تلنگانہ

تلنگانہ میں کانگریس نے مسلمانوں کو دھوکہ دیا۔ مسلم دانشوروں کا الزام

مسلم برادری کو نشانہ بنانا اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینا کانگریس کی تاریخ رہی ہے۔ تلنگانہ میں بھی اب اسی تاریخ کو دہرایا جارہا ہے۔ کئی مسلم دانشوروں اور سماجی جہد کاروں نے الزام عائد کیا کہ کانگریس نے تلنگانہ کے مسلمانوں کو دھوکہ دیا ہے۔

حیدرآباد۔ (منصف نیوز ڈیسک) مسلم برادری کو نشانہ بنانا اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینا کانگریس کی تاریخ رہی ہے۔ تلنگانہ میں بھی اب اسی تاریخ کو دہرایا جارہا ہے۔ کئی مسلم دانشوروں اور سماجی جہد کاروں نے الزام عائد کیا کہ کانگریس نے تلنگانہ کے مسلمانوں کو دھوکہ دیا ہے۔

متعلقہ خبریں
وڈودرہ میں ہندوؤں کاغلبہ جتانے شوبھا یاتراؤں کا انعقاد
رکن اسمبلی ماجد حسین اور فیروز خان کے خلاف کارروائی کا انتباہ
عالمی برادری، اسرائیلی جارحیت کے خاتمہ کے لیے ٹھوس اقدامات کرے: رابطہ عالم اسلامی
کینسر سے متعلق شعور بیداری کی ضرورت: دامودر راج نرسمہا
کہیں بھی آبی بحران کا مسئلہ نہیں ہونا چاہئے۔ ریاستی وزیر سیتا اکا کی ہدایت

یہاں آج صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ان مسلم دانشوروں اور سماجی جہد کاروں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ریاست میں جب سے کانگریس نے عنان حکومت سنبھالاہے، تب سے کانگریس حکومت ریاست کے مختلف مقامات پر فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرتے ہوئے مسلم قیادت کو ختم کرنے اور مسلمانوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے مذموم منصوبہ پر عمل کررہی ہے۔

راشٹرا مسلم مورچہ کے صدر و ممتاز سماجی جہد کار ایس ایم عبدالقدیر نے کہا کہ مسلمانوں کے مسائل‘ ان کے خدشات سے واقف کرانے اور انھیں اجاگر کرنے کے لئے ریونت ریڈی کی حکومت میں کوئی مسلم قائد یا نمائندہ نہیں ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ کانگریس حکومت‘ ریاست سے مسلم قیادت کو ختم کرنے کے اپنے قدیم منصوبہ پر عمل پیرا ہے۔

کانگریس پارٹی‘ پہلے مبینہ طورپر فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرتی ہے اور انتخابات کے وقت فرقہ پرستوں سے تحفظ فراہم کرنے کا بہانہ بناکر ان مسلمانوں سے ووٹ حاصل کرتی ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں جینور تشدد کا حوالہ دیا اور کہا کہ پولیس کو جینور میں تشدد کے منصوبہ کا پیشگی علم تھا مگر چند وجوہات کے سبب پولیس‘ گرفتاریاں نہیں کر پائی۔ فرقہ وارانہ تشدد کے بڑھتے حالیہ رجحانات پولیس اور حکومت کی ناکامی کو ظاہر کرتے ہیں۔

عبدالقدیر نے الزام عائد کیا کہ سکندرآباد میں مندر کی بے حرمتی کے حالیہ واقعہ میں پولیس بروقت کارروائی کرنے میں یکسر ناکام رہی ہے جبکہ یہ علاقہ برسوں سے پرامن رہا ہے۔ وہاں ایک مسجد کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی اور ایک بڑی عوامی ریالی سے وہاں تعینات پولیس ملازمین پر حملے کئے گئے۔ اس کے بعد اس واقعہ میں 4 تا 5 مشتبہ افراد کو ہی گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ سسٹم میں مسلمانوں کو انصاف نہیں ملا ہے۔

قدیر نے کہا کہ سکندرآباد کی مندر پر حملہ کے خلاف ظہیرآباد میں نکالی گئی ریالی کے دوران تشدد پھوٹ پڑا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ریاست کے سربراہ کا پس پردہ آر ایس ایس سے تعلق بتایا گیا ہے اور پولیس کے چند عہدیدار اور ملازمین بھی جو اس طرح کی ہمدردی رکھتی ہے، کے حوصلہ بلند نظر آرہے ہیں۔ ایک خاتون جہد کار خالدہ پروین نے الزام عائد کیا کہ گجرات اور یو پی کی طرح تلنگانہ پولیس بھی مسلمانوں کو نشانہ بنارہی ہے اور اسے کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت، جینور فساد متاثرین کی مدد کررہی ہے اور نہ ہی، مسلمانوں کو ان کی مدد کرنے کی اجازت دے رہی ہے۔ ایک اور سماجی جہد کار علیم خان عرف علیم فلکی نے کہا کہ فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلہ وار واقعات سے ریاست دہل کر رہ گئی ہے۔ اس طرح کے واقعات یو پی کے بہرائج میں دیکھے گئے۔ اس سے واضح ہوگیا ہے کہ چیف منسٹر اے ریونت ریڈی فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کو نظرانداز کررہے ہیں۔ پریس کانفرنس سے نائب امیر جماعت اسلامی ہند عبدالمجیب شعیب، ایم پی جے کے ریاستی صدر عبدالعزیز نے خطاب کیا۔