مضامین

سائنس اور سائنسی فکر کےنا قابل فراموش وکیل: سر سید احمد خاں، از۔۔۔۔ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی

کیونکہ اس دور میں سارا ہندوستانی سماج غضب کی مایوسی کا شکار تھا۔ عجب افراتفری کا عالم تھا۔ آزادی کے متوالوں کے حوصلے پست ہوچکے تھے۔

اٹھارویں صدی کے اواخر سے لے کر انیسویں صدی کے اختتام کا دور ہندوستان کی تاریخ کا بدترین اور تاریک ترین دورکہا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس دور میں سارا ہندوستانی سماج غضب کی مایوسی کا شکار تھا۔ عجب افراتفری کا عالم تھا۔ آزادی کے متوالوں کے حوصلے پست ہوچکے تھے۔ برطانوی سامراج کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جارہی تھی۔ عوام پر ظلم وزیادتی کے واقعات عام ہوگئے تھے۔ سارا معاشرہ بکھرتا دکھلائی پڑتا تھا۔ غلامی، افلاس، ناکامی، ناامیدی اور نا مرادی عوام کامقدر بن گئی تھی۔ سماج کا ایک بڑا طبقہ علم سے بے بہرہ تھا اور پرانی قدروں اورمردہ رسوم میں اپنے کوکھوتاجارہا تھا۔

تو ہم پرستی اپنے عروج پر تھی۔ خوش قسمتی سے اس نازک دور میں دو بہت اہم اورہمہ گیر شخصیتیں ہندوستانی معاشرہ میںابھریںجنہوں نے سوتے ہوئے اور غافل ہندوئوں اورمسلمانوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اس میںایک ہستی تھی راجہ رام موہن رائے کی اور دوسری سر سید احمد خاں کی ذات گرامی۔ راجہ رام موہن رائے نے ۱۷۷۲عیسوی میںبنگال کے ایک برہمن گھرانے میں جنم لیا۔ انہوں نے کم عمری میں یہ محسوس کیا کہ ہندوستان کا مسئلہ تعلیم کی کمی اور سائنسی رویہ کے فقدان کا ہے۔

انہیں یقین کامل ہوگیا کہ اگر عوام اپنے فرسودہ رسم ورواج اورپرانی تعلیم کو چھوڑ کر نئی سائنسی تعلیم کی جانب متوجہ ہوں تو وہ واقعی ایک آزاد قوم کی حیثیت سے زندہ رہنے کاحق مانگ سکتے ہیں۔ چنانچہ انہوںنے ہندوئوں میںانگریزی اور سائنسی تعلیم حاصل کرنے کی وکالت کی۔ شروع میں ان کی بے پناہ مخالفت کی گئی اور الزام عائد کیاگیا کہ وہ ہندوستانی قدروں کو برباد کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ مخالفتیں زیادہ دن تک ٹک نہ سکیں اور  وہ اپنے کچھ ساتھیوں کی مدد سے ۱۸۱۶ء میں کلکتہ میں ایک ہندو کالج قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے جس میں انگریزی اور سائنس کی تعلیم دی جانے لگی۔ عام ہندو نئی تعلیم کی جانب متوجہ ہونے لگے۔

راجہ رام موہن رائے کامشن کامیابی کے دور میں آیا ہی تھا کہ سرسید کی ہمہ جہت شخصیت بھی ہندوستان کے مسلم معاشرہ میں ابھر کر سامنے آئی۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے مسلمانوں کی تباہی، پستی اور بربادی دیکھی تھی۔ جناب موہن رائے کی طرح ان کو بھی احساس ہوا کہ مسلمانوں کو قعر مذلت سے نکالنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ان کو نئے سائنسی رجحانات سے باخبر کیا جائے اورانگریزی تعلیم کی طرف راغب کیاجائے۔ اس مقصدکے حصول کے لئے انہوں نے جو کچھ کیا وہ آج ہندوستان کی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے۔ سر سید کے سائنسی انداز فکر اور ہندوستانی مسلمانوں کے اعمال وافکار پر ان کے اثرات کا ایک جائزہ لینا آج وقت کی اہم ضرورت ہے۔

سر سید احمدخاں نے یکم اکتوبر ۱۸۱۷ء؁ کو دہلی کے ایک معزز گھرانے میں جنم لیا۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت عبرت انگیز تھی۔ وہ ایک طرف مایوسی کاشکار تھے تودوسری جانب نئے علوم سے قطعاً نا واقف۔ یہی نہیں بلکہ ذہنی پستی کا یہ حال تھا کہ وہ کسی نئی فکر اور نئے سائنسی خیال اورایجاد ودریافت کو غیر مذہبی اور شیطانی کام تصور کرنے لگے تھے۔

انگریزی تعلیم حاصل کرنا ان کے نزدیک ایک ایسا گناہ تھا جو معاف نہیں کیاجاسکتا تھا۔ ۱۸۳۵ء؁ میںجب لارڈ میکالے کی اسکیم کے تحت یہ قرار پایا کہ ہندوستانیوں کو یورپین سائنس اور یورپین زبان کی تعلیم دینے کاانتظام کیا جائے تومسلمانوں میںاس کی شدید مخالفت کی گئی اورکلکتہ میں آٹھ ہزار رئوسا کے دستخطوں سے ایک درخواست گورنمنٹ میں گذاری گئی کہ حکومت کا یہ قدم ان کے مذہبی اعتقادات کے خلاف ہے۔ اس درخواست میں انگریزی تعلیم کو صرف غیر ضروری ہی نہیں بلکہ سماجی اور ذہنی اعتبار سے نقصان دہ بتایا گیا۔

 سرسید نے جب ہوش سنبھالا توایک طرف مسلمانوں کی معاشی زبوں حالی دیکھی تو دوسری طرف ان کا نئے علوم کے لئے منفی اور غیر منطقی رویہ پایا۔ انہیںیہ یقین ہو چلاکہ مسلمانوں کوہندوستانی سماج میںایک باوقار اور با عزت مقام دلانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ان کو نئی سائنسی دنیا سے روشناس کیا جائے۔ نئے علوم سے واقف کرایا جائے۔ کتنے عبرت کا مقام تھا کہ جس قوم کے لئے اس کے پیغمبر کی یہ تعلیم اورنصیحت موجودتھی کہ علم حاصل کرو خواہ اس کے حصول کے لئے چین جاناپڑے وہ قوم چین تو کیا خود اپنے ملک میں موجود نئی سائنسی علم سے منھ چراتی تھی۔ بہرحال سرسیدنے مسلمانوں میں سائنسی مزاج پیدا کرنے کے اور سائنسی علم کوعام کرنے کا بیڑا اٹھا ہی لیا اور عین حدیث رسول کی پیروی کرتے ہوئے علم حاصل کرنے اورنئے علمی کارناموں سے واقفیت حاصل کرنے کی غرض سے انگلینڈ کاسفر اختیار کیااور وہ بھی اپنا گھر بار رہن رکھ کر۔ کئی ماہ تک وہاں درس گاہوں اور لائبریریوں کی تفصیلات جمع کیں۔ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کا دورہ کیا۔

صنعت وحرفت کے میدان میں ہوئی ترقیوں کاجائزہ لیا اور نئی سائنسی تعلیم کے مختلف پہلوئوں پر ماہروں سے گفت وشنید کی۔ اس دوران انگلینڈ میں لوگوں کا رہن سہن اور سائنسی تعلیم کی لیاقت دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔ وہیں سے لکھے گئے اپنے ایک خط میں تحریر کیاکہ کاش میری قوم کے بچے ایسے ہی علم حاصل کرتے اور ملک کو وہی سب کچھ دیتے جویہاں لوگوں کو میسر ہے۔ ایک دوسرے خط میں لکھاکہ ’’جو قومیں حصول علم میں پیچھے رہ جاتی ہیں ذلت خواری ان کا مقدر بن جاتی ہے‘‘۔ انگلینڈ سے واپس آکر سر سیدنے اپنے خیالا ت کے اظہار کے لئے رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ جار ی کیا اورتحقیقی اور تعلیمی کاموں میں مصروف ہوگئے۔ مختلف اسکیمیں بنائیں جن کامقصد نئے سائنسی علوم کو نوجوانوں تک پہنچانا تھا۔ یورپین علوم کی اہمیت جتانے کے لئے ضروری تھا کہ کچھ اہم علمی اور تاریخی کتابوں کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرکے انہیں شائع کیاجائے۔

اس مقصد کی خاطر سر سید نے ایک مضمون بعنوان ’’التماس بخدمت ساکنان ہندوستان در باب ترقی تعلیم اہل ہند‘‘۔ شائع کیا جس میں یہ تجویز رکھی کہ سائنسی علوم عام کرنے کی غرض سے ایک تنظیم قائم کی جائے جس کا مقصد اردو میں سائنسی لٹریچر شائع کرناہو۔ چنانچہ ۱۸۶۳ء؁ میں سائنٹفک سوسائٹی کے نام سے ایک تنظیم کا قیام عمل میں آیا، سرسید اس کے اعزازی سکریٹری مقرر ہوئے۔ شمالی ہندوستان میں یہ سوسائٹی اپنے قسم کی پہلی جماعت تھی جس نے پورے ملک میں سائنس کی اہمیت کا احساس لوگوں کودلایا۔ اس سوسائٹی کے زیراہتمام چند ہی سالوں میں کئی مفید کتابیں اردو میں ترجمہ ہوکر شائع ہوئیں جس سے ملت مغربی علوم سے روشناس ہوئی اور ان علوم کی بابت عام ذہنوں میں جو غلط تاثرات وہ بڑی حد تک دور ہوگئے۔

سوسائٹی کے تحت ایک ہفتہ وار گزٹ ۱۸۶۶ء؁ سے شائع ہوناشروع ہوا۔ اس گزٹ میں انگریزی اور اردودونوںہی زبانوں میں کالم لکھے جاتے۔ ان کالموں میںعوام کونقصان دہ تعصبات سے دور رہنے کی اپیلیں شائع ہوتیں اور مسلمانوں کونئی دنیا کے چیلنج کاسامنا کرنے کی تلقین دی جاتی۔ سائنٹفک سوسائٹی کے قیام کے  فوراً  بعد ہی سرسید کی مخالفت کی ایک منظم مہم سارے ملک میں شروع کر دی گئی۔ اخبارات اور رسالوں میں ان کے خلاف مضامین شائع ہونے لگے جن میں ان کو مرتد، ملحد، قوم کا عیب جو، ، اسلام کا دشمن اور زندیق جیسے ناموں سے نوازا گیا ۔سر سید ان بہتان تراشیوںسے چنداں مایوس نہ ہوئے بلکہ ان مخالفتوںکے بعد اپنے  عزائم میںکچھ زیادہ ہی قوت محسوس کرنے لگے۔ او رایک کالج کے قیام کی اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔ اکبر الٰہ آبادی یہ کہنےلگے

وہ بھلاکس کی بات مانے ہیں

بھائی سید تو کچھ دیوانے ہیں

سر سید  میںمسلمانوں کو سائنس سے روشناس کرنے کا جذبہ اور ان کو باوقار مقام دلانے کا عزم ایک جنونی کیفیت اختیار کر چکا تھا۔بحر حال انہوں نے ۱۸۷۵ء؁ میں ایک مدرسہ کی بنیاد علی گڑھ میں ڈال ہی دی۔ مدرسہ کی شکل میںنئی تعلیم کی یہ کرن بہت سے اندھیروں پرچھا گئی۔لیکن بھلا  ہو  ا ن  لوگوں  کا جنہوں نے  سر سید کے عمل  کو ایک سازش قرار داتے ہوے حکم نامہ جاری فرمایا کہ۔۔۔اس مدرسے کو مسمار کیا جائے اور اسکے بنانے والے نیز انکی مدد کرنے والوں کو خارج  از اسلام  سمجھا  جائے ۔۔۔ ایک دیگر حکم میںکہا گیا کہ۔۔۔ سر سید  جیسے شخص کے قایم کردہ  مدرسہ کی اعانت جائز نہیں۔۔۔ سر سید پر ان حکم نا موں کا چنداں اثر نہ ہوا اور آخر کار یہ مدرسہ ۱۸۷۷ء میں کالج بنا جس کااصل مقصد مسلمانوں میں سائنس کی تعلیم کو فروغ دینا تھا لیکن جس کے دروازے سارے ہندوستانیوں کے لئے کھلے تھے۔

سرسید کی نظر یہ سے ہندوستان جیسی دلہن کاحسن اسی وقت قائم رہ سکتا تھا جب کہ اس کی دونوں آنکھیں یعنی ہندو اور مسلمان،نور سے بھری ہوں، علی گڑھ کا یہ کالج مولانا ٓزاد کی سرپرستی میں ہندستانی مسلمانوں کی کاوشوں سے 1920 میں یونیورسٹی  بنا اور ساری دنیا میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے موسوم ہوا۔آج ہندوستانی معاشرہ میںاس کی اہمیت سب کو تسلیم ہے۔ سر سید احمدخاں نے بہتان تراشیوں اورملامتوں سے دل برداشتہ ہوکر اپنے مشن کوترک کر دیا ہوتا اورعلی گڑھ کالج کا قیام عمل میں نہ آیا ہوتا تو آج اس ملک کے مسلمان کتنے خسارہ میں رہتے۔ ہم سائنسی علم سے کتنا دور ہوتے اور ’’علم الانسان مالم یعلم‘‘کے مفہوم سے کتنانا واقف ہوتے۔

آ ج   سارے ملک میں اس بات کا  شور ہے کہ مسلمان تعلیم کے میدان میں اپنے ہموطنوں  سے   پیچہے   ہیں   ۔۔ اس  کمتری کی وجہ  تلاش کی جا رہی ہے۔۔بات بہت واضح ہے۔۔راجہ رام موہن رائے اپنے تعلیمی  مشن  میں  نہائیت  کامیاب رہے  جبکہ  سر  سید  کی  مخا لفت  نے  ان کے مشن کو اس  کامیابی  سے ہمکنار نہ ہونے دیا  جو ہونا چاہئے تھی۔بہرحال  آج  علیگ برادری ہی کیا  پوری ملت اسلامی کا فریضہ ہے کہ  وہ  سر سید کے  اس علمی مشن کو  وسعت  دیں جسکے کو وہ  ناقابل فرا موش وکیل تھے۔علم کے حصول کی اہمیت اور اسکی  وکالت کی  شدت  سے ضرورت جتنی  سر سید نے  اپنے دور میں  محصوس کی اسی  شدت کی ضرورت  آج بھی ہے  اور شائد شدید تر۔

فکر ِسرسید کے چند اہم نکات

1۔۔۔مسلمانوں کے مسائل کا اصل حل صرف علم وحکمت (سائنس اور ٹکنا لوجی) کے حصول میں ہی مضمر ہے۔ 

۲۔۔سارے انسان ایک کنبہ ہیں اور سارے انسانوں کی بہبود کے لئے کام کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔

۳۔۔قدیم اور فرسودہ رسم ورواج ترقی کی راہ میں حائل ہوتے ہیں، لہٰذا ان سے چھٹکارا ضروری ہے۔

 ۴ ۔۔ وقت کی ضرورت تقلید سے زیادہ اجتہاد کی ہے۔

۵۔۔ہمارے نوجوان یوروپ کے نوجوانوں سے سبق لیں، جو اپنے ملک کی صنعتی ترقی کے لئے جی جان سے کوشاں رہتے ہیں۔

۶۔۔ہندو اورمسلمان اس ملک کی دو آنکھیں ہیں، اور یہ ملک دلہن کے مانند ہے ، اگر ایک آنکھ بھی کمزور ہوئی تو دلہن کی خوبصورتی میں فرق پڑے گا۔

سر سید ۔  دانشوروں کی نظر میں

 ۱۔ـ   ” سر سید ایک زبردست مصلح تھے . وہ  مذہبی عقائد کو جدید سائنسی فکر سے ہم آہنگ کرنا چاہتے تھے ۔۔ منطقی طور پر. بنیادی عقائد پر کسی طرح کے غلط اثر سے گریز کرتے ہوئے۔. وہ نئی تعلیم کے فروغ کے لئے پریشان  رہتے۔. وہ فرقہ وارانہ علیحدگی پسند بالکل نہ تھے۔. انہوں نے زور دیا کہ مذہبی اختلافات کو سیاسی اور قومی مفادات سے دور رکھا جائے. "( پنڈت جوا ہر لال نہرو ۔ سابق وزیر اعظم ۔ ڈسکوری آف انڈیا)

۲۔ اپنے دور کے مطالبات کو پورا کرنے کے لئے سر سید کا مشن انتہائی قابل قدر تھا. 1857 کا دور سیاہ اندھیر ے کا دور تھا۔ بے پناہ مایوس کن۔ . راجہ موھن را ئے اور سر سید جیسے قوم پرست مستقبل کو محسوس کر سکتے تھے۔ . وہ مانتے تھے کہ ہمارا ماضی شاندار تھا۔ اس میں بڑی خوبیاں تھیں لیکن مستقبل سے نمٹنے کے لئے معاشرہ کو الگ سے تیار کرنا تھا۔. سر سید کومیں اپنا خراج تحسین پیش کرتا ہوں انکے نقطہ نظر اور جرات کے لئے کہ باوجود شدید مشکلات میں  انہوں نے ایک عظیم کام انجام دیا . (جناب  اندرر کمار گوجرال ۔ سابق وزیر اعظم۔۔ سر سید سائنسٹفک سوسائٹی۔ لکھنئو کے لئے پیغام۔ ۲۰۰۳ )

۳۔ سر سید چاہتے تھے کہ  کالج پرانی اور نئی قدروںکے درمیان ایک پل کے طور پر کام کرے. مشرقی اور مغرب کے درمیان بھی. انہوں نے جدید اور سائنسی تعلیم کی ضرورت پر زور دیا. انہوں نے کالج کے طالب علموں کو سائنسی فکر کی تبلیغ کے لئے نصیحت کی  ۔ اخلاقیات کے لئے بھی (جناب سومناتھ چٹرجی۔ سابق اسپیکر لوک سبھا)