مضامین

خواب: سچے، جھوٹے اور لاشعوری؛ دینی و سائنسی جائزہ

بیسویں صدی کے متعدد یوروپین مورخین نے عہد وسطی کی اسلامی تاریخ کی بابت بہت ہی مثبت رویہ اختیار کیا ہے۔ گھری، براؤن، برائی فالٹ، بنڈروغیرہ نے اسلام کو ایک ایسے انقلاب سے تعبیر کیا ہے جس نے فرسودہ تصورات کو ایسی کاری ضرب لگائی کہ عام انسانوں نے اپنے کو آزاد محسوس کیا اور خود اعتمادی کے جذبہ میں سرشار ہوئے۔ اس صورت حال کا ذکر ڈبلیو ڈبلیو کیش (W.W. Cash) اپنی کتاب Expansion of Islam میں ان الفاظ میں کرتا ہے۔

از ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی

بیسویں صدی کے متعدد یوروپین مورخین نے عہد وسطی کی اسلامی تاریخ کی بابت بہت ہی مثبت رویہ اختیار کیا ہے۔ گھری، براؤن، برائی فالٹ، بنڈروغیرہ نے اسلام کو ایک ایسے انقلاب سے تعبیر کیا ہے جس نے فرسودہ تصورات کو ایسی کاری ضرب لگائی کہ عام انسانوں نے اپنے کو آزاد محسوس کیا اور خود اعتمادی کے جذبہ میں سرشار ہوئے۔ اس صورت حال کا ذکر ڈبلیو ڈبلیو کیش (W.W. Cash) اپنی کتاب Expansion of Islam میں ان الفاظ میں کرتا ہے۔

متعلقہ خبریں
ورلڈکپ تھالی میں رکھ کر نہیں دیا جائے گا:روہت

اسلامی انقلاب نے مسلم سماج میں ایک ایسا علمی اور عقلی (سائنسی) رویہ بیدار کر دیا کہ دین کے نام پر کسی قسم کے استحصال کو معیوب سمجھا جانے لگا۔ یہودی نجومیوں کے اس غیر عقلی رویہ کی تردید کی گئی جس کے اعتبار سے ہر فرد کا مخصوص ستارہ اس کی قسمت کا تعین کیا کرتا ہے۔ خوابوں سے متعلق غیر فطری نظریوں کو ترک کرنے کی تلقین بھی کی گئی اور فرعونی دور سے چلے آرہے اس چلن کو مستر د کر دیا گیا جب خواب اہم سماجی، سیاسی اور دینی فیصلوں کی بنیاد بنتے تھے۔ اسلام نے خوابوں کا ایک ایسا عقلی نظریہ پیش کیا جو آج بھی دنیا کے لئے اپنے تمام تر سائنسی انکشافات کے باوجود انتہائی ترقی پذیر (Progressive) ہے۔

خواب سے متعلق اسلامی اور سائنسی نظریات کو بیان کرنے سے پیشتر ضروری ہے کہ قبل اسلام رواج پارہے نظریات کا جائزہ لیا جائے جو خوابوں کی بابت دنیا بھر میں پائے جاتے تھے۔ یونانی تہذیب میں یہ باور کیا جاتا تھا کہ انسان جب سو جاتا ہے تو اس کے جسم سے روح باہر آ جاتی ہے۔ باہر آ کر یہ روح جو دیکھتی وہ گویا خواب ہوا کرتے۔

کہا جاتا تھا کہ کسی سوئے ہوئے شخص کو دفعتاً جگایا نہ جائے کیونکہ ایسا کرنے میں خدشہ تھا کہ اگر روح کہیں دور بھٹکتی ہوگی تو وہ جلد ہی آکر اس شخص کے جاگنے سے پہلے جسم میں داخل ہو پائے گی۔ ایسی صورت حال خطرناک ہو سکتی تھی اور جسم میں داخل نہ ہونے کے سبب روح غیض و غضب ڈھا سکتی تھی جس کا مداوا مشکل تھا۔

قدیم یونانی لٹریچر کے مطابق خواب ہمیشہ ہی خدا کی جانب سے حکم کا درجہ رکھتے اور ان میں بتائے ہوئے احکامات کی پیروی ہر فرد پر لازم تھی۔ ہومر (Homer) نے اپنے ناول ایلیڈ (lliad) میں یہ بھی بتایا کہ خواب ذیس (Zeus) نامی خدا کی جانب سے ہوا کرتے ہیں۔

ایک دوسری روایت کے مطابق اپی ڈاورس (Epidaurs) نامی عبادت گاہ میں جو بھی خواب دیکھے جاتے تھے وہ اصل میں خواب نہ تھے بلکہ ایس کلے پیس (Aesclepius) (جو ایک طبیب تھا لیکن بعد میں خدا کا مرتبہ حاصل کر گیا) کی جانب سے مختلف بیماریوں کے نسخے تھے جن پر عمل کرنا دینی فرض تصور کیا جاتا۔ یونانیوں کی عام طور سے غیر عقلی روش کے باوجو د سقراط اور افلاطون نے خوابوں پر کسی حد تک عقلی باتیں تحریر کیں لیکن یونانی سماج نے ان کا نوٹس نہ لیا اور ہر خواب کو روحانیت سے تعبیر کرتے رہے۔

مصر کے فرعونی دور میں خوابوں کی بڑی اہمیت تھی اور بہت سے انتظامی فیصلے لینے کے لئے شہنشاہ وقت (فرعون) مناسب خوابوں کا انتظار کرتا تھا۔ حضرت موسیؑ کی پیدائش سے قبل بنی اسرائیل کے نوزائیدہ بچوں کے قتل عام کا حکم بھی فرعون نے ایک خواب کی بنیاد پر دیا تھا۔ بابل (Babylonia) کی قدیم اور کسی حد تک ترقی یافتہ تہذیب کے دوران مختلف قبائل کے لوگ خوابوں کو اپنے اپنے خداؤں سے منسوب کر کے اور راہبوں سے ان کی تعبیر معلوم کر کے مختلف عبرت انگیز اقدام کا ارتکاب کرتے جس کے نتیجہ میں اکثر خونریزی کی نوبت بھی آجاتی۔

اسلام میں خوابوں کی نسبت نہایت مثبت اور عقلی رویہ اپنایا گیا۔ ایک طرف جہاں بعض خوابوں کو اچھے اور سچے خواب بتایا گیا تو خراب اور ڈراؤنے خوابوں کو شیطان کی جانب منسوب کر کے ان کے تذکرے سے بھی اجتناب کی تاکید کی گئی۔ اس کے علاوہ خوابوں کو انسان کے شعور اور لاشعور کا عکس (Reflection) بھی بتایا گیا۔

چنانچہ خوابوں کی بنیاد پر کسی حتمی فیصلہ کو غلط قرار دیا گیا۔ خوابوں کی ایسی تعبیر دینے سے گریز کرنے کی صلاح دی گئی جس سے عام ذہنوں میں ڈر پیدا ہو۔ محمد ابن سیرین (پہلی صدی ہجری) نے مختلف خوابوں کی تعبیر اسلامی نقطہ نظر سے یعنی قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان کی ہے اور انہیں تعبیر رویاء کے نام سے کتابی شکل بھی دی ہے لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ خوابوں کی کیا اہمیت ہے تو فرمایا کہ ’’اگر تم جاگتے میں اللہ کا خوف رکھتے ہو تو پھر اس کی فکر نہ کرو کہ تم نے سوتے میں کیا دیکھا۔‘‘ ابن سیرین کے اس قول کو خواب کے تئیں اسلامی فکر کہا جاسکتا ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بسلسلہ خواب نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ ان ارشادات نے مسلمانوں میں خوابوں کا ڈر یکلخت ختم کر دیا اور یہ معروضہ بھی مسترد ہوگیا کہ برے خواب دیکھنے والا صرف برا ہی آدمی ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم) نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے اور پھر آپؐ نے فرمایا کہ اچھے خواب دوستوں کو سنائے جائیں اور برے خوابوں کا ذکر کسی سے نہ کیا جائے۔

ایک موقعہ پر کسی نے رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا کہ میں نے خواب دیکھا کہ میرا سر کاٹ دیا گیا ہے اور وہ لڑھک رہا ہے اور میں اس کے پیچھے ہوں۔ حضور اکرم ﷺ نے اس خواب کو سن کر اپنی بے اعتنائی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ ایسے خوابوں کا ذکر نہ کیا جائے۔ (راوی حضرت جابر مسلم)۔

ان ارشادات کا اثر یہ ہوا کہ حضرت ابو قتادہؓ نے کہا کہ ’’جب سے میں نے رسول اکرم ﷺ کے خوابوں کی بابت فرمان سنے، اس وقت سے اگر پہاڑ سے بھی بھاری خواب دیکھتا ہوں تو پرواہ نہیں کرتا“۔ (مسلم)

محمد بن سیرین نے حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ایک حدیث کی روشنی میں بتایا کہ نبی کریم ﷺ کے قول کے مطابق خواب کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک وہ خواب جو اللہ کی جانب سے ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ جو شیطان کی طرف سے اور تیسرے وہ خواب جو انسان کے ہی خیالات اور لاشعور کے احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔

رسول کریم ﷺ اس تیسری قسم کے خوابوں کو بڑی اہمیت دیتے۔ چنانچہ اکثر آپ نماز فجر کے بعد صحابیوں سے دریافت فرماتے کہ انہوں نے گزشتہ رات کو سوتے میں کیا دیکھا۔ صحابہ اپنے اپنے خوابوں کو بیان فرماتے۔ حضور اکرم ﷺ حاضرین سے ان کی تعبیر بتانے کے لئے کہتے اور پھر یا تو ان سے متفق ہوتے یا کوئی دوسری تعبیر خود ہی ارشاد فرما دیتے۔ ( راوی سمرہ بن جندب)

اس طریقہ کار سے حضورﷺ اپنی امت کو شعور اور لاشعور سے واقفیت حاصل کراتے۔

کچھ احادیث جو حضرت انسؓ، حضرت عبادہؓ بن صامت اور حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہیں کہ بموجب حضور اکرمﷺ کا قول تھا کہ ”خواب نبوت کے چھیالیس (46) اجزاء میں سے ایک ہے۔ (ابوداؤد مسلم وغیرہ)۔

اس حدیث پر متعدد محدثین نے سیر حاصل تبصرے کئے ہیں۔ بعض نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ پیغمبر اسلام مبعوث ہونے سے قبل متواتر چھ ماہ تک اچھے خواب دیکھتے رہے اور نبوت کے اشارے پاتے رہے جس کے ثبوت کے طور پر حضرت عائشہؓ سے منسوب حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ وحی کے نزول سے قبل بہت سی سچائیاں حضور اکرم ﷺ کو خوابوں کے توسط سے حاصل ہوئیں۔

بہر حال ان ساری احادیث سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے خوابوں کی اہمیت تو ضرور بتائی لیکن ضرورت سے زیادہ نہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ یہ نبوت کا بڑا حصہ نہیں ہوتے۔ جیسا کہ اس سے قبل بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ اکثر صحابہ کے خوابوں کی تعبیر خود ہی بتاتے اور خوشخبری کا مژدہ سناتے۔

مسلم کی ایک حدیث کے بموجب کسی صحابیہ نے اپنے ایک ایسے خواب کا ذکر کیا جس میں انہوں نے گوشت کے ٹکڑے کو اپنی گود میں دیکھا تھا تو آپ نے فرمایا کہ وہ (صحابیہ) آپ کی ہونے والی اولاد کو گود میں کھلائیں گی اور پھر ایسا ہی ہوا۔ ان صحابیہ نے حضرت فاطمہؓ کو اپنی گود میں کھلایا۔

نبی کریمﷺ نے اپنی آئندہ آنے والی امت کو ایک خوشخبری یہ بھی دے دی کہ جس کسی نے مجھے خواب میں دیکھا، اس نے گویا مجھے دیکھا۔ ایک روایت میں کہا گیا ہے کہ حضرت سلمان فارسی نے دورانِ نبوت ایک ایسا خواب دیکھا جس کی غلط تعبیر کو بنیاد بنا کر وہ اپنے قریبی دوست حضرت ابوبکرؓ سے دوری اختیار کرنے لگے۔

حضرت ابوبکرؓ کو جب یہ احساس ہوا کہ حضرت سلمان فارسی ان سے کچھ ناراض ہیں تو اس کی وجہ دریافت کی۔ خواب کا حال معلوم کر کے حضرت ابو بکر صدیقؓ مسکرائے اور انہوں نے اس خواب کی بالکل مختلف تعبیر بتائی جسے نبی کریمﷺ نے صحیح بتایا اور اس طرح حضرت ابوبکرؓ اور حضرت سلمان فارسی کے درمیان غلط فہمی رفع ہو گئی۔

یہی نہیں کہ رسول کریمﷺ صحابہ کے خواب معلوم کرتے بلکہ بسا اوقات اپنے خواب بھی انہیں سناتے اور پوچھے جانے پر ان کی تعبیر بھی بیان فرماتے۔ مسلم کی ایک حدیث اس طرح بیان ہوئی ہے کہ پیغمبر خداﷺ نے خواب میں دیکھا کہ انہیں دودھ کا گلاس پینے کو دیا گیا جو انہوں نے سیر ہو کر پیا اور کچھ بچ رہا جسے انہوں نے حضرت عمرؓ کو دے دیا۔ صحابہ نے اس خواب کی تعبیر معلوم کی تو آپﷺ نے فرمایا ”علم“۔

حضرت ابو سعید خدری سے مروی ایک دوسری حدیث میں کہا گیا ہے کہ نبی کریمﷺ نے خواب میں حضرت عمرؓ کو اس طرح دیکھا کہ لباس ان کے جسم کو مکمل طور پر ڈھانکے ہوئے تھا۔ پوچھے جانے پر آپﷺ نے فرمایا: ”دین (دین مکمل)۔ ایک روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے اذان دئیے جانے کے الفاظ طے کرنے کی خاطر صحابہ سے مشورہ طلب کیا۔ حضرت عمرؓ اور ایک دوسرے صحابی نے اس اذان کی تفصیل بتائی جو انہوں نے خواب میں سنی اور دیکھی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ کو پسند فرما کر انہیں ادا کرنے کا حکم دے دیا۔

سچے خوابوں کے دو واقعات حضرت صفیہؓ اور حضرت ام حبیبہؓ سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ حضرت صفیہؓ نے آنحضرتﷺ کے خیبر پر حملہ سے قبل خواب میں دیکھا کہ ایک چاند یثرب کی سمت سے نکل کر ان کی گود میں آ گیا ہے۔ اس خواب کی تعبیر یوں ظاہر ہوئی کہ قلعہ قموص کی فتح اور کنانہ کی موت کے بعد حضرت صفیہ قیدی کی حیثیت سے مدینہ لائی گئیں جہاں انہوں نے بخوشی و رغبت اسلام قبول کیا اور زوجہ مطہرہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

اسی طرح حضرت ام حبیبہؓ نے دوران ہجرتِ حبشہ اپنے شوہر کے انتقال کے بعد خواب میں دیکھا کہ انہیں کوئی ام المومنین کہہ کر پکار رہا ہے۔ چند ہی دن کے بعد انہیں بادشاہ نجاشی کے ذریعہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ملا کہ وہ آپ کی بیوگی سے واقف ہوئے اور یہ کہ اسی دورانِ ہجرت انہیں زوجیت میں لینا چاہتے ہیں۔ اس طرح حضرت ام حبیبہؓ کا خواب سچ ثابت ہوا اور وہ زوجہ مطہرہ ہونے کا شرف حاصل کر گئیں۔

خوابوں نے اکثر دین و عمل سے سرشار مسلمان میں ہمت اور حوصلہ بڑھایا ہے۔ اس کی ایک مثال طارق بن زیاد کے اس خواب سے دی جاسکتی ہے جسے انہوں نے کشتی میں سوتے ہوئے دیکھا تھا۔ جب وہ ولید بن عبد الملک کے دور خلافت میں اسپین پر حملہ آور ہونے کے لئے سات ہزار کے لشکر کے ساتھ بحر متوسط عبور کر رہے تھے۔

جیسے ہی کشتی میں ان کی آنکھ لگ گئی تو خواب میں سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس انداز میں دیکھا کہ آپؐ سمندر پر چلتے ہوئے تشریف لا رہے ہیں۔ خلفائے راشدین ان کے ساتھ ہیں اور طارق کی کشتی سے گزرتے ہوئے فرمارہے ہیں طارق بڑھے چلو۔ طارق جاگ گئے۔ خوشی سے سرشار انہوں نے اپنے ساتھیوں کو خواب سنایا جسے انہوں نے فتح اندلس سے تعبیر کیا۔ نئے حوصلہ کے ساتھ وہ اندلس کے ساحل پر اترے۔ شہنشاہ راڈرک کے ستر ہزار سپاہیوں کو شکست فاش دی اور اس طرح اسپین کی اسلامی تاریخ کا نیا درخشاں باب کھول دیا۔

خوابوں نے کبھی کبھی مسلمان حکمرانوں کو غلط رویہ سے روکا بھی ہے۔ واقعہ مشہور ہے کہ عباسی خلیفہ مہدی نے حضرت موسی الکاظم کو قید کیا تو ایک رات اس نے خواب میں حضرت علی کرم اللہ وجہ کو دیکھا کہ وہ سورہ محمد کی بائیسویں آیت کی تلاوت فرمارہے ہیں۔ (ترجمہ: ”کیا تم سے یہی توقع ہے کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد مچاؤ اور رشتہ داریاں کاٹ ڈالو‘‘)۔ مہدی کی آنکھ کھلی تو رات باقی تھی۔ وہ لرزہ اندام تھا اور صبح کے انتظار کا حوصلہ نہ تھا۔ چنانچہ اس وقت وزیروں کو بلا کر حضرت موسیٰ الکاظم کو رہا کر دیا اور اعزاز و اکرام کے ساتھ ان سے معانقہ کیا۔

خواب سچے تو ہوتے ہیں لیکن ان کی تعبیر کو بروئے کار لانے کے لئے عزم و ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ قومیں اپنے عروج کے دوران خواب کو سچ ثابت کر دکھاتی ہیں جس طرح کہ طارق نے کیا تھا لیکن اپنے زوال کے دوران تعبیر اس کے برعکس ہو جاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی حشر عثمانی خلیفہ سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں بازنطینیوں کا ہوا۔ زبردست علم و حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جب محمد فاتح نے قسطنطیہ کو فتح کیا (757 ہجری) تو وہاں کے شہریوں اور سپاہیوں نے آیا صوفیا نامی کلیسا میں پناہ لی اور ایک عیسائی پادری کے خواب کی تعبیر کا انتظار کرنے لگے جس میں گویا بشارت دی گئی تھی کہ ایک دن جب دشمن کلیسا کے مرکزی ستون تک پہنچ جائے گا تو آسمان سے ایک فرشتہ ہاتھ میں تلوار لئے نازل ہوگا۔ یہ تلوار ایک ناتواں کے حوالہ کر دی جائے گی جو اس کی مدد سے دشمن پر حملہ آور ہو کر انہیں اناطولیہ سے ایران کی سرحدوں تک بھگا دے گا لیکن خواب سچ ثابت نہ ہوا۔ نہ کوئی فرشتہ آسمان سے نازل ہوا اور نہ رومیوں کی شکست فتح میں تبدیل ہوسکی۔ (Gibbon)۔۔ افسوس کہ عیسائیوں ہی کے مانند مسلمانوں نے بھی اپنے زوال کے دوران اس قسم کے خواب دیکھے جو پورے نہ ہوئے۔ فرشتوں کے انتظار میں صدیاں گزر چکی ہیں۔ اب تو انہیں یہ بھی یاد نہیں کہ قرآن کا ارشاد ہے: ترجمہ ”واقعی اللہ تعالی کسی قوم کی حالت میں تغیر نہیں کرتا جب تک وہ لوگ خود اپنی حالت کو نہیں بدل دیتے۔ (سورہ رعد۔ آیت11)

قرآن کریم میں خوابوں کا تذکرہ متعدد بار ہوا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے خواب کا ذکر سورہ صٰفٰت (آیت 102) میں موجود ہے۔ جنگ بدر سے قبل جو خواب پیغمبر اسلامﷺ نے دیکھا تھا اس کا حوالہ سورہ انفال (آیت43) میں کیا گیا ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جو خواب نبی کریمﷺ نے مکہ میں پر امن داخلہ کی بابت دیکھا اس کا اشارہ سورہ فتح آیت 27میں ملتا ہے۔ سورہ یوسف آیت نمبر 4 اور 5 میں گیارہ ستاروں سے متعلق حضرت یوسفؑ کے خواب اور حضرت یعقوبؑ کی نصیحت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اسی سورہ کی آیت نمبر 41 میں حضرت یوسفؑ کے ساتھی قیدیوں کے خواب کی تعبیر بیان ہوئی ہے۔ کچھ تعبیریں آیت نمبر 47 اور 49 میں مذکور ہیں۔

سورہ طٰہٰ میں اس واقعہ کا ذکر ہے جس میں حضرت موسیٰؑ کی والدہ کو مشورہ دیا گیا کہ وہ نوزائیدہ بچہ (حضرت موسیٰ) کو ایک صندوق میں رکھ کر دریا میں بہا دیں۔ (آیت نمبر39)

موجودہ سائنسی ترقی بہت سے مدارج طے کر چکی ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے عروج پر ہے لیکن خوابوں کی نسبت ایسی تحقیقات نہیں ہوئی ہیں جنہیں قطعی کہا جا سکے۔ آج بھی خواب کی فزیالوجی (Physiology) یعنی علم ترکیب اندھیرے میں ہے اور صرف یہ کہا جاتا ہے کہ سوتے میں خواب اصل میں انسان کا شعوری عمل (Conscious State) ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ خواب شعور کے مرکزی حصہ (Central Organs) کا اثر ہیں۔

سائنسی اعتبار سے غالباً فرائڈ (Freud) پہلا شخص تھا جس نے خوابوں پر ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیا اور ہر خواب کا تعلق لاشعور سے قائم کرنے کی کوشش کی۔ فرائڈ کی تحقیق کی بنا پر نفسیاتی تجزیہ (Psycho-analysis) نسبتاً آسان ہو گیا اور دماغی امراض (Psychiatry) کے علاج میں خاصی پیش رفت ہوئی۔ روس، فرانس، جرمنی اور جاپان میں کافی تحقیقات کی گئیں لیکن سائنسی اعتبار سے بہت مثبت باتیں سامنے نہ آئیں سوائے چند باتوں کے۔ مثلاً یہ کہ دل، دماغ اور معدہ کی خرابی کی بنا پر لوگ زیادہ خواب دیکھتے ہیں۔ معدہ خراب ہو، بد ہضمی ہو تو ڈراؤنے خواب دکھلائی پڑتے ہیں۔

جسمانی طور سے اگر انسان تکلیف سے لپٹا سو رہا ہو تو وہ تکلیف دہ خواب دیکھتا ہے۔ اعصابی تناؤ (Condition of Muscles) کی بنا پر انسان خواب میں اپنے کو اڑتے ہوئے دیکھتا ہے۔ ایک سائنسداں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بعض لوگوں کی طاقت ادراک و قیاس (Reasoning Power) خواب میں بڑھ جاتی ہے۔ چنانچہ بہت سے دانشور مشکل مسائل کا حل خوابوں میں پالیتے ہیں- مثال کے طور پر مشہور کیمیا داں کیکولے (Kekule) نے بنزین (Benzene) کا فارمولا خواب ہی میں پایا اور اسی طرح پروفیسر بلپرکٹ (Prof. Hilprechet) نے قدیم بابل تہذیب کے پتھروں پر تحریر کردہ الفاظ کو پڑھنے میں اس وقت کامیابی حاصل کی جب اسے خواب میں چند یقینی اشارے مل گئے۔

سائنسدانوں نے ایسی تحقیقات بھی کی ہیں جن کی بنیاد پر خواب کے وسیلہ سے ٹیلی پیتھی (Telepathy) کے عمل کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ امریکہ کے کچھ محققین نے ثابت کیا ہے کہ مخصوص دوائیں بھی کچھ خاص قسم کے خوابوں کی محرک بنتی ہیں۔ ایک تجربہ کی بنیاد پر ثابت کیا گیا کہ لاطینی امریکہ میں کچھ لوگوں نے ہلوسی جن (Hallucigin) نامی دواؤں کو کھا کر غیر معروف جانوروں کو خواب میں دیکھا اور ان کا حلیہ بتایا جو انہوں نے ہوش میں بھی نہ دیکھے تھے۔ روس میں ہوئی تحقیقات کی بنیاد پر بتایا گیا ہے کہ پاگل آدمی خواب بہت دیکھتا ہے جب کہ کم عقل لوگوں کو بہت کم خواب دکھائی پڑتے ہیں۔

ایک خیال یہ بھی ہے کہ پینسٹھ (65) سال کی عمر کے بعد انسان خواب کم دیکھتا ہے۔ گہری نیند میں خواب کم دکھلائی دیتے ہیں۔ زیادہ تر خواب اچٹتی ہوئی نیند ہی میں نظر آتے ہیں۔ اس طرح زیادہ تر خواب سونے کے فوراً بعد دکھلائی دیتے ہیں یا پھر بیدار ہونے سے قبل۔ خواب کے وقفہ کی بابت سائنسدانوں میں اختلاف ہے۔ بعض سائنسدانوں کا نظریہ ہے کہ جو واقعہ خواب میں نظر آتا ہے اس کا وقفہ اتنا ہی ہوتا ہے جتنا کہ خواب کا وقفہ۔ لیکن کچھ دوسرے سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ طویل واقعات بہت کم وقفہ کے خواب میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایک اہم تحقیق یہ بھی ہے کہ انسان کو انتقال سے کچھ قبل خواب کے ذریعہ آنے والی موت کی خبر ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اس کے ڈھلتے ہوئے قویٰ‏(Dying Organs)  دماغ میں اپنے خاتمہ کا سگنل (Signal) دیتے ہیں جو خواب کی شکل میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

بہر حال سائنسی اعتبار سے خواب کی کچھ بھی اصلیت ہو یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض خواب سچے ہوتے ہیں تو بعض جھوٹے اور کچھ ایسے بھی جو انسان کے اپنے شعور، خیالات، فکر اور لاشعور کا مظہر (عکس) ہوتے ہیں اور اس درجہ بندی (Classification) سے انکار کسی سائنسداں کے لئے ممکن نہیں ہے۔

a3w
a3w