مضامین

اقوامِ متحدہ، جنگ بندی میں ناکام کیوں؟

منور مرزا

جب بھی عالمی یا علاقائی سطح پر کوئی فوجی تصادم ہوتا ہے، تو دنیا کی نظریں اقوامِ متحدہ کی جانب اْٹھتی ہیں کہ وہ جنگ رکوانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ یہی صْورتِ حال اِس وقت ہے۔یہ سطور لکھے جانے تک حماس، اسرائیل جنگ اپنے عروج پر ہے اور غزہ میں جس طرح قتلِ عام ہو رہا ہے، اس پر انسانیت رو رہی ہے۔اس سفاکیت و بربریت کی ہر مْلک میں مذمّت کی جارہی ہے، لیکن اس کے باوجود جنگ رْک نہیں رہی۔
مغربی طاقتیں،خاص طور پر امریکہ اور یوروپ علی الاعلان اسرائیل کے ساتھ ہیں،جب کہ روس اور چین اسرائیلی جارحیت کی مذمّت تو کر رہے ہیں، لیکن ظلم و سفاکیت رکوانے میں وہ بھی ناکام ہیں۔ صدر پوٹن جیسے مردِ آہن کی تمام تر ڈپلومیسی غزہ کے بے بس عوام کی داد رَسی میں ناکام ہے۔چین، مال کی عالمی فیکٹری ہے، سعودی، ایران معاہدے کا ثالث ہے، مگر وہ بھی سخت بیانات سے زیادہ کچھ نہ کرسکا۔آخر ایسی کیا مجبوری ہے کہ غزہ میں لوگ کھانے، پانی تک کو ترس رہے ہیں اور ان طاقتوں کی ڈپلومیسی باتوں سے آگے نہیں بڑھ پا رہی۔
اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ حماس نے7 اکتوبر کو پانچ ہزار راکٹوں کے حملے اور زمینی کارروائی سے اسرائیل کو حیرت زدہ کر دیا اور اْسے زبردست نقصان پہنچایا، لیکن اس کے بعد جو کچھ ایک مہینے سے غزہ کے معصوم بچّوں، عورتوں، بوڑھوں کے ساتھ ہو رہا ہے، اْسے روکنے والا کوئی نہیں۔بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حماس کی کارروائی پچاس سال کی گْھٹن کا نتیجہ ہے، بہت سوں کا تبصرہ ہے کہ اس کا مقصد عرب،اسرائیل تعلقات میں بڑھتی پیش رفت کا دروازہ بند کرنا تھا۔
حماس کی یہ تو کام یابی ہے کہ ایک مرتبہ پھر فلسطین کا مسئلہ دنیا کے سامنے آگیا، لیکن جہاں تک عرب، اسرائیل تعلقات کی بات ہے، تو اِس ضمن میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔کوئی کہتا ہے کہ حالیہ جنگ سے ایران کو فائدہ ہوگا، کوئی اسے سعودی عرب کے لیے نقصان کا باعث بتاتا ہے، کئی ایک اسے چین کی ثالثی کی ناکامی قرار دیتے ہیں۔اقوامِ متحدہ، خاص طور پر سلامتی کونسل ایک بار پھر مرکزِ نگاہ ہے کہ دیکھیں وہ کس طرح سیز فائر میں کام یاب ہوتی ہے۔اہم سوال یہ ہے کہ جب بڑی اور علاقائی طاقتیں بیانات تو روز دیتی ہیں، لیکن اپنے مفادت پر کمپرومائز کرنے کو تیار نہیں، تو ایسے میں کسی ایک قرار داد پر متفّق کیسے ہوں گی۔
اِس وقت اہلِ غزہ کی دیگر ممالک کی شہریت رکھنے والوں کا مصر کے راستے انخلا اور اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام خوراک، ادویہ اور دوسری امداد کی فراہمی کی صْورت، ذرا سی اشک شوئی ہوئی ہے، لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ جنگ سے پہلے بھی وہ محاصرے میں تھے اور اب بھی یہی صْورتِ حال ہے۔کیا اب وقت نہیں آگیا کہ فلسطین کے باشندوں کو بھی وہ آزادی اور مواقع فراہم کیے جائیں، جو دنیا کے باقی انسانوں کو حاصل ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا اقوامِ متحدہ سیز فائر کے ساتھ مسئلہ فلسطین کا پائیدار حل تلاش کرنے میں کام یاب ہوگی کہ یہ اس کے لیے اصل چیلنج ہے اور یہ مسلم دنیا اور عالمی طاقتوں کی ذمّے داری بھی ہے۔
اقوامِ متحدہ کا ادارہ دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد1945 ء میں قائم کیا گیا۔اْس جنگ میں ایک کروڑ کے قریب افراد ہلاک اور دس کروڑ سے زاید بے گھر ہوئے۔اس میں ہونے والی تباہی و بربادی نے دنیا کو حقیقی معنوں میں کھنڈر بنا دیا۔ترقّی کا تصوّر تک محال ہوگیا تھا۔ایسی مایوس کْن فضا میں اقوامِ متحدہ کا وجود عمل میں آیا۔اس کے قیام کا مقصد جہاں جنگوں کا خاتمہ تھا، وہیں ذیلی اداروں کا ایک ایسا نیٹ ورک تیار کرنا بھی تھا، جو بلا تشخیص ہر مْلک میں انسانی المیوں سے نمٹ سکے۔
اقوامِ متحدہ کے اِس وقت193رْکن ممالک ہیں اور اس کا ہیڈ کوارٹر نیویارک میں ہے۔اس میں چین جیسا ڈیڑھ ارب آبادی والا مْلک بھی شامل ہے، تو پندرہ لاکھ آبادی پر مشتمل سسلی جیسا چھوٹا جزیرہ بھی اس کا حصّہ ہے۔جنرل اسمبلی میں تمام ممالک کے ووٹ برابر ہیں، جہاں ہر سال ستمبر کے تیسرے ہفتے ہر مْلک کے سربراہ کو خطاب کے ذریعے اپنی شکایات یا ترجیحات بیان کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کا سب سے اہم ادارہ سلامتی کونسل ہے۔
یہ درحقیقت کرائسسز مینجمنٹ یعنی ہنگامی یا جنگی صْورتِ حال سے نمٹنے کا ادارہ ہے۔ جہاں کہیں ہنگامی صْورتِ حال پیش آئے، وہاں یہ کونسل متحرک ہو جاتی ہے۔یہ پندرہ ارکان پر مشتمل ہے، جن میں سے دس علاقائی نمائندگی کے فارمولے کے تحت منتخب کیے جاتے ہیں، جب کہ امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس اور روس اس کے مستقل ارکان ہیں۔ان مستقل ارکان کو ویٹو پاور حاصل ہے، یعنی اگر وہ کسی بھی تجویز سے اتفاق نہ کریں، تو وہ معاملہ ایجنڈے سے خارج ہوجاتا ہے۔
اسے ویٹو کا استعمال کہا جاتا ہے، جیسے حال ہی میں حماس،اسرائیل تصادم میں امریکہ نے تیسرے دن پیش ہونے والی برازیل کی قرار داد ویٹو کردی۔ برازیل نے سیز فائر کی قرار داد پیش کی تھی، لیکن امریکہ نے اسے قابلِ غور نہ سمجھا۔پھر برازیل اور پولینڈ نے مل کر قرارداد پیش کی، مگر اْسے بھی امریکہ نے ویٹو کردیا کہ یہ قرارداد حماس کو جارح قرار نہیں دیتی۔ دوسرے الفاظ میں، اِن پانچوں ویٹو پاورز میں جنگ رکوانے کے معاملے پر(تادمِ تحریر) اتفاق نہیں ہوسکا۔ یہ سب ہی اسرائیل کے اچھے دوست اور تجارتی شراکت دار ہیں۔ سب کا ماضی اور حال میں مشرقِ وسطیٰ میں عمل دخل رہا ہے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ذیلی اداروں کے تحت بہرحال غزہ کے بے بس شہریوں کے لیے انسانی بنیادوں پر ناکافی امداد جانا شروع ہوئی، جس میں ویٹو پاورز اور دوسرے ممالک کی رضامندی شامل ہے۔ جب تصادم نہیں رْکتا، بے گناہ عام افراد جان سے ہاتھ دھو رہے ہوں اور سلامتی کونسل میں ویٹو، ویٹو کا کھیل کھیلا جا رہا ہو، تو دنیا چیخ اْٹھتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ جنگ روکی جائے۔ سویلینز کو نہ مارا جائے کہ اْن کا خون ریزی سے کچھ لینا دینا نہیں۔جیسا کہ غزہ کے معصوم شہریوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔
اگر اعداد و شمار دیکھیں تو اب تک سب سے زیادہ، یعنی تقریباً 153 بار، ویٹو کا استعمال روس نے کیا ہے، جب کہ امریکا 88 مرتبہ اسے استعمال کر چْکا ہے۔ افریقا سے لے کر لاطینی امریکا تک فوجی تصادم ہوتے رہے ہیں اور ان معاملات پر ویٹو پاور کا بھی استعمال ہوا، لیکن ہماری اْن معاملات میں کم ہی دل چسپی رہی، کیوں کہ ان کا تعلق براہِ راست ہمارے خطّے یا مسلم ممالک سے نہیں تھا۔اس کی تازہ مثال یوکرین جنگ ہے، جس کی شروعات روس کے حملے سے ہوئی۔اس نے یوکرین کو کھنڈر بنا دیا۔
ہزاروں شہری ہلاک اور بے گھر ہوئے۔ دنیا منہگائی میں جھونک دی گئی، لیکن ایک سال، آٹھ ماہ گزرنے کے بعد بھی جنگ بندی کے آثار دِکھائی نہیں دیتے۔ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کون ویٹو استعمال کر رہا ہے۔ انسانی ہم دردی کیا کہتی ہے، سب کو معلوم ہے، مگر سلامتی کاوٓنسل کی ناکامی یہ ہے کہ اس کے مستقل ارکان اپنے مفادات کو امن اور سیز فائر پر فوقیت دیتے ہیں۔
اسرائیل کے حق میں سب سے زیادہ ویٹو پاور امریکا نے استعمال کی اور نتیجہ اْس کی برتری کی شکل میں نکلا، لیکن روس نے بھی کمی نہیں کی۔ شام کی حالیہ خانہ جنگی میں اس نے کم ازکم پانچ بار ویٹو کا حق استعمال کیا۔اْس نے شام کے بے بس مسلم شہریوں پر بم باری کی، حلب شہر ایک سال تک محاصرے میں رہا اور جب محصورین آزاد ہوئے، تو وہ درختوں کی جڑیں کھا رہے تھے۔
اس خانہ جنگی میں پانچ لاکھ افراد ہلاک اور ساٹھ لاکھ سے زاید بے گھر ہوئے، تیس لاکھ تو تْرکیہ کی سرحد پر پڑے ہیں۔افسوس کہ مسلم ممالک نہ اْن کے لیے کچھ کرسکے اور نہ ہی غزہ کے بے بس، معصوم شہریوں کے لیے۔آج بشار الاسد فاتح بھی ہے اور سب کے لیے قابلِ قبول بھی۔بہرکیف، جب تک ویٹو پاورز یا بڑی طاقتوں کے مفادات محفوظ نہ ہوں یا یوں کہہ لیں کہ ان کا کسی معاملے پر اتفاقِ رائے نہ ہو، اْس وقت تک فوجوں کی پیش قدمی روکنا ممکن نہیں۔
جب1965ء میں یاسر عرفات نے ”محاذِ آزادی“ کی بنیاد رکھی، اْس وقت عالمی سوچ اور صْورتِ حال آج سے بہت مختلف تھی۔نوآبادیاتی نظام کے خلاف نفرت ختم نہیں ہوئی تھی، اِس لیے جنگِ آزادی کو بہت پذیرائی ملتی تھی۔انقلابی لیڈر، انقلابی دانش وَر یا باغی شاعر ہونا ایک اعزاز سمجھا جاتا تھا اور نوجوان ایسے افراد کے دیوانے بنے پِھرتے تھے۔کیوبا کے کاسترو اْن کے ہیرو تھے اور اْن کی مخصوص جیکٹ انقلاب کی علامت تصوّر کی جاتی تھی۔ویت نام کی جدوجہدِ آزادی جاری تھی اور ہر طرف اْس کی حمایت تھی۔ خود امریکی عوام اور مغرب میں لوگ ویت نامیوں کی مزاحمت اور جنگ کی طوالت سے تنگ آچْکے تھے۔ اِسی طرح یاسر عرفات کو بھی ہیرو کا مقام حاصل رہا، جب اْنہوں نے اقوامِ متحدہ میں امن کی علامت کے طور پر زیتون کی شاخ لہرائی، تو اْنہیں بہت سراہا گیا۔افغانستان میں پہلی جنگِ آزادی کو بھی زبردست پذیرائی ملی، روس کو غاصب کہا گیا، مجاہدین پر ہالی وڈ کی فلمز بنیں۔مسلم دنیا، مغرب اور چین تک نے اْن کی حمایت کی۔
اْس وقت اقوامِ متحدہ کا کردار خاصا موثر تھا، گو کہ کسی بھی تصادم کا حل تو ملوّث فریقین ہی نکالتے، لیکن اقوامِ متحدہ اپنی قراردادوں کے ذریعے ان کے نفاذ کا میکنزم فراہم کرتی، اْس کی امن افواج صْورتِ حال کی بہتری میں کردار ادا کرتیں۔جنگ سے تباہ حال ممالک کی تعمیر و ترقّی میں مدد کی جاتی۔لیکن نائن الیون کے بعد حالات اور عالمی سوچ میں یک سر تبدیلی آگئی۔اب آزادی کی جنگ لڑنے والے دہشت گرد قرار پائے۔
جنگ جْو گروپس، جن پر بڑی طاقتوں کی پراکسی کا الزام ہے، کہیں بھی قابلِ قبول نہیں رہے۔یہ ملیشیا تنظیمیں اور اْن کے لیڈر اب اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کی زَد میں ہیں اور اس موقف پر روس، چین، امریکہ سب ہی متفّق ہیں۔ کئی ایک کو اقوامِ متحدہ نے باقاعدہ دہشت گرد گروہ قرار دیا ہے، لیکن جن ممالک کے اْن سے مفادات وابستہ ہیں، وہ اب بھی اْن کی پْشت پناہی کرتے ہیں۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اب دنیا بدل چْکی ہے، جس میں چین اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کا اہم کردار ہے۔اِنہوں نے اپنی محنت اور ٹیکنالوجی سے بلند معیارِ زندگی چھوٹے ممالک تک پہنچا دیا۔چین نے سستا مال دنیا کے ہر کونے میں پہنچا کر معاشی برتری کو جنگی برتری پر غالب کردیا۔اب جو بھی مْلک آگے بڑھنا چاہتا ہے، اسے یہی معاشی فلسفہ اپنانا پڑے گا۔اب مسلّح انقلاب کی بجائے معاشی انقلاب ہی کام یاب ہوں گے۔ آج انقلابی لیڈر وہ ہے، جو اپنے مْلک یا علاقے میں معاشی ترقّی کا ذریعہ بنے۔چین کی قیادت نے یہی کارنامہ سرانجام دے کر مغربی اجارہ داری ختم کردی۔مسلم دنیا کو بھی یہ بات اچھی طرح سمجھنی ہوگی اور مسلم دنیا میں اس کی مثالیں موجود بھی ہیں۔قطر کی مقامی آبادی ہندوستان اور پاکستانی اقامہ ہولڈرز سے کم ہے، وہاں تیل کے ذخائر بھی زیادہ نہیں اور گیس بھی مناسب مقدار میں ہے، مگر اس کی معاشی ویژن کی حامل قیادت نے قطر کو عالمی ثالث کے مقام پر فائز کردیا ہے۔ اس کا افغانستان میں کردار ہمارے سامنے ہے۔حماس، اسرائیل تصادم میں بھی قطر اہم ترین ثالث ہے۔ایران، سعودی عرب بھی اس کی کاوشوں سے قریب آئے۔پھر یہ کہ قطر نے فْٹ بال کا عالمی میلہ اس خوب صْورتی سے سجایا کہ بڑے بڑے ممالک دنگ رہ گئے۔باقی مسلم دنیا کو بھی ایسے ہی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ماضی سے باہر نکل کر باہمی تنازعات کا پائے دار حل تلاش کرنا ہو گا، جو انہیں دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کا موقع فراہم کرے۔
وہ معاشی طور پر اِتنے طاقت وَر ہو جائیں کہ کوئی اْن کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ کرسکے۔جس زمانے میں جو ہتھیار کارآمد ہے، اْسے ہی اپنانا چاہیے اور آج کا ہتھیار معیشت ہے۔حماس، اسرائیل جنگ پر دنیا بھر کی احتجاجی ریلیاں اِس امر کا ثبوت ہے کہ عالمی طور پر فلسطینیوں کو زبردست ہم دردی حاصل ہے۔ سب ان کے لیے ایک الگ وطن پر متفّق ہیں۔ہر شخص معصوم لوگوں کے قتلِ عام اور بچّوں پر ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہا ہے۔
تاہم، یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ فلسطینیوں کو روس، چین اور دیگر ممالک کی جانب سے ہم دردی کے بیانات سے ہٹ کر بھی کوئی مدد مل رہی ہے یا نہیں۔اِس ضمن میں اقوامِ متحدہ کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے کہ جب فلسطینیوں کے ایک الگ وطن سے متعلق اْس کی قرار داد موجود ہے، تو پھر اْس پر عمل درآمد کی ذمّے داری بھی اْسی کی ہے۔ایسا سازگار ماحول بنایا جائے، جس میں فلسطینیوں کی بے گھری ختم ہو، اْنھیں اْن کا جائز حق ملے اور اْن کے لیے بھی دوسری اقوام کی طرح ترقّی کے راستے کْھلیں۔