کھیل

مسلمان کرکٹرز نے ہندوستان کا نام روشن کیا

ملک کا سر فخر سے بلند کرنے میں ہندوستانی مسلمان کھلاڑیوں نے ہمیشہ سے ہی اپنی بہترین کاکردگی کا مظاہر کیا ہے۔ کھیلوں میں ان کی شراکت کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ہندوستانی کرکٹ کو ایک خاص بلندی تک لے جانے میں ان کھلاڑیوں کا بہت بڑا تعاون رہاہےاور آج بھی ان کے ٹیلنٹ کی دنیا قائل ہے۔

نئی دہلی: ملک کا سر فخر سے بلند کرنے میں ہندوستانی مسلمان کھلاڑیوں نے ہمیشہ سے ہی اپنی بہترین کاکردگی کا مظاہر کیا ہے۔ کھیلوں میں ان کی شراکت کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ہندوستانی کرکٹ کو ایک خاص بلندی تک لے جانے میں ان کھلاڑیوں کا بہت بڑا تعاون رہاہےاور آج بھی ان کے ٹیلنٹ کی دنیا قائل ہے۔

ہندوستانی کرکٹ ٹیم تقریباً 1932 سے مسلسل کرکٹ کھیل رہی ہے۔ آج ہندوستانی ٹیم نہ صرف ہر سطح پر خوشحال ہے بلکہ پوری دنیا پر اپنا دبدبہ بنائے ہوئے ہے۔ ہندستانی ٹیم نے اپنا پہلا میچ انگلینڈ کے خلاف کھیلا۔ مختصراً آج ہم ایسے ہی کچھ نامور کرکٹرز کو ان کی خدمات کےلئے یاد کررہے ہیں جنہوں نے ہندستان کے وقار کو دوبالا کیا۔اور یہ وہ کھلاڑی ہیں جنہوں نے اپنےپہلے ہی میچ میں یا پھر اپنے کرکٹ کیئریر میں ایسے ریکارڈ قائم کئے ہیں جو قابل ستائش ہیں۔

ہوشیار پور میں یکم اگست 1910 کو پیدا ہونے والے محمد نثار ان کرکٹرز میں شامل ہیں جنہوں نے 1932 میں انگلینڈ کے خلاف اپنے پہلے ٹیسٹ میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔ وہ تیز ترین ہندوستانی گیند باز تھے جنہوں نے ہندستان کے لیے ٹیسٹ میں پہلی گیند ڈال کر پہلی وکٹ لی اور ساتھ ساتھ ایک اننگز میں پانچ وکٹیں لینے کا ریکارڈ بھی اپنے نام کیا۔ مجموعی طور پر انہوں نے چھ ٹیسٹ کھیلے اور 25 وکٹیں حاصل کیں ۔انہوں نے اپنے تمام چھ ٹیسٹ انگلینڈ کے خلاف کھیلے۔

سید نذیر علی اور سید وزیر علی دونوں بھائی تھے۔ نذیر نے 1932 میں ہندوستان کے لیے اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلا۔ 8 جون 1906 کو جالندھر میں پیدا ہونے والے نذیر علی نے صرف دو ٹیسٹ کھیلے، 30 رنز بنائے اور 4 وکٹیں لیں۔ 15 ستمبر 1903 کو پیدا ہونے والے ان کے بھائی وزیر علی نے سات ٹیسٹ کھیلے۔ انہوں نے 42 کے بہترین اسکور کے ساتھ مجموعی طور پر 237 رنز بنائے۔جہانگیر خان ہندستانی ٹیم میں فاسٹ باؤلر تھے۔ انہوں نے 1932 میں انگلینڈ کے خلاف اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلا۔ انہوں نے انگلینڈ کے خلاف ہی اپنے چاروں ٹیسٹ کھیلے اور 39 رنز بنائے اور 4 وکٹیں حاصل کیں۔

سید عابد علی رائٹ آرم میڈیم پیس بولر تھے۔ انہوں نے اپنا ڈیبیو 1967 میں آسٹریلیا کے خلاف کیا۔ 9 ستمبر1941 کو پیدا ہونے والے عابد علی نے کل 29 ٹیسٹ میچ کھیلے اور 47 وکٹیں حاصل کیں۔ ایک بلے باز کے طور پر انہوں نے 1018 رنز بنائے اور ان کا سب سے زیادہ اسکور 81 تھا۔ وہ 1970-71 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ہندوستان کی پہلی ٹیسٹ فتح میں ایک اسٹینڈ آؤٹ کھلاڑی ثابت ہوئے۔ انہوں نے پانچ ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیلے اور 93 رنز بنائے جس میں ان کے بہترین 70 رنز بھی شامل ہیں۔ انہوں نے ون ڈے کرکٹ میں 7 وکٹیں حاصل کیں۔

سلیم درانی ایک ایسا بلے باز جو مداحوں کے مطالبے پر چھکے مارنے کے لئے مشہور تھا۔ ایک جارحانہ بلے باز جو ایک بہترین اسپنر بھی تھا۔ 11 دسمبر 1934 کو کابل میں پیدا ہونے والے سلیم نے اپنا ڈیبیو 1959 میں آسٹریلیا کے خلاف کیا۔ کل 29 ٹیسٹ کھیلے اور پورٹ آف اسپین میں ویسٹ انڈیز کے خلاف سنچری (104) سمیت 1202 رن بنائے۔ انہوں نے 75 وکٹیں بھی حاصل کیں۔

دلاور حسین وکٹ کیپر بلے باز تھے۔ انہوں نے سال 1933 میں کلکتہ میں انگلینڈ کے خلاف اپنا ڈیبیو کیا۔ مجموعی طور پر دلاور نے انگلینڈ کے خلاف تین ٹیسٹ کھیلے اور بہترین 59 کے ساتھ تین نصف سنچریوں سمیت 254 رنز بنائے۔ تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے گئے جہاں 28 اگست 1967 کو ان کا انتقال ہو گیا۔جمشید ایرانی بھی ایک وکٹ کیپر کی حیثیت سے ٹیم کے رکن تھے۔ انہوں نے ہندوستان کے لیے صرف دو ٹیسٹ کھیلے اور 7 بلے بازوں کو آؤٹ کیا۔

سید مشتاق علی نے اپنا ڈیبیو 1934 میں انگلینڈ کے خلاف کیا۔ مجموعی طور پر، انہوں نے 11 ٹیسٹ کھیلے، جس میں 2 سنچریوں اور 3 نصف سنچریوں سمیت 612 رنز بنائے۔ انہوں نے اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 112 رنز بنائے۔ انہوں نے 378 گیندیں کیں اور 3 وکٹیں حاصل کیں۔

امیر الٰہی، عبدالحفیظ کاردار اور گل محمد ہندوستان اور پاکستان دونوں کے لیے کھیلے۔ عامر الٰہی نے 1947 میں آسٹریلیا کے خلاف ڈیبیو کیا اور 17 رنز بنائے۔ پھر وہ پاکستان چلے گئے اور مزید 5 ٹیسٹ کھیلے۔ کاردار نے ہندوستان کے لیے 1946 میں انگلینڈ کے خلاف ڈیبیو کیا۔ انہوں نے ہندوستان کے لیے 3 ٹیسٹ کھیلے اور 43 رنز بنائے جو ان کا بہترین ہے۔ وہ تقسیم کے بعد پاکستان کے پہلے کپتان بنے۔ گل محمد نے اپنا ڈیبیو 1946 میں انگلینڈ کے خلاف کیا۔ مجموعی طور پر انہوں نے بھارت کے لیے 8 ٹیسٹ کھیلے جن میں پاکستان کے خلاف 5 ٹیسٹ شامل ہیں۔ پاکستان ہجرت کے بعد، انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف 1956 میں پاکستان کے لیے ایک ٹیسٹ کھیلا۔

فرخ انجینئر کا شمار دنیا کے بہترین وکٹ کیپرز میں ہوتا تھا۔ 25 فروری 1938 کو بمبئی میں پیدا ہوئے، فرخ نےسال 1961 میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ انہوں نے کل 46 ٹیسٹ کھیلے جس میں 2 سنچریوں اور 16 نصف سنچریوں سمیت 2611 رنز بنائے۔ انہوں نے بحیثیت وکٹ کیپر72 بلے بازوں کو آؤٹ کیا۔

افتخار علی خان پٹودی ہندوستان کی کپتانی کرنے والے پہلے مسلمان کرکٹر تھے۔ کرکٹ کے علاوہ ان کا شمار ہاکی کے بھی بہترین کھلاڑیوں میں ہوتا تھا جس کی وجہ سے انہیں قومی ہاکی ٹیم میں بھی منتخب کیا گیا تاہم ان کی پہچان صرف کرکٹ سے ہے۔ انہوں نے ہندوستان کے لیے صرف تین ٹیسٹ کھیلے اور تمام میں ٹیم کی قیادت کی۔ بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کے لیے کھیلنے والے بہترین کھلاڑیوں میں سے ایک، افتخار علی خان پٹودی کو 1946-47 میں انڈین کرکٹر آف دی ایئر قرار دیا گیا۔

غلام احمد پٹودی سینئر کے بعد ہندوستان کی کپتانی کرنے والے دوسرے مسلمان ہیں۔ وہ ہندوستان کے پہلے ورلڈ کلاس آف اسپنر تھے۔ انہوں نے اپنا ڈیبیو 1948-49 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کلکتہ میں کیا۔ مجموعی طور پر اس نے بھارت کے لیے 22 ٹیسٹ کھیلے، جس میں 68 وکٹیں حاصل کیں، جس میں 49 رنز دے کر 7 وکٹیں بھی شامل تھیں۔ ان کا انتقال 28 اکتوبر 1998 کو حیدرآباد میں ہوا۔

منصور علی خان پٹودی جنہیں عام طور پر جونیئر پٹودی کے نام سے جانا جاتا ہے، دنیا کے کم عمر ترین کپتان کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہندستان کے لیے 46 ٹیسٹ کھیلے اور 2793 رنز بنائے، جس میں 203 (ناٹ آؤٹ) کا سب سے زیادہ اسکور تھا۔ انہوں نے اپنا ڈیبیو 1961 میں انگلینڈ کے خلاف کیا۔ کار حادثے میں اس کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی اور کرکٹ کھیلنا چھوڑ دیا۔ پھر، 1974 میں، وہ کرکٹ میں واپس آئے اور ٹیم کی کپتانی کی۔ ہندوستان نے ان کی کپتانی میں 9 ٹیسٹ جیتے تھے۔

سید مصطفی حسین کرمانی ہندوستان کے بہترین وکٹ کیپراور ایک اچھے بلے باز بھی تھے۔ 29 دسمبر 1949 کو پیدا ہوئے۔ ان کے پاس ہندوستانی وکٹ کیپر کے ذریعہ سب سے زیادہ آؤٹ کرنے کا ریکارڈ ہے اور ہندوستان کے لئے بطور وکٹ کیپر سب سے زیادہ ٹیسٹ کھیلنے کا ریکارڈ بھی ان کے پاس ہے۔ انہوں نے اپنا ڈیبیو 1975 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کیا۔ مجموعی طور پر، انہوں نے بھارت کے لیے 88 ٹیسٹ کھیلے، جس میں 2759 رنز بنائے، جس میں دو سنچریاں اور 12 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ انہوں نے وکٹ کے پیچھے 198 بلے بازوں کو آؤٹ کیا۔ کرمانی نے 49 ایک روزہ میچ بھی کھیلے، 373 رنز بنائے اور 36 کھلاڑیوں کو بطور وکٹ کیپر آؤٹ کیا۔

عباس علی بیگ نے اپنا ڈیبیو 1959 میں انگلینڈ کے خلاف کیا اور سنچری (112) بنائی، اس طرح وہ ایسا کرنے والے پہلے مسلمان کرکٹر بن گئے۔ انہوں نے ہندوستان کے لیے 10 ٹیسٹ کھیلے اور ایک سنچری اور دو نصف سنچریوں سمیت تمام میں 428 رنز بنائے۔

محمد اظہر الدین بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کی نمائندگی کرنے والے سب سے کامیاب کرکٹر ہیں اور ہندوستان کے اب تک کے بہترین بلے بازوں میں ان کا شمار کیا جاتا ہے۔ 8 فروری 1963 کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے، اظہر نے سال 1984 میں کلکتہ میں انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ ڈیبیو کیا اور 110 رنز بنائے۔ اس اننگز کے بعد انہوں نے مدراس میں 105 اور کانپور میں 122 رنز بنائے۔ اظہر نے لگاتار تین ٹیسٹ میں سنچریاں بنائیں۔ اس کے علاوہ وہ ون ڈے کے ایک سیزن میں سنچری بنانے والے واحد ہندوستانی ہیں۔ان کا سب سے زیادہ ٹیسٹ سکور 199 ہے ۔ وہ سب سے کامیاب ہندوستانی کپتان بھی تھے، جن کی قیادت میں ہندوستان نے کئی سیریز جیتیں۔

سید صبا کریم ایک وکٹ کیپر بلے باز رہے ہیں جو محدود میچوں میں کھیلے۔ انہوں نے بنگال کے لیے بہت اچھی اننگز کھیلی۔ لیکن انہیں صحیح وقت پر بین الاقوامی کرکٹ میں موقع نہیں مل سکا۔ اتر پردیش کے محمد کیف اس وقت روشنی میں آئے جب 1996 میں ہندوستان کی انڈر 15 ٹیم کے نائب کپتان کے طور پر، انہوں نے انگلینڈ میں لومبارڈ چیلنج کپ میں 90 سے زیادہ رنز بنائے اور انہیں چیمپئن شپ کا بہترین بلے باز قرار دیا گیا۔

مہاراشٹر کے وسیم جعفر بھی ہندوستان کی طرف سے کھیلے جن کے ریکارڈ کرکٹ کے سنہری لفظوں میں لکھے ہیں۔ ظہیر خان بھی ہندوستانی ٹیم میں تھے اور انہوں نے بہت اچھا مظاہرہ کیا۔ ہر کوئی ان کی اچھی باؤلنگ کے قائل تھا۔ ممبئی سے تعلق رکھنے والے ظہیر کو فرسٹ کلاس ڈومیسٹک کرکٹ میں وقفہ لینے کے لیے بڑودہ جانا پڑا۔ انہیں ایک قابل اعتماد کھلاڑی سمجھا جاتا تھا۔زمبابوے کے خلاف ان کے لگاتار چار چھکے کوئی نہیں بھول سکتا۔ تب ہندوستانی کپتان سورو گنگولی نے کہا تھا، وہ پہلے سے ہی میرا ٹرمپ کارڈ ہے۔ جب بھی مجھ پر دباؤ ہوتا ہے تو میں ظہیر کو گیند دیتا ہوں۔اس کے علاوہ جارح بلے باز یوسف پٹھان اور آل راؤنڈر عرفان پٹھان دونوں بھائیوں نے ہندستان کرکٹ کے لئے اپنی بہترین خدمات انجام دی ہیں اور آج کے دور کے محمد شامی جن کی جتنی تعریف کی جائے وہ کسی کھلاڑی کے لئے کم ہے۔ اپنی بہترین گیند بازی سے محمد شامی نے ہندستان کے پرچم کو بارہا بلند کیا۔ اس وقت ہندوستانی ٹیم میں کئی مسلم کھلاڑی مختلف فارمیٹ میں موجود ہیں۔اس سے لگتا ہے کہ ہندوستانی ٹیم میں مسلم کھلاڑیوں کا مستقبل روشن ہے۔