”کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے“،نوح کے مسلمانوں میں خوف کا ماحول
نوح میں ایک ہوٹل کے مالک عبدالوہاب کا کہنا ہے کہ حکومت کو ان فرقہ وارانہ مطالبات کو یکسر مسترد کر دینا چاہئے۔ ایسی فرقہ وارانہ چیزوں کی ہمارے ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

نئی دہلی: ہریانہ کے نوح علاقے میں تشدد سے متاثرہ مسلمان باشندے، ہندو مہاپنچایت کے مطالبات پر منقسم ہیں جنہوں نے مسلم اکثریتی نوح کو ہریانہ کے دیگر اضلاع کے ساتھ ضم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اتوار کے روز ہندو مہاپنچایت کی قیادت میں کئی دائیں بازو کے گروپوں اور گاؤں کی پنچایتوں نے حکومت کے سامنے کئی سخت مطالبات رکھے تھے۔ہریانہ کھاپس، مذہبی رہنماؤں اور ہندو تنظیموں نے پلوال مہاپنچایت میں مطالبہ کیا ہے کہ مسلم اکثریتی ضلع نوح کو ہریانہ کے دیگر اضلاع کے ساتھ ضم کیا جائے۔
انہوں نے اپنے دفاع کے لئے نوح میں رہنے والے ہندوؤں کے لئے اسلحہ لائسنس بھی مانگے تھے۔ تاہم نوح میں رہنے والے مسلمان ان مطالبات پر منقسم ہیں اور انہوں نے ہندو مہاپنچایت کے مطالبات پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
نوح میں ایک ہوٹل کے مالک عبدالوہاب کا کہنا ہے کہ حکومت کو ان فرقہ وارانہ مطالبات کو یکسر مسترد کر دینا چاہئے۔ ایسی فرقہ وارانہ چیزوں کی ہمارے ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
تاہم نصیب سنگھ نے جو کہ نوح میں گروسری کی دکان چلاتے ہیں، کہا کہ ان کا مطالبہ بالکل جائز ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ مطالبات مکمل طور پر جائز ہیں۔ ان جھڑپوں سے پہلے بھی ہم اپنی حفاظت کے بارے میں بہت زیادہ پریشان تھے۔
اگر حکومت ان مطالبات کو پورا کرنے پر راضی ہو جائے تو ہماری زندگی آسان ہو جائے گی۔ایک 32 سالہ مائیگرنٹ ورکر عمران نے کہا کہ پچھلے ہفتے جو کچھ ہوتا دیکھا اس کے بعد وہ کبھی گروگرام واپس نہیں آئے گا۔عمران کا کہنا ہے کہ وہ میں ہندوؤں کے درمیان رہنے کے لئے کبھی واپس نہیں آئے گا۔
اس نے اپنے چھوٹے ٹرک میں اپنا سامان لادنے کے دوران یہ بات کہی۔ وہ بہار میں اپنے آبائی گاؤں واپس جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ ایک اور مائیگرنٹ ورکرعالم حسین نے کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم اب ختم نہیں ہو سکتی۔ میں نے مسلمانوں کو اس وقت جتنا بے چین دیکھا ہے اتنا کبھی نہیں دیکھا۔ میں اس احساس میں رہتا ہوں کہ ہمارے ساتھ کسی بھی وقت کچھ برا ہوسکتا ہے۔