ایشیاء
ٹرینڈنگ

ملکی تاریخ میں پہلی بار پاکستانی خلابازنمیرہ سلیم خلا کا سفر کرنے کو تیار

نمیرہ سلیم کے پاس اپریل 2007 میں قطب شمالی اور جنوری 2008 میں قطب جنوب تک پہنچنے والی پہلی پاکستانی خاتون ہونے کا بھی اعزاز موجود ہے۔

دبئی: دبئی میں مقیم پاکستانی ایڈونچرر نمیرہ سلیم اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے 17 سال کے انتظار کے بعد 5 اکتوبر کو نجی کمرشل اسپیس فلائٹ کے ساتھ خلائی سفر کا آغاز کریں گی، وہ ملک کی پہلی خاتون خلاباز ہوں گی جو اس تاریخی سفر کا حصہ بنیں گی۔

کیلیفورنیا میں ورجن گیلیکٹک کے نام سے نجی خلائی پرواز کمپنی 2004 میں قائم ہوئی تھی، یہ کمپنی اگلے ماہ چوتھی خلائی پرواز شروع کرے گی جس میں امریکا، برطانیہ اور پاکستان سے تین خلائی سیاح سفر کریں گے۔

پاکستان سے نمیرہ سلیم خلا کا سفر کرکے پہلی پاکستانی خاتون کا اعزاز حاصل کرکے تاریخ رقم کریں گی۔ نمیرہ سلیم کے پاس اپریل 2007 میں قطب شمالی اور جنوری 2008 میں قطب جنوب تک پہنچنے والی پہلی پاکستانی خاتون ہونے کا بھی اعزاز موجود ہے۔

یہی نہیں نمیرہ سلیم کو 2008 میں ماؤنٹ ایورسٹ پر اسکائی ڈائیو کرنے والی پہلی ایشیائی اور پہلی پاکستانی خاتون ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، اِنہیں 2011 میں تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔ خاتون خلاباز کو خلائی تحقیق سے متعلق ان کے جنون اور جذبے کے لیے 2016 میں فیمینا مڈل ایسٹ ویمن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

نمیرہ سلیم نے عرب نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ’جنوری 2006 کو میں نے ورجن گیلیکٹک کے ساتھ معاہدہ کیا تھا اور ایک ٹکٹ خریدا تھا، لیکن اس وقت کون جانتا تھا کہ اس خواب کو پورا کرنے کے لیے 17 سال لگیں گے۔

‘انہوں نے مزید کہا کہ ’گزشتہ ہفتے میں نے آفیشل طور پر سبز پرچم لینے کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تھا، اپنے سبز پرچم کو بلندی تک پہنچانا میرے لیے اعزاز کی بات ہوگی۔‘نمیرہ سلیم نے کہا کہ انہوں نے 2006 میں خلائی سفر کا ٹکٹ خریدنے کے لیے 2 لاکھ ڈالرز ادا کیے تھے، اور اب اس کی موجودہ قیمت 4 لاکھ 50 ہزار ڈالرز ہوچکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے نیو میکسیکو کے نجی اسپیس پورٹ پر اپنے تربیتی سیشن کا آغاز کیا تھا جہاں ان کے امریکی اور برطانوی ساتھی مسافر بھی موجود تھے۔

انہوں نے انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ’خلائی سفر کے مشن میں ہم زمین کے مدار کے باہر جائیں گے اور پھر دوبارہ واپس آئیں گے، عام طور پر زمین سے راکٹ لانچ کرنے میں تقریباً 9 سے 11 منٹ لگتے ہیں، لیکن ہماری خلائی سفر منفرد ہے کیونکہ ہمارے خلائی جہاز کو ایک خصوصی مدر شپ کے ذریعے 50 ہزار فٹ تک لے جایا جائے گا، اور پھر راکٹ موٹر انجن کے ذریعے خلا تک پہنچیں گے۔‘

خلا کے بارے میں اپنے شوق سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ چونکہ ان کے والد فوج میں تھے اور ان کے والد نے انہیں بچپن سے ہی ستاروں اور ناردرن اسکائی کے بارے بتاتے تھے اس لیے یہ ان کا بچپن کا خواب تھا کہ وہ خلا کا سفر کریں۔

نمیرہ سلیم کا کہنا تھا کہ ’میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ اسپیس میرے ڈی این اے میں ہے، میں جب بہت چھوٹی تھی تو میں اپنے والدین سے کہتی تھی کہ مجھے کھلونوں سے نہیں کھیلنا، میں اسپیس میں جانا چاہتی ہوں اور جب میں 14 سال کی ہوئی تو میرے والد نے مجھے پہلی بار دوربین خرید کر دی۔‘

انہوں نے بتایا کہ پاکستان کو نئے خلائی ممالک (جیسا کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب) سے کچھ سیکھنا چاہیے جو انسانوں کو خلا کا سفر کرنے کا مواقع فراہم کرنے کے لیے کمرشل خلائی منصوبوں پر کام کررہے ہیں۔

مستقبل کے منصوبوں سے متعلق بات کرتے ہوئے نمیرہ سلیم نے یونیورسٹی کے طلباء کے ساتھ مل کر تین یونٹ والے کیوب سیٹلائٹ کی تیاری کے منصوبے کا ذکر کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’یہ پراجیکٹ زیرو جی 2030 کہلاتا ہے جو خلا میں پہلے امن مشن کی نمائندگی کرتا ہے جہاں ہم طلباء کے بنائے ہوئے سیٹلائٹ میں امن کے پیغامات زمین کے مدار سے بھی آگے لے جائیں گے۔

جن یونیورسٹی کے طلبا کے ساتھ وہ اس پراجیکٹ میں کام کریں گی وہ کینیا میں نیروبی یونیورسٹی اور امریکا میں ایریزونا یونیورسٹی شامل ہیں۔