارات کے ذریعہ ہرروز باخبر کیا جاتا ہے۔
گویا کہ ان ممالک میں شراب نوشی کی اجازت تو ہے لیکن یہ جتا کر کہ یہ ایک بُرا اور نقصان دہ عمل ہے۔ بعض ممالک میں کمسن لڑکے او رلڑکیوں کے لئے شراب نوشی قانوناً ممنوع کردی گئی ہے۔ کسی زمانہ میں امریکہ میں شراب سے منسلک جرائم اس حد تک بڑھ گئے کہ 1920ء میں شراب پر مکمل پابندی عائد کردی گئی۔ یہ پابندی 1932ء میں ہٹا تو لی گئی لیکن کچھ شرائط کے ساتھ۔
شراب کے نقصانات کا اندازہ صرف اس امر واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف امریکہ میں ہی ہرسال بالجبر آبروریزی کے ایک لاکھ سے زیادہ سنگین واقعات پیش آتے ہیں اور ان سب کا براہ راست تعلق شراب نوشی سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ خنجر زنی، رہزنی، مارپیٹ، قتل وغیرہ کی ہزاروں وارداتیں ہرسال ہوتی ہیں جن کا تعلق شراب پینے والوں سے ہوتا ہے۔ ان جرائم پر قابو پانے کے لئے حکومت اربوں ڈالر کی رقم خرچ کرتی ہے۔
مغربی دنیا میں آج کل ایک نیا نظریہ تقویت پارہا ہے او ر وہ یہ ہے کہ ساری نشیلی اشیاء سے پابندی مکمل طور پر ختم کر دی جائے اور عوام کو ذرائع ابلاغ کی مدد سے یقین دلایا جائے کہ نشیلی اشیاء انسانی صحت کو خراب کرتی ہیں۔ اس طرح یہ امید رکھی جائے کہ سمجھ دار شہری خود ہی ان کا استعمال ترک کردیں گے۔
اس نظریہ کے حامی حضرات یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اسلام میں شراب کی ممانعت کے باوجود اسلامی دنیا سے شراب نوشی پورے طور سے ختم نہ کی جاسکی۔ اس انداز میں سوچنے والے ’’صاحب فہم‘‘ سماجی سائنس دانوں کی ایک میٹنگ 1990ء میں یورپ میں ہوئی تھی جس کا مدعا یہ تھا کہ معلوم کیا جائے کہ یورپ اور امریکہ میں ہیروئین، حشیش، ایل ایس ڈی، کوکین وغیرہ کی اسمگلنگ سے جو پیچیدہ مسائل بڑھ رہے ہیں، ان سے کس طرح نمٹنا مناسب ہوگا؟
کافی غور وخوض کے بعد سفارش کی گئی کہ شراب کی طرح حشیش وغیرہ سے بھی پابندی مکمل طور سے ہٹالی جائے اور اس کے بعد بڑے پیمانے پر ایک ایسی مہم چلائی جائے جس کا مقصد عام شہری کو ان نشیلی اشیاء کے خطرناک اثرات سے باخبر کرنا ہو اور یہ بھی بتانا ہو کہ یہ اشیاء سارے معاشرے کو برباد کرسکتی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ سماجی برائیوں سے نمٹنے کے لئے اسلام میں عائد کی گئی پابندیاں زیادہ کارگر ہیں؟ یا بیسویں صدی کا نظریہ آزادی زیادہ پر یکٹیکل ہے، جس میں پابندیوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے؟ ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ نظریہ آزادی کو اگر زیادہ تقویت مل گئی تو کہیں ایسا تو نہیں کہ نشیلی اشیاء کا اصول دوسری برائیوں پر بھی آزمایا جائے اور قتل، لوٹ مار، مکروفریب، جھوٹ وغیرہ کی بھی آزادی عوام کو بخش دی جائے اور ساتھ ساتھ ان کو نصیحت کی جائے کہ ان سے پرہیز کرو کیونکہ یہ شیطانی کام ہیں اور سماج کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
لگتا ہے کہ آج کی دنیا میں مذہبی بندشوں کے اصولوں اور ’’آزادی‘‘ کے اصولوں کے درمیان ایک مقابلہ آرائی اور سنگھرش کا وقت ہے۔ اب لوگوں کو خود ہی طے کرنا ہے کہ ان کے لئے کون سا راستہ مناسب ہے؟