دہلی

تبدیلی مذہب: سپریم کورٹ میں سماعت ہوگی

عدالت نے گزشتہ برس جمعیت کو اس معاملہ میں فریق بننے کی اجازت دی تھی۔ جمعیت کا دعویٰ ہے کہ ملک بھر میں ان قوانین کی وجہ سے مسلمانوں کی بڑی تعداد کو ہراساں کیا جارہا ہے۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ 2 جنوری کو کئی درخواستوں کی سماعت کرے گی جن میں بین مذہبی شادیوں کی وجہ سے تبدیلی ئ مذہب کو روکنے کے لئے بنائے گئے متنازعہ قوانین کو چیلنج کیا گیا ہے۔

 چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس پی ایس نرسمہا کی بنچ‘ وکیل وشال ٹھاکرے اور غیرسرکاری تنظیم (این جی او)سٹیزنس فار جسٹس اینڈ پیس کی داخل کردہ مفادِ عامہ درخواستوں کی سماعت کرنے والی ہے۔ سپریم کورٹ‘ مسلم تنظیم جمعیت علمائے ہند کی درخواست کی بھی سماعت کرے گی۔

 عدالت نے گزشتہ برس جمعیت کو اس معاملہ میں فریق بننے کی اجازت دی تھی۔ جمعیت کا دعویٰ ہے کہ ملک بھر میں ان قوانین کی وجہ سے مسلمانوں کی بڑی تعداد کو ہراساں کیا جارہا ہے۔

 سپریم کورٹ ویب سائٹ پر اَپ لوڈ رپورٹ کے مطابق مرکز یا کسی بھی ریاست نے ابھی تک اپنا جواب داخل نہیں کیا ہے۔ 17 فروری 2021 کو سپریم کورٹ نے غیرسرکاری تنظیم کو اجازت دی تھی کہ وہ ہماچل پردیش اور مدھیہ پردیش کو فریق بنائے۔

 ٹھاکرے اور این جی اوکی درخواستوں میں اترپردیش اور اترکھنڈ کے انسدادِ غیرقانونی تبدیلی ئ مذہب آرڈیننس 2020  و قانون 2018 کو چیلنج کیا گیا ہے۔ این جی او نے پچھلی سماعت میں کہا تھا کہ ہماچل پردیش اور مدھیہ پردیش کو بھی فریق بنایا جانا چاہئے کیونکہ ان 2 ریاستوں نے بھی اترکھنڈ اور اترپردیش کی تقلید کی ہے۔

 درخواست میں کہا گیا کہ اترپردیش اور اترکھنڈ نے لوجہاد کے خلاف جو قوانین بنائے ہیں انہیں رد کردیا جائے کیونکہ اس سے دستور کے بنیادی ڈھانچہ پر آنچ آتی ہے۔ یہ قوانین بڑی حد تک پبلک پالیسی اور سوسائٹی کے بھی خلاف ہیں۔

جمعیت علمائے ہند نے وکیل اعجاز مقبول کے ذریعہ داخل اپنی درخواست میں مسلم نوجوانوں کے بنیادی حقوق کا مسئلہ اٹھایا جنہیں ان قوانین کے ذریعہ نشانہ بنایا جارہا ہے۔