مذہب

میلاد النبی ﷺ کی برکتیں

حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت ۱۲ ربیع الاول کو ہوئی اس لئے یہ مبارک دن تمام خوشیوں اور مسرتوں سے بڑھ کر ہے۔ رب کائنات کے محبوبؐ کی آمد کے دن سے بڑھ کر کئنات میں کوئی دن اتنا عظیم اور پر مسرت ہو نہیں سکتا۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی مجددی قادری
(شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ)

حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت ۱۲ ربیع الاول کو ہوئی اس لئے یہ مبارک دن تمام خوشیوں اور مسرتوں سے بڑھ کر ہے۔ رب کائنات کے محبوبؐ کی آمد کے دن سے بڑھ کر کئنات میں کوئی دن اتنا عظیم اور پر مسرت ہو نہیں سکتا۔ جملہ خوشیاں اور مسرتیں اسی دن کا صدقہ ہیں، تمام اہل اسلام فرحت ومسرت سے سرشاں ہیں، ہر طرف خوشیوں کا سماں ہے، مسلمانوں کے دل خوشی سے باغ باغ ہیں، عاشقانِ رسول کے گھر خوشیوں سے معمور ہیں۔ ہر مومن کی زبان پر محبت مصطفی وعظمت مرتضیٰ کے نغمے ہیں۔ منبر ومحراب، خانقاہوں ومدارس میں نعتِ نبیؐ کی محفلیں سجی ہوئی ہیں۔

اسی مناسبت سے بانی جامعہ نظامیہ شیخ الاسلام عارف باللہ امام محمد انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمۃ نے اپنی کتاب مقاصد الاسلام میں میلاد النبی کی شرعی حیثیت اور اسکے جواز وفوائد سے متعلق جو دلنشین تحریر سپرد ِ قلم فرمائی ہے اسکے چند اقتباسات ذکر کرنا مناسب ہوگا، شیخ الاسلام بانی ؒجامعہ نظامیہ لکھتے ہیں: حضورؐ کی میلاد پر ایک کافر نے خوشی کا اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے عذاب میں تخفیف کی۔ کنز العمال وغیرہ میں مذکور ہے کہ ابولہب کو جب ثویبہ نے جو اس کی کنیز تھی خبر دی کہ تمہارے بھائی عبداللہ رضی اللہ عنہ کو لڑکا ہوا، ابولہب کو اس خبرسے نہایت خوشی ہوئی اور اس خوشخبری کے صلہ میں باندی کو آزاد کردیا۔

ابولہب کے مرنے کے بعد کسی نے اس کو خواب میں دیکھا اور حال دریافت کیا تو اس نے اپنے عذاب میں مبتلا ہونے کا حال بیان کر کے کہا کہ ہر دوشنبہ کی رات اس خوشی کے صلہ میں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا ہونے پر ہوئی تھی مجھ سے عذاب کی تخفیف ہو جاتی ہے اور میری انگلیوں سے پانی نکلتا ہے جس کو چوسنے سے مجھے تسکین ہوتی ہے۔ دیکھئے جب ایسا ازلی شقی جس کی مذمت میں ایک کامل سورہ تبت یدا نازل ہوئی میلاد شریف پر مسرت ظاہر کرنے کی وجہ سے ایک خاص قسم کی رحمت کا مستحق ہوا اور وہ بھی کہاں عین دوزخ میں تو خیال کیا جائے کہ حضرت ؐکے امتیوں کو اس اظہار مسرت کے صلہ میں کیسی کیسی سرفراز یاں ہوں گی۔

اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپؐ کی ولادت شریفہ ایک معین ’پیرکے روز ‘ہوئی لیکن اس کا اثر ہر پیر میں جاری ہے، اس لحاظ سے اگر ہر پیر اظہار خوشی کے لئے خاص کیا جائے تو بے موقع اور بے محل نہ ہوگا۔ لیکن کم سے کم سال میں ایک بار تو اظہار خوشی ہونا چاہئے اسی وجہ سے حرمین شریفین میں ایک زمانہ تک بارہویں شریف نہایت اہتمام سے منائی جاتی رہی، یہاں تک کہ اس روز دیگر عیدوں کی طرح خطبہ پڑھا جاتا رہا اور تمام مسلمان خوشیاں مناتے رہے، خصوصاً مدینہ طیبہ میں دور دور سے قافلے پر قافلے چلے آتے رہے اور مراسم عید ادا کئے جاتے رہے، اور مکہ معظمہ میں ایک خاص بات قابل دید یہ ہے کہ ہر فرقے کے لوگ مسجد حرام سے قبہ مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جوق در جوق بڑے اہتمام کے ساتھ جاتے رہے اور وہاں مولود شریف پڑھ کر شیرنی وغیرہ تقسیم کرتے رہے۔

شیخ نجم الدین غیطی ؒ نے رسالہ مولود شریف میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت ؐ کی ولادت اور ابتدائے نبوت اور ہجرت اور مدینہ شریف میں داخل ہونا اور وفات شریف یہ سب امور دوشنبہ کے روز واقع ہوئے حضرتؐ کے معاملات میں یہ ایسا روز ہے جیسے آدم علیہ السلام کے حق میں جمعہ کا دن تھا، ان کی پیدائش، زمین پر اترنا، توبہ کاقبول ہونا اور وفات سب جمعہ کے دن ہوئے۔ اس وجہ سے ایک گھڑی جمعہ میں ایسی ہے کہ جو دعا ء اس میں کی جائے قبول ہوتی ہے تو خیال کرو کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی گھڑی میں اگر دعا قبول ہوتو کونسی تعجب کی بات ہوگی۔

علماء نے اختلاف کیا ہے کہ میلاد شریف کی رات افضل ہے یا شب قدر؟ جن حضرات نے میلاد شریف کی رات کو افضل کہا ہے ان کے دلائل یہ ہیں کہ لیلۃ القدر کی فضیلت اس وجہ سے ہے کہ ملائکہ اس میں اترتے ہیں، جیسا کہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیْہَا اور شب میلاد میں سید الملائکہ والمرسلین صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا نزول اس عالم میں ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ فضیلت شب قدر میں نہیں آسکتی۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ شب قدر حضرتؐ کو دی گئی اور شب میلاد میں خود حضرت ؐ کا ظہور ہوا جن کی وجہ سے شب قدر کو فضیلت حاصل ہوئی اور ظاہر ہے کہ جو چیز ذات سے متعلق ہو وہ عطائی چیز کے مقابلے میں افضل ہوگی۔تیسری وجہ یہ ہے شب قدر کی فضیلت صرف حضرت ؐ کی امت سے متعلق ہے اور وں کو اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اور شب میلاد تمام موجودات کے حق میں نعمت ہے اسلئے کہ اس میں رحمۃ للعالمین ؐ کا ظہور ہے جو کل موجودات کے حق میں نعمت عظمیٰ ہیں۔ یہ بات دوسری ہے کہ جس طرح ابولہب کے حق میں ہر دوشنبہ کی رات میں برکت پلٹ کر آتی ہے ہر دوشنبہ کی رات یا ہر تاریخ ولادت کی رات میں وہ فضیلت مکرر ہوتی ہے یا نہیں۔ مگر اس میں شک نہیں کہ نفس شب قدر سے شب میلاد افضل ہے۔

حضرت بانی ؒجامعہ نظامیہ نے جوازِمیلاد پر دلائل ذکر کیے وہ یہ ہیں: حضرت نجم الدین غیطی ؒ نے شیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی ؒ کا قول نقل کیا ہے کہ ہر سال مولود شریف معین روز میں کرنے کی اصل بخاری اور مسلم کی روایت سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جب نبی کریم ؐ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لئے گئے تو دیکھا کہ یہود عاشورہ کے دن روزہ رکھا کرتے ہیں۔ اس کی وجہ ان سے دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ یہ وہ دن ہے کہ اس میں خدائے تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی۔ آپؐ نے فرمایا: نحن احق بموسیٰ منکم یعنی ہم تم سے زیادہ اسکے مستحق ہیں۔ چنانچہ آپؐ نے بھی اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس کا حکم فرمایا۔ اس سے ظاہر ہے کہ جب کوئی اعلیٰ درجہ کی نعمت مخصوص دن میں حاصل ہوئی ہوتو شکرانہ کے طور پر اس دن خوشی کا اظہار کرنامسنون ہے اور چونکہ کوئی نعمت رحمۃللعالمین ؐ کی ولادت باسعادت سے افضل نہیں ہوسکتی اس لئے بہتر ہے کہ شکرانہ کے طور پر صدقات وخیرات اور کھانا کھلانا، درود وسلام، نعت مصطفی، محافل میلاد وغیرہ کا اہتمام کرناچاہئے۔

حضرت بانی ؒجامعہ نظامیہ نے لکھا ہے کہ حضورؐ نے آپ ؐ کا عقیقہ کئے جانے کے باوجود دوبارہ خود دنبہ ذبح کرکے خوشی کا اظہار کیا ہے:ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ عسقلانی ؒ سے پیشتر حافظ ابن رجب حنبلی ؒ نے بھی اس کے قریب قریب جو ازمیلاد پردلیل پیش کی ہے۔ امام سیوطیؒ نے لکھا ہے کہ دوسری اصل میلاد شریف کی یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بنفس نفیس اپنا عقیقہ فرمایا باوجود یکہ روایات سے ثابت ہے کہ آپؐ کے جدامجد عبد المطلب نے ساتویں روز آپؐ کا عقیقہ کیا تھا۔ اور یہ بھی ثابت ہے کہ عقیقہ دوبارہ نہیں کیاجاتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرتؐ کو اس دوبارہ عقیقہ کرکے یہ بتلانا مقصود منظور تھا کہ اعلیٰ درجہ کی نعمت پر اگر دوبارہ شکر اداکیا جائے تو بہتر ہوگا۔

اس لئے میلاد شریف کے روز اظہار شکر میں کھانا کھلانا اور اظہار مسرت کرنا مستحب ہے(انتہیٰ)۔ رسالہ النعمۃ الکبریٰ علی العالم بمولدسید ولد آدمؐ میں حافظ ابن حجر مکی ؒ نے ابن جزریؒ کا قول نقل کیا ہے کہ مولد شریف کی اصل خود آنحضرت ؐ سے منقول ہے۔ مولد کی فضیلت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس میں ارغامِ شیطان (شیطان کو ذلیل کرنا) اور سرورِ اہل ایمان ہے (انتہیٰ)۔ آپ نے دیکھ لیا کہ ان علماء کے اقوال سے اس کا مسنون اور مستحب ہونا ثابت ہو گیا۔ شیخ الاسلام عسقلانیؒ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ حضور نبی کریم ؐ خود ہی شکرانہ کے طور پر ہمیشہ پیر کے دن روزہ رکھا کرتے تھے اور اس کی وجہ آپ ؐ سے دریافت کی گئی کہ آپؐ دوشنبہ کا روزہ کیوں رکھا کرتے ہیں؟ فرمایا کہ وہ میری ولادت کا روز ہے اور اس روز مجھ پر قرآن نازل ہوا(انتہیٰ)۔

اب غور کیجئے کہ جب خود ہمیشہ پیدائش کے دن شکرانہ کا روزہ رکھا کرتے تھے تو ہم لوگوں کو کس قدر اس کا شکرادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلئے کہ حضرتؐ کا وجود باجود ہم لوگوں کے حق میں نعمت عظمیٰ ہے اور اگر یہی لحاظ ہوتا کہ اپنی ولادت کا شکریہ ضرور تھا تو فرمادیتے کہ ہر شخص اپنی ولادت کے روز شکریہ کا روزہ رکھا کرے، حالانکہ کسی روایت میں یہ وارد نہیں ہوا۔ اس سے ظاہر ہے کہ اس میں عمومی نعمت کا لحاظ تھا اور اس سے صرف امت کو تعلیم دینا مقصود تھا کہ اس نعمت عظمیٰ کا شکریہ ہر ہفتہ میں ادا کیا جائے۔

مرقاہ شرح مشکوۃ میں ملاعلی قاریؒ نے طیبیؒ کا قول نقل کیا ہے کہ جس روز نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا وجود اس عالم میں ہوا اور کتاب عنایت ہوئی تو روزہ کے لئے اس روزسے بہتر کونسا روز ہوسکتا ہے۔ غرضکہ اس سے تکرار زمانے میں گواعادہ معدوم نہیں مگر ابتدائی فضیلت اس میں ضرور ملحوظ ہوتی ہے۔ دیکھئے حضرت اسماعیل ؑ جب ذبح ہونے سے بچائے گئے جس کی وجہ سے حضرت ابراہیمؑ واسماعیل ؑ کو خوشی ہوئی ہر سال اس خوشی کا اعادہ ہوتا ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا ہو کہ اس دن عید ہوتی ہے اور اس واقعہ کے پیش نظر ہوجانے کیلئے جس قسم کے افعال وحرکات ان حضرات اور حضرت بی بی ہاجرہ ؓ سے صادر ہوئے اسی قسم کے افعال وحرکات کا ہم لوگوں کو حج میں حکم ہے۔ چنانچہ حضرت ہاجرہ ؓ نے پانی کی تلاش میں صفا ومروہ کے درمیان سات چکر لگائے تھے، ہم کو بھی حکم ہے کہ اس وسیع میدان میں سات چکر لگائیں۔ میلین اخضرین کے مقام میں وہ دوڑی تھیں، ہمیں بھی وہاں دوڑنے کا حکم ہے، اسی طرح اور بہت سے افعال ہیں جن سے وہ اصلی واقعہ پیش نظر ہوجاتا ہے۔

پھر ان حضرات نے میلادِ مصطفی کی خوشی سے بڑے بڑے فائدے بھی حاصل کئے۔ چنانچہ نجم الدین غیطیؒ اور ابن حجر مکیؒ نے امام شمس الدین جزریؒ کا قول نقل کیا کہ مولد شریف کی خاصیت یہ ہے کہ جس سال وہ محفل کی جاتی ہے، اس سال بلائوں سے حفاظت ہوتی ہے اور یہ فقط خوش اعتقادی کی بات ہی نہیں بلکہ اس کا تجربہ بھی کئی بار کیا جاچکا ہے۔ الحاصل محفل میلاد میں کئی مصلحتیں ان حضرات کے پیش نظر تھیں اور مصالح کا لحاظ کرنا شرعاً پسندیدہ اور مسنون ہے۔

فتح الباری میں یہ بھی لکھا ہے کہ کعبہ شریف کو جوغلاف پہنایا جاتا ہے اس کے جواز پر اجماع ہوگیا ہے اور لکھا ہے قاضی زین الدین عبدالباسط نے بحسب حکم شاہی ایک ایسا بہترین غلاف خانہ کعبہ کے لئے تیار کیا کہ اس کی عمدگی بیان کرنے سے زبان قاصر ہے اور ان کے اس عمل کو دادِ تحسین دیکر یہ دعائیں دیں کہ بسط اللہ تعالیٰ فی رزقہ وعملہ وجزاہ اللہ عن ذلک احسن المجازاۃ دیکھئے اس میں شوکت اسلام ملحوظ ہے ورنہ پہلے تو گھر کو غلاف پہنا نا کوئی ضروری بات نہیں اور اگر کسی قسم کی ضرورت ہے بھی تو بیش قیمت ریشمی غلاف کی ضرورت نہیں جس کے جواز پر اجماع ہوگیا ہے اور غلاف خانہ کعبہ تو حضرت ؐ کے زمانہ میں موجود تھا۔

خلاصۃ الوفاباخباردار المصطفیٰ میں لکھا ہے کہ حضرت عثمانؓ نے مسجد نبویؐ کی تعمیر ازسر نو نہایت پُر تکلف انداز سے کی چنانچہ دیواروں کے پتھروں میں نقش ونگار کیا گیا اور ستون کے پتھر بھی نقشی پر کار تھے، چھت ساگوان کا بنوایا گیا جو اس زمانے کی انتہائی قیمتی لکڑی تھی اور ممبر شریف پر غلاف پہلے آپ ہی نے اڑھایا۔ دیکھئے یہ سب اموراسلام کی شان وشوکت سے متعلق ہیں ورنہ یہی مسجد مقدس آنحضرتؐ کے زمانہ سے اس وقت تک نہایت سادی اور تکلف سے خالی تھی نہ نقش ونگار تھا نہ ممبر پر غلاف اوڑھایا جاتا تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ باوجود یکہ خانہ کعبہ اور ممبر شریف کا غلاف ہمیشہ صحابہ کے پیش نظر رہا کرتا تھا مگر کسی سے یہ اعتراض منقول نہیں کہ بے ضرورت کپڑا کیوں اوڑھایا جاتا ہے کیا ان لکڑیوں اور گھر (خانہ کعبہ) کو سردی ہوتی ہے جیسے ہمارے زمانہ کے بعض حضرات غلافوں کو دیکھ کر کہا کرتے ہیں۔

اب یہ دیکھا جائے کہ مولد شریف میں کیا کام ہوتے ہیں اور وہ شرعاً جائز ہیں یا نہیں؟ بڑے کام یہ ہیں اظہار فرحت ومسرت، تعین وقت، قصائدنعتیہ کا پڑھنا، تقسیم شیرنی اور عود کا جلانا وغیرہ۔ اظہار خوشی کا حال سنئے کہ باوجودیکہ حق تعالیٰ فرماتا ہے: ان اللہ لا یحب الفرحین (سورہ قصص) یعنی فرحت والوں کو حق تعالیٰ دوست نہیں رکھتا مگر فضل اور رحمت الٰہی اظہار مسرت کا حکم ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ہے: قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحوا (سورہ یونس) یعنی لوگوں سے کہہ دو کہ صرف اللہ کے فضل اور رحمت پر خوشی کا اظہار کریں۔ مطلب ان آیتوں کا یہ ہوا کہ اگر کوئی اظہار ِخوشی کرے تو صرف اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت پر کرے، اب غور کیجئے کہ آنحضرت ؐ کے قدوم میمنت لزوم سے اس عالم کو عزت بخشنا کیا بڑا فضل اور رحمت الٰہی نہیں ہے؟ اس سے بڑھ کر کیا ہوکہ آپ سراپا فضل اور رحمت ہیں۔

چنانچہ النہجۃ السویہ میں لکھا ہے کہ آنحضرت ؐ کا نام فضل اللہ بھی ہے جس پر ابن وجیہ نے یہ دلیل پیش کی کہ حق تعالیٰ فرماتا: ولو لا فضل اللہ علیکم ورحمتہ لاتبعتم الشیطٰن الاقلیلا (سورہ نساء) یعنی اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو چند لوگوں کے سوا تم شیطان کی پیروی کرتے۔ اس سے ظاہر ہے کہ فضل اللہ محمدؐ ہیں (انتہیٰ) اور اسی میں ذکر کیا کہ حضرتؐ کے اسماء یہ بھی ہیں:رحمۃ الامہ، بنی الرحمہ، رحمۃ للعالمین، رحمۃ مہداۃ اور آیت شریفہ ومآ ارسلنک الا رحمۃ للعالمین (سورہ انبیاء) کو ذکر کرکے ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے۔

حضرت نہ صرف مسلمانوں کے حق میں سراپا رحمت تھے بلکہ کفار کے حق میں بھی رحمت ہی رحمت تھے اور یہ حدیث طبرانی اور حاکم سے نقل کی ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : انا رحمۃ مھداۃ یعنی میں اللہ کی رحمت ہوں جو تمہارے لئے بطور تحفہ بھیجی گئی ہے۔ اب کہئے کہ ایسے سراپا فضل اور رحمت کے نزول کے روز کو ہم عید نہ قرار دیں تو ہم سے زیادہ ناقدر شناس کون ہوکہ خدائے تعالیٰ کے تحفہ کی بھی ہم نے کچھ قدر نہ کی حالانکہ فضل اور رحمت الٰہی پر خوشی کرنا ہمارا فرض ہے جو آیہ موصوفہ فبذلک فلیفرحوا (سورہ یونس) سے ظاہر ہے۔

اہل اسلام سے گزارش ہے کہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے میلاد مصطفی کے زرین موقع پر خوشی کا اظھار کریں، غیر شرعی امور سے اجتناب کریں۔ ہمارے جلوس سے شوکتِ اسلام کا ظہور ہو، بھائی چارگی ومحبت ظاہر ہو، اتحاد واتفاق کا اظھار ہو، غیروں پر اسلام کی شان وشوکت ظاہر ہو، دوسروں پر اسکا بہت بڑا اثر ہوتا ہے۔ ایسے اعمال نہ کریں جس سے اللہ ورسول ؐ ناراض ہوتے ہوں۔ وہی کام کریں جس سے رسول اللہ کی رضا حاصل ہو۔

اللہ کی بارگاہ میں دعاء ہے کہ اسلام کو غلبہ عطا فرمائے، اہل اسلام کو سرخروئی عطا کرے (آمین ) بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭

a3w
a3w