نئے فوجداری قوانین کا جائزہ لینے کمیٹی کی تشکیل۔ حکومت مغربی بنگال کا اقدام
ریاستی حکومت نے نئے تین فوجداری قوانین کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ نوبنو نے چہارشنبہ کو اس سلسلے میں ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے کمیٹی کی تشکیل کااعلان کیا ہے۔

کلکتہ: مغربی بنگال حکومت نے نئے تین فوجداری قوانین کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ نوبنو نے چہارشنبہ کو اس سلسلے میں ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے کمیٹی کی تشکیل کااعلان کیا ہے۔
اپوزیشن لیڈر شوبھندو ادھیکاری نے جمعرات کی صبح ایک ٹویٹ میں کمیٹی کو غیر قانونی قرار دیا۔
تاہم ریاستی وزیر خزانہ چندریما بھٹاچاریہ جو اس کمیٹی میں شامل ہیں نے اپوزیشن لیڈر کے بیان کو ناقابل توجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہم کوئی تجویز دیں گے تو صدر جمہوریہ اس پر غور کریں گی، لیکن شوبھندوادھیکاری ایل او پی ہیں، اس لیے شاید وہ کچھ زیادہ ہی سمجھتے ہیں یا جانتے ہیں۔
شوبھندو ادھیکاری نے ایکس ہینڈل پر لکھاہے کہ مغربی بنگال حکومت نے 16 جولائی 2024 کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے تاکہ تین نئے فوجداری قوانین میں ترامیم تجویز کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جا سکے۔
انڈین کوڈ آف کریمنل پروسیجر (بی این ایس)، انڈین سول پروٹیکشن کوڈ (بی این ایس ایس) اور انڈین ایویڈنس ایکٹ، یہ قوانین یکم جولائی سے ملک میں نافذ ہو چکے ہیں۔ کمیٹی اس بات کا بھی جائزہ لے گی کہ کیا ریاستی سطح پر ایکٹ کا نام تبدیل کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں۔
انہوں نے مزید لکھا،“اس طرح کی پہل قابل قبول نہیں ہے اور مغربی بنگال حکومت کا یہ نوٹیفکیشن نہ صرف غیر قانونی ہے، بلکہ وفاقی آئین کے خلاف ہے۔ ساتھ ہی یہ کوشش ہندوستان کی پارلیمنٹ اور ہندوستان کے صدر کے اختیارات کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ نئے قانون کے ہر پہلو پر تقریباً چار سال سے مختلف سطحوں پر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تفصیلی بات چیت کی گئی ہے اور ان کی رائے لی گئی ہے۔
آزاد ہندوستان میں بہت کم قوانین پر اتنی طویل بحث کے بعد بنے ہیں۔اپوزیشن لیڈر نے لکھاہے کہ صدر دروپدی مرمو نے 25 دسمبر 2023 کو پارلیمنٹ کے ایوان بالا اور ایوان زیریں میں ان بلوں کو پاس کرنے کے بعد تین مجرمانہ بلوں کو منظوری دی۔ مرکزی وزارت داخلہ نے 24 فروری 2024 کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ تینوں ایکٹ کی دفعات یکم جولائی سے نافذ العمل ہوں گی۔
ریاستی حکومت کے پاس پارلیمنٹ سے ایک مرتبہ منظور ہونے کے بعد ایکٹ پر نظرثانی کا حق اور اختیار نہیں ہے۔وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی آئین ہند کے قائم کردہ اصولوں کو چیلنج کر رہی ہیں۔ وہ صوبائی حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہیں۔شوبھندو ادھیکاری کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے چندریما نے کہاکہ وہ کمیٹی آئین کے آرٹیکل 246 کا حوالہ دے کر تشکیل دی گئی ہے۔
اس معاملے میں کنکرنٹ لسٹ کا ذکر ہے، جہاں مرکز اور ریاستوں دونوں کو قانون بنانے کا حق ہے۔ اور اگر ہم کوئی تجویز دیں گے تو صدر اس پر غور کریں گی، اس لیے ہمارے خیال میں صدر اپنی ذمہ داری کو بخوبی جانتی ہیں۔ لیکن شویندوبابو ایل او پی ہیں، اس لیے شاید وہ کچھ زیادہ ہی سمجھتے ہیں یا جانتے ہیں۔وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی خط لکھ کر اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی درخواست کی، لیکن ان تمام اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے گزشتہ یکم جولائی سے تین فوجداری قوانین نافذ ہو گئے ہیں۔
ریاست نے چہارشنبہ کے روز ایک سات رکنی کمیٹی تشکیل دی جو نافذ العمل تین قوانین کا جائزہ لے گی۔راج بھون نے بھی اس کمیٹی کی تشکیل کے بعد حکومت سے وضاحت طلب کی ہے۔راج بھون کے ذرائع کے مطابق گورنر سی وی آنند بوس نے وزیر اعلیٰ ممتا کو تفصیلی خط لکھ کراس کمیٹی کی تشکیل کی وجوہات سے متعلق رپورٹ طلب کی ہے۔
ریاستی حکومت نے ان تینوں قوانین کا جائزہ لینے کے لیے سات ارکان کی ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ سابق جسٹس اسیم کمار رائے کمیٹی میں سرفہرست ہیں۔ اس کے علاوہ وزیر قانون ملے گھٹک، ریاستی وزیر خزانہ چندریما بھٹاچاریہ، ریاستی حکومت کے ایڈوکیٹ جنرل کشور دتہ، ریاستی پولیس کے ڈی جی راجیو کمار، کلکتہ پولیس کمشنر ونیت گوئل اور وکیل سنجے بوس شامل ہیں۔
راج بھون کے ذرائع کے مطابق گورنر بوس نے اس فیصلے کے بعد ریاست سے کمیٹی کے بارے میں جانکاری مانگی ہے۔ اتنا ہی نہیں، وہ یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ کیا ریاستی حکومت نے مرکز کی تجویز پر وقت پر جواب دیا تھا۔ راج بھون کے ذرائع کے مطابق گورنر نے کہا ہے کہ مغربی بنگال ملک کے اندر الگ ملک نہیں بن سکتا۔ اور اسی بنیاد پر اپوزیشن پارٹی لیڈر نے اس مرتبہ ریاستی حکومت کی طرف سے بنائی گئی کمیٹی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے حملہ کیا ہے۔